Sunday 6 September 2020

یوم اساتذہ پر خاص پیشکش چیف سیکریٹری، ماہنامہ الحجاج ہندی،محمد سمیع اختر

یوم اساتذہ پر خاص پیشکش

 چیف سیکریٹری، ماہنامہ الحجاج ہندی،محمد سمیع اختر



اس وسیع عریض دنیا میں ایک سے بڑھ کر  ایک  قابل، کامیاب، لیاقت مند، صلاحیت مند، اور اپنی فیلڈ کے ماہر لوگ موجود ہیں۔ جن کی لیاقت وصلاحیت اور زبردست قابلیت کو دیکھ کر ہر کوئی ان کی صلاحیتوں کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے، ان کی غیر معمولی شخصیت کی وجہ سے لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ہر ایک ان کا نام ادب و احترام سے لیتا ہے۔ اور واقعی اس دنیا میں جہاں جہاں بھی ہمیں ترقی نظر آ رہی ہے اس کے پیچھے کہیں نا کہیں انہی کامیاب لوگوں کی کوششوں کو مانا جاتا ہے۔ اور ان کے گن گائے جاتے ہیں۔ پھر جب ہم نے ان کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا قریب سے مطالعہ کرتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے اس کی اپنی محنتوں کے علاوہ کسی کامیاب استاذ کا بھی ہاتھ ہے۔ جس نے اپنی تمام صلاحیتیں اپنے شاگرد کے اندر اتار دی ہے ۔ اور جو کسی لائق نہیں تھا، اسے اس لائق بنا دیا کہ ساری دنیا اس کا ادب و احترم کر رہی ہے، سب کی زبان پر اسی کا چرچا ہے، گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی کامیاب استاذ کا ہاتھ ہوتا ہے۔*

 *استاذ وہ عظیم شخصیت ہے جس کی ہر مذہب و ملت میں عزت کی جاتی ہے۔ ہر قوم سماج میں ادب و احترم کیا جاتا ہے۔*

 *بلکہ جو لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے ہیں وہ بھی استاذ کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ ہر ملک ہر شہر ہر قوم ہر سماج کو ہر دور ہر زمانے میں اچھے اساتذہ کی ضرورت رہی ہے۔ بڑے بڑے بادشاہوں، وزیروں، مشیروں اور عہدے داروں کو بھی استاد کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑا ہے، اور پھر جہاں جہاں اچھے اساتذہ ہیں وہاں وہاں ترقی اور خوشحالی بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے، مگر وہ ماں بھی اپنے بچے کو کسی استاذ کے پاس لے جاتی ہے تاکہ وہ اسے قابل و کامیاب بنائے۔*

*اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے استاذ کی عظمت و رفعت شان و شوکت جاہ و حشمت کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ استاذ کی کتنی اہمیت ہے۔ جب ہم قرآن شریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کئی آیتیں ایسی ملتی ہیں جن سے معلم کی شان کا پتہ چلتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: (١)"الرحمن علم القرآن" (سورۃ الرحمن ١) ترجمہ: رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔ (٢) "وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ" (سورۃ النساء١١٣) ترجمہ: اور آپ کو سکھا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔ (٣) "وإذا قرأناه فاتبع قرآنه"(سورۃ القیامة ١۸) ترجمہ: جب ہم اس کو پڑھا چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں۔ (٤)"سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ" (سورہ اعلی٦) ترجمہ: عنقریب ہم تمہیں پڑھائیں گے  تو آپ نہیں بھولیں گے۔*

 *ان آیات سے پتہ چلا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا معلم حقیقی پروردگار عالم ہے۔* 

*اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن نے کئی جگہ معلم کتاب و حکمت کہا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے" وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" (سورۃ آل عمران١٦٤) ترجمہ: اور وہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کو کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم معلم کائنات ہیں۔ اور خود سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے۔ "انما بعثت معلما" (ابن ماجہ) یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، اور ساری زندگی آپ نے اس منصب کو اچھے طریقے سے سنبھالا،  اور درس و تدریس کے نظام کا باضابطہ آغاز مسجد نبوی کے صحن میں اصحاب"صفہ" سے فرمایا،  جہاں ایک چبوترہ ہی مدرسہ تھا، اس مدرسے کا سلیبس قرآن مجید تھا، اور طلبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے، اور معلم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، سبحان اللہ! اس دنیا میں نہ اس جیسا کوئی دوسرا مدرسہ ہو سکتا ہے، اور نہ ایسا سلیبس ہو سکتا ہے، اور نہ ہی ایسا کوئی دوسرا معلم ہو سکتا ہے، اور نہ ہی  طلبہ۔ ساتھ ہی ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں معلمین کی فضیلت کو بیان فرمایا، ان میں سے صرف دو حدیثیں ملاحظہ فرمائیں.*

عن عثمان بن عفان رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم "خيركم من تعلم القرآن وعلمه"(صحيح بخاري) ترجمہ : حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھا ئے۔

اور ایک دوسری جگہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

 "إن الله وملائكته وأهل السموات والأرضين حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير"(ترمذی) ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور آسمان والے اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں دعا کرتی ہیں اس شخص کیلئے جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔

ان دونوں حدیثوں کی روشنی میں ہمیں معلم کا مقام و مرتبہ پتہ چلا کہ اس دنیا میں سب سے بہتر معلم ہے، اور اس کیلئے زمین و آسمان والے دعا کرتے ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت میں کئی حضرات معلم تھے، جو فریضہ تدریس انجام دیتے تھے، پھر صحابہ کرام نے تابعین کی جماعت میں سے معلمین تیار فرمائے، اور الحمد للہ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

تاریخ اسلام میں کچھ نام ایسے نظر آتے ہیں، جن ہیں تعلیم و تعلم کے سلسلے میں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا، جیسے امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی، رضوان اللہ علیہم اجمعین، یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے علمی کارناموں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے، اور ساری دنیا ان کی عظمت و رفعت کے قصیدے پڑھتی رہے گی۔ لیکن ہم آپ کو بتا ئیں ان شخصیات کو اس مقام تک پہنچا نے میں ان کے اساتذہ کا بہت اہم رول ہے جن کی بے پناہ محنتوں نے انہیں اس مقام تک پہنچایا، حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو امام اعظم بنانے میں ان کے چار ہزار اساتذہ کی بے پناہ کوششیں شامل ہیں۔(مقدمہ رد المحتار) حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کو مجتھد کے منصب تک پہنچا نے میں آپ کے ٩٠٠ اساتذہ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔(زرقانی) حضرت محمد بن اسماعیل بخاری کو ان کے ایک ہزار اسی اساتذہ کی محنت و شقت نے انہیں امیر المومنین فی الحدیث بنادیا تھا۔(ابن حجر) حضرت امام مسلم رضی اللہ عنہ کے ٢٢٠ اساتذہ تھے۔ (ذہبی، سیوطی) حضرت امام ترمذی رضی اللہ عنہ کے ٢٢١ اساتذہ تھے۔ (ذہبی، سیوطی) حضرت امام أبوداؤد رضی اللہ عنہ کے ١٧٠ اساتذہ تھے۔ (التہذیب، إبن حجر) حضرت امام نسائی رضی اللہ عنہ کے ٤٥٠ اساتذہ تھے۔ (التہذیب، إبن حجر) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ایک استاذ راستے کا کام کرتا ہے جو خود تو اسی جگہ رہتا ہے مگر چلنے والوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

ہمارے اسلاف نے ہمیں اس بات کا بھی درس دیا کہ ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کیسے کرنا چاہیے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے مجھے ایک حرف پڑھا یا، میں اس کا غلام ہوں، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے، اور چاہے تو مجھے آزاد کر دے، اور چاہے تو مجھے غلام بناکر اپنے ساتھ رکھے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٠)جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طریقے سے اپنے اساتذہ کی عزت کی، تو وہ باب مدینۃ العلم کے مقام تک پہنچ گئے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہر نماز کے بعد اپنے استاذ محترم (حضرت حماد بن سلیمان) اور والد مکرم کیلئے مغفرت کی دعا کرتا ہوں، اور میں نے کبھی بھی اپنے استاذ محترم کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کئے، جبکہ میرے گھر اور ان کے گھر میں ٧ گلیوں کا فاصلہ تھا، اور ہر اس شخص کیلئے دعا کرتا ہوں جس نے مجھے کچھ سکھایا اور پڑھایا ہے۔

(الخیرات الحسان)

جب کوئی طالب علم اپنے استاذ کی خدمت کرے، ان کی دعائیں لے، تو پھر دیکھیں کامیابی کس طرح قدم چومتی ہے، امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے والد محترم کا بچپن ہی میں وصال ہو گیا تھا، گھر کی پوری ذمہ داری آپ ہی کے سر تھی، آپ کی والدہ نے ایک جگہ آپ کو کام پر لگا دیا، تاکہ آپ کچھ پیسہ کمائیں اور گھر کے خرچے میں حصہ بٹائیں، جب آپ کام پر جاتے تو راستے میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی درسگاہ تھی، اپ اس میں بھی شریک ہو جاتے، جب والدہ کو معلوم ہوا، تو والدہ آپ کو لے کر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور بولیں کہ شیخ آپ میرے بچے کو اپنی درس گاہ میں نہ روکا کریں اس کو کام کرنے دیں تاکہ چار پیسے کما سکے، تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اپنے  بچے کو پڑھنے دیں، دیکھنا ان شاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ شاہی دستر خوان ہو گا اس پر شاہی پکوان ہوں گے، شاہی محل ہوگا، اور خلیفہ وقت کے ساتھ آپ کا بیٹا روغن پستہ کا بناہوا فالودہ کھائے گا، ماں سن کر بولیں کہ لگتا ہے کہ شیخ پاگل ہو گئے ہیں، مگر امام اعظم جیسے عظیم استاذ کی نگرانی میں امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا، اور امام اعظم کی دعا قبول ہوئی، جب امام ابو یوسف علیہ الرحمہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہو ئے تو شاہی محل میں آپ کے لیے دعوت کا اہتمام کیا گیا، خلیفہ وقت بھی ساتھ میں موجود تھا، اور جب شاہی دستر خوان پر روغن پستہ کا فالودہ آیا تو آپ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، خلیفہ کے پوچھنے پر آپ نے سارا قصہ بیان کیا، اور کہا آج شاہی محل بھی ہے، شاہی پکوان بھی ہیں، شاہی دستر خوان بھی ہے، روغن پستہ کا فالودہ بھی ہے یہ سب میرے استاذ محترم کی دعا ہے۔ (تاریخ بغداد) 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اساتذہ کی اہمیت کو بیان فرماتے ہوئے فتاویٰ رضویہ میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں۔ " علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے، کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے، اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے۔ " عین العلم" میں ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے، کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے، اور استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے، کیونکہ وہ روح کی حیات کا ذریعہ ہیں۔ علامہ منادی "جامع صغیر" کی شرح "تیسیر" میں نقل فرماتے ہیں، جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے، کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(فتاویٰ رضویہ ج ٢٠)امام غزالی علیہ الرحمہ نے استاذ کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔ "حقیقی باپ نفس کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے، مگر روحانی باپ تحت الثری سے صدرۃ المنتہی پر لیجاتاہے۔ (روزنامہ اودھ نامہ ١٨ فروری ٢٠١٨ مضمون نگار  ریاض احمد بٹ پی، ایچ، ڈی) 

سکندر اعظم کے تعلق سے بھی ایک بات بڑی مشہور ہے، کہ سکندر اعظم اپنے استاذ ارسطو کے ساتھ سفر میں تھا، راستے میں ایک ندی آئی اسے پار کر نا تھا، ارسطو نے کہا کہ میں پہلے ندی میں اترتا ہوں لیکن سکندر اعظم نے کہا نہیں استاذ آپ نہیں پہلے میں ندی میں اترونگا، تاکہ اگر کوئی اس میں تکلیف دہ چیز ہو، تو تکلیف مجھے پہنچے، کیونکہ ہزار سکندر اعظم چاہیں تو ایک ارسطو نہیں بنا سکتے, لیکن ایک ارسطو ہزاروں کو سکندر اعظم بنا سکتا ہے۔

*ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کی خوب عزت کریں، ان کا ہمیشہ ادب و احترم کریں، ان کی بارگاہ میں تحائف اور ہدیے پیش کرتے رہیں، کبھی ان کا دل نہ دکھائیں کیونکہ اساتذہ کی خدمت اور ان کی دعا سے بہت سی  ایسی چیزیں مل جاتیں ہیں جنہیں محنت سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے، اور ہاں ایک بات اور دوران تعلیم جو اساتذہ سختی کرتے ہیں اس وقت ہمیں وہ برے لگتے ہیں مگر فراغت کے بعد سب سے زیادہ انہی کی یاد آتی ہے!*

*اللہ پاک میرے ان تمام اساتذہ کو دونوں جہاں میں خوب خوب برکتیں عطا فرما جن کی بے پناہ محنتوں شفقتوں نے مجھے قلم پکڑنا، لکھنا، بولنا، سکھایا۔*


*میرے استاد ماں باپ بھائی بہن*

*اہل ولد و عشیرت پہ لاکھوں سلام*


             *:✍️طالب دعا:*

             *محمدسمیع اختر* 

             *چیف سکریٹری*

*بہاراسٹیٹ اردوٹیچرس ایسوسی ایشن۔انڈیا*

ایڈیٹر: ماہنامہ الحجاز(ہندی)

مبائل نمبر: 9199067828

٢١ شوال المکرم ١٤٤١ھ 

١٤ جون ۲۰۲۰

بروز اتوار

No comments:

Post a Comment

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...