Tuesday 25 May 2021

لکشدیپ_کے_ہندوتوا_کرن_کی_کوششیں مسلم اکثریتی جزیرے پر سَنگھی قبضے کی خطرناک کوششوں کےخلاف آواز اٹھائیے:

 لکشدیپ_کے_ہندوتوا_کرن_کی_کوششیں
مسلم اکثریتی جزیرے پر سَنگھی قبضے کی خطرناک کوششوں کےخلاف آواز اٹھائیے: 

 میں یہ مضمون شروع کرنے سے پہلے ہی ہندوستان اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو، اور انصاف پسند انسانوں کو دعوت دیتاہوں کہ ۔ وہ زندہ۔ضمیر ہیں تو آگے آئیں اور لکشدیپ کے باشندوں کے حقِ حریت کے ليے سرگرم ہوجائیں، لکشدیپ میں جوکچھ ہورہاہے وہ  توسیع پسندانہ فاشسٹ عزم ہے، یہ نسل پرستانہ بالادستی کا اقدام ہے، ایسی کارروائی نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لیے شرمناک بھی ہے اور خطرناک نظیر بھی ہے، اسلیے اس کےخلاف ایسی مؤثر کوششیں ہونی چاہییں جوکہ ناصرف لکشدیپ کو بچا سکیں بلکہ آئندہ ایسے ہر فاشسٹ توسیعی عزم کی حوصلہ شکنی کریں ۔



 *لکشدیپ کا معاملہ یہ ہیکہ ۔ وہ ایک جزیرہ ہے، وہاں کی 96% آبادی مسلمانوں کی ہے، وہاں پر نفرتی فضاء، طبقاتی ظلم و زیادتی، مذہبی منافرت، دنگے فساد اور مجرمانہ معاملات کا ریکارڈ فیصدی 0 ہے،* جبکہ وہاں غير مسلم اقلیتی بشمول بظاہر ہندو کہلانے والے بھی بستے ہیں لیکن اکثریتی مسلم آبادمیں طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اہلِ اسلام کی چھاؤں میں رہتےہیں، اس جزیرے پر ہندوتوائی مشنری، آر۔ایس۔ایس بھاجپا اور بھگوائی عناصر کو اب تک زمین نہیں مل سکی ہے، اسی لیے اس کی فطری خوبصورتی یہاں کے باسیوں کے دلوں میں بھی زندہ ہے، امن و سکون خوشحالی اور خوشگواری سرسبزی و شادابی سے بھرپور یہ جزیرہ بلا کسی بھیدبھاؤ کے انسانوں کے لیے بنیادی انسیت فراہم کرنے کا مرکز ہے_

 *لیکن اب اس پھول جیسے کھِلے ہوئے جزیرے کو آر۔ایس۔ایس کی ناپاک نظر لگ گئی ہے، مودی گورنمنٹ نے ایک بدنام زمانہ سیاست دان اور نریندرمودی کے بہت قریبی ساتھی پرفل پٹیل کو اس جزیرے کا Administrative officer / انتظامی آفیسر بناکر بھیجا، اور یہیں سے جزیرے کے خوشحال اور پرسکون مسلمانوں کی زندگی پر ہندوتوائی نحوست کے بادل منڈلانے لگے،*

*پرفل پٹیل کے ظالمانہ اور برہمنی اقدامات:*

*پرفل پٹیل نے یہاں پر شراب بندی کے قانون کو ختم کیا اور شراب کے لائسنس جاری کیے*

*گائے کے گوشت کی تجارت اور ذبیحہ پر پابندی لگادی*

دیکھ رہے ہیں آپ؟ ایک مسلم اکثریتی آبادی میں شراب کی شروعات اور گائے کے گوشت پر پابندی، کتنی نِیچ ذہنیت کی پالیسیاں ہیں یہ اندازہ لگائیے۔

*شہریت ترمیمی قانون کےخلاف احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریاں*

*پنچایت الیکشن سسٹم  میں گھس پیٹھ*

*مجرمانہ ریکارڈ / Crime Rate زیرو فیصد ہونے کے باوجود سنگین مجرمانہ قانون Prevention of Anti-Social Activities Act (PASA), جسے غنڈہ۔ایکٹ کہا جاتاہے، اسے عمل میں لایا جارہا ہے، اس کےذریعے یہ کوشش ہیکہ ۔ لکشدیپ کے متحرک مسلم نوجوانوں اور بااثر مسلمانوں کو بلاکسی جانکاری کے اٹھا اٹھا کر جیلوں میں بند کردیا جائے-*


*جزیرے میں ایک اور نیا قانون Lakshadweep Development Authority Regulation لایا گیا ہے، یہ زیادہ خطرناک ہے، اور باضابطہ فرنگیوں اور اسرائیلیوں کی طرح مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانے کی منصوبہ بندی ہے، اس قانون کےمطابق: سرکاری انتظامیہ کو گاؤں بسانے یا دیگر ترقیاتی کاموں کےنام پر یہ اختیار ہوگاکہ، وہ زمین کے اصلی مالکان کو ان کی زمین سے بےدخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرسکتےہیں، اسطرح باہری لوگوں کو لکشدیپ میں قابض ہونے کیلیے گھسانے کی منصوبہ بندی ہے*


 *لکشدیپ میں کرونا وائرس*

 ان تمام استعماری ریشہ دوانیوں کا نقطۂ آغاز چونکانے والا ہے، جس پر غور کریں تو یہ سوال اٹھتا ہیکہ ۔ آخر لکشدیپ میں بھاجپا اور آر۔ایس۔ایس کس قدر خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔

*پرفل پٹیل کے آنے سے پہلے تک، لکشدیپ میں ایک بھی کرونا وائرس کا کیس نہیں تھا لیکن پرفل پٹیل نے اپنی تقرری کےبعد لکشدیپ پہنچتے ہی کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قائم شدہ سابقه انتظامات اور قوانین کی جگہ دوسرا نظام متعارف کرایا جس کےبعد جنوری میں جزیرے پر کرونا کا پہلا مریض پایا گیا اور اس کے چند مہینوں بعد ہی لکشدیپ جزیرے پر ۱۲۰۰ لوگ کرونا پازیٹو ہوگئے ہیں !*


 یہ سب مجموعی حالات کی مختصر تفصیل ہے، 

اگر آپ کے پاس ایک عدد زندہ دل، متحرک دماغ اور بصیرت افروز نگاہ ہے، تو ان سب سے ڈرنے کے بجائے، منصوبہ بند زاویے سے سوچیے کہ آپکے ہی ملک میں یہ سب برہمنی توسیعی عزائم کونسے مستقبل کا اشارہ ہیں؟ 

*دراصل آپکے پڑوس میں ایک اور کشمیر تیار ہورہاہے، ایک اور آبادی کو جیل میں تبدیل کرنے کا آغاز ہوچکاہے لیکن آپ کو خبر نہیں ہے،* لکشدیپ کے مسلمانوں کے شہری، انسانی، مذہبی، ثقافتی اور تجارتی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے، جیسے ہماری بےعملی نے جنت نظیر  کشمیر کو ہندوتوا کی انتقامی سیاسی پالیسی کے تحت اجاڑ دیا ویسے ہی لکشدیپ جزیرے کےساتھ کیا جارہاہے، آر۔ایس۔ایس کو پریشانی یہ ہیکہ ایسے مسلم اکثریتی مقامات جو سیاحتی رونق، ثقافتی زندگی اور تہذیبی شناخت کےساتھ آزاد ہیں وہ ملک بھر کے مسلمانوں کی تجارتی کمک کا سبب بن سکتےہیں اور ان کی امن  گاہ، نیز، آر۔ایس۔ایس چونکہ،  نسلی بالادستی کی علمبردار ہے اسلئے وہ کہیں سے بھی اپنے چند مخصوص برہمنی خاندانوں کے سوا کسی کی بھی ترقی کا راستہ کھلا نہیں چھوڑے گی، وہ کسی کی بھی تہذیبی زندگی اور خوشحال فضاء میں سانس لینے کی حریت باقی نہیں رہنے دینا چاہتی ہے، یہ اس کا نظریاتی ہدف ہے، لہذا کشمیر کےبعد ان کے منحوس ہاتھ اب جزیرہ لکشدیپ کو ناپاک کررہے ہیں اس کی خوشبودار مٹی کو روند رہےہیں، اس بابت اگر فوری بیداری اور ملک گیر  اقدام نہیں ہوتاہے تو یاد رکھیں کہ ہندوتوا بالادستی کے نشے میں چور یہ منحوس ظالمانہ ہاتھ ہر جگہ کی خوشحالی اور سرسبزی کو سبوتاژ کرنے پہنچ جائیں گے۔

 اس معاملے میں پورے ملک کے مسلمانوں اور حریت پسند انسانوں کو بہت مضبوطی سے آگے آنا لازمی ہے، ورنہ جہاں بھی مسلمان زمینوں، باغات اور تجارتی لحاظ سے باوزن ہیں کل کو وہاں بھی یہی سب ہوگا ۔

 دنیا میں انسانیت نواز لوگ اگر واقعی بستے ہیں تو انہیں بھی آگے بڑھ کر اس کھلی ہوئی خیانت اور بظاہر Colonialism کی طرف بڑھتی مودی سرکار کی کوششوں کےخلاف للکارنا چاہیے، کیونکہ ایسے توسیع پسندانہ عزائم ناصرف ایک بین الاقوامی طرز حکومت میں خیانت ہیں، بلکہ یہ اس کی آڑ میں انسانوں کا استحصال اور بدترین دھوکے بازی اور ڈکیتی ہے، یہ طریقہ انگریزی استعمار کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا افسوس کہ بھارتی حکومت اپنے ہی ملک میں ایسے راستوں پر چل پڑی ہے جن سے ہم نے آزادی حاصل کرنے کے لیے " جنگِ آزادی " لڑی تھی_


*✍: سمیع اللّٰہ خان*

۲۵ مئی ۲۰۲۱ 

ksamikhann@gmail.com

Wednesday 12 May 2021

فلسطین: گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  فلسطین: گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسو سے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ


مقبوضہ فلسطین کے شیخ جراح علاقہ سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور ان کو نکال باہر کرنے کی اسرائیلی حکومت کی مہم نے القدس کو پھر سے میدان جنگ بنا دیا ہے، جنگ کی یہ آگ مسجد اقصیٰ تک پہونچ گئی ہے، ٢٧/رمضان المبارک کو اسرائلیوں نے مسجد اقصی میں گھس کر عبادت کررہے پر امن اور نہتھے مسلمانوں پر حملہ کردیا، جس میں تین سو کے قریب مسلمان زخمی ہوئے اور کئی کی موت ہوگئی، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور روزانہ سو دو سو مسلمان عورتیں، بچے، بوڑھے جوان اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، اسرائیل نے تمام بین الاقوامی اصولوں، اور قواعد و ضوابط کو بالاۓ طاق رکھ کر شہری علاقوں پر حملہ جاری رکھا ہے؛تاکہ مسلمان ڈر،خوف اور دہشت سے علاقہ کو خالی کردیں اور ان کے عظیم اسرائیل کی تشکیل کا خواب پورا ہوسکے، یوں کہنے کو تو یہ لڑائی فلسطینوں سے زمین ہڑپ کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے نام پر کیا جارہا ہے، لیکن جن کی نگاہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی پر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ ہنگامہ ہے کیوں برپا۔

علاقہ میں الفتح کے جذبہ جہاد کے سرد ہونے کے بعد حماس واحد تنظیم ہے، جس میں اسرائیلیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہے؛لیکن اس کے پاس عسکری قوت و طاقت اور جدید اسلحوں کی کمی ہے، اس لیے وہ اسرائلیںوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں،حماس نے گزشتہ دنوں اسرائیل پر چھ راکٹ داغے؛لیکن اسرائیل کی فوج نے اسے ہدف پر جانے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا، اور اس حملہ میں صرف ایک یہودی جہنم رسید ہوا، بدلے میں  یہودیوں نے جو حملہ کیا تو بیس فلسطینی جاں بحق ہوگئے، حماس کے پاس جذبہ جہاد اور شوق شہادت دونوں ہے لیکن اس جذبہ کو یہودیوں کے ہدف کو ناکام کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ یہودیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے ہیں اور داخلی، خارجی طور پر وہ یہودی منصوبوں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے دلال فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ خالی کر کے گھر لوٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

اردن اور شام کے بعض حصوں پر یہودیوں نے پہلے ہی سے قبضہ جما رکھا ہے، شام خانہ جنگی میں تباہ ہے وہ اسرائیل سے کوئی پنگا نہیں لینا چاہتا کہ کہیں اور علاقہ اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے ، رہ گئے ترکی اور ایران، یہ بیان کی حد تک فلسطین کے ساتھ ہیں، ممکن ہے کچھ مدد بھی بہم پہونچاتے ہوں؛لیکن یمن میں ایرانیوں کی حوثی باغیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ ہے اور حوثی باغی کئی بار سعودی عرب کی مسجدوں کو نشانہ بنا چکے ہیں، ایسے میں ایران اگر کھل کر فلسطینیوں کی  مدد  کے لیے سامنے آتا ہے تو سعودی عرب جنگ کا ایک اور میدان کھول دے گا، جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا، ترکی کا مرد بیدار رجب طیب اردگان کے بیانات سخت آرہے ہیں؛لیکن ٢٠٢٢ء تک سابقہ معاہدہ کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے ہیں، سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد کے معاہدے انہیں کچھ زیادہ ہاتھ پیر پھیلا نے نہیں دیتے۔

مسائل کے حل کرنے کی ایک جگہ مذاکرات کی میز بھی ہوا کرتی ہے، لیکن اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر کئے گئے فیصلے کی کبھی پرواہ نہیں رہی؛ کیوں کہ اس کی پشت پر امریکہ کی مضبوط طاقت ہے اور امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ وہاں نظریہ ساز اداروں پر یہودیوں کا قبضہ ہے،  اس لیے امریکی حکومت کو یہ لوگ جدھر گھماتے ہیں، گھومتی رہتی ہے، امریکہ کی شہ پرہی اس نے اقوام متحدہ کی کتنی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، رہ گئی عرب لیگ تو یورپین ممالک نے مختلف مفادات اور تحفظات کا سہارا لے کر ان کے دانت توڑ رکھے ہیں، اس معاملہ میں بھی گزشتہ سوموار کو عرب لیگ کاورچوئل ہنگامی اجلاس ہوا، جس کا اکلوتا ایجنڈا القدس کی تازہ صورت حال اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی انتقامی کارروائی تھا اس اجلاس میں مذمتی قرارداد اور اسرائیل کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرنے کی بات کہی گئی ہے، اس کا کچھ حاصل نہیں ہے، مذمتی قرارداد بھی اسرائیل کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اور عرب لیگ کا کون ملک آواز اٹھاۓ گا، جتنے بڑے  عرب ملک  کچھ کر سکتے ہیں، ان سب نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں، پہلے بھی ان کے حلق سے آواز نہیں نکلتی تھی، اب تو یہ آواز حلق میں ہی دم توڑ دے گی، شاید گھگھیا کر بھی اپنی بات نہیں رکھ سکیں، یہی حال اسلامی تعاون تنظیم کا ہے، ان کا بھی ہنگامی اجلاس ہوا اور بات مذمتی قرار دادسے آگے نہیں بڑھی،سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ",ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات"

در اصل دنیا میں زندگی گزارنے کے دوہی طریقے ہیں ، ایک ہے تنازع للبقاء اور دوسرا ہے بقاء باہم، اسلام نے تکثیری سماج میں جہاں کئی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، بقاء باہم کے اصول کو ترجیح دیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ ہجرت کے بعد میثاق  مدینہ اس کی بہترین مثال ہے، جس نے مختلف قسم کے نزاعات اور قبائلی جھگڑوں کو امن و شانتی کا ماحول فراہم کیا، اسلام کے قبل زندگی تنازع للبقاء کے اصول پر چل رہی تھی؛جو طاقت ور تھا وہ غالب آکر فریق مخالف کو غلام بنا لیا کرتا تھا، شاعر نے اسی دور کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے۔


زندگی جنگ است جاناں بہر جنگ آمادہ شو

نیست ہنگام تغافل بے درنگ آمادہ شو


اسلام آنے کے بعد بھی یہ سوچ ختم نہیں ہوئی، پہلے لوگ جوع البطن بھوکے پیٹ ہوا کرتے تھے اب طاقتوروں میں ایک اور بھوک آگئی جسے جوع الارض زمین ہڑپنے کی بھوک کہتے ہیں ، اس نے مختلف ملکوں اور علاقوں کو میدان جنگ بنا رکھا ہے ،  اسرائیل بڑی طاقتوں کی شہ پر اسی بنیاد پر روۓ زمین پر وجود پذیر ہوا اور آج فلسطینیوں کی زمین پر فلسطینیوں کے لیے ہی عرصہ حیات تنگ کئے ہوا ہے، بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں، عورتیں بچے شہید ہورہے ہیں اور زبانی جمع خرچی کے علاوہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے، شوشل میڈیا پر ظلم کی کہانی جو تصویروں کی زبانی ہے، وہ دل کو بے چین، دماغ کو پریشان اور قلب و جگر کو چھلنی کیے دےرہی ہے، ہر ہندوستانی بے چین و بے قرار ہے، لیکن اس کے بس میں فتح و نصرت اور ظلم کے خاتمہ کی دعا کے لیے کچھ نہیں بچاہے، ہندوستان کے بعض ملی قائدین کے بیانات سوشل اور پرنٹ میڈیا میں گشت کررہے ہیں:لیکن اس کا فائدہ بھی دل کی بھراس نکالنے اور قلبی ہم آہنگی سے زیادہ نہیں ہے، ہندوستان کی تمام ملی تنظیمیں مل کر عرب حکمرانوں پر اگر دباؤ بنائیں تو شاید کچھ بات آگے بڑھ سکے؛لیکن کورونا کے اس دور میں ان تنظیموں کے سربراہوں کا جمع ہونا ہی کارے دارد، اس سلسلے میں مرض کا دور نہ ہوتا تو کانفرنس کرکے بھی پریشر بنایا جاسکتا تھا؛لیکن موجودہ دور میں وہ بھی ممکن نہیں ہے اور اس سے اسرائیل جیسے پاگل ، انسانیت دشمن ملک سے بہت توقع بھی لگائی نہیں جاسکتی۔

ڈاکٹر اے پی جی عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ مضبوطی اور طاقت کے ساتھ صلح کے میز پر جانا اچھی بات ہے، اس سے فریق مخالف کمزور سمجھ کر دباتا نہیں ہے؛لیکن اگر آپ کمزور ہیں، آپ کے پاس قوت نہیں ہے تو صلح کی میز پر بیٹھنا آپ کی مجبوری  اور کمزوری سمجھی جاتی ہے اور وہاں بھی آپ کو دبانے کا کام ہی ہوتا ہے، یہی وہ سوچ تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے اگنی میزائل کا کامیاب تجربہ کیا،آج جن ملکوں میں ایٹمی طاقت ہے،ان سے سب ڈرتے ہیں، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جن کے پاس قوت تھی انہوں نےویٹو کا پاور  حاصل کر لیا ، جنوبی کوریا جیسا ملک امریکہ جیسے ملک کو آنکھ دکھانے لگتا ہے؛کیوں کہ اس کے پاس بھی ایٹمی قوت ہے، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک مسلم ملکوں کی ایٹمی طاقت کو ختم کرنے کے درپے اسی لیے رہے ہیں. عراق اسی نام پر تباہ کیا گیا، ایران پر پابندیاں اسی بنیاد پر لگیں اور ترکوں کے  خلاف عالمی سازش اسی کا نتیجہ ہے، ایسے لوگوں کے لیے جو بقاء باہم کے اصول پر یقین نہیں رکھتے،قرآن کریم نے پوری استطاعت کے ساتھ قوت کی فراہمی پر زور دیا ہے، یہ قوت اس قدر ہوکہ مخالفین کے دل میں ہییت اور ڈر سما جائے۔برسوں سے جاری فلسطین پر ظلم وستم کی گرما بازاری کے خاتمے کی یہی ایک شکل ہے، صرف صلاح الدین ایوبی کی آمد کا انتظار اور الہی بھیج دے محمود کوئی کی دعا اور کلنڈر پرچھاپ دنیا کافی نہیں ہے، دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں دعاؤں کے ساتھ پر عزم ہوکر تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم ظلم سہتے رہیں گے، آہ و بکا کرتے رہیں گے اور ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

Thursday 6 May 2021

اساتذۂ مدارس اورنظماء کی بےاعتنائیاں

 اساتذۂ مدارس اورنظماء کی بےاعتنائیاں
 محمد امین الرشید سیتامڑھی

اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں، ان کی محنت و کاوش سے بہت سارے ہیرے، جواہرات وجود میں آتے ہیں۔ اگر یہ محنت نہ کریں اور تساہلی سے کام لیں تو ہمیں ہیرے جواہرات نہیں ملیں گے۔ بلکہ نکمے اور ناکارے وجود میں آئیں گے۔ اگر قوم کو اچھے اور صالح افراد مل رہے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں اساتذۂ کرام کا اخلاص، ان کی بے پناہ قربانیاں شامل ہیں کہ یہ ہمیں ایسے افراد فراہم کرتے ہیں جو قوم و ملت کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

اگر یہ اساتذہ نہ رہیں یا انھیں مجبور و لاچار کردیا جائے تو ہمیں اچھے اور بہتر معمار سے ہاتھ دھونا پڑے گا؛ جو کہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہوگا۔

قسمیہ کہوں تو ایسے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو ملک کے مایہ ناز اور بڑے اداروں میں 20،20 30،30 سالوں سے مدرس ہیں مگر ان کی تنخواہیں آج بھی 10،12 ہزار سے زیادہ نہیں۔۔۔

رہائش کے نام پر دو کمروں کا بوسیدہ مکان دے کر زندہ رہنے کے قابل رزق دے کر یہ مہتممین اپنے آپ کو رزق رساں سمجھتے ہیں اور ان مہتممین اور اداروں کے اساتذہ پھر بھی احسان مند ہیں کہ چلو ہمیں رزق ملتا رہا ورنہ ہم فاقوں کی وجہ سے ملحد یا خدا نخواستہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔۔۔

وہ مہتمم حضرات اور شیوخ جو اساتذہ کو سادگی،قناعت، صبر و شکر کا درس دیتے ہیں، اکابرین کے واقعات اور کرامات سنا کر فقر و فاقہ کو خوش قسمتی سے تشبیہ دیتے ہیں کیا ایسے مہتممین اور شیوخ کی اپنی زندگی میں قناعت، سادگی اور گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔۔۔؟

مہتممین حضرات کی لگزری مہنگی گاڑیاں، ضرورت سے زیادہ بڑا عالیشان مکان، صاحبزادوں کی شہزادوں جیسی عیاشیاں، اپنی بیٹی بیٹے کی شادی پر لاکھوں کے خرچے شہر کے مہنگے شادی ہالوں میں شادیاں۔۔۔

اس سسٹم میں پسنے والا مظلوم طبقہ مدرسین کا ہوتا ہے جن کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا، استادوں کی اپنی کوئی یونین یا تنظیم نہیں ہوتی، ان کے لئے قانون کی کسی کتاب میں کوئی باب نہیں، یہ طبقہ صدیوں سے یونہی پستا آرہا ہے

بہت سے ادارے ایسے بھی ہیں جو اساتذہ 

تنخواہیں دیتے رہے ، دیگر ضروریات کی تکمیل کی بھی کوشش کی ، جو قابل تعریف اور لائق تقلید عمل ہے ، اللہ تبارک وتعالی ایسے تمام نظماء مدارس اور متولیان مساجد کو اپنی شایان شان جزا عطا فرمائے ، کہ انہوں نے خدمت گزاری کا حق ادا کیا ، وفاداری کے نمونے پیش کیے ، انسانیت کا سر بلند کیا اور اسلامی اور شرعی حکم کی بالادستی کو قائم رکھا۔

بعض مدارس نے مدرسین کے سامنے واضح کردیا کہ موجودہ پریشانی کی وجہ سے وہ مکمل تنخواہ ادا نہیں کرسکتے ، لیکن حالات صحیح ہونے کے بعد سابقہ باقی تنخواہ کی بھی ادائیگی کردی جائے گی، ان کا یہ عمل احتیاط پر مبنی ہے اور اسے غیر درست نہیں کہا جاسکتا ، کیوں کہ پریشانی کے عالم میں اساتذہ کو بھی مدرسے کا اتنا تعاون کرنا ہی چاہیے اور وہ ماشاء اللہ کر رہے ہیں

*مدرسین مدرسہ کی چھٹیوں کے ایام کی تنخواہ کے حق دار ہیں یا نہیں؟*

*سوال*

مدرسین کی تنخواہ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کو شوال تا رمضان دیاکریں گے؟ یا جب سے مدرسہ آیا ہے اس وقت سے اور جس مہینہ مدرسہ میں چھٹی ہوتواس مہینہ کی تنخواہ ملنی چاہیےیانہیں؟ 

*جواب*

واضح رہے کہ مدارس کے مدرسین کے ساتھ تدریس کا جو معاہدہ ہوتا ہے، اس کی تین ممکنہ صورتیں ہیں: الف:… معاہدہ میں یہ طے ہو کہ مدرسین کے ساتھ یہ عقد سالانہ بنیادوں پر ہے، ایسی صورت میں حکم واضح ہے کہ انہیں ایامِ تعطیلات یعنی شعبان ورمضان کی تنخواہ بھی ملے گی، کیوں کہ ایامِ تعطیلات، ایامِ پڑھائی کے تابع ہیں۔ مدرسین کو اُن میں آرام کا موقع دیاجاتاہے، تاکہ اگلے سال پورے نشاط کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔

ب:… معاہدہ میں کسی بات کی وضاحت نہ ہو کہ اس عقد کی مدت کتنی ہے! تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاہدہ کو مسانہۃً (سالانہ) شمار کیا جائے گا، کیوں کہ مدارس کے عرف میں تدریس کا معاہدہ مسانہۃً ہوتا ہے۔

ج:… معاہدہ میں اس بات کی شرط ہو کہ یہ معاملہ شوال سے رمضان تک ہوگا، اگلے سال معاہدہ کی تجدید ہوگی، اور مدرسین بھی اس بات پر راضی ہوں تو ایسی صورت میں یہ معاملہ مسانہۃً نہیں ہوگا، بلکہ تصریح کے مطابق شوال سے رمضان تک شمار ہوگا اور مذکورہ مدرسین رمضان کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔

اس مشکل دور میں ہر کسی کا گھر کسی نا کسی طرح متأثر ہوا ہے، ان میں سب سے زیادہ پریشان کن حالات میں پایا جانے والا ایک طبقہ اساتذۂ مدارس بھی ہے ۔ جن مدرسوں میں یہ پڑھا رہے تھے وہاں کے ناظمین ، یا مہتمم حضرات نے اپنے مدرسین کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا ہے اس سے بھی بہت حد تک لوگ واقف ہیں۔ پرائیویٹ اساتذۂ کرام تو اس وقت بہت ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، بہتوں نے تو اپنا راستہ ہی الگ اختیار کرلیا ہے، اور منتظمین سے بدظن ہیں۔ ان کی خیر و خبر اہل ثروت حضرات ضرور لیں، اور ایسے قابل اساتذۂ کرام کی مالی تعاون بھرپور انداز میں کریں۔

ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عقل سلیم عطا فرمائے. اور ہم سب کو اساتذۂ کرام کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یارب العالمین

*محمد امین الرشید سیتامڑھی ابن حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب مظاہری علیہ الرحمہ سابق استاد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی*

اس سادہ سی تحریر نے آبدیدہ کردیا۔!!!!!


اس سادہ سی تحریر نے آبدیدہ کردیا۔!!!!!


ایسی داستان جو دل کو منور کردے

 
میں ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔ اندر داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔ 
میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دکاندار اپنی دکانوں کے لئے سبزی خرید کر اپنی بوریوں میں ڈالتے ہیں تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا ہے۔
میں یہ ماجرہ دیکھ کر تشویش میں پڑ گیا کہ آخر چکر کیا ہے۔ میں اس بچے کو چوری چھپے فالو کرنے لگا۔ جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی اونچی آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دکان سے اٹھا جس کی دکان کے سامنے اس بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی، اس شخص نے آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا۔ ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو لئے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی۔ بھلا ہو اس شخص کا جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی  اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہیں کہا۔ تھوڑی سی سبزی تھی، جلد ہی فروخت ہو گئی۔ وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ 
میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ بچہ سکول پہنچا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔ جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔ میں نے جلدی سے جا کر استاد کو منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔
استاد کہنے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک گھنٹا دیر سے آتا ہے۔ میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔ لیکن پھر بھی.................
بچہ مار کھانے کے بعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ تو بھول ہی گیا ہوں۔
حسب معمول بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ہوگی۔ ساری رات اس کو سوچ سوچ کر میرا سر چکراتا رہا۔ 
اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم پر ہر حال میں منڈی پہنچئے۔ جس پر مجھے مثبت جواب ملا۔
سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا وقت ہوا اور حسب معمول بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔
میں نے اس کے گھر جا کر اس کی والدہ سے کہا کہ: "بہن جی! میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے"۔ 
وہ فوراً میرے ساتھ یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ "آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہیں، چھوڑوں گی نہیں اسے آج"
منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا۔ ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔ حسب معمول آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔۔
اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی درد بھری سسکیاں لے کر زار و قطار رو رہی تھی اور میں نے فوراً اس کے استاد کی طرف دیکھا تو ان کے بھی بہت شدت سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں کے رونے میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو اور آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو۔
اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔ 
حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دئے اور آج اس کو دکان دار نے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا سوٹ لے لو۔ بچے نے سوٹ لے کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔ آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا، وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دئے کہ استاد ڈنڈے سے اس کو مار لے۔
استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس قدر زور سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لئے ہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے پاس جسم کو مکمل ڈھانپنے والا کوئی سوٹ نہیں ہے اس لئے میں نے اپنی ماں کے لئے یہ سوٹ خریدا ہے۔ 
یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو دو گے؟؟؟ میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔
جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔ 
بچے نے جواب دیا: "نہیں انکل جی! چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دینا ہے اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے سلائی دینی ہے۔۔۔۔

Wednesday 5 May 2021

یادوں کے چراغ،حضرت مولانا خلیل امینی

          یادوں کے چراغ
حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رح۔-----آتی ہی رہےگی تیرے انفاس کی خوشبو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاد، اس کے ترجمان الداعی کے باوقار مدیر، دسیوں کتابوں کے مصنف، مؤلف، مرتب، اور مترجم، قصر علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب، خوش مزاج، خوش وضع، خوش کردار، عالم اسلام کی زبوں حالی پر اشک بار، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی ابو اسامہ نور (ولادت ١٨/دسمبر ١٩٥٢ء) مطابق یکم ربیع الآخر ١٣٧٢ھ)بن حافظ خلیل احمد (مارچ ١٩٥٣ء)بن رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی کا ٢٠/رمضان ١٤٤٢ھ مطابق ٣/مئی ٢٠٢١ء صبح کے سوا تین بجے میرٹھ کے آننداسپتال میں انتقال ہوگیا انا للہ و انا الیہ راجعون، جنازہ دیوبند لایا گیا، احاطہ مولسری میں  بعد نما ز ظہرمولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مزار قاسمی میں جہاں اولیاء کرام، صلحاء عظام اور اساتذہ دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد مدفون ہے، جگہ پائی،رمضان کا مہینہ، وبائی مرض میں موت کو مغفرت اور بخشش کے پروانے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے پس ماندگان میں تین لڑکے، چار لڑکیاں اور ایک اہلیہ کو چھوڑا۔سدا رہے نام اللہ کا۔
حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی کا آبائی وطن راۓ پور موجودہ ضلع سیتامڑھی ہے، لیکن آپ کی ولادت آپ کے نانا بابو جان بن محمدنتھو بن محمد یار علی صدیقی کے گھر ہرپور بیشی ضلع مظفرپور میں ہوئی، یہ جگہ اورائ کے قریب ہے، شمالی بہار میں ماضی قریب تک یہ روایت رہی ہے کہ  خاص کر پہلے بچے کی ولادت کے موقع سے لڑکی کو میکے بلا لیا جاتاتھا؛ چنانچہ مولانا کی والدہ سلیمہ خاتون کو بھی میکے بلا لیا گیا تھا، ولادت کے صرف تین ماہ کے بعد مارچ ١٩٥٣ء میں والد اللہ کو پیارے ہوگئے، دادا پردادا کی زندگی ہی میں گذر گئے تھے؛ اس لیے والد محجوب تھے جس کی وجہ سے زمین جائداد بھی نہیں ملی، یتیمی اور بے سروسامانی میں دادی مقیمہ خاتون نے مدت رضاعت کے بعد پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، والدہ صرف انیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں، اس لیے ان کی دوسری شادی مولانا کے چچیرے ماموں محی الدین بن محمد نتھو سے ہوگئی، لیکن وہ بھی ١٩٦٧ء میں داغ مفارقت دے گئے اور چونتیس سال کی عمر میں مولانا کی والدہ کودوبار کی بیوگی کے صدمہ نے  نڈھال کردیا، اسی غمناک ماحول میں مولانا کی پرورش و پرداخت ہوتی رہی۔
رسم بسم اللہ مولانا کے نانا بابو جان نے ادا کی، پھر مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے سامنے راۓ پور میں زانوئے تلمذ تہہ کیا، راۓ پور کے بعد مدرسہ نورالہدی پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں داخل ہوۓ، وہاں سے ١٣٨٠ھ مطابق جون ١٩٦٠ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ چلے آئے، درجہ حفظ میں داخلہ لیا؛لیکن سات پارے حفظ کرنے کے بعد درجہ ششم اردو میں منتقل ہو گئے، یہ ١٩٦١ء کا سال تھا، کم و بیش تین سال یہاں قیام پذیر رہے اور مولانا محمد اویس صاحب راۓ پوری اور مولانا محمد تسلیم صاحب سیدھولوی کی تربیت میں رہے، اس کے بعد دارالعلوم مؤ کا رخ کیا، ١٣٣٨ھ مطابق ١٩٦٤ء میں یہاں عربی اول میں داخلہ ہوا، مولانا ریاست علی بحری آبادی، مولانا امین صاحب ادروی عرف دادا، مولانا شیخ محمد مؤی ، مولانا نذیر احمد مؤی (م٢٠٢٠ء)مولانا نیاز احمد جہان آبادی، مولانا سلطان احمد مؤ ی،مولانا ریاض الحق مؤی، مولانا عبد الحق اعظمی، قاری محمد یسین اور مولانا محمد اسلام الدین مؤی سے کسب فیض کیا، ١٦/شوال ١٣٨٧ھ مطابق ٢٠/دسمبر ١٩٦٧ء کو آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوگیا،یہاں خاص طور سے عربی زبان وادب کی تعلیم مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی رح سے پائی اور مہارت تامہ پیدا کیا، یہاں کے دیگر اساتذہ میں حضرت مولانا معراج الحق ، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا نصیر احمد خاں، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، مولانا شریف الحسن، مولانا قمر الدین، مولانا خورشید احمد، مولانا حامد میاں اور مولانا بہاء الحسن صاحبان کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ابھی فراغت نہیں ہوئی تھی کہ دارالعلوم کے طلبہ نے بعض معاملات کو لے کر اسٹرائک کردیا، کئ نامور طلبہ کے ساتھ مولانا کا نام بھی اس سے جڑ گیا، اور اس پاداش میں جن طلبہ کا اخراج ہوا، ان میں ایک نام مولانا مرحوم کا بھی تھا، یہ بڑا جاں گسل موقع تھا، ایسے میں مولانا محمد میاں صاحب رح آگے آۓ اور انہوں نے اس ہونہار طالب علم کو ضائع ہونے سے بچا لیا وہ مولانا کومدرسہ امینیہ دہلی لے آۓ، اور یہیں سے سند فراغت پائی، اس پریشان کن وقت میں مدرسہ امینیہ نےدست تعاون دراز کیا اورسنبھالا تھا، فراغت بھی یہیں سے ہوئی تھی ، اس لیے مولانا نے اعتراف کے طور پر  اپنے نسبی باپ کے نام کے ساتھ اس روحانی باپ کے نام کو بھی اپنے نام کا جز بنا لیا اور امینی لکھنے لگے
تدریسی زندگی کا آغاز دارالعلوم ندوۃ العلماء سے کیا، ١٩٧٢ء سےبقول مولا عبدالمتین منیری بھٹکلی١٩٧٧ء تک یہاں تدریس کے فرائض انجام دیے، یہاں کا ماحول مولانا کی عربی زبان دانی اور حاصل شدہ مہارت کو صیقل کرنے کے لیے انتہائی خوش گوار تھا، حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اور مولانا محمد ثانی حسنی ندوی کی نگارشات کا مولانا نےمطالعہ ڈوب کر کیا، وہاں سے نکلنے والے عربی اخبارات ورسائل اور خود حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی کی ادارت میں نکلنے والے جمعیت علماء کے ترجمان الکفاح سے عربی صحافت کے اسرار و رموز سیکھے اور واقفیت بہم پہنچائی، انہوں نے عربی کے قدیم وجدید ادباء کی کتابیں کھنگال ڈالیں،جاحظ کے اسلوب وتعبیرات سے وہ بہت متأثر ہوئے؛چنانچہ ان کی عربی تحریروں میں یہ رنگ غالب آگیا۔بقول مولانا منیری ندوۃ العلماء کے بعد مولانا مدرسہ کاشف العلوم اورنگ آباد چلے گئے اور ١٩٨٢ تک وہیں خدمت انجام دیتے رہے
١٩٨٣ء میں دارالعلوم دیوبند میں انقلاب آیا، اہتمام و انتظام بدلا، الداعی کے ایڈیٹر مولانا بدر الحسن قاسمی دارالعلوم اور الداعی سے قطع تعلق کرکے کچھ دن برزخی زندگی گذار کرکویت تشریف لے گئے، ایسے میں مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح جو ان دنوں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم تھے نے ضرورت محسوس کی کہ مولانا کوالداعی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم بلا لیا جائے؛ چنانچہ مولانا نے اپنی علمی عبقریت و عظمت کی وجہ سے مادر علمی میں اپنی جگہ بنا لی اور الداعی کی ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم چلے آئے، یہاں بحال ہونے کے بعد مولانا تدریب کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے اور کئ ماہ وہاں مقیم رہے، اس دوران میرا قیام دارالعلوم دیوبند میں تھا اور دارالافتاء میں بحیثیت طالب علم داخل تھا، مولانا وحیدالزماں کیرانوی سے قربت بھی تھی، اس لیے مولانا کے غائبانہ میں الداعی کا کام میرے درسی ساتھی مولانا عتیق اللہ قاسمی سہرساوی دیکھنے لگے اور نظر نہائ کا کام حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح خود کیا کرتے تھے، مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کی واپسی کے بعد مولانا عتیق اللہ قاسمی صاحب شیخ الہند اکیڈمی منتقل ہوگئے اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی زیر نگرانی الدراسات العلیاء کے نام سے عربی رسالہ نکالنے لگے، بعد میں مولانا عتیق اللہ قاسمی کی خدمت امارت شرعیہ کو حاصل ہوگئی اور چندسال کے بعد عارضہ قلب میں پٹنہ میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
مولانا تدریب سے لوٹنے کے بعد الداعی کے ساتھ دارالعلوم میں بحیثیت مدرس بھی خدمت انجام دینے لگے اور  عربی زبان وادب خصوصاً تکمیلِ ادب کے اسباق ان سے متعلق ہوگئے، مولانا نے پوری دلجمعی کے ساتھ دونوں کام کو سنبھالا اور عالم عرب کے لیے علماء دیوبند کی کتابوں کو ترجمہ کرکے شائع کیا، علماء دیوبند کے افکار و خیالات کی ترویج و اشاعت کے لئے اداریئے اور مضامین لکھے، بعض اہم موضوع پر عربی میں کتابیں تصنیف کیں، فلسطین کے مسائل پر توجہ مبذول کرانے کے لیے فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں لکھ کر اسے شائع کرایا، یہ کتاب عربی و اردو دونوں میں شائع ہوئی، کتاب کے افکار و خیالات کی روشنی میں آسام یونیورسٹی سے اس پر اسکالر نےتحقیقی مقالہ لکھ کر پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی گئی۔
مولانا عربی صحافی اور ادیب کی حیثیت سے عالم عرب تک متعارف ہوئے اور ہندوستان والوں نے بھی ان کی عربی نثر کو اعلیٰ ادبی نمونہ قرار دیا۔
اس وقت مولانا کی اردو ادیب کی حیثیت سے کوئی چیز نہیں آئی تھی، اس لیے اردو  کے ادباء اور فقہ و حدیث کے ماہرین کا حلقہ بقول ان کے" اِن کو عربی آوے ہے" سے ہی جانتا تھالیکن مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح کے انتقال کے بعد ان کی پہلی  اردو کتاب "وہ کوہ کن کی بات" آئی، مولانا سے عقیدت و محبت، حق شاگردی اور جدائی کے غم نے اردو ادب میں ایسی کتاب ان سے تصنیف کروادی جو سوانحی ادب کا بہترین مرقع بن گئی، جس کو دل کے آنکھوں سے پڑھاگیا، واقعات و خیالات، جذبات و احساسات کی اتنی صحیح عکاسی کسی دوسری کتاب میں دیکھنے کو نہیں ملی، حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی رح نے اس کتاب کے اسلوب اور حقیقت بیانی سے متأثر ہوکر فرمایا کہ اگر نور عالم جیسا شاگرد ہوتو مرجانے میں ہی فائدہ ہے۔
اس کے بعد مولانا نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا، حرف شیریں، پس مرگ زندہ ، رفتگان نا رفتہ، فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، صحابہ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہاہے، عالم اسلام کے خلاف صلیبی اور صہیونی جنگ۔حقائق و دلائل، خط رقعہ کیسے لکھیں جیسی اہم کتابیں دنیائے علم و ادب کو دیں، ان کتابوں میں تاریخ بھی ہے، ادب بھی ہے، خاکے بھی ہیں، عالم اسلام کا درد و کرب بھی ہے، اسلام کی حقانیت کو عصری زبان میں ثابت کرنے کی لائق تحسین کوشش بھی ہے، سب کتابوں میں اعلیٰ ادبی تعبیرات اور پرکشش جملے دامن دل کو کھینچتے ہیں اور آدمی اس کے مطالعہ پر خود کو مجبور پاتا ہے، کہنا چاہیے کہ مولانا نے تاریخی ذوق مولانا محمد میاں صاحب رح سے حاصل کیا تھا اور ادبی ذوق نیز نستعلیقی رہن سہن کا طریقہ مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح سے سیکھا تھا، عربی تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، اس زبان میں ان کی تصنیفات کی تعداد سات  بتائ جاتی ہے؛جب کہ انہوں نے پچیس کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا، جن میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مفتی محمد تقی عثمانی، قاری محمد طیب ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا منظور احمد نعمانی، حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، مولانا سعید الرحمن اعظمی، ڈاکٹر خورشید احمد صاحبان وغیرہ کی تصانیف شامل ہیں، ان  کےعلاوہ بر صغیر ہندوپاک کے رسائل اور عالم عرب کے عربی مجلات میں پانچ سو سے زائد علمی و ادبی مقالے شائع ہوکر مقبول ہو چکے ہیں۔مولانا کی عربی زبان وادب کی خدمات کا حکومتی سطح پر اعتراف کیا گیا؛چنانچہ ٢٠١٨ء میں موجودہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے صدارتی توصیفی سند سے نوازا۔
مولانا سے میرے تعلقات کی نوعیت استاذی و شاگردی کی نہیں تھی، اس لیے ان کی درسی خصوصیات پر میرے لئے کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے، وہ جب دارالعلوم تشریف لائے تو میں افتاء میں تھا اور افتاء کی تکمیل کے بعد میں وطن واپس ہوگیا، مولانا سے فون پر رابطہ رہا،بیش تر کسی کام سے ان کا ہی فون آتا، میں ایسے ہی فون کرنے میں کوتاہ واقع ہوا ہوں، حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی رح فرمایا کرتے تھے کہ آپ تو پہلے استخارہ کریں گے، پھر دورکعت نماز پڑھیں گے تب مجھ کو فون کرنے کی سوچیں گے؛ ایسا ہی کچھ مولانا سے رابطہ میں ہوا کرتا تھا؛لیکن مولانا نہیں بھولتے تھے، میرے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کہیں کوئی تاریخی سقم سمجھ میں آتا تو فوراً فون کرتے، حوصلہ افزائی فرماتے پھر اس غلطی کی نشان دہی کرتے، میں جب کبھی دیوبند جاتا تو ملاقات کا وقت دیتے، ناشتہ اور چاۓ کراتے، اندازہ ہوتا کہ یہ وقت بھی انہوں نے میری دل جوئی کے لیے نکالا ہے، ورنہ ان کے نظام الاوقات میں ملنے ملانے کی گنجائش کم ہی ہوتی تھی۔مولانا سے میری آخری ملاقات امارت شرعیہ پٹنہ میں ہوئی تھی، وہ وفاق المدارس الاسلامیہ کے تدریب المعلمین کے پروگرام میں میری دعوت پر تشریف لائے تھے،یہ تین روزہ پروگرام تھا اور المعھد العالی کے ہال میں منعقد ہوا تھا، مولانا نے عربی درس و تدریس اور انشاء کے حوالہ سے کئی محاضرے دئیے،پہلا محاضرہ ان کا استحضار نیت پر تھا، پھر عربی بولنے لکھنے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی، فرمایا: اگر عربی اور اردو میں مضمون لکھنا چاہتے ہوتو ڈائری پابندی سے لکھو،اور اس کے لکھنے کا طریقہ مولوی ثناء الہدیٰ سے سیکھو، میں نے وہ کوہ کن کی بات میں ان کی ڈائری سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے دوسرے ایڈیشن میں بہت کچھ ان کے مضمون کیمپ ڈائری کے چند اوراق سے حوالہ کے ساتھ نقل کیا ہے، مولانا کا اتنا کہہ دینا  میرے لیے باعثِ سعادت بھی ہے اور سند بھی۔مولانا نے اس موقع پر جو محاضرے دئیے، اسے کیسٹ سے نقل کراکر میں نے انکی خدمت میں نظر ثانی کے لیے بھیجا تھا مگر مولانا اس کے لیے وقت نہیں نکال سکے مجبوراً میں نے تقریر کو اسلوب تحریری دے کراپنی کتاب" مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس"میں شامل کردیا تھا، جو مطبوعہ شکل میں موجود ہے، یہ آخری ملاقات تھی جو آمنے سامنے مولانا سے ہوئی، اس کے بعد پھر کوئی ملاقات یاد نہیں ہے، حالانکہ ابھی کوئی چار ماہ قبل وہ  بہار آئے تھےجو  ان کا آخری سفر بن گیا ۔
میرا فون پر آخری بار رابطہ ان سے ٢٠١٩ء میں ہوا تھا، ان کی لڑکی کا رشتہ چکنوٹہ ویشالی کے ایک خاندان میں لگا تھا، وہ لوگ مقیم تو دہلی میں تھے؛لیکن رہنے والے ویشالی کے تھے، مولانا نے بغرض تحقیق مجھے فون کیا، اور فرمایا: کہ جب بھی آپ کو فون کرتا ہوں، کوئی نہ کوئی غرض اپنی شامل ہوجاتی ہے، پھر انہوں نے میرے ذمہ تحقیق کا کام کیا، میں نے تحقیق کے بعد حضرت کو خبر دی؛چنانچہ یہ رشتہ پائہ تکمیل کو پہونچا، مولانا نے اس کے لیے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ جب بھی ادھر آیا ، آپ کے گھر ضرورآؤں گا، مولانا کا ادھر کا سفر نہیں ہوا، محرومی میرا مقدر ر ہی اور مولانا نے رخت سفر باندھ لیا، اب ملاقات قیامت ہی میں ممکن ہے، اللہ مولانا مرحوم کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔سیئات سے درگذر فرماۓ اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے؛جہاں تک جدائی کے صدمہ کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ 
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

Monday 3 May 2021

پانچ ریاستوں میں جیتنے والے مسلم امیدوار ایک نظر میں

       پانچ ریاستوں میں جیتنے والے مسلم امیدوار ایک نظر میں-



مغربی بنگال: (1)حمیدالرحمان (ٹی ایم سی)، (2)عبدالکریم چودھری (ٹی ایم سی)، (3)محمد غلام ربانی (ٹی ایم سی)، (4)آزاد منہاج العارفین (ٹی ایم سی) (5)مشرف حسین (ٹی ایم سی)، (6)تعرف حسین منڈل (ٹی ایم سی)، (7)تجمل حسین (ٹی ایم سی)، (8)عبدالرحیم بخشی (ٹی ایم سی)، (9)یاسمین شبینہ (ٹی ایم سی)، (10)محمد عبدالغنی (ٹی ایم سی)، (11)منیر الاسلام (ٹی ایم سی)، (12)آخرالزماں (ٹی ایم سی)، (13)علی محمد (ٹی ایم سی)، (14)ادریس علی (ٹی ایم سی)، (15)سومک حسین (ٹی ایم سی)، (16)ہمایوں کبیر (ٹی ایم سی)، (17)ربیع ا لعالم چودھری (ٹی ایم سی)، (18)حسن الزماں شیخ (ٹی ایم سی) (19)نعمت شیخ (ٹی ایم سی)، (20)شاہینہ ممتاز خان (ٹی ایم سی)، (21)رفیق الاسلام (ٹی ایم سی)، (22)عبدالرزاق (ٹی ایم سی)، (23)نصیر الدین احمد (لعل) (ٹی ایم سی)، (24)کلول خان (ٹی ایم سی)، (25)رکبان الرحمان (ٹی ایم سی)، (26)عبدالرحیم قاضی (ٹی ایم سی)، (27)رحیمہ مونڈل (ٹی ایم سی)، (28)اسلام ایس کے نورل حاجی (ٹی ایم سی)، (29)رفیق الاسلام منڈل (ٹی ایم سی)، (30)محمد نسود صدیقی (آر ایس ایم پی)، (31)احمد جاوید خان (ٹی ایم سی)، (32)فردوسی بیگم (ٹی ایم سی)، (33)عبدالخلیق ملا (ٹی ایم سی)، (34)فرہاد حکیم (ٹی ایم سی)، (35)گلشن ملک (ٹی ایم سی)، (36)صدیق اللہ چودھری (ٹی ایم سی)، (37)شیخ شاہنواز (ٹی ایم سی)۔ 
آسام : (38)صدیق احمد (کانگریس)، (39)عبدالعزیز (اے آئی یو ڈی ایف)، (40)ذاکر حسین لشکر (اے آئی یو ڈی ایف)،(41)سجام الدین لشکر (اے آئی یو ڈی ایف)، (42)نجم الدین چودھری (اے آئی یو ڈی ایف)،(43)کریم الدین بربوہیا (اے آئی یو ڈی ایف)،(44)مصباح الاسلام لشکر (کانگریس)، (45)خلیل الدین (کانگریس)، (46)نومل مومن (بی جے پی)، (47)محمد امین الاسلام(اے آئی یو ڈی ایف)، (48)وزیر علی چودھری (کانگریس)، (49)نذرالحق (اے آئی یو ڈی ایف)،(50)نزانرحمان (اے آئی یو ڈی ایف)، (51)عبدالسبحان علی سرکار (کانگریس)، (52)حافظ بشیر احمد (اے آئی یو ڈی ایف)، (53)شمس الہدی (اے آئی یو ڈی ایف)، (54)عبدالباطن (کانگریس)، (55)عبدالکلام رشید (کانگریس)، (56)عبدالرشید (کانگریس)،(57)آفتاب الدین ملا(کانگریس)، (58)عبدالرحیم احمد (کانگریس)، (59)رفیق الاسلام (اے آئی یو ڈی ایف)، (60)شیرمن علی احمد (کانگریس)، (61)ذاکر حسین (کانگریس)، (62)اشرف الحسین (اے آئی یو ڈی ایف)، (63)رقیب الدین احمد (کانگریس)، (64)مجیب الرحمان (اے آئی یو ڈی ایف)، (65)ڈاکٹر آصف محمد نذر (کانگریس)، (66$آصف الاسلام (اے آئی یو ڈی ایف)، (67)نورالہدیٰ (کانگریس)، (68)رقیب الحسین (کانگریس)، (69)سراج الدین اجمل (اے آئی یو ڈی ایف)۔ 
تمل ناڈو: (70)ایس ایم نصر (ڈی ایم کے)، (71)اذہلان این (ڈی ایم کے)، (72)جے ایم ایچ اسان مولانا (کانگریس)، (73)عبدالصمد (ڈی ایم کے)، (74)عبدالوہاب (ڈی ایم کے)،۔ 
کیرالہ: (75)اے کے ایم اشرف(انڈین یونین مسلم لیگ)، (76) ایڈوکیٹ اے این شمشیر (سی پی آئی ایم)، (77)ایڈوکیٹ ٹی صدیقی (کانگریس)، (78)احمد دیوراکوول (آئی این ایل)، (79)ایڈوکیٹ پی ٹی اے رحیم (آزاد)، (80)ڈاکٹر ایم کے منیر (انڈین یونین مسلم لیگ)، (81)ٹی وی ابراہیم (انڈین یونین مسلم لیگ)، (82)پی کے بشیر (انڈین یونین مسلم لیگ)، (83)ایڈوکیٹ یو اے لطیف (انڈین یونین مسلم لیگ)، (84)نجیب کنتھا پورم (انڈین مسلم لیگ)، (85)پی عبیداللہ (انڈین مسلم لیگ)، (86)عبدالحمید ماسٹر (انڈین مسلم لیگ)، (87)کے پی اے مجید (انڈین مسلم لیگ)، (88)وی عبدالرحمان (این ایس سی) (89)محی الدین (انڈین یونین مسلم لیگ)، (90)پروفیسر عابد حسین (انڈین مسلم لیگ)، (91)ڈاکٹر جلیل (آزاد)، (92)محمد محسن (سی پی آئی)، (93)شفیع (کانگریس)، (94)اے سی معین الدین (سی پی آئی ایم) ، (95)این کے اکبر(سی پی آئی ایم)، (96)انور سادات (کانگریس)، (97)ایم نوشاد (سی پی آئی ایم)۔ 
پڈوچیری: (98)اے ایم ایچ ناظم (ڈی ایم کے)

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...