Sunday 25 July 2021

امیر شریعت ثالث: حضرت مولانا سید شاہ محمد قمر الدین جعفری زینبی رح

 امیر شریعت ثالث: حضرت مولانا سید شاہ محمد قمر الدین جعفری زینبی رح


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ


دارالعلوم خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سابق استاذ، خازن بہشت (فارسی) اور اشارات الکتب الی اباحۃ ایصالِ الثواب (اردو)کے مصنف حضرت مولانا سید شاہ محمد قمر الدین جعفری زینبی  بن مولانا سید شاہ بدرالدین قادری  بن مولانا سید شاہ شرف الدین قادری رحمھم اللہ اجمعین امارت شرعیہ بہار اور اڈیشہ کے تیسرے امیر شریعت تھے۔٣/ذیقعدہ ١٣١٢ھ میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں تولد ہوئے، اور ١٩/جمادی الاخری ١٣٧٦ھ مطابق ٢١/جنوری ١٩٥٧ء کو دنیا سے رخت سفر باندھا، جنازہ کی نماز حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ قادری سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف نے پڑھائی اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان باغ مجیبی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک صاحب زادہ مولانا سید شاہ عماد الدین قادری رح اور دو صاحب زادیوں کو چھوڑا، ان میں سےایک صاحب زادی، حضرت مولانا سید شاہ عون احمد قادری رح کے نکاح میں تھیں۔

امیر شریعت ثالث نے ابتدا سے متوسطات تک کی کتابیں حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری جعفری زینبی اور مولانا عبد العزیز امجھری سے پڑھیں، درسیات کی تکمیل مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے کیا، یہاں انہوں نے مولانا عبد المجید صاحب راجوی دربھنگوی اور مولانا مقبول احمد خاں صاحب دربھنگوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،  یہ١٣٣٩ھ کا سال تھا، پہلی دستار بندی مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں ہوئی، اور دوسری خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں ، علماء ، مشائخ، صاحب دل  اور اہل نسبت بزرگ دونوں جگہ موجود تھے، تصوف میں تمام سلاسل کی تعلیم وتربیت اپنے والد سید شاہ بدرالدین قادری رح سے پائی اور اس راہ میں کامل ہونے کے بعد اجازت و خلافت بھی انہیں سے ملی، حرمین شریفین کی زیارت اور حج بیت اللہ کی سعادت دوبار نصیب ہوئی، ایک بار ١٣٤٧ھ  اور دوسری بار ١٣٥٣ھ میں  ۔ان دونوں موقعوں سے آپ نے شیوخ حرمین، علماء کرام اور صاحب نسبت بزرگوں سے بھرپور استفادہ کیا، مختلف طرق سے سند حدیث اور مختلف سلاسل میں اجازت بیعت بھی حاصل ہوئی، سید عبداللہ بن محمد غازی نے قصیدہ بردہ کی اجازت مرحمت فرمائی، تاریخ ٢/ذی الحجہ ١٣٥٣ھ کی تھی، سید احمد شریف نوسی  نےسلسلہ قادریہ اور تمام سلاسل و مرویات کا تحریری اجازت نامہ ٩/محرم ١٣٤٨ھ کو آپ کو عطا کیا تھا، مولانا غلام دستگیر نے بھی احادیث کی روایت اور سلاسل کی سند سے سرفراز فر مایا، عرصہ دراز تک دارالعلوم مجیبیہ کے مؤقر استاذ کی حیثیت سے درس وتدریس کےسلسلہ سے وابستہ رہے، بہت سارے طلبہ نے آپ سے کسب فیض کیا۔فیض علمی بھی منتقل کیا اور  فیض روحانی بھی۔

امیر شریعت ثانی کے وصال کے بعد ٧/٦/شعبان ١٣٦٦ھ مطابق ٢٧/٢٦/جون ١٩٤٧ء کو ڈھاکہ موجودہ ضلع مشرقی چمپارن میں امیر شریعت ثالث کی حیثیت سے منتخب ہوئے، انتخاب امیر شریعت کے اس اجلاس کی صدارت مشہور محقق،مؤرخ اور عالم دین مولانا سید محمد میاں صاحب رح نے فرمائی، مجلسِ استقبالیہ کے صدر شیخ التفسیر حضرت مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری تھے۔

اجلاس میں امیر شریعت کے لیے چار نام، مولانا منت اللہ رحمانی، علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا قاضی سید نور الحسن، مولانا سید شاہ محمد قمر الدین، مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری اور مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت کے اسماء گرامی قدر پیش ہوئے، ان میں  آخر کے دوناموں کا اضافہ مجلسِ استقبالیہ نے کیا تھا؛ گویا کہ امیر شریعت کے لیے چھ نام پیش ہوئے، کوئی جھگڑا انتشار،اورافتراق اس لیے نہیں ہوا کیونکہ ان میں کوئی بھی عہدہ کا طلب گار اور منصب کا خواہش مند نہیں تھا، ان میں سے کسی کے لیے دستخطی مہم نہیں چلائی گئی تھی، دورے نہیں ہوۓ تھے، سوشل میڈیا کا بھی وجود نہیں تھا، سب خالی الذہن تھے، جس کی سمجھ میں جو نام آیا مجلس میں پیش کردیا، ان چھ ناموں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے انتخابی اجلاس نے ایک نو(٩) نفری کمیٹی بنائی، جس نے امیر شریعت ثالث کی حیثیت سے مولانا کو منتخب کرلیا، اجلاس کی توثیق کے بعد بیعت سمع و طاعت لی گئی۔

امیر شریعت ثالث رح کو امارت کی خدمت کے لیے زندگی کے دس سال ملے، کمی صرف یہ تھی کہ سابق دونوں امیر شریعت کے دور میں بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاحسن محمد سجاد رح موجود تھے اور ان کی فکری بصیرت اور عملی تگ و دو سے کام آگے بڑھتا تھا، امیر شریعت ثالث کے دور سے پہلے ہی ان کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا اور ان کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی، اس کے باوجود چوں کہ امیر شریعت ثالث خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں تھے ،اس لیے خلوت گزینی سے وہ آزاد تھے، امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بہار اڈیشہ میں دورے کرتے، ان کے رفقاء عالی قدر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا قاضی سید نور الحسن، مولانا عبد الصمد رحمانی رح سب مولانا ابو المحاحسن محمد سجاد رح کے تربیت یافتہ تھے، امارت شرعیہ میں نووارد نہیں تھے، کام کو سمجھے اور دیکھے ہوئے تھے، اس لیے امیر شریعت ثالث کی قیادت میں اپنے پیش رو دو امراء شریعت کے ذریعہ کئے گئے کاموں کو آگے بڑھانے میں لگے رہے۔

امیر شریعت ثالث کے انتخاب کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد ملک  صرف آزاد ہی نہیں، تقسیم بھی ہوگیا، پورے ہندوستان میں عموماً اور بہار میں خصوصاً فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوۓ، گاؤں کا گاؤں نقل مکانی پر مجبور ہوا، ایک خونی طوفان تھا جو مسلمانوں کو اپنی زدپر لیے  ہوا تھا، ایسے میں امیر شریعت ثالث نے اپنے رفقاء کے مشورے سے ملک کے اقتدار پر متمکن قائدین اور گاندھی جی کو اس صورت حال کی طرف مضبوطی سے متوجہ کیا، یہ آواز سنی گئی اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خاں اور گاندھی جی کے ساتھ بہت سارے سیاسی حضرات نے بہار کے دورے کئے، گاندھی جی نے تو بہار میں کچھ دنوں کے لیے ڈیرہ بھی ڈال دیا تھا؛ لیکن تب تک بہت کچھ تباہ ہوچکا تھا، امارت شرعیہ نے متأثرین کو وقتی امداد کے ساتھ باز آباد کاری کے کاموں کے کام کو بھی اپنے ذمہ لیا، اور یہ سب امارت شرعیہ نے خدمت خلق اور انسانیت کے جذبہ سے کیا، من و توکی تفریق نہ کرنے کی وجہ سے حالات کو سازگار بنانے میں بڑی مدد ملی، حضرت امیر شریعت نے اپنے رفقاء کے ساتھ دورے کئے، مسلمانوں کو ڈھارس بندھائ، حوصلہ دلایا، خوف کی نفسیات سے نکلنے کی تلقین کی، اس سے مسلمانوں کے قدم جم گئے اور امارت شرعیہ کی جد و جہد سے بہار اور اڈیشہ کے مسلمان اس طوفان بلا خیز سے نکلنے میں کامیاب ہوئے،  امارت شرعیہ کی پکڑ عوامی سطح پر مضبوط ہوئی، لوگوں نے جان لیا کہ امارت شرعیہ ملی،تعلیمی تنظیم کے ساتھ سماجی اور رفاہی کاموں میں دوسری تنظیموں سے کہیں آگے ہے، اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت ثالث کے درجات بلند کرے اور ملت اسلامیہ کے لیے ان کی خدمات کا  انہیں بہتر اجر عطا فرمائے۔آمین

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ


امیر شریعت رابع امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری،جمعیت علمائے بہار کے سابق ناظم،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ ،سینکڑوں مدارس اور تعلیمی اداروں کے صدر اور سرپرست، تحفظ شریعت کے مرد میداں، ملی، تعلیمی اور رفاہی کاموں کے سرگرم قائد، ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مسلمانوں کے پیر و مرشد ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح کا وصال رمضان المبارک ١٤١١ھ کی تیسری شب  کوخانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوگیا، دوران تراویح ہی دل کا دورہ پڑا، حجرہ میں لے جاۓ گئے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی، سب کچھ منٹوں میں ختم ہو گیا، ١٩/مارچ ١٩٩١ء کی شام شریعت و طریقت کا آفتاب غروب ہوگیا، ٣/رمضان المبارک ١٤١١ھ کو بعد نمازِ مغرب جامعہ رحمانی کے صحن میں ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب (جو بعد میں امیر شریعت سادس ہوئے) جنازہ کی نماز پڑھائی اور اپنے نامور والد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کی قبر کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے،

حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی بن قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری بن سید عبد العلی بن سید غوث علی بن سید راحت علی بن سید امان علی رحمھم اللہ کی ولادت ٩/جمادی الثانی ١٣٣٢ھ روز منگل خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، سلسلہ نسب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے جاملتا ہے، ابتدائی تعلیم خانقاہ رحمانی میں حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر گیارہ سال کی عمر میں ہی حیدرآباد مولانا عبد اللطیف رحمانی صاحب کی خدمت میں بھیج دئیے گئے، ایک سال ہی میں صرف و نحو، منطق اور دیگر فنون سے خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی، وہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور ہدایہ اولین تک کی تعلیم یہیں پائی، طالب علمانہ زندگی کے چار سال یہاں لگاۓ، ١٩٣٠ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور یہاں کے نامور اساتذہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح سے کسب فیض کیا، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حیدر حسن خاں محدث کا نام بھی آتا ہے۔١٩٣٣ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہوئی۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے دوران ہی حضرت مولانا محمد علی مونگیری کا وصال ہوگیا، ظاہر ہے یہ عمر تصوف و سلوک کے کُنہیات سمجھنے کی نہیں تھی، اس لیے تصوف و سلوک کی تربیت بعد میں آپ نے حضرت مونگیری کے خلیفہ حضرت مولانا محمد عارف صاحب سے حاصل کی جو ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ کے رہنے والے تھے، اس راہ میں مرتبہ کمال پر پہونچنے کے بعد مولانا محمد عارف صاحب نے اجازت بیعت و خلافت سے نوازا، ١٩٤٢ء میں جب حضرت مولانا لطف اللہ صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا تو حضرت مونگیری کے تمام خلفاء و مریدین نے خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں  آپ کومقرر کیا  آپ نے مخلوق خدا کی روحانی تربیت  کے ساتھ جامعہ رحمانی کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا، برسوں خود بھی تدریسی کاموں سے منسلک رہے، بعد میں ہجوم کار کی وجہ سے یہ سلسلہ باقی نہ رہ سکا؛ لیکن آپ کی خصوصی توجہ اور طریقہ کار کی وجہ سے جامعہ اور خانقاہ دونوں کی پورے ملک میں ایک شناخت بن گئی،اور اس کا شہرہ ملک و بیرون ملک میں پھیلا۔

 ١٩٣٥ء میں آپ جمعیت علمائے بہار کے ناظم منتخب ہوئے،١٩٣٧ء میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، ٢٤/مارچ ١٩٥٧ء کو حضرت مولانا ریاض احمد سنت پوری کی صدارت میں منعقد اجلاس میں آپ امیر شریعت منتخب ہوئے، اس وقت مجلس ارباب حل و عقد کے نام سے کوئی مجلس نہیں تھی، بڑے علماء اس موقع سے مدعو ہوتے تھے اور امیر شریعت کا انتخاب عمل میں آتا تھا، انتخابی اجلاس مدرسہ رحمانیہ سپول دربھنگہ میں ہوا تھا، نہ پولنگ بوتھ بنا تھا اور نہ ہی بیلٹ پیپر کی چھپائی ہوئی تھی، مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی  تھی، مجلس میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت دوم، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ شریک تھے۔

انتخاب امیر کے بعد شروع کے پانچ سال بڑی آزمائش اور کشمکش کے تھے؛ لیکن جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز کے عطا فرماتا ہے؛ چنانچہ ١٩٦٢ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح جامعہ رحمانی کی معلمی چھوڑ کر امارت شرعیہ آگئے، اور جلد ہی مولانا سید نظام الدین صاحب کو امارت شرعیہ لانے میں کامیاب ہو گئے، حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے کا کام کیا اور امارت شرعیہ کا کام پھلینے لگا، امارت شرعیہ کا دفتر خانقاہ مجیبیہ میں تھا، وہاں سے قاضی نورالحسن اسکول کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا، قریب کی ایک اور بلڈنگ خریدی گئی،بڑی جد و جہد کے بعد امارت شرعیہ کے دفتر کی موجودہ اراضی سرکار سے لیز پر لی گئی اور ١٥/نومبر ١٩٨١ء کو اس زمیں پر حضرت امیر شریعت رابع رح نے دفتر امارت شرعیہ کی سنگ بنیاد ڈالی، اس موقع سے آپ نے فرمایا: 

"میں عمر کی اس منزل پر پہنچ چکا ہوں جہاں لوگ نئے منصوبے نہیں بناتے؛لیکن خدا کے فضل اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے مخلصین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ نیا کام شروع کیا جارہا ہے، قومی اور ملی کاموں کا انحصار افراد پر نہیں ہوتا، میں رہوں یا نہ رہوں اسے پورا کرنے کی ذمہ داری آپ سبھوں کی ہے"۔

جب پارلیمنٹ میں یکساں شہری قانون لاکر مسلم پرسنل لا بورڈ کو کالعدم قرار دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو آپ میدان میں نکلے، ٢٨/جولائی ١٩٦٣ء کو  امارت شرعیہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے فرمائی، مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی نے افتتاح فرمایا، کئ سال کی تگ و دو کے بعد ١٤/١٣ /مارچ ١٩٧٢ء کو دارالعلوم دیوبند میں نمائندہ اجتماع ہوا، اور اس کے فیصلہ کی روشنی میں ٢٨/٢٧/ دسمبر ١٩٧٢ء کو ممبئی میں وہ تاریخی اجلاس ہوا، جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، اپریل ١٩٧٣ء میں حیدرآباد اجلاس میں آپ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور تادم آخری اس عہدے پر فائز رہے۔آپ نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر اعلان کیا:

"میں اس کے لئے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑادی جائیں، ہمارے سینے چاک کر دیۓ جائیں، مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ"مسلم پرسنل لا "کو بدل کر ایک "غیر اسلامی لا" ہم پر لاد دی جائے ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔"

آپ کے وقت میں امارت شرعیہ نے خدمت خلق اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا، مولانا سجاد ہوسپیٹل اور ام ام یو ہائی اسکول آسنسول اس کام کا نقطۂ آغاز تھا، جو بعد کے امراء کے دور میں پھیلا، حضرت کی خدمات کا دائرہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ لکھی جاتی رہیں گی،واقعہ یہ ہے کہ "دامان  نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار"۔

میں اپنے ہی ایک مضمون کے اقتباس پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

"مولانا دارالعلوم دیوبند کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں یا ندوۃ کی مجلس شوریٰ میں کوئی مسٔلہ زیر بحث ہو، جامعہ رحمانی مونگیر کو عروج و ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزارنا ہو یا خانقاہ کی مسند سجادگی ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک ہو یا اس کا دور نظامت، شاہ بانو کیس میں نفقہ مطلقہ کے خلاف احتجاج ہو یا ایمرجنسی میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تحریر و تقریر، امارت شرعیہ کے امیر شریعت کی حیثیت سے تنفیذ و شریعت اور توسیع دارالقضاء کی جہد مسلسل ہو یا انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاسی جد و جہد ،قریہ قریہ دعوت دین کا کام  ہویا مدارس کی سرپرستی سب تحفظ شریعت اور دفاع اسلام ہی کے مختلف عنوان ہیں، اور ہر عنوان ایک ضخیم کتاب کا مضمون، اس لیے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نوراللہ مرقدہ نے بجا لکھا ہے کہ"ہندوستان میں اسلام کی حفاظت و صیانت کی تاریخ جب بھی لکھی جاۓ گی وہ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوگی، بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ مولانا کے کالبد خاکی میں جو خون گردش کررہا تھا اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے جو سانس کی آمد و رفت تھی اگر زبان حال کو سننے والے کان ہوتے تو معلوم ہوتا کہ وہ تحفظ شریعت ہی کے لیے وقف تھے"۔

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...