Tuesday 23 February 2021

’مضبوط خاندان اور مضبوط سماج‘ کی تشکیل کیسے؟

 ’مضبوط خاندان اور مضبوط سماج‘ کی تشکیل کیسے؟

................. 



جماعت اسلامی ہند کی طرف سے’’مضبوط خاندان، مضبوط سماج‘‘ کے عنوان سے ملک گیر سطح پر مہم چلائی جا رہی ہے۔یہ مہم وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں خاندان اور سماج کا بکھرائو ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے سماج کی یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ بیشتر خاندان انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ بعض انتہائی مذہبی خانوادے بھی آپسی انتشار اور رنجشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ قابلِ مبارکباد ہیں وہ خانوادے جہاں اتحاد و اتفاق اور محبت کی فضا قائم ہے۔قرآن و حدیث اور سیرتِ النبیﷺ وسیرت الصحابہؓ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادات (نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ) کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے معاملات پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آج ہمارے معاشرہ کی صورت حال یہ ہے کہ عبادات کے معاملہ میں ہم قدرے بہتر ہیں۔ مساجد بہت حد تک آباد ہیں۔نماز کے پابند افراد الحمد للہ ہر جگہ موجود ہیں۔ مسلمانوں میں عبادت سے رغبت پیدا کرنے کے لیے باضابطہ محنتیں بھی کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو مساجد تک لانے کے لیے جماعتیں نکلتی ہیں۔ دروس ِ قرآن و حدیث کی محفلیں ہر جگہ آراستہ کی جاتی ہیں۔تزکیہ اور تصفیہ کی مجالس بھی قائم کی جاتی ہیں۔ یقینا ان کاوشوں کے مثبت اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے سماج میں ایسے افراد ڈھونڈنے سے ملتے ہیں، جن کے معاملات قرابت داروں سے اچھے ہوں۔ کسی کو بھائی سے شکوہ ہے تو کسی کی دوسرے رشتہ داروں سے رنجش ۔افرادِ خانہ کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ممنوع ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ بعض ایسے گھرانے جو ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہاں بھی رنجشوں کے بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی خوش اخلاق،ملنسار، دیندار اور مثالی نظر آتے ہیں،لیکن اندرون خانہ ان کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر کی دنیا کے لوگوں سے ہمارا تعلق جزوقتی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے تصنع کے پردے میں خوش اخلاقی کا نمونہ پیش کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افرادِ خانہ سے ہمارا تعلق کل وقتی ہوتا ہے۔ ان سے ہمارے معاملات زیادہ پیش آتے ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے اپنا حقیقی چہرا چھپا کر رکھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قرابت داروں سے تعلق استوار رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئو۔(سورۃ النساء)

’’اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہواور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(سورۃ النساء)

ایک حدیث میں تو یہاں تک کہا گیا کہ’’اللہ کے نزدیک سب سے برا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔‘‘(صحیح الجامع الصغیر، رقم 166)

ایک حدیث کے الفاظ تو اتنے سخت ہیں کہ ’’سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا اولاد آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کو اللہ تعالیٰ کو پیش کیے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رشتہ توڑنے والے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔‘‘

مسلم شریف کی ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’رشتہ عرش الٰہی سے آویزاں ہے، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑ دیا اللہ اسے توڑ دے۔‘‘(مسلم 2555)

احادیث شریفہ صلہ رحمی کے انعام اور قطع رحمی کی وعیدوں سے بھری پڑی ہیں۔

افراد خانہ اور رشتہ داروں سے تعلق میں پائداری کے لیے درج ذیل نکات اگر ملحوظ رکھیں جائیں تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

تعاون کا جذبہ: انسان کو سماجی زندگی میں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی کی عبادت و ریاضت سے جتنا متاثر نہیں ہوتا اس سے کہیں زیادہ متاثراسے لوگوں کا اخلاق و کردار کرتا ہے۔ جو لوگ اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، فطری طور پر ہمارے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

جذبۂ ایثار : افرادِ خانہ اور رشتہ داروں کے لیے چھوٹی بڑی قربانی پیش کرنے والوں کا تعلق اپنے متعلقین سے اچھا ہوتا ہے لیکن بسا اوقات سب کچھ کرنے کے باوجود ہماری ذرا سی لغزش تعلقات میں کشیدگی کا سبب بن جاتی ہے۔ بعض افراد کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ تو خوب ہوتا ہے لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پاتے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنے کسی غریب رشتہ دار کی مالی طور پر مدد کی لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پایا اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے اس کا ذکر کر ڈالا۔ یقینا ایسا کرنے سے اُس غریب رشتہ دار کی عزت نفس مجروح ہوگی جس سے رشتے میں کشیدگی اور کدورت پیدا ہو سکتی ہے۔

صبر اور برداشت: صبر اور برداشت کے بغیر کوئی بھی تعلق کبھی پائدار نہیں ہو سکتا۔ بیشتر خاندان میں کشیدگی کی سب سے اہم وجہ افراد خانہ کا عدم برداشت ہے۔چھوٹی چھوٹی باتیں بسا اوقات بڑی بڑی رنجیدگیوں کی وجہ بن جاتی ہیں۔ ایک صاحب اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو اپنی بیٹی کا شادی کارڈ دینا بھول گئے۔دونوں گھروں سے پہلے سے انتہائی اچھے مراسم تھے لیکن ایک چھوٹی سی چوک اور دوسری طرف برداشت کی کمی اچھے خاصے تعلق میں بگاڑ کا سبب بن گئی۔

اپنی گھریلو حیثیت کا ادراک: کچھ لوگ گھر سے باہر کی دنیا میں بہت مشہور ہوتے ہیں۔ دنیا انہیں عالم، استاد، دانشور، فنکار وغیرہ کے نام سے جانتی ہے۔ باہر کی دنیا میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ گھر میں انہیں ویسی عزت نہیں ملتی۔ اردو میں ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی باضابطہ ایک محاورہ وضع ہو چکا ہے’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہار کی دنیا میں ہم کتنے ہی بڑے اور مشہور انسان کیوں نہ ہوں گھر میں ہماری حیثیت ایک باپ، بیٹا، بھائی ، ماں ، بہن، بہو وغیرہ ہی کی ہوتی ہے۔ ہمارا گھر اور باہر کا کردار یکساں کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمیں اپنی گھریلو حیثیت کا اداراک نہیں ہوگا تو افرادِ خانہ کے تئیں ہمارے دل میں رنجش پیدا ہوگی۔

............

کامران غنی صبا

Wednesday 17 February 2021

مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر غیروں کی یلغار!

 مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر غیروں کی یلغار!

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ


------------------------------------------------------------

قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقۂ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستا ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے جو زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بندطریقوں سے اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔

فکری یلغار کا یہ سلسلہ آج سے نہیں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، ہندوستان کی حد تک اس کا آغاز مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ، انگریزوں کے عہد میں فکری یلغار کا یہ سلسلہ دراز ہوا، لارڈ میکالے نے ایک ایسی تعلیمی پالیسی غلام ہندوستان کو دیا ، جس کی وجہ سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی تھا ، لیکن اس کا ذوق ، ذہن اخلاق اور فہم وفراست انگریزوں کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ، یہی وہ چیز تھی جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند قائم کیا اور یہ فکر بخشی کہ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کر نی ہے؛ جو دیکھنے سننے اور رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو ، لیکن اس کے جسم میں دھڑکتا دل اور عقل وشعور ایمانی واسلامی پانی سے سیراب کیے گیے ہوں، اور ان کی تربیت اس نہج پر کی گئی ہو کہ ان پر اللہ کا رنگ غالب آگیا ہو اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا ۔الحمدللہ حضرت نانوتوی ؒ کا یہ فیضان جاری ہے اور انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا ۔

عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری مکمل ہوچکی ہے اور مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کررہی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے ، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے رہے ہیں۔

عالمی سطح پر اسلام کے خلاف فکری یلغار امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور مغرب کی طرف سے ہو رہا ہے ، اور اب اس نے عالم عربی میں پورے طور پر اپنی جگہ بنالی ہے، اس کے لیے امریکہ نے عالم اسلام کے قلب سعودی عرب میں اپنی آفس کھول رکھی ہے ، اس کا مقصد سعودی عرب میں رائج نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر دینی کتابوں سے تشدد پر مشتمل مواد کو خارج نصاب کرنا ہے، وہابی تحریک انگریزوں کے مخالف رہی ہے اس لیے سعودی عرب کے نصاب سے وہابی تحریک کے ذکر کو حذف کر دینا ہے،ائمہ ، علماء اور نوجوانوں کی معتدل تربیت کا نظم اب وہائٹ ہاؤس کی نگرانی میں کیا جائے گا، تاکہ ایک اعتدال پسند نسل کو وجود میں لایا جائے ، جو عقال ، عبا اور چوغہ پہنتی ہو لیکن اس کا دل ودماغ امریکہ وبرطانیہ کے افکار واقدار میں گروی ہو، اور اس کے معتقدات اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں،یہ سب محض خیالات نہیں ہیں، امرکے سابق وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن (Rex Tillerson)  سعودی عرب کے دورہ کے بعد Scot Berryکے سوالات کے جوابات میں ان خیالات کا اظہا رکر چکے ہیں اور الخلیج الجدید نے وہابی ازم سے نمٹنے کے لیے سعودیہ میں نصاب تعلیم کی تبدیلی پر ملک سلمان اور صدر ٹرمپ کے اس معاہدہ کی حقیقت بیان کی ہے۔ 

ا س طرح سموئیل ماری نیوس زویمر(Samuel Marinus Zwemer)نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اعلان کر دیا تھا ، کہ ہم نے اسلامی ممالک کے نظام تعلیم پر اپنا کنڑول کر لیا ہے، زویمر کے ساتھ کرومر(Cromer)بھی اس مہم میں شریک رہا ہے اور مصر کی تعلیمی نظام اور تربیتی اقدار کو تبدیل کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مصر کے بعد ترکی ان کا بڑا ہدف رہا ، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی نظریات اور طریقوں کو جس طرح وہاں سے حکومتی سطح پر بے دخل اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی وہ تاریخ کا بد ترین باب ہے۔

 اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ’’مرد بیمار‘‘ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔

پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ وکعبہ ہے، اورجس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں ، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکہ کے چشم وابرو پر ایسے ایسے عجیب وغریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعربے ساختہ نوک قلم پر آگیا ۔ 

 ای تماشہ گاہ روئے عالم  تو کجا بہر تماشہ می روی؟

 (مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

آئین کے مندر میں مذہبی روایت کا آغاز

 آئین کے مندر میں مذہبی روایت کا آغاز

سیماب اختر

9199112324

7 فروری 1921 کو بہار اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ صد سالہ تقریب کا آغاز 7 تاریخ کو ہوا۔ جس میں وزیر اعلی ، نائب وزیر اعلی ، اسپیکر اور سبھی منتخب نمائندگان نے آئین کے تحفظ کے عزم کو دہرایا اور اپنے آپ کو عوام کے لئے وقف رکھنے کا عزم مصم بھی لیا۔ بہار اسمبلی کے مرکزی ہال میں دونوں ایوانوں کے سابقہ اور موجودہ اراکین نے اس تاریخی تقریب میں شرکت کی۔ اسمبلی اجلاس کے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں 7 فروری 1921 کو پہلا اجلاس ہوا۔ اس وقت بہار ، اڑیسہ قانون ساز کونسل کہلاتی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر اے ایم وڈ نے رومن ایمفی تھیٹر کے طرز پر کیا تھا۔ اسمبلی کی پہلی نشست سے گورنر لاڈ ستندر پرسن سنہا نے خطاب کیا تھا۔ اس وقت اس کے اسپیکر والٹر مانڈ تھے۔ شاید انہوں نے کبھی بھی مذہبی تقریب کو لے کر ذہن میں یہ خاکہ تو نہیں بنایا ہوگا کہ اسمبلی میں مذہبی تقریب یعنی پوجا پاٹھ کی جائے ، لیکن آج آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نو منتخب اسمبلی اسپیکر نے سرسوتی پوجا کا حوالہ دیتے ہوئے آئین کو مضبوط کرنے اور اپنے علم کے ساتھ ساتھ اراکین کے علم میں اضافے کی دلیل دیتے ہوئے سرسوتی ماں کے سامنے چراغاں کیا۔ اس دوران پنڈت موجود تھے۔ اسپیکر کا یہ قدم کتنا درست ہے یہ تو آئین کے جانکار کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانی جسے امبیڈکر کے آئین کی تھوڑی بہت بھی جانکاری ہوگی تو وہ یہ سوال کھڑا کر سکتا ہے کہ جس منتخب نمائندے نے اسمبلی میں قدم رکھتے ہوئے یہ حلف لیا ہو کہ میں فلاں آئین پر حلف لیتا ہوں کہ آئین پر ہی چلوں گا وہ آئین جسے امبیڈکر نے دیا ، وہ آئین جو مذہبی منافرت کی جگہ مذہبی روا داری کی بات کرتا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے مذہبی بنیاد پر تعصب و نفرت پھیلانے کی مہم شروع سے رہی ہے۔ اپوزیشن بھلے ہی متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو لیکن آر ایس ایس کی جو آئیڈیالوجی ہے وہ مسلسل وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم سب متحد ہو کر مذہب کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اس دور میں بھی بی جے پی کے لیڈران نفرت کا وائرس پھیلانے میں مصروف ہیں۔ جس سے ملک کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور شاید اس نقصان کی تلافی کے لئے ہمیں متحد ہو کر بڑی محنت کرنی ہوگی۔ بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیمیں اور بی جے پی ایک ہی سوچ کی حامل رہی ہیں۔ جو ان کے خلاف جاتا ہے انہیں غدار وطن اور مذہب سے نفرت کرنے والا بتا دیا جاتا ہے۔ یہ تفریق برت کر شاید وہ اپنے مشن میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن آئین کے ساتھ بھدا مذاق ہو رہا ہے۔ بہار اسمبلی نے کئی تاریخ رقم کی ہے۔ جے پی سے لے کر لوہیا کے ساتھ ساتھ غلام سرور ، جابر حسین کے علاوہ اور بھی کئی معتمد لوگوں نے قانون سازیہ کے اجلاس یا اجلاس کے بعد کبھی بھی مذہبی تقریب منعقد نہیں کی۔ لیکن پہلی بار وجے سنہا نے سرسوتی پوجا کی شروعات کی ہے اور یہ تقریب بہار اسمبلی کے لائبریری میں منعقد کر دی گئی۔ جب ان سے میڈیا اہلکار نے سوال کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے منہ چرانے کی کوشش کی کہ کبھی نہ کبھی تو اس طرح کی پوجا ہوئی ہوگی۔ یعنی ہو سکتا ہے سنگ بنیاد کے وقت پوجا ہوئی تو میں اس بنیاد کو پوجا کی بنیاد بنا کر سرسوتی کی پوجا شروع کی ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے مند رمیں آئین کی دھجیاں اڑی ہیں یا نہیں یہ تو وہی بتائیں گے جو آئین پر حلف لیتے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کا سب سے بڑا مندر بتاتے ہوئے کہا کہ بہار اسمبلی میں ماں سرسوتی سب کے لئے علم اور عقل میں اضافہ کریں گی اسی لئے ہم نے پوجا کی تقریب منعقد کی ہے۔ ہم لوگ بھول گئے تھے ، بھٹک گئے تھے لیکن اب پھر سے لوک تنتر کے سب سے بڑے مندر میں سب کے لئے عقل اور تعلیم کے غرض سے مذکورہ تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ 100 سال کی تاریخ میں پہلی بار وجے سنہا نے اس کی شروعات کی ہے۔ حالانکہ خود ان کی پارٹی کے یعنی اسپیکر بی جے پی سے ہیں اور بی جے پی سے ہی دو ڈپٹی سی ایم تارکیشور ، رینو دیوی ہیں لیکن ان دونوں نے بھی اس تقریب سے دوری بنا لی۔ وجے سنہا کے ساتھ صرف اور صرف ودھان سبھا کے ملازمین تھے۔ اپوزیشن کے کئی لیڈران سے اس مسئلے پر بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہمارا سماج کو جواب نہیں ملا۔ میرا ماننا ہے کہ بہار اسمبلی یا اس جیسی عمارت جہاں ہر شخص کا اپنا آئینی حق ہو اپنا آئینی دعوی ہو وہاں کسی بھی طرح کی مذہبی تقریب منعقد کرنا غلط ہے۔ آئین کے مندر میں مذہبی روایت کا آغاز کیا گیا ہے اور امید ہے کہ اس جمہوریت میں شاید اپنے سیاسی نفع نقصان کے مد نظر اپوزیشن لیڈر تو زبان بھی نہیں کھولیں گے۔ اس لئے کہ آئین سے زیادہ ووٹ بینک کی فکر رکھنے والے اپوزیشن پر حکومت یعنی بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے لوگ پوری طرح حاوی ہیں۔ جمہوریت بھارت کا دستور اعلی ہے۔ اس ضخیم قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچہ ، طریقہ کار ، اختیارات ، ذمہ داریوں ، بنیادی حقوق ، رہنما اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے لیکن آئین ہند کی تمہید پر بھی عمل در آمد نہیں ہو رہا ہے۔ ایک اسپیکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جس آئین پر حلف دلاتا ہے اس پر خود بھی عمل پیرا ہو اور اگر اسمبلی کی کارروائی میں آئین کے خلاف کوئی بھی منتخب لیڈر خواہ وہ وزیر ہو یا ایم ایل اے ہو اسے معطل کرنے کا اختیار تک رکھتا ہے۔ لیکن مذہبی معاملات انسان کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے اسے عام مقامات یعنی جہاں وہ مامور ہو وہاں تو انہیں اور بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ اگر کسی ایک مذہب کے ماننے والے نے اپنے آپ پر مذہبی ریتی رواج کو حاوی کیا تو کل کو کوئی اور اپنے مذہب کے مطابق پوجا ، عبادت کا آغاز کرے گا اور پھر ہم آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جذباتی طور پر فیصلہ لینے لگیں گے۔ جو شاید ملک کی تعمیر و ترقی اور جمہوریت کے منافی ہے۔

Sunday 7 February 2021

انسان کا مقام علم سے روشن بلند ہوتا ہے:سید ابو الخیر جبرئیل قاسمی

  انسان کا مقام علم سے روشن بلند ہوتا ہے:سید ابو الخیر جبرئیل قاسمی

کوئز مسابقہ میں کامیاب تمام طلبہ و طالبات کو تشجیعی انعامات سے نوازا گیا

مظفر پور(عبد الخالق قاسمی)موجودہ دور میں علم کی بڑی اہمیت ہے علم کے بغیر ہم ترقی کبھی نہیں کر سکتےہیں علم سے ہی معاشرہ میں انقلاب آسکتا ہے،یہ باتیں  ضلع کے پاتے پور بلاک حلقہ کے کھیسراہی مسجد انصار کے وسیع احاطہ میں الہدیٰ اسلامی مکتب چکپہاڑ کی جانب سے منعقد الہدیٰ اسلامی کوٸز مسابقہ میں تمام کامیاب طلبہ و طالبات کو تشجیعی انعامات دینے سے قبل الہدیٰ اسلامی مکتب کے ڈاٸریکٹر مولانا نظام الدین ندوی نے کہیں انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قوم علم سے ہی عروج پاتی ہیں امت مسلمہ کی کامیابی علم میں ہی مضمر ہے، ملک اور دنیا کہ حالات کو دیکھتے ہوۓ ضرورت اس بات کی ہیکہ نٸی نسل میں اپنے دین و مذہب کے حوالے سے بیداری پیدا کی جاۓ انہیں اپنے مذہب کی بنیادی واقفیت فراہم کرایا جاۓ مرد و عورت کے اندر اپنے مذہب کے حوالے سے حساسیت پیدا کی جاۓ ۔ انہیں مقاصد کے مد نظر یہ پروگرام  گاٶں گاٶں منعقد کرایا جاتا ہے تاکہ نسل نو اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو سکے اور فکری تہذیبی ۔ثقافتی۔اعلیٰ ارتداد سے محفوظ رہ سکے ملک میں اقتدار و طاقت اور تعلیمی پالیسی کے ذریعہ نٸی نسل کو اپنے دین حنیف سے بیزار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے حالات میں امت مسلمہ کو زیادہ ہوشیار اور سر گرم رہنے کی ضرورت ہے یہ پروگرام تقریباً سات سالوں سے الہدیٰ اسلامی مکتب چک پہاڑ کی جانب سے بہار و بیرون بہار کے مختلف علاقے میں منعقد کرایا جاتا رہا ہے،مولانا سید ابو الخیر جبرئیل نے صدارتی خطاب میں کہا کہ انسان کا مقام علم سے روشن بلند ہوتا ہے حضرت انسان  دنیا میں ہر چیز پر مقدم ہے الہدیٰ اسلامی مکتب کا اصل مقصد صرف قوم کی رہنماٸی ہے،سینئر صحافی سرفراز فاضل پوری نے تفصیل سے الہدیٰ اسلامی مکتب چکپہاڑ کے مقصد کو اُجاگر کیا،اس موقع پر مولانا نظرالہدیٰ قاسمی نے دینی تعلیم پر، مولانا جنید ندوی نے اسلامی معاشرہ پر روشنی ڈالی،موقع پر حافظ شاکر ۔مولانا فیضان کیفی سلفی، بہار اسٹیٹ اردور ٹیچر ایسوسی ایشن کے صوبائی سکریٹری مرغوب صدری علیگ،راشد انور،غضنفر شکیل،مفتی شفیع الدین قاسمی۔ سعید احمد ۔ صحافی احتشام فریدی۔ محمد ضمیر عبدالغفار۔ماسٹر احمد اشرفی۔مولانا محمد انور نے بھی اپنے تاثرات و خیالات پیش کیا،حکم کے فراٸض انجام مولانا نظرالہدیٰ قاسمی،صحافی قاری محمد مصطفیٰ،وماسٹر احمد اشرفی،قاری ظاہر حسین ویشالوی نے دیا،ماسٹر ابرار عالم نے طلبہ و طالبات سے سوالات کیئے،مسابقہ کا پروگرام دو حصوں پر منقسم تھا ،گروپ( الف) میں اول پوزیشن نکہت پروین بنت محمد فیروز، دوٸم پوزیشن سفیان مزمل بن محمد مزمل،سوم پوزیشن محی الدین ابن غیاث الدین،وہیں گروپ (ب)میں اول پوزیشن ہیبہ خالد بنت خالد سیف اللہ، دوٸم شاذیہ فردوس بنت محمد شاکر ،سوم پوزیشن شاٸستہ خاتون بنت محمد اشتیاق نے حاصل کیا،پروگرام کی صدارت ضلع ویشالی کے مشہور و معروف عالم دین مولانا سید ابوالخیر جبریل نے دیا۔جبکہ نظامت کے فرائض انجام مسجد انصار کھیسراہی کے امام و خطیب حافظ سہراب عالم نے دیا، مجلس کا آغاز قاری عبد الحق کے تلاوت کلام پاک و قاری عبد الوہاب کے نعتیہ اشعار سے ہؤا،پروگرام کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر شہاب الدین ملک،بی سی او محمد دانش اختر ملک،ڈاکٹر نہال قیصر ملک،ڈاکٹر شائق جمشید ملک،حیدر علی،محمد نسیم انصاری،شہادت حسین،عبد الشکور،عبد الغفار،محمد نظیر انصاری،محمد اشرف علی ،محمد مشتاق،حافظ صادق وغیرہ پیش پیش تھے،


Saturday 6 February 2021

ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو

    ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو ،

*عصری درسگاہوں میں ںبنیادی دینی تعلیم کی ضرورت* 

*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*

-------------------------------------------------------

راجندر سنگھ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کی جو رپورٹ دی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم سے جڑے طلبہ وطالبات میں صرف چار فی صدہی مدارس کا رخ کرتے ہیں، بقیہ چھیانوے فی صد طلبہ ان تعلیمی اداروںمیں ہیں؛جنہیں ہم اسکول ، کانوینٹ اور عصری درسگاہوںکے نام سے جانتے ہیں، عام طورپر ان اسکولوں کے نصاب میں بنیادی دینی تعلیم کا گذر نہیں ہوتا، اس طرح بچہ ابتداہی سے دین سے دور ہوتا جاتا ہے ، عیسائی مشنریاں اپنے فاسد خیالات سے اس کے دل ودماغ کو مسموم کردیتی ہیں ، ادارہ اگر آر ایس ایس کی تحریک سے جڑا ہوا ہے ، تو دیو مالائی خیالات بچوں کے ذہن میںدھیرے دھیرے ڈالا جاتا ہے ، اور اس کے اثرات سے ہمارے طلبہ میں د ین سے بیزاری کا ذہن بنتا ہے اور بات یہاں تک پہونچ جاتی ہے کہ انہیں اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر سے ایک قسم کا تنفر پیدا ہو جاتا ہے،اسے غیر مسلموں کی آبادی اچھی لگتی ہے اور وہاں رہ کر وہ اپنے کو سیکولر سمجھتا ہے، وہ مسلم آبادی میں کیڑے نکالنے لگتا ہے ، حالاں کہ وہ جس کمیونٹی سے آیا ہے اسے ٹھیک ٹھاک رکھنے ، صفائی ،ستھرائی اوردیگر امور جو اچھے شہری کے لئے ضروری ہوتے ہیںاس کو پورا کرانے ، برتنے اور مسلم سماج میں رواج دینے کی اس کی ذمہ داری دوسروں سے کسی طرح کم نہیں ہے پھر چونکہ وہ اسے پڑھالکھا ہے ، صحیح غلط کا شعورہے،وہ ماحول کو بنا بگاڑ سکتا ہے ، اس نقطۂ نظر سے دوسروں سے اس کی ذمہ داری کہیں بڑھی ہوئی ہے ، جو لڑکے حساس ہوتے ہیں اور دین کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی دین ومذہب کے کام کے نہیں رہتے ، اس کا تجربہ مجھے ایک رشتہ کے موقع سے ہوا ؛ لڑکا ایم ٹیک تھا ، ریٹائرڈ اے ڈی ام کا لڑکا ، میرے ایک مخلص کی لڑکی سے اس کا رشتہ چل رہا تھا ، لڑکی والے نے یہ شرط لگائی کہ جب تک میں اس سے مل کر اس کے خیالات جان کر مطمئن نہ ہوجاؤں اس وقت تک یہ رشتہ مکمل نہیں ہوگا ، میں کہتا رہا کہ اے ڈی ام صاحب کے ام ٹیک لڑکے کو ہمارے جیسا مکتبی مولوی کیا جانچ پرکھ سکے گا؛ لیکن لڑکے والے کی ضد کے آگے میری ایک نہ چلی اور مجھے اس کے لئے وقت نکالنا پڑا ، لڑکا میرے سامنے آیا میںنے اس سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے ہیں ، کہنے لگا ، پہلے پڑھتا تھا، اب نہیں پڑھتا ، پوچھا گیا کیوں؟ جواب تھا قرآن میں ہے ’’واعبدربک حتی یاتیک الیقین‘‘ ، عبادت اپنے رب کی یقین آنے تک کرو، اب مجھے یقین آگیا ہے کہ خدا ہے، تو عبادت کی کیا ضرورت ہے، کہنے لگا ، مقصد کے حصول کے بعد وسائل کی ضرورت نہیں رہتی ، عبادت تو یقین پیدا کرنے کے لئے ہے، جب وہ حاصل ہو گیا تو اب وسائل کے پیچھے کیوں پڑوں؟ میں نے دوسرا سوال کیا ، روزہ رکھتے ہیں ؟کہنے لگا ،پہلے رکھتا تھا ، اب نہیں رکھتا ، کیوں نہیں رکھتے ؟ کہنے لگا اس لئے کہ روزہ تو اللہ کا خوف پیدا کرنے کے لئے ہے ’’لعلکم تتقون‘‘ وہ حاصل ہو گیا ،میں نے روزہ رکھنا چھوڑ دیا ، روزہ بھی مقصود نہیں ہے ، مقصود تو تقویٰ ہے، روزہ اس کے حصول کا ذریعہ ہے ، میںنے کہا ، کیا آپ کی طبیعت نہیں چاہتی کہ جس خدانے اتنی بڑی کائنات بنائی، آپ کو زندگی کے سارے وسائل دیے نعمتوں کا انبار لگا دیا ، اس کی بندگی کی جائے اور اس کے حکم کو بجا لایا جائے ، کہا بالکل طبیعت چاہتی ہے، کبھی طبیعت چاہتی ہے تو آدھا گھنٹہ رکوع میں رہتاہوں ، کبھی کئی کئی گھنٹے کھڑا رہتا ہوں ، البتہ جس کو آپ لوگ نماز کہتے ہیں وہ میںنہیں پڑھتا ، میں نے آخر میں سوال کیا کہ آپ کا آئیڈیل پر سن کون ہے ؟ کہنے لگا عیسیٰ علیہ السلام ، میں نے سمجھا کہ یا تو یہ لڑکا پاگل ہے ، یا کافر ہے ، دونوں صورت میں رشتہ نہیں ہو سکتا تھا ، چنانچہ میں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے با ت ختم کرادی ، یہ ایک مثال ہے آپ اپنے ارد گرد ڈھونڈھیں تو آپ کے پاس پڑوس میں کئی ایسے لوگ مل جائیں گے ، جن کے خیالات اور معتقدات اسی انداز کے ہیں ، وہ نہیں جانتے کہ آیت میں یقین کا مطلب موت ہے ، اس نکتہ سے عدم واقفیت کی وجہ سے کئی لوگ یہ تجویز رکھتے ہیں کہ قربانی میںجتنے روپے کا جانور ذبح کر دیا جاتاہے ، اس سے تو کئی ادارے اور کار خانے چلائے جا سکتے ہیں ، پیسہ ہی خرچ کرنا ہے تو خیر کے دوسرے بہت سے کام ہیں ،انہیں کرنا چاہئے اوربقول ان کے نعوذ باللہ قربانی مال کا ضیاع ہے حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہاں جانور کی قربانی میں پیسہ خرچ کرنا صاحب نصاب پر لازم ہے نہ کہ دوسرا کار خیر، تراویح میں قرآن کریم کا سنانا مقصود ہے ، سننے سنانے کا عمل تو تراویح کے بغیر بھی ہوتا ہے تو کیا اسے ترک کر دیا جائے ، نہیں؛اس لئے کہ قرآن کریم تراویح میں سنانا مشروع ہے۔ ایک میڈیکل کالج کے ذمہ دار نے بتایا کہ ایک امتحان میں جو صرف مسلم طلبہ وطالبات کے لئے منعقد کیا گیا تھا ایک سوال کے جواب میں سارے طلبہ وطالبات کھڑے ہوگئے ،پوچھا گیا ، کیا پریشانی ہے ؟کہنے لگے پہلا سوال نہیں سمجھ میں آ رہا ہے، یہ پہلا سوال کیا تھا ؟ کلمہ طیبہ لکھیے ، یہ سوا ل ان مسلم بچوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا ،جنہوں نے زندگی کے بائیس پچیس سال مسلم گھرانے میں گزارے تھے اور پڑھے لکھے، قابل لوگ تھے، میں نہیں کہتا کہ وہ سب لا الہ سے واقف نہیں تھے ، ہو سکتا ہے کسی کو یاد بھی رہا ہو، لیکن وہ کلمہ طیبہ کی اصطلاح کے لئے اپنی یاد داشت سے کچھ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، ایک موقع سے یہ بھی تجربہ ہوا کہ لا الہ الااللہ ہمارا جوان نہیں پڑھ رہا ہے ، نکاح کی تقریب تھی ،رواج وہاں کلمہ پڑھانے کا تھا ، مجھ پر بھی زور دیا جانے لگا ، میں نے یہ سوچ کر کہ بد مزگی نہ ہو، لڑکے کو کلمہ پڑھانا شروع کیا ، آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ کلمہ کے الفاظ پانچ بار میں لڑکا نے صحیح ادا نہیں کیا ، اس پر سے جب اس کے باپ نے سبکی محسوس کی تو کہنے لگا Habit نہیں ہے ، کس چیز کا Habit نہیں ہے کلمہ پڑھنے کا ، بقیہ ناچنے گانے کرکٹ کھیلنے اور دوسرے امور میں لڑکا طاق ہے ، نہیں آتا تو کلمہ پڑھنا، اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ سبھی ایسے ہوتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کی محنت سے بہتوں کو کلمہ پڑھنا آگیا ہے؛ لیکن مجموعی حالات اب بھی تشویشناک ہیں، ہمارا دانشور طبقہ بار بار اس بات کو دہرا تاہے کہ مدارس کے طلبہ کے لئے عصری علوم کو داخل نصاب کرنا چاہئے ، ضرور کرنا چاہئے۔اگر مدارس کے طلبہ نے ان علوم کو نہیں جانا تو ان کی معاش کمزور رہو سکتی ہے ، لیکن اسکول کالج میں پڑھنے والے ہمارے بچوں نے اگر بنیادی دینی تعلیم نہیں حاصل کی تو ان کی آخرت تباہ ہو جائے گی ، یہاں امکان نہیں، یقین ہے کہ انہیں آخرت میں سخت خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا ، ہمارا دانشور طبقہ صرف چار فی صد بچوں کے لئے انگریزی ، کمیوئٹر ، سیاسیات ، سماجیات ، سائنسی علوم کو نصاب میں داخل کرنے کے لئے جتنی توانائی صرف کر تا ہے اور ٹیپ کے بند کی طرح ہر تعلیمی مجلس میں اسے دہرا تا رہتا ہے ، اگر وہ چھیانوے فی صد دوسرے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے لئے دینی تعلیم کے حصول کے لزوم پر صرف کرتا تو دین بے زار ماحول سے سماج کو نجات ملتی اور بچے کی نشو ونما اور صلاحیت کا ارتقاصالحیت کے ساتھ ہوتا ، اس لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ جہاں مسلم بچے پڑھ رہے ہیں ، وہاں دباؤ بنایا جائے کہ دینی تعلیم کا نظم کیا جائے اور یہ بات تجارتی نقطۂ نظر سے چلائے جانے والے اسکولوں میں دشوار نہیں ہے ، انہیں جب تک یقین ہوگا کہ اگر ہم نے بنیادی دینی تعلیم کا نظم نہیں کیا تو بڑی تعداد میں ہمارا اسکول خالی کردیں گے تو اس پر وہ سوچیں گے اور راہیں آسان ہوگی، ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ مدارس کے طلبہ کے انگریزی نہ جاننے کا مذاق اڑاتے ہیں ، وہی اپنے ماحول میں کلمہ نماز ، قرآن پڑھنا نہ جاننے پر ذرا بھی آنکھ بھوں نہیں چڑھاتے ؛جیسے مسلم بچوں میں یہ کمی لائق اعتنا نہ ہو ، جب کہ یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے ،

Wednesday 3 February 2021

امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم ایک انقلاب آفریں قدم:احمد حسین قاسمی

 امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم ایک انقلاب آفریں قدم:احمد حسین قاسمی

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نمائندہ بھبھوا,کیمور03/فروری 2021ء)

اسلام وہ مذہب ہے جس کی ابتداء لفظ "اقرأ"یعنی پڑھنے کےحکم سے ہوئی یہ اس دین برحق کاخصوصی امتیاز ہے جس کے پیچھے ہزاروں رازپوشیدہ ہیں جس کا واضح اشارہ  یہ تھا کہ اس امت کےہاتھوں میں علم وحکمت  کی شاہ کلید دیدی جائے تاکہ وہ قیامت تک اس خزانے سے دنیاء انسانیت کومالا مال کرتی رہےاور اسے اپنا فرض منصبی سمجھ کر قیامت تک مطلوبہ کردار اداکرتی رہے مگر ہائے افسوس ابتدائی چند صدیوں کے بعدتعلیم کےحوالےسے یہ امت غفلت کی شکار ہوگئی اور آج نوبت یہاں تک پہونچ آئی کہ تعلیم میں دوسری اقوام کی محتاج ہوکررہ گئی جس کاکام دنیا میں علم کی شمع کوفروزاں کرنا تھا آج خود اس کےدرودیوار پرجہالت کی تاریکی چھائی ہے صد حیف کہ جس کے علم کی روشنی سے کل تک ایک بڑی دنیانےاپنی زندگی کی منزلیں تلاش کی تھیں اور غفلت وجہالت کی ظلمتوں سےنجات پائی تھی آج وہ قومیں اس کی ناخواندگی کی شرح بیان کرتی نظر آرہی ہیں اور اس کے تعلیمی گراف کوبلند کرنے کے مشورے دےرہی ہیں یہ ہمارے لئےآج مقام عبرت ہے۔صدیوں پہلے ہمارے آباء واجداد نے ماضی میں نئی تعلیمی ترقی کی بنیاد ڈالی تھی جس پر موجودہ سائنس وٹکنالوجی کی فلک بوس شاندار عمارت قائم ہے مگر ہم کیسے ناخلف ثابت ہوئے کہ ان کی علمی وراثت کی حفاظت نہ کرسکے اقبال مرحوم نے اسی کا رونارویاہے:



گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی 

ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کودےمارا

چنانچہ ملک وملت کی صورت حال کودیکھتے ہوئےحضرت امیر شریعت مفکراسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے یہ فیصلہ لیاہے کہ چل پھر کر امت کو دینی وعصری ہردو علم کےلئے  بیدار کیا جائے اسے تعلیم کے تمام میدانوں میں آگے آنے کی ترغیب دی جائے اور اس جانب ہونے والی غفلت کے خطرناک نتائج سے بھی ہرفرد کوآگاہ کیا جائے  اسی غرض سے امارت شرعیہ نے مستقبل پرگہری نگاہ رکھتے ہوئےپیشگی تحفظ کےطور پر نسل نوکےدین وایمان کی حفاظت اور ملک میں باوقارزندگی گذارنے کےلئے تعلیم کواپنامشن بنایا ہے اسی کے ساتھ اپنی زبان وتہذیب کی سلامتی کابیڑابھی اٹھایا ہے اسی پیغام کولےکر امارت شرعیہ  آپ کی سرزمین بھبھوا کیمورمیں  حاضر ہے کہ ان مقاصد کوزمین پراتارنے کی عملی کوشش کی جائےاور بلاتاخیرترجیحی بنیاد پر ملت کےخواص حضرات ان تین کاموں کےلئے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کریں لہذا ہرچھوٹی بڑی آبادی میں مسجد کے تحت دینی مکتب کا خود کفیل نظام  قائم کیاجائے جہاں سے ہماربچے دین اسلام کے سانچے میں ڈھل سکیں کم عمری میں ان کے لوح دل پر توحید ورسالت کےپاکیزہ کلمات نقش کردئے  جائیں تاکہ وہ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ پوری جرأت ایمانی کے ساتھ کر سکیں  اس نظام کومستحکم طور پرپھیلانےکےلئے اہل مدارس بھی توجہ دیں اور مسجد کے تمام ذمہ داران بھی۔ خصوصامتولیان وائمہ کرام اس مکتب کےنظام کو مسجدوں میں  نماز کی طرح جاری کریں ورنہ بےدینی کے اس سیلاب میں موجودہ اور آنے والی نسل کےایمان کی بقا مشکل نظرآرہی ہے دوسری جانب ہمیں اس ملک میں یہاں کاعزت دار اورباکمال شہری بن کررہناہے اس کےلئےہمیں دوسری جانب عصری تعلیم میں خاصی محنت وتوجہ کی ضرورت ہے امارت شرعیہ چاہتی ہے کہ آپ حضرات اس کام میں آگےآئیں کم از کم اپنی آبادی کی تعلیمی ضرورت پوری کرنےکےلئے ایک معیاری اسکول قائم کریں آپ کےمال کا بڑاحصہ آج شادی بیاہ کی رسومات وخرافات کی نذر ہورہاہے اگر اسے ہی بچالیاجائےتو ہمارامستقبل محفوظ اور مضبوط ہوسکتا ہے ایک بات یادرکھیں کہ دنیا کے تمام کارخانوں میں سب سے قیمتی کارخانہ سونااور ہیراکانہیں بلکہ مردم گری وانسان سازی کاکارخانہ ہے جس قوم کے یہ کارخانے زیادہ ہوں گے پروڈکٹ بھی اسی  کےزیادہ  ہوں گےاسی کی تہذیب دنیا میں قانون کادرجہ اختیار کرے گی انہیں کی فکر کےسانچے میں دنیا ڈھلتی چلی جائےگی آپ ذرا سوچیں کہ آپ کی نسل کن کے ہاتھوں میں ہے اگر آپ اسے محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے ادارے ہرحال میں آپ کو قائم کرنے ہوں گے  اسی طرح اردو زبان ہماری تہذیب ہے ہمارا سارا دینی سرمایہ اس زبان میں محفوظ ہے اس کی حفاظت ایک طرح دین کی حفاظت ہے اپنے گھروں میں اردو بول چال اس کے لکھنے پڑھنے کوعام کریں بچے بچیوں کو اس کی لازمی تعلیم دیں مذکورہ باتیں امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی نے کہیں پروگرام کےآخر میں پورے ضلع میں اس مہم کوعملی شکل دینےاور ان عظیم مقاصد کو زمین پراتارنے کیلئے باصلاحیت افرادپرمشتمل ایک تعلیمی مشاورتی ضلع کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جوہربلاک میں اس کام کومنظم انداز میں انجام دےگی اگلے ہفتے اس کی مٹنگ کی تاریخ بھی اسی مدرسہ قاسم العلوم ببورا بھبھوامیں طئے کردی گئی ہے شہرسمیت ضلع کے زیادہ تر بلاک کے علماء کرام ودانشوران نے اس اہم خصوصی مشاورتی اجلاس میں حصہ لیا اور امارت شرعیہ کے اس انقلاب آفریں اقدام کی ستائش کی اور تمام حاضرین نے ان خاکوں میں رنگ بھرنے کاعزم ظاہر کیاامارت شرعیہ کےمبلغین مولانا فیروز رحمانی, مولانا وسیم صاحب نےاس اجلاس کو منظم کرنےمیں  اپنی خدمات پیش کیں اس کے اہم  شرکا میں مولانا رئیس الاحرار مولانا مجاھد الاسلام صاحب الحاج اشتیاق خان صاحب اسلم صاحب اور ہر بلاک سے کم  وبیش دس دس درمند علماء ودانشوران کےعلاوہ سینکڑوں خواص حضرات مجلس میں موجود تھے اخیر میں دعاء پر اس مشاورتی اجلاس کااختتام ہوا

تحفظ اردو:سرکا ری سطح سے کرنے کرانے کے کچھ کام

 تحفظ اردو:سرکا ری سطح سے کرنے کرانے کے کچھ کام,



___________________________

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب

 ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ،ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کے دور میں چند اضلاع کے لئے اردو کو دوسری زبان کا درجہ ملا  ستندر نارائن سنہا نے اپنے وقت میں چھوٹی لکیر کے مقابل بڑی لکیر کھینچ کر پورے بہار کے لئے اردوکو دوسری سرکاری زبان قرار دے دیا، سرکاری اعلان اپنی جگہ، لیکن اس کی تنفیذ کا کام بہت سست روی کے ساتھ ہوتا رہا، یہ سستی سرکاری سطح پر بھی رہی اور عوامی سطح پر بھی، سرکاری عملہ نے اس کے نفاذ میں سستی دکھائی اورقصداًاس کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں،عوام نے اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھا اور ان کو ملازمت کے مواقع دوسری زبانوں کے پڑھنے میں نظر آئے ،چنانچہ انہوں نے اپنے بچوں کو اردو کی تدریس سے دور کر لیا، اس دوری نے اس بحث کو جنم دیا کہ کم از کم دس بچے اسکول میں ہوں گے تو اردو اساتذہ کی بحالی عمل میں آئے گی، اردو دوستوں کا کہنا تھا کہ پہلے استاد بحال ہوں گے تب ناطلبہ آئیں گے،یہ ایسی بحث تھی جیسے پہلے مرغی  یا انڈا، اس بحث کا خاتمہ وزیر اعلی کے اس اعلان سے۲۰۰۹ء میں ہوا کہ سارے ہائی اسکول میں اردو اساتذہ بحال کئے جائیں گے، یہ اعلان بھی لال فیتہ شاہی کی نذر ہو گیا اور بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

اس درمیان حکومت بہار کے محکمہ تعلیم نے ہائی اسکول میں اساتذہ کی بحالی کا ضابطہ تیار کیا اور اسے اپنے مکتوب نمبر۷۹۹ مورخہ ۱۵/مئی ۲۰۲۰ء کے ذریعہ پورے بہار میں محکمۂ تعلیم سے جڑے افسران کو بھیجا،اس  مکتوب کے ذریعہ دو بنیادی تبدیلی پہلے ضابطہ میں کی گئی ،ایک تو یہ کہ ہائی اسکول کے درجات کو نویں اور دسویں کلاس تک محدود کر دیاگیا ،پہلے ہائی اسکو ل کا مطلب چھٹے درجہ سے دسویں تک تھا، بعد میں یہ تین درجات ۸تا۱۰ میں سمٹ گیا ،اساتذہ بھی اسی حساب سے مقرر کئے جانے لگے،پہلے اساتذہ کی تقرری میں تدریس کے موضوعات کے ساتھ کلاس ٹیچر کی بھی رعایت ہوتی تھی یعنی اساتذہ اتنے ہوں کہ کوئی کلاس خالی نہ رہے، جب ہائی اسکول نویں دسویں تک محدود ہو گیا تو کلاس ٹیچر کا کوئی معاملہ نہیں رہا،اب بحالی تدریسی موضوعات کے اعتبار سے قرار پائی،چھ اساتذہ کی تقرری کی منظوری محکمہ نے دی،جن میں ہندی،انگریزی ،حساب ،سائنس،سماجیات اور دوسری زبان اردو،سنسکرت،بنگلہ کے لئے ایک استاذ کی بحالی ہوگی،جہاں فزیکل کلاس منظور ہے ،وہاں ایک استاذ اس کے لئے بھی بحال کئے جائیں گے۔

گزشتہ چند سالوں سے نصاب میں موضوعاتی اعتبار سے طلبہ پر بوجھ کم کرنے کی بات چلتی رہی ہے ،اسی کے نتیجہ میں دس سو نمبرات کو پانچ سو میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ،اس سرکولر میں دوسری زبان کے لئے ایک استاد کی بحالی کی تجویز ہے،دوسری سرکاری زبان کا درجہ بہار میں صرف اردو کو حاصل ہے،قاعدہ کی بات تو یہ ہے کہ اردو کے ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے ترجیحی بنیاد پر اس کے لئے استاز رکھے جاتے، یاپھران تینوں زبانوں کے لیے اسکول میں الگ الگ اساتذہ بحال کیے جاتے، تاکہ تینوں زبانوں کو تعلیم و تدریس کے ذریعہ پھلنے پھولنے کا موقع ملتا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار میں بنگال سے متصل اضلاع  کے علاوہ بنگلہ بہاریوں کی زبان نہیں ہے،سنسکرت کا معاملہ اس سے بھی الگ ہے، بہار کیا پورے ملک میں کہیں کی بھی یہ زبان نہیں ہے، اس کو اردو بنگلہ کے ساتھ صرف مذہبی زبان ہونے اور ہندؤوں کو مطمئن کرنے کے لیے جوڑ دیا گیا ہے ، مذہبی زبان کو دوسری زبان کے طور پر متعارف کرانا ہو تو عربی اس کی زیادہ مستحق ہے ،کیونکہ وہ زندہ زبان ہے اور دنیا کے بہت سارے ملکوں میں بولی جاتی ہے، اس کے پڑھنے سے خلیجی ممالک میں ملازمت کے مواقع بھی بہت ہیں، لیکن سیاسی لوگوں نے اردو کے ساتھ سنسکرت کو رکھنا پسند کیا جو کہیں کی زبان نہیں ہے، رہ گئی اردو جو  یہاں کی دوسری سرکاری زبان ہے،پورے بہار میں بولی ،لکھی اور پڑھی جاتی ہے، اس صورت حال کا تقاضہ یہ ہے کہ  ہائی اسکول  میں اردو کے اساتذہ رکھے جا ئیں اور جن علاقوں میں بنگلہ بولنے والے ہیں وہاں بنگلہ پڑھانے کے لئے الگ استاذ ہوں،سنسکرت کہیں بولی نہیں جاتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی الگ سے استاذ بحال ہوں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

ان تینوں زبان کے لئے ایک استاذ کا مطلب ہے کہ ہائی  اسکول سطح پر  ان تینوں میں سے کسی ایک زبان کو لینے کی اجازت ہوگی اور موضوع کے اعتبار سے یہ لازمی نہیں اختیاری ہو جائیں گے،بحالی جن کے مطالبے پرہوگی اور بحالی جن کے ہاتھ میں ہو گی وہ چاہیں گے کہ اردو کے  علاوہ  دوسری زبان کے استاذ کو بحال کیا جائے، سرکاری افسران کی اردو دشمنی جگ ظاہر ہے، جب استاذ نہیں ہوں گے تو طلبہ اردو کے بجائے کسی دوسری زبان لینے میں عافیت محسوس کریں گے اور اردو کا جنازہ بہار سے نکل  جائے گا، پہلے اردو کو زندہ رکھنے کے لئے جو لوگ سرگرم تھے مثلاً پروفیسر عبدالمغنی، غلام سرور،محمد ایوب،بیتاب صدیقی ، قمر اعظم ہاشمی، ہارون رشید وغیرہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، انہوں نے کاروان اردو اور اردو تحریک کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالی اور دنیا سے رخصت ہو گئے،اب جو پرانے لوگ ہیں ان میں شمائل نبی، شفیع مشہدی،اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر ریحان غنی،پروفیسر اسلم آزاد ،قوس صدیقی ، ایس ایم اشرف فرید ،اشرف استھانوی ،پروفیسر علیم اللہ حالی وغیرہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ،انوارالحسن وسطوی، انوارالہدی،  اردو پروگرام افسر اسلم جاوداں جیسے لوگ آگے بڑھکر تحریک چلا سکتے ہیں،اردو پروگرا م افسر اسلم جاوداں کی سرکاری ملازمت سے جڑے ہونے کی وجہ سے اپنی مجبوری ہے، انوارالحسن وسطوی بیمار چل رہے ہیں ،ان کا گھر سے نکلنا مشکل ہے،البتہ اخبارات میں مراسلے لکھ کراور اردو کے لئے کام کرنے والوں کو فون کر کے وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ،ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر اخباری بیان بازی کا سلسلہ انہیں کی تحریک پر شروع ہو ا، عبدالقیوم انصاری اور انوارالہدیٰ اس مسئلے پر وزیر تعلیم سے مل بھی چکے ہیں،امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم بھی اس سلسلہ میں متفکر ہیں،مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی اور شبیر حسن کے بیانات بھی اخبارات میں آئے ہیں،لیکن بات آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے ،سرکاری وعدوں کا حال غالب کی زبان میں‘‘تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا ’’کی طرح ہے،ایسے میں اردو کے نام پر جو تنظیمیں ہیں، انجمن ترقی اردو، کاروان اردو،اردو کونسل،حلقۂ ادب،اردو نفاذکمیٹی،تحریک اردو،علمی مجلس وغیرہ  کے لوگوں کووفد کی شکل میں وزیر تعلیم سے ملنا چاہیے ،اسمبلی شروع ہو  توممبران اسمبلی کو سوال اٹھانے چاہیے ،جمہوری حکومت میں کام کے یہی سب طریقے ہیں، اقلیتی کمیشن کے چیئرمین محمد یونس حسین حکیم صاحب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ حکومت میں ہیں کوششیں ہو بھی رہی ہیں لیکن سیکریٹریٹ میں ایک سردبستہ بھی ہوتا ہے،  حکومت کو نہیں کرنا ہوتا ہے تووہ اسے اسی بستے میں ڈال دیتی ہےاور کچھ دن کے بعد لوگ بھول جاتے ہیں کی اس کام کو بھی سرکار سے کروانا تھا سب لوگ خواب خرگوش کے  مزے لے رہے ہوں گے تو صرف اردو اردو کرنے سے کام نہیں چلے گا۔

 مسائل اور بھی ہیں، بہار اردو اکیڈمی میں کئی سالوں سے سکریٹری نہیں ہے، ڈبل چارج میں جو صاحب ہیں کچھ تو ان کے اختیارات محدود ہیں اور کچھ کام آگے بڑھانے سے وہ گھبراتے ہیں، جس کے نتیجے میں لائبریری کو جو گرانٹ اور مصنفین کو کتاب کی طباعت کے لئے جو رقم ملتی تھی سب بند ہے، انعام وغیرہ کا سلسلہ بھی موقوف ہے، سرگرمیاں تقریباً رک سی گئی ہیں، اس کے احاطے میں گورنمنٹ اردو لائبریری ہے ،وہاں کے لائبریرین کے سبکدوش ہونے کے بعد وہاں ان دنوں لائبریرین بھی نہیں ہے،صدر سیکریٹری نہ ہو تو کام کسی قدر چل سکتا ہے لیکن لائبریرین نہ ہو تو کتب خانے کی ساری افادیت ختم ہو جاتی ہے۔

 بہار میں اردو کے فروغ میں ضروری مشورے دینے کے لیے مشاورتی بورڈ بھی قائم ہے، ڈاکٹر کلیم عاجز اور شفیع مشہدی جیسے اردو کے ماہرین اس کے صدر نشیں رہے ہیں ،لیکن شفیع مشہدی صاحب کی مدت کارپوری ہوئے دو سال سے زائد ہو رہے ہیں ،حکومت کی توجہ اب تک اس طرف نہیں ہے، ظاہر ہے یہاں صدر نشیں ہی اصل ہوتا ہے اور اس  عہدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے یہ بورڈہی ختم ہو گیا ہے، لے دے کر ایک اردو ڈائریکٹریٹ باقی ہے، محترم امتیاز کریمی صاحب نے اس ادارہ کو اپنے عہد میں وقارو اعتمادبجشا موجود ہ ڈایرکٹر کی اردو تحریک سے وابستگی خاندانی ہے، اسلم جاوداں جیسے فکرمند اور کام کرنے کا ملکہ رکھنے والے اسی ادارے سے وابستہ ہیں،اس ادارے کی کارکردگی نے سرکاری اداروں پر اعتبار قائم کرنے میں مدد پہو نچائی ہے، اس کے سیمینار،اس کا رسالہ اور اس کی ڈائری کی پورے ہندو پاک میں اپنی شناخت ہے،بلکہ کہنا چاہئے کہ اپنی کار کردگی کی وجہ سے یہ اردو کی نئی بستیوں میں بھی متعارف ہے اورسمندر پار کے لوگ بھی اس کی خدمات کے معترف ہیں،ان تمام کے باوجود اس ادارہ کے ذریعہ جو ایوارڈ کا سلسلہ جاری تھاوہ 2010 سے بند ہے،کتابوں کی طباعت کے لئے مصنفین کو جو رقومات دی جاتی تھیں وہ بھی کئی سالوں سے نہیں مل پائی ہے،ہندی ڈائریکٹریٹ نے کتابوں پر انعام وامداد کی جو تجویز بھیجی تھی اسے حکومت نے مان لیا، لیکن اردو والی فائل پر اب تک کوئی کارروائی ہی نہیں ہوسکی،دوسرے محکمہ کا معاملہ ہوتا تو ہم سوچ سکتے تھے کہ ذمہ داران کام نہیں کر رہے ہیں،لیکن ڈایرکٹر احمد محموداور اردو پروگرام افسر اسلم جاوداں کی موجودگی میں ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ،اردو مترجم معاون وغیرہ کی جو سترہ سو پینسٹھ آسامیوں پر بحالی ہونے جارہی ہے وہ بھی انہیں حضرات کی جد وجہد کا نتیجہ ہے، ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان آسامیوں میں تخفیف کی کس قدر کوشش کی گئی،پہلے اسے نو سو پر لایا گیا ،پھر چارسو پر سمیٹنے کی کوشش کی گئی،لیکن اردو ڈائرکٹریٹ کے سر گرم فعال ذمہ داروں نے کسی طرح اس کو منظور کراکر ہی دم لیا،اللہ کرے امتحان کے بعد بحالی بھی ہوجائے،اورکوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔

ایک اور مسئلہ اردو ٹی ای ٹی پاس امیدواروں کی بحالی کا ہے،احتجاج دھرنے اور لاٹھی ڈنڈے کھانے کے باوجودا ن کے لئے آج بھی روز اول ہے ،پہلے انہیں پاس قرار دیا گیا ،پھر فیل کر دیا گیا،اور عدالت کی ہدایت اور مختلف صوبوں میں گریس مارکس دے کر پاس کرنے اور کٹ آف مارکس کے کم کرنے کی روایت کے باوجود اللہ جانے کیوں ان لوگوں کو پنڈولم بنا کر رکھا گیا ہے،مسئلہ کے حل کی یقین دہانی افسران کراتے ہیں ،لیکن بات آگے نہیں بڑھ پاتی ہے،ان کا معاملہ بھی حکومت کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنا چاہئے،اس سے  اردو کے تئیں حکومت کی سرد مہری کا پیغام لوگوں میں جاتا ہے، اس وقت ایک حکم سرکار نےان اسکو لوں کو دوسرے قریب کے اسکولوں سے جوڑنے کا دے رکھا ہے جن کے پاس اپنی عمارت نہیں ہے یقیناً یہ ایک عام سا حکم ہے اس میں اردو ہندی اسکولوں کی قید نہیں ہے. یہ حکم سارےبے عمارت اسکولوں کے لئے ہے لیکن اس کا بڑا اثر اردو اسکولوں پر پڑے گا قریب کا اسکول اگر ہندی اسکول ہوگا تو اردو اسکول اس میں ضم ہو جائے گا اور پھر اس اردو اسکول کا وجود ہی ختم ہو کر رہ جائے گا اس لیے اس مسئلہ کا حل قریب کے اسکولوں میں ملا نے کہ بجائے اس کی عمارت کی تعمیر ہے. ہر علاقے میں سرکار کی بہت سی زمینیں خالی پڑی ہیں. بہار پریوجنا کے پاس عمارت کی تعمیر کے لیے رقم کی کمی نہیں ہے حکومت کی نیت ٹھیک ہو تو یہ کام چنداں دشوار نہیں ہے. 

 بہار میں اردو کے لئے ایک بڑا مسئلہ خود اردو بولنے والے لوگ ہیں،ان کی بے اعتنائی سے بھی اردو کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں،وہ اردو کے اخبار کے بجائے انگریزی کے اخبار پڑھنا پسند کرتے ہیں،اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں پڑھواتے ہیں ،انہیں فرفر بچے کا خالص اردو بولنا پسند نہیں ،لیکن فراٹے سے انگلش بولنے کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں،اس کی وجہ سے بچہ اردو سے دور ہوتا جارہا ہے،اورجب ذہنی  دوری ہو تو وہ سبجیکٹ کے طور پر اسے کیسے اختیار کرے گا،شہروں میں گھوم جائیے مسلمانوں کی دکانوں پر بھی انگریزی ،ہندی کے بورڈ لگے نظر آئیں گے ،مکانوں پر ‘‘نیم پلیٹ’’بھی انگریزی ہندی میں لگے ہوں گے،شادی کارڈ انگریزی میں چھپے گا،میں نہیں کہتا کہ انگریزی میں نہ ہو ،میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اردو کو ان مواقع سے فراموش نہ کیا جائے،اسی صورت حال کی وجہ سے میں کہا کرتا ہوں کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھر میں ہار چکے ہیں ۔

Monday 1 February 2021

ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو


ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو

---------------------------------------------

*امارت شرعیہ کی بنیادی دینی تعلیمی تحریک*

*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*

----------------------------------------------------------------------

اسلام میں تعلیم کاحصول مردو عورت کے لیے فرض قرار دیا گیاہے ، اس معاملہ میں جنس کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی، اسلام نے علم کو اللّٰہ کی معرفت اور ترقی درجات کا سبب بتایاہے، خود اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  اعلان فرمایا کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں تعلیم کتاب وحکمت کوشامل کیاگیا، اور اعلان کیاگیاکہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے، قرآن کریم کے نزول کا آغاز بھی ’’اقرائ‘‘ سے ہواجس کے معنی پڑھنے کے آتے ہیں۔

ان احکام وہدایات کی روشنی میں امارت شرعیہ نے اپنے قیام کے ابتدائی زمانہ سے تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوزرکھی پندرہ روزہ’’ امارت‘‘ کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میں ان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء تک کلی طور پر جاری رہا۔ اور اب بھی بیت المال سے مکاتب کے معلمین کو ماہانہ وظائف دیے جاتے ہیں۔

لیکن تجربہ سے یہ بات محسوس ہوئی کہ معلم کو پورا وظیفہ دینے کی صورت میں ان کا رابطہ گائوں کے لوگوں سے کٹ جاتا تھا۔ اوروہ اپنے کو سرکاری ملازم کی طرح سمجھنے لگتے تھے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ تعلیم کامعیار باقی نہیں رہتا، وقت کی پابندی نہیں ہوتی او رتعلیم کے دنوں میں غیر حاضری کاتناسب بھی بڑھ جاتا ، اس احساس کے نتیجہ میں مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۲؍دسمبر۱۹۹۶ء نے مختلف علاقوں میں دینی مکاتب اپنی نگرانی میں کھولنے کافیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دشواری معیاری اساتذہ کی فراہمی تھی، اچھے استاد کے بغیر اچھی تعلیم کاتصور دیوانے کے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی۔ چنانچہ اچھے اساتذہ کی فراہمی کے لیے امارت شرعیہ نے معلمین کا تربیتی کیمپ لگانے کی تحریک شروع کی ،یہ تربیتی کیمپ کم سے کم پانچ دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن کے ہوا کرتے ہیں۔ اب تک بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ میں اڑتالیس تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں، ہر کیمپ میں سوسے ڈیڑھ سو معلمین نے استفادہ کیا، اور اب وہ امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائے جارہے مکاتب میں تعلیم وتربیت کے فرائــض انجام دے رہے ہیں اساتذہ کی تعلیمی نگرانی کے لیے نگراں مقرر ہیں۔ جو بار ی باری سے مکاتب کا معائنہ کرتے رہتے ہیں، ان معلمین کا رشتہ بچوں کے گارجین سے بھی مضبوط رہے اور وقت کی پابندی کے ساتھ تعلیم جاری رہ سکے۔ اس کے لیے گائوں کی سطح پر ایک تعلیمی کمیٹی ہوتی ہے، جس کی حیثیت ہمہ وقت نگراں کی ہوتی ہے،اس طرح تعلیم کے معیار کی برقراری کے ساتھ گائوں والوں کی دلچسپی بھی اس تعلیمی ادارہ سے قائم رہتی ہے ، نگرانی کے ساتھ گائوں والے اساتذہ کے وظیفہ میں بھی جزوی تعاون کرتے ہیں۔

ان مکاتب کے لیے طلبہ کی نفسیات اوران کی کم عمری کا خیال رکھتے ہوئے ہلکا نصاب تعلیم تیار کیاگیا ہے، تاکہ طلبہ کی دلچسپی برقرار رہے، اور ان پر کتابوں کا غیر معمولی بوجھ جیسا کہ پرائیویٹ اسکولوں اور کنوینٹ کی تعلیموں میں پڑا کرتاہے، نہ پڑے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جدید طریقۂ تعلیم کے اعتبار سے بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرتعلیم کا نظم کیاجائے۔

امارت شرعیہ کے دینی مکاتب میں عموماًچار سے لے کر آٹھ سال تک کے بچے اوربچیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں بچیوں کے لیے الگ سے کوئی نظم نہیں ہوتا،  اس سے آگے کی تعلیم کے لیے لڑکیوں کے مخصوص تعلیمی ادارے ہیں جن کی تعداد یقینا آبادی کے اعتبار سے بہت کم ہے، مگر ان میں وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں،بچیوں کے لیے انگریزوں کے دور میں ابتدائی تعلیم کے لیے ’’پردہ نشیں‘‘ اسکول کا نظم تھا جواب ایک دو کی تعدادمیں ہی پورے بہار میں باقی رہ گئے ہیں، اوربقیہ اسکول آزادی کے بعد جنرل اسکول قرار دیے گئے ۔ امارت شرعیہ کی سوچ یہ ہے کہ یہ ایک مفیدسلسلہ تھا، جس سے بچیوں کی تعلیم کامناسب نظم ہوپاتا تھا  اگر یہ سلسلہ پھر سے جاری ہوجائے ،تو مسلم بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ اسلامی حدود وقیود کے ساتھ بڑی حد تک حل ہوجائے گا۔

امارت شرعیہ کے معلمین سے کوئی غیر تعلیمی خدمت نہیں لی جاتی۔ اس طرح سبق کا تسلسل برقرار رہتاہے اور لڑکوں کی دلچسپی میں کمی نہیں آتی۔ جب کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو مختلف موقعوں سے غیرتدریسی کاموں میں استعمال کیاجاتاہے،جس کی وجہ سے تعلیم کا نظام برقرار نہیں رہ پاتا۔ اور طویل چھٹیوں کی وجہ سے لڑکوں کی دلچسپی تعلیم سے کم ہوجاتی ہے، میری رائے ہے کہ تعلیمی مہم سے جڑے ہوئے سبھی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں سے الگ رکھاجائے، تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپناسارا وقت تدریسی کاموں پر لگائیں۔

ایک مسئلہ نصاب تعلیم کا بھی ہے، امارت شرعیہ کے نصاب تعلیم میں دینی تعلیم کے ساتھ اردو لازمی قرار دیا گیا ہے، عربی اور اردو کے حروف تہجی کے یکساں ہونے کی وجہ سے تعلیم میں آسانی ہوتی ہے، اور لڑکوں پر بوجھ بھی نہیں پڑتا ہے۔

الحمد للہ ان مکاتب کے قیام سے معاشرہ پر بڑے مفید اور دو ر رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور غریب مسلم آبادیاں جہاں غربت اور افلاس کے سبب لوگ خود کفیل نظام تعلیم نہیں چلاسکتے تھے اور بچے اور بچیاں علم کی روشنی سے محروم کھیل کود وغیرہ میں اپنی زندگیاں ضائع کر رہے تھے، آج ان مکاتب کی برکت سے ان آبادیوں کے بچے بنیادی دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں، معلمین کی دعوتی محنت سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ اور معاشرتی خرابیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف مقامات پر نوجوانوں کی بڑی تعداد جوا، شراب اور دیگر برائیوں سے تائب ہو رہی ہے ۔ ان مکاتب کے طفیل گارجین حضرات میں بنیادی دینی تعلیم کے بعد بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا شوق بھی دو بالا ہوتا ہے۔ آج بہت سے طلبہ ان مکاتب سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک کے دوسرے اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

اس میدان میں کام کی اچھی شکل مکاتب کے نظام کو خود کفیل بنانا ہے ، جس کا خاکہ پہلے سے موجود ہے اور لوگ دھیرے دھیرے اس کی طرف راغب بھی ہو رہے ہیں، ضرورت اس کو تحریک کی شکل دینے کی ہے ، اس سلسلہ میں تعلیم کے لیے امارت شرعیہ کا جامع منصوبہ ’’نظام تعلیم کے رہنما اصول‘‘ مرتبہ مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔کیوں کہ مکاتب کے قیام کی ہر ہر گاؤں میں ضرورت ہے اور کسی بھی ادارہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر گاؤں میں اسے اپنے نفقہ سے قائم کر سکے ، چنانچہ ہمیں ہر گاؤں میں امارت کے نقباء نائبین نقبائ، ضلع بلاک اور پنچایت سطح کے ذمہ داروں کو اس کی تحریک چلانی چاہیے کہ وہ خود کفیل نظام تعلیم کو اپنا ئیں اس میں جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے ذریعہ سرمایہ اکٹھا کریں اور نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے پوری مستعدی سے کام کو آگے بڑھائیں۔

کابینہ توسیع میں تاخیر، جے ڈی یو بی جے پی سے معاوضہ چاہتی ہے؟

 کابینہ توسیع میں تاخیر، جے ڈی یو بی جے پی سے معاوضہ چاہتی ہے؟ 

سیماب اختر 

9199112324 

این ڈی اے کی حکومت سازی کے بعد ہی مسلسل تلخ رشتوں کو لیکر جے ڈی یو اور این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں کا یہ دعویٰ مسلسل رہا ہے کہ ہمارا اتحاد اٹوٹ ہے اور اس رشتے کو نبھانے کے لیے ہمیشہ سے ہی پرعزم رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے لیکن ان دعووں کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ودیگر کے پیش رفت و یقین دہانی کے باوجود اب تک کابینہ کی توسیع میں پینچ پھنسا ہوا ہے پہلے تو کھرماس بہانا تھا لیکن اب کسی اور سیاسی ماس کی تلاش جاری ہے شاید اسی لیے اب تک قلمدان کے تقسیم پر بات نہیں بنی ہے حالانکہ اس دوران کئ بار بی جے پی لیڈران دلی بھی حاضری دے چکے ہیں پھر بھی مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے جب کابینہ کی توسیع کی افواہ اڑی تو خود وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا اہلکار پریشان نہ ہوں توسیع کی اطلاع آپ کے ہی توسط سے عوام کو دی جانے گی، لیکن اب تک بات نہیں بنی لیکن اب بھی نتیش کابینہ کے توسیع پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ عالم یہ ہے کہ اب بی جے پی اور جے ڈی یو کے بڑے  لیڈر بھی اس معاملے پر بیانات دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بہار میں 50–50 کابینہ میں توسیع کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جے ڈی یو اب کابینہ میں موجود 50-50 فارمولہ پر قائم ہے۔ اس سے قبل بی جے پی زیاد ہ سیٹوں  کی وجہ سے کابینہ میں وزرا کی زیادہ  سیٹوں  کی حقدار تھی۔ پھر اروناچل معاملہ  ہوا اور بی جے پی بیک فٹ پر آگئی۔ اروناچل میں جے ڈی یو کے 6 ایم ایل اے نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ لہذا اب بہار کابینہ میں جے ڈی خود کو ملے ہر غم کا سیاسی بدلہ چاہتی ہے۔

ایک درجن میٹنگ ہوگئی ، ملا کچھ نہیں؟ 

بی جے پی کابینہ میں توسیع کو لیکر سرگرمی نظر آرہی ہے۔ دہلی سے لیکر بہار تک کے بی جے پی لیڈر نصف درجن سے زیادہ بار وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے سات ایک انے مارگ میں ملاقات کر چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب تک توسیع نہیں ہو سکی۔  جے ڈی یو میں رکاوٹ کے پیچھے ایل جے پی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ پارٹی کا خیال ہے کہ جے ڈی یو کی یہ حالت بہار انتخابات میں ایل جے پی کی وجہ سے  ہوئی تھی ۔ ایل جے پی بی جے پی کی شراکت دار ہے۔ ایسی صورتحال میں بی جے پی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جے ڈی یو ایل جے پی کی وجہ سے تقریبا 35 سیٹوں پر خود کو ہوئے  نقصان کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔بی جے پی نئے مینڈیٹ کے مطابق کابینہ میں توسیع کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کو وزیر اعلی کی کرسی سونپی گئی ہے۔ اب کابینہ کے کوٹے کا فیصلہ نمبر کے مطابق ہونا چاہئے۔ سیٹوں کے حساب  کے مطابق ہر 7 ممبر اسمبلی پر 2 وزیر بنائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کے20-22 اور جے ڈی یو کے12-14 وزراء کا کوٹہ ممبران اسمبلی کی تعداد کے لحاظ سے طے ہوتا ہے۔ اس میں ایک ۔ ایک وزیر وی آئی پی اور جیتن رام مانجھی کی پارٹی ہم کے ہیں۔ وہیں وزیر   اعلی نتیش کمار چاہتے ہیں کہ بی جے پی۔جے ڈی یو 17۔17 اور ہم۔ وی آئی پی کے ایک ۔ ایک ممبر کو کابینہ میں جگہ دی جائے۔

اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بی جے پی اپنے محکموں سے خوش نہیں ہے۔ وہ تعلیم اور داخلہ  جیسے محکمہ اپنے  کھاتے  میں چاہتی ہے۔ نتیش کابینہ میں فی الحال 14 وزیر ہیں، جس میں  بی جے پی  سے7،جے ڈی یو  سے 5اور ایک ایک ہم اور  وی آئی پی سے ہے۔پارٹیوں کے مابین محکموں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد 21 محکموں بی جے پی کے پاس تو20 جے ڈی یو  کے پاس ، 2 محکمہ ہم کے پاس  اور ایک وی آئی پی کے پاس ہے۔ جے ڈی یو کے پاس داخلہ ،  جنرل ایڈمنسٹریشن ، کابینہ ، تعلیم ، توانائی ، آبی وسائل ، دیہی ترقی اور محکمہ دیہی امور جیسے بڑے محکمہ ہیں۔ بی جے پی کے پاس  صحت، سڑک، خزانہ، تجارت، پی ایس ای ڈی ، صنعت اور زراعت جیسے محکمہ ہیں۔اس کے بعد بھی انتظار اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں اتحاد کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے یا پھر آپسی رسہ کشی کی وجہ سے ایک ایک وزیر کو پانچ محکموں کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی؟

बजट 2021 कम्पनी राज को बढ़ाने वाला और आर्थिक पुनर्जीवन व जनता की रोजी-रोटी की गारंटी मांगों के साथ विश्वासघात है ,भाकपा-माले

 बजट 2021 कम्पनी राज को बढ़ाने वाला और आर्थिक पुनर्जीवन व जनता की रोजी-रोटी की गारंटी मांगों के साथ विश्वासघात है ,भाकपा-माले


कोविड महामारी के बाद आये मोदी सरकार के पहले बजट में खतरनाक रूप से नीचे गिर रही अर्थव्यवस्था को दुरुस्त करने की दिशा में कोई कोशिश नहीं की गई है.  न ही इसमें नौकरियां खो चुके और आय व जीवनयापन के स्तर में भारी गिरावट से परेशान लोगों के लिए कोई तात्कालिक राहत दी गई है. उल्टे इसमें संकटग्रस्त अर्थव्यवस्था के बोझ को जनता के कंधों पर डाल बड़े काॅरपोरेटों के लिए अकूत सम्पत्ति जमा करने के और अवसर बना दिये गये हैं. 


अर्थव्यवस्था में सरकारी निवेश और खर्च बढ़ाने की सख्त जरूरत है लेकिन यह बजट थोक के भाव में विनिवेश और निजीकरण की दिशा में केन्द्रित है. 


रोजगार सृजन, आय में बढ़ोतरी और आम आदमी की क्रय शक्ति में इजाफा करने की दिशा में इस बजट को केन्द्रित होना चाहिये था लेकिन ऐसा बिल्कुल भी नहीं किया गया है. 


भारत के 100 सर्वाधिक धनी अरबपतियों की सम्पत्तियों में महामारी और लाॅकडाउन के दौरान भारी बढ़ोतरी हो गई (लगभग 13 लाख करोड़) ! लेकिन बजट इस सम्पत्ति को वैसे ही छोड़ दे रहा है, इस पर वैल्थ टैक्स या ट्रांजेक्शन टैक्स क्यों नहीं लगाया जा सकता था?


राजस्व नीति में सुधार कर अति धनाडयों से राजस्व वसूली बढ़ाने और मध्य वर्ग को जीएसटी और आय कर में राहत देने की जगह बजट पहले की तरह ही अत्यधिक अमीरपरस्त राजस्व नीति पर चल रहा है. 


सभी फसलों के लिए न्यूनतम समर्थन मूल्य (एमएसपी) की कानूनी गारंटी की किसानों की लम्बे समय से चली आ रही मांग को सरकार ने एक बार फिर खारिज कर दिया है. भारत के छोटे किसान और माइक्रोफाइनांस कम्पनियों के कर्ज तले लोग परेशान हैं. पूरे देश में छोटे कर्जदारों के कर्जे माफ करने की मांग लगातार उठ रही हैं, लेकिन बजट 2021 ने इस महत्वपूर्ण मांग को नहीं माना है. 


अर्थव्यवस्था को दुरुस्त करने की दिशा में यह बजट पूरी तरह से विफल है. अतः हम सरकार से मांग करते हैं कि इस बजट पर पूरे विस्तार में पुनर्विचार किया जाय.


भारत की मेहनतकश जनता का हम इस बजट के विरोध में आवाज उठाने का आहवान करते हैं.


- _दीपंकर भट्टाचार्य_ 

महासचिव, *भाकपा-माले*

ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو!

 ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو

------------------------------------------

*عوامی سطح پر اردو کا استعمال*

*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند*

----------------------------------------------------------------------

عوامی سطح پر اردو کوجو سب سے بڑا مسئلہ ان دنوں در پیش ہے ، وہ ہے اردو کا عوامی استعمال، ہم اردو کومادری زبان کہتے ہیں اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں، کہ یہ مسلمانوں کی مادری زبان ہے ، ایک تو زبان کو مذہب کے ساتھ خاص کرنا غلط ہے، دوسرے یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ عملی طورپر یہ ہماری مادری زبان ہے ، عملی کا لفظ میں نے شعوری طور پر استعمال کیا ہے، عوامی سطح پر دیکھیں تو روز مرہ اور بول چال کی زبان نوے فی صد لوگوں کی اردو نہیں ہے ، ہمارے گھروں میں زبان بولی ہی نہیں جاتی ، ہم مختلف قسم کی بولیوں کو زبان سے تعبیر کرتے ہیں، ہمارے گھروں میں جو زبان بولی جا رہی ہے، وہ کہیں بھوجپوری ہے، کہیں میتھلی ہے، کہیں مگہی ہے، کہیں سنتھالی ہے ، کہیں بنگالی ہے،کہیں اڑیہ ہے ،کہیں کوکنی ہے، کہیں وجیکا ہے، کہیں کچھ اور ہے ، ان میں سے کچھ زبان (Language)کے زمرے میں آتے ہیں اور بیش تر بولیاں (Dialect)ہیں،ہمیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بقول اختر اورینوی ’’ابھی تک کوئی ایسا ماہر لسانیات پیدا نہیں ہوا، جو بولی اور زبان کے درمیان واضح اور مستقل خط فاصل کھینچ سکے ۔لطیفہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محی الدین زور نے اردوکو ہندوستانی یاکھڑی قدیم ویدک بولیوں میں سے ایک بولی ہی قرار دیا ہے، جو ترقی کرتے کرتے یا یوں کہئے کہ ادلتے بدلتے پاس پڑوس کی بولیوں کو دیتے اور کچھ ان سے لیتے اس حالت کو پہونچی جس میں آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ 

 ہمارے بچے اور عوام بھی انہیں بولیوں میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے میرے نزدیک عوامی سطح پر اردوکو جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہے وہ اسے بولی سے نکال کر اردو زبان تک لانے کا ہے ، تاکہ یہ عوام کی زبان بن سکے ، اس مسئلہ کا حل سمینار سمپوزیم سے زیادہ گاؤں اور محلہ کی سطح پر اسے مہم کے طور پر متعارف کرانا ہے، مہم بہت پتہ ماری کا کام ہوتا ہے ، جبکہ سمینار وسمپوزیم میں وہ جان کا ہی نہیں کرنی ہوتی ہے ، اس لیے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سمینارو سمپوزیم کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا ،جب کہ عوامی سطح پر اس کے اثرات کچھ نہیں ہوتے اور بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے نہیں بڑھ پاتی ،یقینا کہیں آگ لگی ہو توپانی پانی چلا نا بھی ایک کام ہے ، لیکن آگ بجھانے اور پانی کے حصول کے لیے بالٹی میں پانی لے کر دوڑنا یا دم کل والے کو بلالینا بالکل دوسرا کام ، پہلے سے بڑا بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے مفید بھی ، میں سیمینار، سمپوزیم کی افادیت کا انکار نہیں کر تا ، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سمینار سمپوزیم سے موضوع کو متعارف کرایا جا سکتا ہے، اردو کے مخلصین تک بات پہونچائی جا سکتی ہے ،لیکن عوام کو بولیوں سے نکال کر زبان تک لانے کے لیے ٹولیوں کی ضرورت ہے جو ہر دروازے پر دستک دے اور ہر دماغ کو اپیل کرے اور لوگوں کو متوجہ کرے کہ وہ اردو میں بات کرنا شروع کریں، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر ضلع میں ضلع سے بلاک سطح تک کمیٹی بنائی جائے جو گاؤں گاؤں ، دیہات دیہات میں جاکر تحریک چلائے اور اردو بیداری کی لہر گاؤں گاؤں تک پہونچائے۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہم سوچتے ہندی اورانگریزی ہی میں ہیں ، ہماری زبان پر جو کلمات فوری طور پر جاری ہوتے ہیں وہ ارد وکے علاوہ ہوتے ہیں، ہمیں اردو میں لکھنا بولنا ہوتا ہے تو ہم اس کے متبادل الفاظ تلاش کرتے ہیں، کامیابی نہیں ملی، ذہن متبادل الفاظ تک نہیں پہونچ سکا تو بلا تکلف دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ سوچ کرمطمئن بھی ہوجاتے ہیں کہ اس سے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتاہے۔ دوسری زبانوں کی ترکیب ، لغت اورقواعد کے اثرات سے زبان مالال مال ہوتی ہے، پروفیسر ثوبان فاروقی نے ایک بار کہا تھا کہ

’’ آج بنیادی مسئلہ اردو کے لیے کچھ کھونے اور پانے کا نہیں، اردو کی بقا کاہے، اردو جو ایک زبان ہی نہیں، مستقل تہذیب کلچر اور طرززندگی ہے، پچھلے پچاس سالوں میں اردو کہیں گم ہوگئی ہے، وہ نسل اٹھ گئی، جس کے احساسات ، تخیلات ، جس کی سوچ اور فکر جس کی وضع قطع، اورطرز زندگی اردو تھی، اب جو نسل ہمارے سامنے ہے وہ اردو کے مترجمین کی نسل ہے، ہمارے خیالات کو منتقل کرنے کے لیے جوالفاظ اچھلتے کودتے ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اردو میں دوسری زبان کے الفاظ ہوتے ہیں، ہم ان کو دباتے ہیں، پھراس کا متبادل تلاش کرتے ہیں، ہمارے محاورے اور تلفظ تک بگڑرہے ہیں، بلکہ بگاڑنے کی منظم کوشش ہورہی ہے‘‘۔

لسانیات کے طلبہ کو اس صورت حال سے کس قدر پریشانیاں ہوتی ہیں، اور عجیب عجیب لسانی گتھیوں کے سلجھانے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے، اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہے جو اس کام سے لگے ہوئے ہیں؛ اس لئے اردو کو عوامی بنانے کے لیے ہمیں اپنی اس سوچ کو بھی بدلنا ہو گا اور یقینا اس سوچ کو بدلنے میں عوام کاحصہ کم، ہمارے اردو کے اساتذہ، تنقید نگار اور ادیب وشاعر کا حصہ زیادہ ہے ، اگر ان حضرات نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا تو اردو کو عوامی بنانے کی مہم کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر یہ مہم کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں یہ شکایت نہیں رہے گی کہ دوکانوں کے بورڈ زیادہ تر اردو میں نہیں لکھے جاتے ، کیوں لکھے جائیں ؟ دوکاندار سوچتے ہیں کہ اردو پڑھنے والے جب موجود ہی نہیں ہیں یا اقل قلیل ہیں تو اس زبان میں سائن بورڈ لگانے کا حاصل کیا ہے ، اردو عوامی بنے گی تو لوگ سائن بورڈ اور نیم پلیٹ اردو میں لگانے لگیں گے اور دوسری زبانوں کے ساتھ اردو کا استعمال بھی عوامی سطح تک ہو سکے گا ۔

 اردو کو عوامی بنانے میں دوسرا بڑا مسئلہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا ہے ، مادری زبان میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں ناکام ہو گیے ہیں،ہمارے زیاہ تر بچے اب گھرمیں تعلیم نہیں پاتے، نہ ماؤں کے پاس انہیں دینے کے لیے وقت ہے اور نہ باپ کو اس کی فکر ہے ، کم عمری میں ہی اسے کسی کنونٹ میں ڈال دیا جاتا ہے ، جہاں اسے جو زبان اور تہذیب سکھائی جاتی ہے وہ کم از کم نہ تواردو زبان ہوتی ہے اور نہ اس سے متعلق تہذیب، یہ بچے جنہوں نے اپنے ابتدائی درجات میں اردو سے کسی درجہ میں واقفیت نہیں بہم پہونچائی ہے، آگے چل کر اردو کی طرف ان کی رغبت ہو ہی نہیں سکتی، ایک شاعر نے کہا ہے   ؎

 ہماری قوم کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے

ہمیں غم ہے کہ مستقبل میں اردو کون بولے گا

اس معاملے میں اگر کسی درجہ میں استثناء ہے تو مولویوں کا ، ان کے بچے مدارس اور مکاتب میں پڑھتے ہیں ، جہاں اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے ، وہ دوسرے معاملات میں دنیاوی اعتبار سے جس قدر ناکام ہوں، لیکن اگر صد فی صد کہیں سے اردو زبان کو عوامی آکسیجن مل رہا ہے تو وہ مدارس دینیہ اسلامیہ ہیں،جن کا ذکر سمینار سمپوزیم میں کم ہوتا ہے، اور اردو کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والا یہ طبقہ سرکاری سطح کے انعامات اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات سے کوسوں دور ہوتا ہے ، بہت دور جانے کی ضرور ت نہیں ہے، بہار اردو اکیڈمی کے ذریعہ تقسیم انعامات کی  شروع سے آج تک کی فہرست ہی اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہو گا کہ اردو کے اس زمرہ کے خدام کی کس قدر ان دیکھی کی گئی ہے، سرکاری روپیوں سے چلائے جانے والے دوسرے اداروں کی صورت حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔اردو کو عوامی بنانے کے لئے اس طبقے کی خدمات کی پذیرائی اور اس کا کھل کر اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اکیڈمیوں اور اداروں کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اردو کے بے لوث خادم ہیں،انہوں نے اس نام پر نہ عوام سے کچھ لیا ہے اور نہ سرکار سے، صرف خدمت کیے جا رہے ہیں۔اردو کے دانشور اور اردوکی روٹی کھانے والے افسران اور ذمہ داران کہتے ہیں کہ مدارس میں تو چار فی صدہی بچے پڑھتے ہیں ، وہ اپنی نا کامی کو چھپانے کی فکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ چار فی صد بچے سو فی صد اردو پڑھتے ہیں، بقیہ چھیانوے فی صد میں اردو پڑھنے والے کا تناسب دو فی صد بھی نہیں ہے۔

 اردو کے سرکاری اسکول بھی اس زبان کو عوامی بنانے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں، لیکن سرکاری اداروں کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے ، اور بحالی کے سلسلے میں اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اس لیے کہیں تو اردو کے استاذ ہی سر ے سے دستیاب نہیں ہیں اور جہاں ہیں بھی ان کی دلچسپی اس زبان کو عوام تک پہونچا نے سے کم ہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو کے نام پر بحالی تو ہو گئی ہے؛ لیکن خود استاذ کی اپنی زبان اردو نہیں ہے، وہ اردو سے زیادہ ہندی پر قدرت رکھتے ہیں، ایسے استاذ کے ذریعہ جو بچے اردو سیکھتے ہیں ان کا املا، جملہ ، تلفظ سب کچھ غلط ہوتا ہے ،کبھی کبھی تو بعض الفاظ کے لکھتے اور بولتے وقت مضحکہ خیز صورت حال ہو جاتی ہے ، اس کی وجہ سے بھی اردو کو عوامی استعمال کی زبان بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے ، مشکل کاحل استاذ کے اپنے پاس ہے،جو طلبہ ان کے پاس آگیے ہیں، ان کو امانت سمجھیں اور طلبہ پر اپنی توجہ صرف کریں ، اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی بھی کو شش کرتے رہیں، اس کا حل صرف اور صرف مطالعہ کی کثرت ہے ، مطالعہ کی کمی کی وجہ سے اردو کی معلومات کمزور ہوتی ہے اور کمزور معلومات جب ہم طلبہ کو منتقل کرتے ہیں تو منتقلی اس سے بھی کمزور ہوتی ہے، اور کار طفلاں تمام ہوجاتا ہے۔

 اردو پڑھانے کے ساتھ اردو بولنے اور لکھنے کی مشق بھی طلبہ کو کرانی چاہیے، لیکن اگر استاذ خود اردو بولنے کے بجائے ’’وجیکا‘‘اور دوسری بولیوں کا استعمال کرتے ہوں تو طلبہ کس طرح اردو بولنے پر قدرت پائیں گے ، اسی طرح اردو لکھنے کی مشق کا معاملہ ہے، لکھنے میں املا کی صحت کے ساتھ خوبصورت تحریر کا بھی بڑا دخل ہے ، اور عوامی طور پر یہ خوبصورتی بھی باعث کشش ہوتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ تلفظ اور املا کی صحت کے ساتھ تحریر بھی خوبصورت بنائی جائے ، یوں تو سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، ہر عمر میں اپنے سے فائق لوگوں سے سیکھنے کے عمل کو جاری رکھاجا سکتا ہے ، لیکن بڑی عمر میں یک گونہ حجاب آتا ہے اور اس حجاب کی وجہ سے ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اس لیے بڑی عمر میں تحریر کی درستگی کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تھن پیپر لیکراسے مطبوعہ اردو کتابوں پر رکھ کر قلم پھیرا جائے اور روزانہ دو تین صفحہ اس طرح لکھا جائے تو ہاتھ بیٹھ جائے گا اور تمام حروف اور ا س کے مرکبات کے لکھنے کی مشق ہو جائے گی ۔

عوامی بیداری کے لیے کرنے کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ سرکار کے ذریعہ سابقہ اعلانات کو عملی طور پر نافذ کرنے کی جد وجہد کی جائے ، سرکار نے بار بار اعلان کیا ہے کہ دس طالب علم ہوں تو ایک استاذ بحال ہوں گے ، ہمارا کہنا یہ ہے کہ استاذ بحال کیجئے ،لڑکے ا ٓئیں گے ، یہ پہلے انڈا یا پہلے مرغی والا معاملہ ہے ،ہم پہلے مرغی کے قائل ہیں، مرغی موجود ہو اور وہ دیہاتی مرغی ہو، چکن نہ ہوتو انڈا تو آئے گا ہی، لیکن سر کار بغیر مرغی کے انڈا چاہتی ہے یہ تو کسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے ۔

عوامی سطح پر اردو کو درپیش مسائل میں ایک یہ بھی ہے کہ اردو میں لکھی ہوئی درخواستیں سرکاری محکموں میں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہیں،اس کی وجہ سے عوام اردو میں درخواست دینے سے گریز کرنے لگی ہے ، ڈاکٹر شکیل خاں صاحب کا یہ بیان بہت پہلے نظر سے گزرا تھا کہ انہوں نے سینکڑوں درخواستیں اردو میں ارسال کیں اور ان کا کوئی جواب اردو میں انہیں موصول نہیں ہو سکا۔اور اب درخواستوں کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے ، سارے فارم ہندی میں چھپے ہوئے ہیں، آپ ان کی خانہ پُری لازما ہندی ہی میں کریں گے، اردو میں فارم دستیاب ہویا کم از کم اسی فارم میں اردو کا اضافہ کر دیا جائے تو فارم اردو میں بھرے جا سکیں گے ، اردو سے متعلق سرکاری اداروں کو اس طرف پہل کرنی چاہیے۔دوسرے کام کے لیے عوامی سطح پر درخواستیں ہی اردو میں کم پڑتی ہیں ، یا نہیں پڑتی ہیں،اس لیے جن جگہوں پر مترجم بحال ہیں وہ بھی دوسری فائلوں پر لگادیے گیے ہیں، اور وہ بخوشی اس کام میں لگ گیے ہیں ، کیونکہ دوسری فائلیں زیادہ ’’بار آور‘‘ ہیں، انہوں نے اس تبدیلی پر کوئی احتجاج کبھی درج نہیں کرایا ، اور مطمئن ہو گیے کہ وہ سرکاری ملازم ہیں،اس صورت حال کی وجہ سے بھی عوامی طور پر اردو کا استعمال سرکاری دفاتر میں کم ہواہے ، واقعہ یہی ہے ،چاہے جس قدر بھی تلخ ہوکہ ہم نے ارد وکے نام پر روٹیاں زیادہ سینکی، ہیں کام کم کیا ہے ۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اردو ہائی پروفائل اعلی سطح کے لوگوں کے یہاں سے غائب ہے، ان کے یہاں ہندی انگریزی کے اخبارات ورسائل تو آتے ہیں،اردو اخبارات ورسائل کی بات کیجئے تو کہتے ہیں کہ اردو کے اخبارات ورسائل کا معیار ہی کیا ہے، باسی خبریں، غیر ضروری اور غیر معیاری مضامین ، طباعت ایسی کہ چھونے سے ہاتھ کالے ہو جائیں، جتنی کمی  کوتاہی ممکن ہے نکال دی جاتی ہے اور نئی نسل کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے میں اردو کو عوامی بنانا کس طور ممکن ہو سکتا ہے۔

 یہ مسائل سرکار کے پیدا کردہ نہیں ہیں، یہ تو ہماری ذہنی پستی کے نتیجے میں در آئے ہیں، اس کو دورکرنے کے لیے ہمیں خود ہی جد وجہد کرنی ہوگی ، آج تک ہماراطریقہ  یہ رہا ہے کہ ہم ہر کمی کو تاہی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں، اس موقع سے داخلی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے  اپنے عمل سے اردو کوعوامی بنانے میں کتنی رکاوٹیں پیدا کی ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ خارجی سطح پر بھی اردو کوعوامی بنانے میں جو رکاوٹیں ہیں وہ ہماری بے حسی کے نتیجے میں ہیں ، ہم نے ہمیشہ سرکار کی طرف دیکھا ہے،اپنے گریبان میں جھانکنے کی نوبت کم آئی ہے،یاد رکھیے زندہ قومیں اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں،انہیں چار لوگوں اور چار کاندھوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ، چارکاندھے مُردوں کے لیے ہوتے ہیں، زندہ قوموں کو اپنا بوجھ، اپنے مسائل ، اپنی پریشانیاں خود اٹھانے ہوتے ہیں، جس دن ہم نے یہ طے کر لیا کہ اردو کا مسئلہ ہم خود حل کریں گے اس دن سے اردو کوعوامی بنانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی، کیونکہ 

ع۔    کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک

نئی نسل کےدین وایمان کی فکر کرنافرض عین ہے: احمد حسین قاسمی

 نئی نسل کےدین وایمان کی فکر کرنافرض عین ہے: احمد حسین قاسمی



بھوجپور میں تعلیمی تحریک وتحفظ اردوکےلئے امارت شرعیہ کی مشاورتی کمیٹی کی تشکیل


(نمائندہ آرہ) امارت شرعیہ بہار ,اڈیشہ وجھارکھنڈ نے سوسالوں سے ملت کی بروقت رہنمائی کی ہے جب بھی ملت وشریعت پر کسی قسم کےحالات آئے اس نے اپنے آپ کو سینہ سپرکردیا اورملک و ملت پرآنےوالےسخت سےسخت طوفانوں میں بھی اپنا کردارپیش کرنےسے قدم پیچھے نہیں ہٹایا اورتمام حالات میں عظیمت کی مثال بنی رہی حقیقت یہ ہیکہ اس کی فکررسااوردوربیں نگاہوں نے اکثر آنےوالےخطرات کو پہلے محسوس کیاہےجن سےپیشگی  ملت کی حفاظت کےلئے عملی خاکےتیار کئے ہیں ملک کی موجودہ صورت حال کےپیش نظرمحترم امیرشریعت بہار, اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا محمدولی رحمانی صاحب زید مجدہم کی خاص ہدایت پر امارت شرعیہ نے مستقبل پرگہری نگاہ رکھتے ہوئےپیشگی حصار بندی کےطور پر نسل نوکےدین وایمان کی حفاظت اور ملک میں باوقارزندگی گذارنے کےلئے تعلیم کواپنامشن بنایا ہے اسی کے ساتھ اپنی زبان وتہذیب کی سلامتی کابیڑابھی اس نے اٹھایا ہے اسی پیغام کولےکر امارت شرعیہ کے خادمین آپ کی تاریخی سرزمین آرہ بھوجپور میں آج  حاضر ہیں کہ ہرچھوٹی بڑی آبادی میں مسجد کے تحت دینی مکتب کا خود کفیل نظام کیسے قائم کیاجائے جہاں سے ہماری اولاد دین اسلام کے سانچے میں ڈھل سکیں کم عمری میں ان کے لوح دل پر توحید ورسالت کےپاکیزہ کلمات نقش کردئے  جائیں تاکہ حالات کے لئے ان کا مٹاناناممکن ہو اس نظام کومستحکم طور پرپھیلانےکےلئے اہل مدارس بھی توجہ دیں اور مسجد کے تمام ذمہ داران بھی خصوصامتولیان وائمہ کرام اس مکتب کےنظام کو مسجدوں میں  نماز باجماعت کےقیام کی طرح جاری کریں ورنہ بےدینی کے اس سیلاب میں موجودہ اور آنے والی نسل کےایمان کی بقا مشکل نظرآرہی ہے دوسری جانب ہمیں اس ملک میں مختلف چیلنجوں کاسامنا ہے ہمیں ہرحال میں یہاں کاعزت دار اورباکمال شہری بن کررہناہے اس کےلئے عصری تعلیم میں خاصی محنت وتوجہ کی ضرورت ہے عیسائی لوگ ڈیڑھ دو فی صد ہوکر کامیاب ادارے چلارہے ہیں اور ہم ان سے بیس فی صدزیادہ ہو کر انہیں کے قائم کردہ اداروں کے محتاج ہیں ہمیں اپنے معیار ی ادارےقائم کرنے ہوں گے یہ ہمارےلئے باعث ننگ و عار  ہے کہ نسل ہم پیدا کریں تعلیم دوسرے دیں یہ عمل ایک زندہ اور باغیرت قوم کی شایان شان ہرگز نہیں امارت شرعیہ چاہتی ہے کہ آپ حضرات اس کام میں آگےآئیں کم از کم اپنی آبادی کی تعلیمی ضرورت پوری کرنےکےلئے ایک معیاری اسکول قائم کریں  اسی طرح اردو زبان ہماری تہذیب ہے ہمارا سارا دینی سرمایہ اس زبان میں محفوظ ہے اس کی حفاظت ایک طرح دین کی حفاظت ہے اپنے گھروں میں اردو بول چال اس کے لکھنے پڑھنے کوعام کریں بچے بچیوں کو اس کی لازمی تعلیم دیں مذکورہ باتیں امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی نے کہیں پروگرام کےآخر میں پورے ضلع میں اس مہم کوعملی شکل دینےاور ان عظیم مقاصد کو زمین پراتارنے کیلئے اکتیس باصلاحیت افرادپرمشتمل ایک تعلیمی مشاورتی ضلع کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جوہربلاک میں اس کام کومنظم انداز میں انجام دےگی شہرسمیت ضلع کے زیادہ تر بلاک سے ائمہ مساجد , علماء کرام ودانشوران نے اس اہم خصوصی مشاورتی اجلاس میں حصہ لیاامارت شریعہ کےمبلغین مولانا عبد الحق قاسمی مولانا منت اللہ قاسمی ,مولانا فیروز رحمانی, مولانا وسیم صاحب نےاس اجلاس کو منظم کرنےمیں  اپنی خدمات پیش کیں اس کے اہم قابل ذکر شرکاء میں ڈاکٹر محمدانورصاحب , جناب اقبال ہاشمی صاحب, جناب پرویزعالم صدیقی, ارشد ظفر ,عبدالسلام اور مولانا بہاء الدین صاحب امام شاہی مسجد آرہ کےعلاوہ سینکڑوں خواص حضرات شامل تھے۔

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...