Saturday 29 August 2020

بابری پر جسٹس گگوئی کا پہلا رد عمل سامنے آیا

   بابری پر جسٹس گگوئی کا پہلا رد عمل سامنے آیا!

رام مندر کے' حق میں' فیصلہ سنانے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا پہلا رد عمل

''ایودھیا معاملہ ملک کی قانونی تاریخ میں میں لڑے جانے والے کیسزمیں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھے گا''

نئی دہلی: دہائیوں قدیم ایودھیا تنازعہ پر فیصلہ سنانے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے پہلی مرتبہ اس کیس کی سماعت کے تعلق سے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اپنے بیان میں ایودھیا معاملہ میں سماعت کرنے والی 5 ججوں کی بنچ کے صدر اور اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے 40 دن تک چلی سماعت اور معاملے میں آخری نتیجہ تک پہنچنے کے عمل کو انتہائی چیلنجنگ قرار دیا۔دراصل صحافی مالا دیکشت کی کتاب 'ایودھیا سے عدالت تک بھگوان شری رام' کا اجراء ہوا ہے۔ اس موقع پر رنجن گوگوئی نے ایک تحریری پیغام بھیجا تھا جس میں ایودھیا کیس کے تعلق سے اپنے تجربات انھوں نے بیان کیے ہیں۔ پروگرام میں پڑھے گئے ان کے پیغام میں کہا گیا کہ "آخری فیصلہ تک پہنچنا کافی چیلنجنگ تھا۔ 40 دن کی سماعت میں وکیلوں نے بنچ کو قابل قدر تعاون پیش کیا۔جسٹس گوگوئی نے صحافی مالا دکشت کی کتاب ' اجودھیا سے عدالت تک بھگوان شری رام (سپریم کورٹ میں چالیس دن سنوائی کی ان چھوئے پہلوؤں کی آنکھوں دیکھی داستان )پر ورچوئل بات چیت میں بھیجے گئے اپنے پیغام میں یہ کہا۔جسٹس گوگوئی نے اپنے پیغام میں کہا کہ اجودھیا معاملہ ملک کی قانونی تاریخ میں میں لڑے جانے والے کیسزمیں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھے گا۔ اس معاملے سے جڑے مختلف زبانی اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اس معاملے کو حتمی فیصلے کے لئے لایا گیا تھا۔ یہ ریکارڈ مختلف زبانوں سے ترجمہ کرائے گئے تھے۔جسٹس گوگوئی نے کہا کہ حتمی فیصلے تک پہنچنا کئی وجوہات سے ایک چیلنجنگ کام تھا۔ چالیس دن تک مسلسل سماعت میں مشہور وکیلوں کی بنچ کو دیا گیا تعاون غیرمعمولی تھا۔ کتاب میں تمام واقعات کو ایک نقطہ نظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والوں کو یہ دلچسپ لگیں گے۔واضح رہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی رام مندر تعمیر کے لئے راہ ہموار ہوئی تھی لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر لوگوں کے مختلف تبصرے بھی سامنے آئے تھے۔ فیصلہ میں جہاں بابری مسجد کی انہدام کو غلط مانا گیا

اور کہا گیا کہ مندر ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں وہیں اس جگہ مندر کے حامی فریق کو دے دی گئی۔ اس فیصلہ کے چند ماہ بعد جب سابق چیف جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی تو ایک مرتبہ پھر اس فیصلہ پر نکتہ چینی ہونے لگی۔ رنجن گوگوئی کی صدارت والی سپریم کورٹ کی بینچ نے اپنے فیصلہ میں مسجد کے لئے بھی زمین دینے کا فیصلہ کیا تھا۔واضح رہے کہ طویل عرصے سے تفصیلی سماعت کے انتظار میں رکے رام جنم بھومی معاملہ نے بطور چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی مدت کار میں رفتار پکڑی تھی۔ انھوں نے سماعت کے لیے 55 ججوں کی بنچ تشکیل دی تھی اور لگاتار سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد ازاں 40 دنوں تک لگاتار سماعت چلی۔ آخر کار گزشتہ سال 9 نومبر کو فیصلہ سنایا گیا اور پانچوں ججوں کے مشترکہ فیصلہ کو جسٹس رنجن گوگوئی نے ہی پڑھا تھا۔ فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا گیا تھا اور بابری مسجد کے بدلے ایودھیا سے باہر 5 ایکڑ زمین سنی سنٹرل وقف بورڈ کو دینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ اس فیصلے پر کچھ لوگوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا تھا، لیکن ایک طرف رام مندر تعمیر کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب بھی مکمل ہو چکی ہے اور دھنّی پور میں مسجد تعمیر کے لیے سرگرمیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔

1 comment:

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...