Monday 25 January 2021

حب الوطنی ،آزادی اور اردو شاشاعری ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

حب الوطنی ،آزادی اور اردو شاشاعری 
ابوالبرکات،شاذ،قاسمی



۔رابطہ8651781747

شاعری حالات و حادثات سے متاثر ہو کر دل سے نکلنے والی جذبات و کیفیات کی موزوں عکاسی کا نام ہے اور حب الوطنی انسان کی فطرت ہے جبکہ آزادی اسکا  بنیا دی حق اس لیے شاعری میں حب الوطنی کے ترانے اور آزادی کے نغمات جا بجا ملتے ہیں شاعر جس سماجی پس منظر میں سانسیں لیتا ہے اس کی شاعری ٹھیک اسی سماج و معاشرہ کا عکس پیش کرتی ہے 

جس وقت ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا اورہرشخص اس غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کے لیے اپنے بال و پر مار رہا تھا اس وقت ہماری اردو شاعری بھی حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہوکر آزادی کے لیے "انقلاب زندہ باد" کے نعرے لگا رہی تھی اردو شاعری کا تحریک آزادی میں متحرک بن کر آ جانے سے آزادی کی تحریک میں مزید تیزی آئی شاعروں نے اپنی شاعری میں حب الوطنی،آزادی،اتحاد، کی اہمیت پر زور دیا انگریزوں کے ظلم وبربریت کو مختلف انداز و اسلوب میں بیان کیا تو ہندوستانیوں کے دلوں میں وطن سے محبت کے جذبات جوش میں بدل گءے اور وطن پر نثار ہونے کے لیے سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل گئے حب الوطنی کے اس قسم کے اشعار ہم یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر اکثر سنے ہوں گے ان تمام اشعار میں ایک جوش و جنون کی کیفیت،فداءیت کے جذبات اور غلام ہندستان کی مکمل آزادی کی بانگ پایی جاتی ہے آج بھی کسی بزم یا تقریب میں ترنم کے ساتھ اردو کا مشہور شعر "سرفروشی کی تمنا آج ہمارے دل میں ہے ،دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے"یا اقبال کے ترانے کا یہ شعر اے آبرود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا یا پھر چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا گایا جا تا ہے تو فرط جذبات سے ایسا لگتا ہے کہ پورے مجمع پر سکون سا طاری ہو گیا ہو اور انکے چہرے اور آنکھوں سے گرم لہو باہر آنے کو بے چین ہو رہا ہو۔ یہ اردو شاعری کا کمال انفرادیت  ہیکہ اس نے وطن کی آزادی کے لیے ایک تحریک کا کام کیا۔

اردو شاعری میں انقلابی تیور اور آزادی کا تصوراقبال کے یہاں واضح طور پر ملتا ہے حالانکہ اس سے قبل بھی اردو شاعری میں حب الوطنی اور آزادی کے ترانے دیکھنے کو ملتے ہیں مگر اقبال نے اس کو جدا رنگ و آہنگ دیا اور اپنی بات کو نرالے ڈھب سے تشبیہاتی انداز میں رکھا وہ مارکسیت کے نظام سے کافی متاثر تھے جس کا اثر ان کی نظموں میں پایاجاتاہے ہے وہ کہتے ہیں۔ 

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو مٹا دو 

کاخ امراء کے در و دیوار کو مٹا دو 

گرماوں غلاموں کا لہو سوز یقیں سے 

گنجشاک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو 

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار 

انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

اقبال کے علاوہ حب الوطنی ، ظلم و بربریت اور غلامی سے آزادی کا تصور ہم جوش ملیح آبادی کی شاعری میں بھی دیکھ سکتے ہیں ان کی شاعری نے نوجوان نسلوں کے قلوب میں حب الوطنی کے جوش و جذبہ کو بڑھاوا دیا تو دوسری طرف سرمایہ داروں ، انسانیت پر ظلم کرنے والوں اور آدمی کو غلام سمجھنے والوں کے خلاف احتجاج بلند کیا۔جو تحریکیں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ،غلامی سے آزادی حاصل کرنے  کے لیے لڑ رہی تھیں ان کی ہمت افزائی کی اور ان کے روم روم میں ایک ولولہ پیدا کیا جوش کی مشہور نظم "کیوں ہند کا زندہ کانپ رہا ہے ، گونج رہی ہیں تکبیریں کو پڑھنے اور سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہیکہ حب الوطنی اور ملک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے  جوش کے دل میں کس قدر جوش و جذبہ تھا اسی طرح حب الوطنی اور آزادی کے نغمات ہم مجاز کے یہاں بھی وافر مقدار میں پاتے ہیں اردو شعراء میں مجاز کو ایک انقلابی شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے انہوں نے نظم "انقلاب" لکھ کر اپنے انقلابی ہونے کا ثبوت عمدہ طور پر دیا ہے انقلاب نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔ 

آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوءے 

آگ دامن کا چھپاءے خون برساتے ہوءے 

کوہ صحراء میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی 

رنگ کے بدلے گلوں سےخوں ٹپکے گا ابھی 

سرکشی کی تیز آندھی دم بدم چڑھتی ہوءی 

ہرطرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوءی 

خون کی ہولی کی جنگل سے ہواءیں آءیں گی 

خون ہی خون ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جاءیں گی۔

اس طرح ہم دیکھیں گے کہ اردو شاعروں نے اپنی شاعری میں ہر دور و ہر حالات میں وقت کی ظالم طاقتوں کے خلاف آوازیں بلند کیں خاص طور سے ہندستان میں انگریزوں کے غلامی کے خلاف انقلاب انگیز نظمیں لکھ کرمادر وطن کے ساتھ حب الوطنی کو پیش کیا ہے تحریک آزادی میں بھی اردو شاعری نے ہی قومی یک جہتی  کا نظریہ پیش کیا اور اتحاد کی اہمیت کا سب کو احساس دلایا یہ اردو شاعری ہی تھی جس نے غلامی کی زندگی گزار رہے ہندوستانیوں کو ہند و مسلم ایکتا ، اتحاد، یک جہتی مشترکہ قومی مفاد اور ظالم انگریزوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم بناکر لڑنے کا تصور پیش کیا اور ملک کے تمام باشندوں کے رو برو ہو کر آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور انگریزوں کے ہندستان مخالف پالیسیوں کو عام کیا کبھی انقلابی نظمیں لکھیں تو کبھی اپنے بے باکی اور جرات مندی کے جرم میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ایسے شعراء میں مولانا حسرت موہانی، اسرار الحق مجاز ،لال چند فلک، عرش ملسیانی ، الطاف حسین حالی ، فراق گورکھ پوری، ساحر

لدھیانوی ،چکبست برج نرائن، نذیر بنارسی،تلوک چند محروم،معین احسن جذبی،افسر میرٹھی،میر سید نذیر حسین ناشاد، سرور جہان آبادی،ظفر علی خان، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے جن کے نظموں میں حب الوطنی کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کے لیے مکمل تحریک پاءی جاتی ہے ۔

حبیب جالب کی نظم "ماں"  علی سردار جعفری کی نظم "اٹھوں ہند کے باغبانوں اٹھوں "جوش ملیح آبادی کی" کیوں ہند کا زندہ کانپ رہا ہے  گونج رہی ہیں تکبیریں "اسرار الحق مجاز کی نظم " جلال آتش برق و سحاب پیدا کر " لال چند فلک کی نظم "خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آءے گی ۔عرش‌ملسیانی کی نظم " میرے وطن پیارے وطن " جوش ملیح آبادی کی "اے وطن پاک وطن روح رواں احرار " اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب "اور" پھر حصول آزادی کی دقتیں"یہ سب کے سب اردو شاعری کی وہ نظمیں ہیں جن میں حب الوطنی اور مادر وطن سے عقیدت و محبت کے جذبات وافر طور پر پاءے جاتے ہیں اور ان نظموں کے پڑھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح ان نظموں نے آزادی کے  متوالوں کے دلوں کو گرماءے رکھا ہوگا آءیے ہم اردو شاعری کے چند اشعار کی سحر آفرینی سے مسحور ہوتے ہیں جن میں حب الوطنی اور آزادی کے نغمات پاےجا تے ہیں ۔

میدان میں نکل آءی ایک برق سی لہراءی 

ہر دست ستم کانپا بندوق بھی تھراءی 

ہر سمت صدا گونجی 

میں آءی ہوں میں آءی 

اس نے کہا خون خواروں 

دولت کے پرستاروں 

دھرتی ہے یہ ہم سب کی 

اس دھرتی کے نادانوں 

انگریز کے دربانوں

صاحب کی عطا کردہ 

جاگیر تم نہ جانو


خوف فٹ سے کہاں دل میں ریا آءےگی 

بات سچی ہے جو وہ لب پہ صدا ءےگی 

دل سے نکلے گی نا مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبو وفا آءے گی

 

اٹھو ہند کے باغبانوں اٹھو 

اٹھو انقلابی جوانوں اٹھوں

کسانوں اٹھو کامگاروں اٹھو 

نءی زندگی کی شراروں اٹھو

اے ہندو و مسلماں آپس میں ان دنوں تم نفرت گھٹاءے جاؤ الفت بڑھاءی جاؤ 

بکرم کی راج نیتی اکبر کی پالیسی کی 

سارے جہاں کے دل پہ عظمت بڑھاءی جاؤ 


بے خوف گاءے جاؤ "ہندستان ہمارا" 

اور"وندے ماترم" کے نعرے لگانے جاؤ

پھانسی کا جیل کا ڈر دل سےفلک مٹا کر غیروں کے منھ پہ سچی باتیں سناے جاؤ 

مذکورہ اشعار میں جو  حب الوطنی اور آزادی کے  جذبات سے لبریز نظموں کے ٹکڑے ہیں آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اردو شاعری نے کس قدر وطن کی عقیدت کو مؤثر بنا کر پیش کیا ہے تو وہی مادر وطن کی آزادی کی خاطر کس طرح ہندوستان والوں کو پر جوش کیا ہے ساتھ ہی آپ یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ اردو شاعری نے جس طرح حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا ہے ملک سے عقیدت و محبت کے ترانے گن گناءے ہیں اس کی‌نظیر ملنی مشکل ہے 

اردو شعراء نے جیل کی سلاخوں اور انگریزوں کے مظالم سے  بے پرواہ ہو کر  انگریزوں کے مظالم کے خلاف آوازیں بلند کیں اور سب سے پہلے  مکمل آزادی کی بانگ دی۔ جس کے جرم انہیں سخت ترین سزا دی گءی جیلوں کی کڑی مشقتیں دی گءیں مگر ان کی حب الوطنی اور آزادی کی تڑپ کم نہی ہوءی بلکہ انہوں نے جیلوں میں بھی اپنے مقا صد(آزادی و حب الوطنی)  اور اپنا مشغلہ(شاعری)کو جاری رکھا مولانا حسرت موہانی نے قید و بند کے زمانے میں ہی اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا 

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی 

ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی 

بالآخر ہمارا‌ملک ایک مسلسل قربانی اور پیہم کوششوں کے بعد "آز دی"کی حقیقت سے آشنا ہوا مگر افسوس کہ جس زبان نے اپنی شاعری کے ذریعہ حب الوطنی،آزادی ،انقلاب،آپسی اتحاد،کا سبق پڑھایا اسے آج نظر انداز کیا جا رہا ہے اور آزادی کے بہتر سال بعد بھی وہ اپنوں کی بے وفائی کا رونا رو رہی ہے ۔

              ختم شد

          غیر مطبوعہ

ازقلم۔ ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

     جگیراہاں،بتیا

رابطہ.8651781747

ای میل۔abulbarakat57@gmail.com

Sunday 24 January 2021

یوم جمہوریہ :جمہوری اقدارکی حفاظت کا یومِ عہد مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

 یوم جمہوریہ :جمہوری اقدارکی حفاظت کا یومِ عہد
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی 

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ

۲۶؍ جنوری آگیا ، ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ،البتہ کوڈ19کی وجہ سے اسے امسال محدود کیا گیا ہے، اسکے باوجودانڈیا گیٹ کے سامنے ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی

 جائیں گی ، دفاعی میدان  اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، اور امر جیوتی پر حاضری درج کرائی جائے گی ، اصل پروگرام انڈیا گیٹ پر ہوگا ، اور پھر پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔

 ۲۶؍ جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقۂ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔

یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔

ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کی سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر دستوری روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود کسان پہلے سے اچھی حالت میں ہوگئے.  ان دنوں موجودہ نئے زرعی قانون نے انہیں پریشان کر رکھا اور وہ جس طرح احتجاج کر رہے ہیں یہ بھی جمہوریت ہی کی دین ہے 

 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانیٗ جمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔

 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گئو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ چندسالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں کوڈ19 اور لاک ڈاؤن کے غیر منصوبہ بند،نفاذنے ہر شہری کو پریشانی میں آج تک مبتلا رکھا ہے گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 

 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یوم جمہوریہ در اصل جمہوری اقدار کے تحفظ  کا یوم عہد ہےجس کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت کا بہترین طریقہ بھی ۔

 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی.

26جنوری پر میرا پیغام قوم ملت کے نام

 26جنوری پر میرا پیغام قوم ملت کے نام

معزز اساتذہ کرام و محبان و قوم ملت!

یوم جمہوریہ کی دلی مبارکباد،

دوستو!

کل 26جنوری(یوم جمہوریہ ہے)اور اس گروپ میں موجود تمام افراد تعلیم یافتہ اور دانشور ہیں، اور معلم ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی  ہیکہ اپنے قوم وملت کے لوگوں کواپنی تواریخ سے روشناس کرائیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک آج کن۔کن دور سے گزر رہا ہے، خاص کر اپنے ہی   کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ تعصب پرستی کی جارہی ہے،آج مسلم نام والے سبھی اداروں ریلوے اسٹیشنوں  سڑکوں اور تنظیموں کے نام بدلے جارہے مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو تقریبا غصب کیا جا چکا ہے، لو جہاد کے نام مسلم نوجوانوں کو جیل میں ٹھوساجارہا تو ایک طرف مسلم لڑکیو جبرا شادی کرنے غیر مسلم لڑکوں کو پانچ لاکھ کا چیک کا اعلان اور حکومت ہند کی خاموشی چہ معنی دارد، اسلئے میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے کہ کیو نہ ہم اپنے مجاہدین آزادی، اور اپنی تواریخ سے اپنے بچے بوڑھے اور دنیا کے لوگوں کو پھر روشناس کرائے جائے اس کے لئے ہم گھر بیٹھے ہی ایک تحریک چلائیں؟

جنہوں نے  اپنی قربانیاں دے کر ہمیں اتنا بہتر ملک ،اتنی لچیلی آئین دیا تو کیا ہم انہیں چند منٹ چند لمحے بھی نہیں دے سکتے؟؟؟ 

 آج ہی ہمیں یہ حلف لینا چاہیے کہ ہم ۱۵اگست اور ۲۶ جنوری میں صرف سامع بن کر تالیاں نہیں بجائنگے بلکہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین کی قربانیوں سے متعلق  اس دنیا کو پھر سے روشناس کرائنگے،کہ ہم بزدل نہیں ہے بلکہ دریاؤں اور صحراؤں کا راستہ بدلنے والے صلاح الدیں ایوبی،حضرت علی، مولانا حسرت موہانی،ٹیپو سلطان، بیگم حضرت محل،مولانا مظہر الحق ،مولانا ذاکر حسین، خان عبدالغفار خان، میر عثمان کے اہل و عیال ہیں جنکو ہماری بہادری کا مظاہرہ کرنا ہو جاکر ہندوستان کے ساتھ ۔ساتھ  بیرون ملک عجائب گھروں میں دیکھے آج بھی ہماری پگڑیاں بطور عبرت رکھی گئی ہے، 

چنانچہ آپ ہمارے تحریک سے جوڑے اور آج سے ہی کام پر لگ جائے اور جب بھی بیان خطاب کا موقع ملے اپنے اسلاف کا تذکرہ ضرورکریں، ۱۵اگست ۲۶جنوری  یوم تعلیم کے موقع پر ان سے متعلق  مضمون لکھے ویڈیو کلپ بنائے اسکولوں کالجوں میں ناٹک نکڑ کرائیں، شوسل میڈیا ان سے متعلقہ مضامین ،بیان وخطبات کو اپلوڈ کریں نہیں تو آنے والی نسل یہ بھی بھول جاۓگی کہ ہم مسلمان ہیں اور بھارت کے رہائشی ہیں۔

*وطن کی فکر کا ناداں مصیبت آنے والی ہے،*

 *تیری بربادیوں مشورے  ہیں آسمانوں میں،*


محمد فیروز عالم

 صوبائی سیکریٹری

 بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن

رابطہ 9507077753/9110927549

alamfiroz13890@gmail.com

امارت شرعیہ کی تعلیمی تحریک وقت کی اہم ضرورت احمدحسین قاسمی

 امارت شرعیہ کی تعلیمی تحریک وقت کی اہم ضرورت
احمدحسین قاسمی

 (معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)

امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ وطن عزیز کے مسلمانوں کے لئے اللہ کی بڑی نعمت ہے، اس کی انسانی وملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ،سوسالوں سے مسلسل اس نے خدمت خلق کے ساتھ تمام شعبہ حیات میں اپنی بساط سے بڑھ کر ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے، اورمشکل سے مشکل حالات میں بھی پوری ہمت وجرأت سے سفینہ ملت کی ناخدائی کی ہے، پچھلے چند برسوں سے ملک کا سیاسی دھارا ایک خاص سمت میں بہہ رہاہے جس سے ملک کی اقلیت خاص کر مسلمانوں کی تعلیم وتہذیب ،زبان وثقافت اورملی تشخص وامتیاز کو خطرات لاحق ہیں، حال کا آئینہ مستقبل کی تصویر دکھارہاہے،ایسے میں ضروری ہے کہ وقت سے پہلے اپنے آشیانے کی حفاظت کے لئے ممکنہ تدابیراختیارکی جائیں اور سب سے بڑے سرمایہ اپنی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کی دل وجان سے فکر کی جائے تاکہ آنے والے ہرطوفان کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اوروہ مشکل وقت میں بھی اخلاق وکردارکےساتھ زندگی کی راہیں نکالنے کی پوزیشن میں ہو، چنانچہ امارت شرعیہ نے اپنے دیگر شعبوں کے ساتھ شعبہ تعلیم بھی قائم کیاجس کے ذریعہ شروع دن سے ہی تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا، اوردینی وعصری دونوں تعلیم کے میدانوں میں ملک وملت کی مضبوطی کے ساتھ رہنمائی کی ہے، مکاتب دینیہ کی تحریک سے لے کر مدارس اسلامیہ اورعصری تعلیمی اداروں کے قیام تک اس نےقابل تقلید کوشش کی اورماضی تاحال ان  کوششوں کےنتیجہ میں ہزاروں تعلیم کی شمعیں روشن ہوئیں جن سے اہل نظر باخبر ہیں،اسی کے پیش نظر مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی زیدمجدہم امیر شریعت بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کی خصوصی ہدایت پر امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم کی فکر،معیاری عصری تعلیمی اداروں کے قیام اورتحفظ اردوزبان کےعنوان سے متعلقہ تین ریاستوں بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ میں پرزور تحریک شروع کی ہے، یہ تحریک گرچہ امارت شرعیہ کے کاموں کا پہلے سے ہی اہم حصہ رہی ہے تاہم ترجیحی بنیاد پر کرنے کے کاموں میں اسے مقدم رکھاگیاہے،تاکہ پوری ملت اس جانب متوجہ ہو۔ باضابطہ اسے مہم اورتحریک کی شکل دے کر تینوں ریاستوں میں بالترتیب ”ہفتہ برائے ترغیب تعلیم وتحفظ اردو“ منایاجارہاہے،پہلے مرحلہ میں ریاست بہار کے تمام اضلاع میں یکم فروری تا سات فروری ہرضلع ہیڈ کواٹرمیں خواص اوراہل فکر ونظر حضرات پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں ان مذکورہ موضوعات پر بسط وتفصیل کے ساتھ تبادلہخیال ہوگا،پھر ان مقاصد کو آبادی میں روبہ عمل لانے کے لئے طریقہ کار پیش کئے جائیں گے۔ اس تحریک کی پہلی کڑی”بنیادی دینی تعلیم کی فکر“ہے، جوفرد سے لے کر جماعت اورگھر سے لے کر ریاست تک مسلم معاشرہ کے لئے پہلی اینٹ کا درجہ رکھتی ہے، ہمارے سینوں میں جودین توحیدکی امانت ہے، اسے آنے والی نسل کے دلوں تک منتقل کرنا تمام فرائض پر مقدم ہے،اگر اس میں ہم نے ذرہ برابر کوتاہی  برتی توہم اپنی نسل اوراولاد کے حق میں سب سے بڑے مجرم ہوں گے، ان کے دیگر سارے حقوق کی ادائیگی کی بہ نسبت یہ حق تعلیم ہرلحاظ سے بڑھاہوا ہے، اس لئے کہ ہم انہیں دنیا کی تمام دولت بھی دیدیں اوردین کی بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رکھیں تواس کے بغیر وہ ساری دولت کسی کام کی نہیں،پھر ہمارے اوردوسروں کے درمیان کوئی خط امتیازباقی نہیں رہ جاتا،ہمارا یقین ہے کہ اس دنیا کی سب سے عظیم دولت ایمان واسلام کی دولت ہے، اس کےباوجوداگر ہم نے اپنی اولاد کوان کی ابتدائی عمر میں ہی دینی تعلیم وتربیت کے سانچے میں نہیں ڈھالا تویادرکھیں ہم اپنے بعد اپنے گھروں میں اہل ایمان کی جماعت نہیں بلکہ غیرشعوری طورپر ایک باغی اوردین بیزار گروہ کو چھوڑکر جارہے ہیں،ملک کی موجودہ صورت حال سے ہرکوئی واقف ہے ،اورملک کی برسراقتدار حکومت کی منشاءبھی بالکل واضح ہے، تہذیبوں کی کشمکش اوراختلاط حق وباطل کے اس پُرخطردور میں اپنے دینی تشخص وامتیاز کی بقاءاوراسلامی اخلاقی کردار کا تحفظ مزید مشکل ہوتاجارہاہے، ملت کے دردمند اورمخلصین حضرات ا سے بخوبی محسوس کررہے ہیں، گذشتہ چند سالوں سے نئی نسلوں میں جو بے راہ روی اوردین سے دوری پیدا ہوئی ہے، بڑے بڑے دیندار گھرانے بھی اس طوفان سے محفوظ نہیں رہ سکے، حال کے آئینہ میں اگر مستقبل کی تصویر دیکھنے کی کوشش کی جائے توکلیجہ منہ کوآتاہے، چند دہائیوں پہلے کسی قدر مسلم آبادیوں میں مکتب کا نظام قائم تھا اوراس نظام کو متاثرکرنے والے دوسرے نظام تعلیم کا پھیلاﺅ بھی اس طرح نہیں تھا، جس سے وہ قدیم دینی تربیتی نظام کمزور ہوتامگر جب سے عصری تعلیم کا دائرہ وسیع ہوااوراس نےہرچہارجانب زور پکڑا تو مسلمانوں کے لئےبےتوجہی کےسبب دونوں تعلیم کے حصول میں راہ اعتدال اختیارکرنا دشوار ہوگیا اورجس کانتیجہ انتہائی افسوسناک ظاہر ہوااورمسلمان”نہ خداہی ملانہ وصال صنم“ کے مصداق ٹھہرے ،رواں وقت میں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ ہے، اگرآج ان نونہالان امت کے ذہن ودل پر دین اسلام کی صداقت وحقانیت کے نقوش بٹھادئے گئے اورانہیں تعلیمات اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا توآنے والے بے دینی کے سخت سے سخت طوفان بھی ان کے دل ودماغ کو میلا نہیں کرسکتے،ظاہرہےعمر کے ابتدائی نقوش واثرات دیر پا ثابت ہوتے ہیں،مشکل ترین حالات میں بھی وہ باوقاراسلامی زندگی گذار سکتے ہیں،اوراگراس کے برعکس حالت رہی تواسپین واندولس کی تاریخ عبرت کے لئے ہمارے سامنے ہے۔امارت شرعیہ حالات کی اسی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ترجیحی بنیادپرنسل نو کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر لے کر اٹھی ہے،جو بلاشبہ وقت کا سب سے حساس موضوع  اورنازک مسئلہ ہے، یہ وہ کام ہے جسے ہم بآسانی کرسکتے ہیں، اوراس میں کسی جانب سے مداخلت بھی نہیں ، خاموشی سے اگر اس کام کو کرنے میں ہم کامیاب رہے تو یاد رکھیں آنے والے حالات ہماری نسلوں کا بال بیکا نہیں کرسکتے،حالات ان پر نہیں بلکہ یہ خودحالات پر اثر انداز ہوں گے،اللہ کا ہزار شکرہےکہ اس ملک کی ہرآبادی میں علماءکرام بکھرے موتی کی طرح نظرآتے ہیں جودر حقیقت مدارس اور منبرومحراب کی زینت ہیں جن کی فکروتوجہ سےیہ کام آسانی سےانجام پاسکتاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلم آبادیوں میں مسجدوں کو مرکز بنایا جائےاور ہرمسجد کے تحت مکتب کا خود کفیل نظام قائم کیاجائے،ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں حسب خواہ اضافہ کیاجائے, ان کی ان خدمات پرشایان شان اکرام کیاجائے اوراس آبادی کے سارے مسلم بچے بچیوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری انہیں سونپی جائے،علاقے کے مرکزی مدارس بھی اس کام کو اپنی شاخوں کی حیثیت سے بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں اور اس جہت میں بعض مرکزی مدارس نے قابل قدر پیش رفت بھی کی ہے اس لحاظ سے ملت پر ان کا بڑااحسان ہے۔ہر محلہ کے ذمہ داران،باشعور افراد،مسجد کے متولیان واراکین پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ اجتماعی کاموں میں اسے سب سے مقدم رکھیں اوراپنےذاتی کاموں کی طرح اس دینی کام کواہم جانتے ہوئے پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دیں،ان مکاتب میں فقط نورانی قاعدہ، قرآن پاک، اوراردو کا نصاب نہ ہو بلکہ ایک ایساجامع اورمختصر نصا ب ہوجس میں عقائد،معاملات،معاشرت اوراخلاقیات کے بنیادی اوراہم مضامین شامل ہوں،جس سے بچوں کی ہمہ جہت دینی وفکری تربیت ہوسکے،اس تحریک سے امارت شرعیہ کی یہی فکرمقصود ہے۔اس کےلئے امارت شرعیہ کادینیاتی نصاب بھی ایک جامع اور بہترین نصاب ہے۔ امیدہے کہ  ضلعی سطح پرمنعقدہونےوالے  مشاورتی اجلاس میں شرکاءاور ملت کے خواص حضرات اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی عملی کوشش فرمائیں گے۔

اس تحریک کی دوسری اہم کڑی ”معیاری عصری تعلیمی اداروں کاقیام“ہے،یہ بھی کرنے کے اہم کاموں میں ہے،حالات شدید اس کاتقاضہ کرررہے ہیں، ملک کی تعلیمی پالیسی آزادی کے بعد اب تک جس سمت میں جارہی ہے اس سے پڑھا لکھاہر شخص اچھی طرح واقف ہے، خاص کر نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کے خدوخال سے جو واضح ہورہاہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ اہل اقتدار کی منشاءپس پردہ بہت کچھ ہے، اس پس منظر کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے قوم وملت کی ترقی اور آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے جو ادارے قائم ہوسکتے تھے وہ نہیں ہوسکے، ماضی بعید میں ہمارے آباءواجداد نے مشکل حالات میں ملک وملت کو شاندار اورزندگی بخش ادارے عطاکئے تھے مگرماضی قریب میں یہ سلسلہ رک گیا،حالاں کہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ زیادہ سے زیادہ  اس کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں،جہاں سے وہ اپنے دین ومذہب کے مطابق اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل باصلاحیت  افراد تیار کرسکے اور ملک وقوم کی خدمت کے کام ان سے لے سکے،یہ شرم اورعار کی بات ہے کہ نسلیں توہماری ہوں مگر ان کی تعلیم وتربیت کے لئے ادارے کوئی اورتعمیر کرے،اس جانب مسلمانوں کی واقعتا جو توجہ ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوسکی۔جس امت کے مذہب کا پہلا لفظ ”اقرأ“ ہو وہ تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں کی تعلیم گاہوں کی محتاج ہوکر رہ جائے یہ اسے ہرگز زیب نہیں دیتا،یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مغرب جس وقت تاریکیوں میں زندگی بسر کررہے تھے ،مسلم قوم دینی تعلیم کے ساتھ سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں عروج پر تھی،جس قوم کی لکھی ہوئی سائنسی کتابیں صدیوں یورپ کی تعلیم گاہوں میں شامل نصاب رہیں آج وہ قوم اپنی تعلیم ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے، یہ مقام افسوس نہیں بلکہ مقام عبرت ہے،امارت شرعیہ اپنے آغاز ہی سے اس جانب بھی مسلسل ملت کی رہنمائی کرتی رہی ہے،اس میدان میں اس نے مختلف مقامات پر سی بی ایس ای کے طرز پر ”امارت پبلک اسکول“ کے برانڈ نیم کے ساتھ چھ معیاری اسکول،سات ٹیکنیکل آئی ٹی آئی،کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اورپارامیڈیکل قائم کئے ہیں، اس کا منصوبہ ہے کہ ہرضلع میں کم از کم نمونہ کے طورپر اسلامی ماحول میں ایک معیاری اسکول قائم کرے، جس میں دینیات کی تعلیم بھی لازمی ہو،اسی طرح مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کےلئےہرآبادی میں پچےاوربچیوں کے علٰیحدہ علیٰحدہ کوچنگ سینٹرزبھی ہوں جووقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔حضرت امیر شریعت مدظلہ کی اس جانب خاص توجہ ہے اورمسلسل اس کی فکر فرمارہے ہیں، ظاہر ہے کہ امارت شرعیہ کے اوربھی دوسرے اہم شعبے ہیں جن کی جانب ادارے کو توجہ دینی ہوتی ہے،البتہ ملت کے اہل حیثیت اوراصحاب نظرکے سامنے تعلیم کے میدان میں ان چنداداروں کے ذریعہ نمونہ فراہم کرتی ہے تاکہ اس جانب باصلاحیت افراد توجہ دے کر ملت کی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کے لئے آگے آئیں۔ہرآبادی میں اسلامی ماحول کےساتھ پرائمری درجہ کا اسکول تو بآسانی قائم کیاجاسکتاہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری حوصلے اورمنصوبہ بندی کے ساتھ اس جانب پہل کیاجائے، اس تحریک کے ذریعہ امیدہے کہ ہرضلع میں تعلیمی اداروں کے قیام کی منظم کوشش کی جائے گی۔

اس تحریک کی تیسری قابل توجہ کڑی ہماری مادری زبان اردوکا تحفظ ہے،جو مسلسل اس ملک میں آزادی کے بعد سوتیلاپن کا شکار رہی ہے،تقسیم ملک کی بجلی نے اس کے خرمن کو بھی جھلسانے کا کام کیا،کون نہیں جانتاہے کہ اس زبان نے آزادی کے نغمے اورترانے گاکر سوئے ہوئے دلوں کو آزادی کی حرارت بخشی اوراس ملک عزیز کے جیالوں میں آزادی وطن کی روح پھونکی ہے، مگر افسوس کہ آج اسے صرف ایک مذہب سے جوڑ کر تعصب کی نگاہوں سے دیکھاجارہاہے اورریاستی سطح سے ملکی سطح تک اس کی حق تلفی کی جارہی ہے جو بالقصدقومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولہ کی نذر کردی گئی،دوسری زبانوں کے تذکرہ کے ساتھ اس زبان کا تذکرہ نہیں کرنا دراصل اسے زندہ درگور کرنے کے برابر ہے،دوسری جانب ریاست بہار میں بھی نصاب سے اس کی لازمیت کو ختم کر دینا دراصل اس کی جڑکاٹ دینے کے مترادف ہے،ویسے بھی ہمارے بچے اس کی جانب کم توجہ دیتے تھے اب لازمیت کے ختم ہونے اوراختیاری درجے کی زبان ہونے کے بعد کتنی توجہ دیں گے وہ ظاہر ہے،دنیا کا اصول ہے کہ جو چیزیں ضروری ہوتی ہیں ضرورت تصور کی جاتی ہیں، ورنہ ناقابل توجہ بن کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں، آج ہمیں اپنی نسل کو یہ بتانا ہوگاکہ یہ فقط ایک زبان نہیں بلکہ اس ملک میں یہ ہمارے دین ومذہب کا حصہ ہے،ہم اسے جانے بغیر اپنا دین نہیں جان  سکتے اورنہ ہی اپنی تہذیب سمجھ سکتے ہیں، لہذا اس کے بول چال کےفروغ کے ساتھ اس کے لکھنے پڑھنے کوبھی اپنے گھروں میں رواج دینا ہمارا ملی فریضہ ہے،اس کے لئے ضروری ہے کہ گھروں میں اردو اخبارات لئے جائیں اوردینی کتابیں برائے مطالعہ رکھی جائیں،اردو میڈیم اسکول جواسی زبان کے عنوان پر قائم کئے گئے ہیں علاقہ کے بااثر حضرات اس کے اردو کردار کی جانب توجہ دیں،جن پرائیویٹ اسکولوں میں اس زبان کی تعلیم نہ ہو وہاں اپنے بچوں کے داخلے سے گریز کیاجائے،نیز سرکاری دفاتر میں اسی زبان میں درخواست دینے کی کوشش کی جائے۔

ریاست کے سرکاری محکموں میں اسی غرض سے باضابطہ اردو مترجمین کی بحالی کی گئی مگراردو میں درخواستیں نہیں آنے کی وجہ سے اس کا مصرف بدل دیاگیا، کم از کم اس کے تحفظ کے لئے ہم اپنے کرنے کے کام کریں توبہت حدتک اس کا فروغ ممکن ہے۔یہ ایک عظیم قومی وملی سرمایہ ہےاس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے ،انہیں فکروں کو لے کر امارت شرعیہ نے یہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا،ملت کے باشعورافراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس تحریک کے دست وبازو بن کران مقاصد کو زمین پر اتارنے میں اپنا مخلصانہ کردار پیش کریں گے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:

ابھی سے فکرکرناداں مصیبت آنے والی ہے۔

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔

Wednesday 20 January 2021

تعلیمی انقلاب کے لیے امارت شرعیہ کا جامع منصوبہ یکم تا ۸ فروری ترغیب تعلیم و تحفظ اردو کی تحریک چلانے کا فیصلہ

 تعلیمی انقلاب کے لیے امارت شرعیہ کا جامع منصوبہ
یکم تا ۸ فروری ترغیب تعلیم و تحفظ اردو کی تحریک چلانے کا فیصلہ!

امارت شرعیہ نے ہمیشہ ابتدائی دنوں سےہی تعلیم کانظام قائم کرنے کی ترغیب دی،اس کے لئے ضروری اقدامات کئے ہیں،تاکہ اس ملک میں ہماری نسلیں دین وایمان پر قائم رہ سکیں، اس کے لئے امارت شرعیہ نے جس طرح مدرسے اورعصری تعلیمی ادارے قائم کئے اسی طرح دیہی علاقوں میں دینی مکاتب کا خودکفیل نظام بھی سیکڑوں جگہوں پرچلارہی ہے،مستقبل میں بھی امارت شرعیہ اس رخ پر مضبوطی سے کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،اس وقت جب کہ نئی نسل تیزی سے بے راہ روی ودین بیزاری کی شکارہورہی ہے اورحکومت بھی نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ایک خاص نظریہ کو پورے ملک پر تھوپنا چاہتی ہے ،اوراس پالیسی کے ذریعہ مدارس کے نظام تعلیم کو ختم یا کمزورکرنے کی کوشش کی ہے،حضرت امیرشریعت مولاناسید محمدولی رحمانی دامت برکاتہم کی واضح رائے ہے کہ پورے ملک میں مکاتب دینیہ کے جال بچھائے جائیں،کوئی گاﺅں اورمسلم محلہ ایساباقی نہ رہے جس میں مکتب کانظام نہ ہو، اس کے ساتھ ملک میں عزت ووقار کے ساتھ جینے کے لئے ضروری ہے کہ عصری تعلیم کے لئے بڑی تعداد میں اسکول کھولے جائیں جس میں ہمارے بچے اوربچیاں عصری تعلیم حاصل کریں،اسی طرح ان کے لئے اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ماہراساتذہ کی نگرانی میں کوچنگ سنٹر بھی قائم کئے جائیں۔ آج جب کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کو ملک میں متعارف کرایاجارہاہے،ایسے میں ایک ایسی تعلیمی تحریک شروع کی جائے جو پورے مسلم معاشرہ میں تعلیمی انقلاب برپا کردے اور ایک ایسا سماج تشکیل پائے، جس کا ہرفرد علم کے ساتھ اچھے اخلاق و اعمال سے آراستہ ہو اورکوئی فرد ناخواندہ اوردینی بنیادی تعلیم سے بے بہرہ نہ رہے ،امارت شرعیہ نے امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم کے حکم پر اور ان کی ہدایت کے مطابق چھوٹے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے خودکفیل مکتب اوراسکول قائم کرنے کاجامع منشور پیش کیا ہے۔جس کے ذریعہ شہرودیہات،بڑی اورچھوٹی آبادی ہرایسی جگہ جہاں مسلمان بستے ہوں وہاں اپنا دینی تعلیمی نظام قائم کرسکتے ہیں۔یہ باتیں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے اپنے بیان میں کہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ امارت شرعیہ نے ان مقاصد کے لئے بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈمیں" ترغیب تعلیم و تحفظ اردو" کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پہلے مرحلہ میں ریاست بہارمیں یکم تا ۸ فروری کو بہار کے تمام اضلاع میں” ہفتہ برائے ترغیب تعلیم و تحفظ اردو“ کے تحت پروگرام ہوں گے ، جس میں علماءکرام، ائمہ مساجد، دانشوران ، سماجی وسیاسی کارکنان ، دینی و ملی فکر رکھنے والے حضرات ، تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے اور تعلیم کے میدان میں کام کر رہے اہم لوگوں کی شرکت ہوگی ۔ان پروگراموں میں جہاں دینی بنیادی تعلیم کے مکاتب قائم کرنے پر توجہ دلائی جائے گی ، وہیں معیاری اسکول ، عصری تعلیمی اداروں اور مقابلہ جاتی امتحانات کی کم خرچ میں بہتر تیاری کرانے والے کوچنگ سنٹروں کے قیام پر بھی اہل فکروعلم اور مخیر حضرات کوتیارکیا جائے گا ۔ ساتھ ہی اردو زبان کے تحفظ کی بھی مہم چلائی جائے گی ۔ یہ سبھی پروگرام اضلاع کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوں گے ، پروگراموں کا شیڈول اس طرح ہے ۔

مورخہ یکم فروری2021 کو پورنیہ،بھاگل پور، کھگڑیا، سمستی پور، نالندہ اور بھوج پورکے ہیڈ کوارٹر میں نشست ہو گی ۔ مورخہ 2 فروری 2021 کو کٹیہار، بانکا، بیگو سرائے،دربھنگہ،بکسر اور مشرقی چمپارن کے ہیڈ کوارٹر میں پروگرام ہوں گے ، جب کہ 3 فروری 2021 کی نشست کشن گنج، لکھی سرائے، مدھوبنی، گیا، کیموراور شیوہر ضلع کے ہیڈ کوارٹر میں ہو گی 4 فروری2021 کو ارریہ، سہرسہ، جموئی، اورنگ آباد،روہتاس اور سیتا مڑھی میں پروگرام ہوں گے ،6 فروری کی نشست کے لیے سوپول، شیخ پورہ، ارول،سیوان ، گوپال گنج اور ویشالی ضلع کو طے کیا گیا ہے 7 فروری کو مدھے پورہ، مونگیر، جہان آباد، سارن اور مغربی چمپارن کے ہیڈ کوارٹر میں نشست منعقد ہوگی ۔ اس ترغیبی ہفتہ کے آخری دن8 فروری2021ء کونوادہ میں پروگرام منعقد ہو گا۔ 

قائم مقام ناظم صاحب نے امارت شرعیہ کے ارباب حل و عقد، ارکان شوریٰ و عاملہ، ضلع و بلاک کے صدر وسکریٹری ، فعال و سرگرم نقبائ، دینی وملی کاموں اورتعلیمی تحریک سے دلچسپی رکھنے والے سرگرم افراد، سیاسی و سماجی شخصیات، علماءکرام ، ائمہ مساجد ، دانشوران اور تعلیمی ادارہ چلانے والے ذمہ دار افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع کی نشست میں ضرور شرکت کریں اور امارت شرعیہ کی اس ترغیبی تحریک کو کامیاب و با مقصد بنانے میں اپنے قیمتوں مشوروں سے نوازیں ۔ اور امارت شرعیہ کی اس آواز کو ہر گھر تک پہونچانے میں اپنا بیش قیمتی تعاون پیش کریں ۔

मैं तेजस्वी यादव बोल रहा हूं डीएम साहब : हड़बड़ा गये पटना के जिलाधिकारी, तेजस्वी बोले- ईको पार्क में धरने पर बैठूंगा

 *मैं तेजस्वी यादव बोल रहा हूं डीएम साहब : हड़बड़ा गये पटना के जिलाधिकारी, तेजस्वी बोले- ईको पार्क में धरने पर बैठूंगा*

*PATNA* : पटना के जिलाधिकारी चंद्रशेखर सिंह ने आज आम आदमी की तरह ही फोन पर नेता प्रतिपक्ष तेजस्वी यादव को हड़का दिया. हालांकि वे समझ नहीं पाये थे कि उनकी बात किससे हो रही है. फिर सैकड़ों लोगों के बीच खड़े तेजस्वी यादव को जोर देकर बताना पड़ा कि वे कौन बोल रहे हैं. उसके बाद हडबड़ाये डीएम को अहसास हुआ कि उन्होंने गलत तेवर में बात कर दिया.

*शिक्षक नियोजन पर हाईवोल्टेज ड्रामा*

दरअसल शिक्षक बहाली में देरी के खिलाफ राज्य भर के अभ्यर्थी आंदोलन पर हैं. उन्होंने पटना के गर्दनीबाग में धरना देना शुरू किया था. लेकिन मंगलवार की शाम पुलिस ने उन्हें वहां से खदेड़ दिया. आज यानि बुधवार को अभ्यर्थी फिर से गर्दनीबाग धरनास्थल पर पहुंचे तो एक बार फिर पुलिस ने उन्हें खदेड़ दिया. पुलिस से बचकर भागे सैकड़ो शिक्षक अभ्यर्थी पटना के ईको पार्क पहुंच गये. इसके बाद उन्होंने अपने साथ हुए वाकये की खबर नेता प्रतिपक्ष तेजस्वी यादव को दी.

*ईको पार्क पहुंच गये तेजस्वी*

शिक्षक अभ्यर्थियों के ईको पार्क में पहुंचने की खबर मिलने के बाद तेजस्वी यादव वहां पहुंचे. उन्होंने आंदोलनकारियों को संबोधित करना शुरू कर दिया. तेजस्वी ने राज्य सरकार पर तानाशाही का आरोप लगाते हुए कहा कि लोकतंत्र में शांतिपूर्ण प्रदर्शन का अधिकार मिला है लेकिन नीतीश सरकार लाठी-गोली चलवा रही है. तेजस्वी ने कहा कि शिक्षक अभ्यर्थियों और नियोजित शिक्षकों को इसका दंड दिया जा रहा है कि उन लोगों ने आरजेडी को वोट दिया था.

*चीफ सेक्रेट्री साहब-हम भी धरना पर बैठ जायेंगे*

शिक्षक अभ्यर्थियों के बीच से ही तेजस्वी यादव ने सूबे के मुख्य सचिव दीपक कुमार को फोन लगाया. लाउडस्पीकर ऑन था और तेजस्वी मुख्य सचिव से बात कर रहे थे. तेजस्वी ने कहा कि लोकतांत्रिक तरीके से प्रदर्शन करना किसी का भी अधिकार है. लेकिन शिक्षक अभ्यर्थियों पर लाठी-गोली चलायी जा रही है. नेता प्रतिपक्ष ने मुख्य सचिव को कहा कि या तो आंदोलनकारियों को शांतिपूर्ण तरीके से धरना देने की इजाजत दी जाये वर्ना वे भी ईको पार्क में ही धरना पर बैठ जायेंगे.

ऐसे हडबड़ाये पटना के डीएम

शिक्षक अभ्यर्थियों के बीच से ही तेजस्वी ने पटना के डीएम को फोन लगाया. उन्हें भी आंदोलनकारियों के साथ हुए वाकये की पूरी जानकारी दी और कहा कि उनलोगों को धरना देने की इजाजत दी जानी चाहिये. लेकिन पटना के डीएम ये सही से समझ नहीं पाये कि उनकी बात किससे हो रही है. तेजस्वी ने उनसे कहा कि वे धरना देने का आवेदन उनके व्हाट्सएप पर भिजवा रहे हैं वे धरना की अनुमति दे दें. डीएम साहब रौब में बोले-अरे पहले भेजिये न तब देखेंगे. सैकड़ों लोगों के बीच लाउडस्पीकर ऑन कर मोबाइल पर हो रही बातचीत के दौरान डीएम के तेवर देख कर तेजस्वी भी हैरान रह गये. डीएम के तेवर देख उन्हें जोर देकर ये बोलना पड़ा कि वे तेजस्वी यादव बोल रहे हैं. तब जाकर पटना डीएम हडबड़ाये. तेवर डाउन हुआ और फिर बोले-जी सर, भेजिये न देख लेते हैं.

तेजस्वी यादव ने डीजीपी से भी बात कर आंदोलनकारियों के साथ हुए पुलिसिया जुल्म पर नाराजगी जतायी. उन्हें डीजीपी को भी कहा कि वे आंदोलनकारियों को धरना देने की इजाजत दिलवायें.

Sunday 17 January 2021

خاندانی تنازعہ کا شکار جامعہ مدنیہ کا وجود خطرے میں

 خاندانی تنازعہ کا شکار جامعہ مدنیہ کا وجود خطرے میں 


سیماب اختر 

9199112324 

کسی بھی تعلیمی ادارے کی بنیاد اس لیے ڈالی جاتی ہے کہ وہاں علمی تشنگی بجھائ جائے ایسے محدث پیدا ہوں جو قوم و ملت کی اصلاح کر سکیں لیکن جب آپسی خاندانی کی وجہ سے برتری کی جنگ چھڑ جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ آپسی اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہیں وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ بات ہو رہی ہے راجدھانی پٹنہ کے مشہور و معروف دینی تعلیمی ادارے جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ کی، 1989 میں اس کا قیام عمل میں آیاتھا،اور 1990میں حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ نے تعلیم کا آغازوافتتاح کیا ،بانی جامعہ،اساتذہ ،ومنتظمین جامعہ کی محنت وکوشش سے جامعہ آج ایک تحریک کی شکل میں ملک وقوم کے لئے اپنی خدمات بدستور انجام دے رہاہے،قیام کے اولِ دن سے طلبہ اپنی علمی تشنگی بھجا رہے ہیں سینکڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں یہاں سے تعلیم کا شرف حاصل ہوا ہے اور وہ آج پورے ملک ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں لوگوں کی علمی تشنگی بھجا رہے ہیں،

جامعہ مدنیہ سبل ہور پٹنہ ان دنوں بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔اس ادارے کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس ادارہ میں کبھی بھی کسی بھی وقت پولس داخل ہو سکتی ہے ۔ ایسا اس لیے ہو سکتا ہے کیونکہ  اس ادارہ کے نۓ مہتمم حافظ حارث بناۓ گۓ ہیں جو بانی جامعہ حضرت مولانا قاسم مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں اور ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ تو علم ہے اور نہ ہی عمل، اور شاید یہ الزام ان کے ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے لگ رہا ہے ۔ادارہ کے کچھ لوگوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حافظ حارث نہ تو مہتمم کے لائق ہیں اور نہ ہی ناظم کے عہدے کے لائق، بلکہ  وہ تو استاذ کے لائق بھی نہیں ہیں ۔ جامعہ کے ٹرسٹ کو حافظ حارث اپنے والد کی وراثت کی دلیل بناتے ہوئے ناظم کے عہدے پر فائز ہونے کی کوشش کی اور اپنے چچا مولانا ناظم پر بدعنوانی کے الزامات کی جھری لگادی پھر یہ ساری باتیں اور سارا جھگڑا عوام الناس سے ہوتے ہوئے پولس تک پہنچ گیا اور پھر معروف دینی و تعلیمی درس گاہ جامعہ مدنیہ سبل پور کے پرنسپل مولانا محمد ناظم کو ندی پولیس نے گرفتار کر لیا ۔ جامعہ مدنیہ کے پرنسپل محمد ناظم پر تقریباً 41 لاکھ روپے کے غبن کا الزام ہے۔ گرفتار  محمد ناظم جامعہ کے بانی مرحوم مولانا قاسم کے حقیقی بھائی ہیں، اس مدرسے کو چلانے کے لیے مدنی ایجوکیشنل ٹرسٹ تشکیل دیا گیا تھا

ندی تھانہ کے پولیس انچارج  نے بتایا تھا کہ 'محمد ناظم کی گرفتاری ہو گئی ہے، اس معاملے میں تین دیگر نامزد ملزم فرار ہیں جن کی گرفتاری ہونی تھی، تھانہ صدر کے مطابق اب تک اس معاملے میں 24 لاکھ کے غبن کا انکشاف ہوا ہے۔

ٹرسٹ کے سکریٹری و خزانچی بلال الدین نے رواں برس 22 جون کو مولانا ناظم کے علاوہ ان کے ایک اور بھائی محمد سالم کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا، سبھی ملزمین بھاگلپور کے گوراڈیہ تھانے کے کوروڈیہ گاؤں کے رہنے والے ہیں۔

محمد بلال الدین کے مطابق 'ان تمام ملزمین نے مدنی ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جگہ الگ سے جعلی جامعہ مدنی ایجوکیشنل ٹرسٹ تشکیل دیا ہے، اس ٹرسٹ کے نام پر ایک رسید بھی چھاپ دی گئی ہے۔ اس کے بعد فنڈ اکٹھا کرنا شروع کردیا گیا ۔ بلال کا الزام ہے کہ 'ان افراد نے دھوکہ دہی اور جعلسازی کا ارتکاب کیا ہے

مہتمم بنانے کے لیئے اور مولانا ناظم کو ناظم کے عہدے سے ہٹانے کے لئے نہ جانے کتنا جوکھم اٹھانا پڑا  اس کا ذکر اس وقت بیجا ہوگا۔مولانا ناظم کے جاننے والوں نے یہ الزام عائد کیا کہ ٹرسٹ کے  ذمہ داروں نے جس میں بلال چائے پتی والے پیش پیش ہیں، حافظ حارث کو آلہ کار بناکر ان کے ذریعہ ان کے دو چچا مولانا محمد ناظم، مولانا محمد سالم  اور ان کے بہنوئی مولانا مرغوب عالم  کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ دائر کروایا۔ مقدمہ  عدالت میں زیر غور ہے۔ اس لیئے بدعنوانی کے سلسلے میں قبل از وقت کچھ بھی کہنا اچھی بات نہیں ہوگی۔ مولانا ناظم مولانا سالم اور مولانا مرغوب  کو اس بات کی اطلاع تھی کہ ان پر مقدمہ ہوچکا ہے باوجود اس کے وہ لوگ مدرسہ کے کاموں میں لگے رہے۔ مگر اچانک کسی طرح مولانا ناظم کی گرفتاری عمل آئ ۔ اس کے بعد مولانا سالم اور مولانا مرغوب کو دربدری کا شکار ہونا پڑا۔ 41 دن جیل میں گذارنے کے بعد اب مولانا ناظم ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اب تک جامعہ میں قدم بھی نہیں رکھا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کا خلاصہ ممکن نہیں ہے 

اس پورے معاملے میں مولاناظم اور ان کے رفقاء ایماندار ہیں یا حارث گروپ؟ یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔ لیکن  مذکورہ تینوں افراد کی قربانیاں جامعہ مدنیہ سبل پور کے عروج و ارتقاء میں رہی ہیں

مولانا قاسم صاحب نے اپنی حیات میں ہی  مولانا ناظم کو  فراغت کے بعد انہیں جامعہ کا ناظم بنایا اور ان پر بھر پور اعتماد کیا اور ان کو اپنا مشیرکار بنایا۔ اسی طرح مولانا مرغوب کو صدر المدرسین بنایا ۔

مولانا ناظم اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور جامعہ مدنیہ سبل پور سے انہوں نے دوری بنا لی ہے اس بیچ نۓ ناظم حافظ حارث نے کرونا وائرس کی وبا کے بعد تعلیمی نظام کے آغاز کے لیے داخلہ کی کارروائی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے، آپسی تنازعہ کی وجہ سے جامعہ کے وجود پر خطرہ لاحق ہوگیا ہے، اسلاف نے اپنے خون پسینے سے اس ادارہ کو سینچا تھا خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں بد نظر اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو جائیں اور جامعہ پر قانونی تالا نہ لگ جائے، میری ذاتی رائے ہے کہ اس حساس مسئلے پر راجدھانی کے باشعور، قوم ملت کے غم خوار کو بھی آگے آنا چاہیے اور خاندانی جھگڑے کا حل تلاش کرنے پیش قدمی کرنی چاہئے، اکابر کے خوابوں تعبیر کے تحفظ کیلئے لوگوں کے آگے آنا چاہیے

Friday 15 January 2021

مال دار تو بہت ہیں مگر دلدار نہیں ہیں۔

         مال دار تو بہت ہیں  مگر دلدار نہیں ہیں۔



شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں رہوا ویشالی بہار

قارئینِ کرام ۔

اللہ تعالی نے جن کو مال سے نوازا ہے ان میں بہت کم ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ مال ودولت کو نعمت خداوندی سمجھ کر شکر بجا لاتے ہیں اور غریبوں یتیموں مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرکے اللہ کی رضا اور خوشنودی چاہتے ہیں ۔ بلکہ اکثریت ایسے مالداروں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو مال دولت ہمارے پاس ہے اس کو ہم نے اپنے بازو کی طاقت سے حاصل کیا ہے اور وہ فقراء ومساکین اور حاجت مندوں پر خرچ کرنے کو بوجھ سمجھتے ہیں ۔ قابلِ مبارک ہیں وہ خوش نصیب جو اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اپنی آخرت بنارہے ہیں۔ اور قابلِ مذمت ہیں ایسے لوگ جن کو اللہ نے مال سے نوازا مگر وہ راہ خدا میں خرچ نہ کرکے اپنی آخرت برباد کر بیٹھے ۔

جو مال اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ کہتے ہیں ۔

صدقہ کی تین قسمیں ہیں ۔

1,فرض ،جیسے  زکوٰۃ ۔

2, واجب ،جیسے نذر، صدقۃ الفطر ، اور قربانی وغیرہ ۔

3,نفلی صدقات ۔ جیسے عام خیر خیرات ۔

راہ خدا میں خرچ کرنے کی قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ اور خرچ نہیں کرنے والوں کے لئے وعیدیں آئی ہیں ۔

فرمان خداوندی ہے ۔ جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ  غمگینی (سورہ بقرہ)

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو  اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی (سورہ توبہ)

تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟

کون ہے جو اللہ تعالی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے (سورہ حدید)

جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے کچھ دے کھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے (سورہ آل عمران)

خبردار تم وہ لوگ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے جاتے ہو تو تم میں سے بعض بخیلی کرنے لگتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے وہ تو دراصل اپنی جان سے بخیلی کرتا ہے اللہ تعالی غنی ہے اور تم فقیر اور محتاج ہو اور اگر تم روگردان ہو جاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہیں ہوں گے (سورہ محمد)

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔

جو مال جمع کرتا جاۓ اور گنتا جاۓ۔

وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔

ہر گز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔

اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی ۔

وہ اللہ عزوجل کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی ۔

جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی ۔

وہ ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی ہوگی ۔

بڑے بڑے ستونوں میں (سورہ ھمزہ)

انسان کا اپنا مال ۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ تکاثر کی آیت (الھکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر) غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے یہاں تک کہ قبریں دیکھ لیں کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ اس کا مال کہاں سواۓ اُس کے جو اس نے کھا کر ختم اور پہن کر پرانا کر دیا یا پھر صدقہ خیرات کر کے اللہ کے ہاں جمع کردیا ۔

اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا داروں کی حیثیت ۔

فخر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے زیادہ مال جمع کرنے والے لوگ اللہ کی نظر میں حقیر ہیں مگر کثرت سے صدقہ کرنے والے ( اللہ کی نظر میں محبوب ہیں) جو لوگ ہر وقت مال کی حرص میں مبتلا اور زیادتی کی فکر میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالی کے نزدیک وہ ادنی اور حقیر ہیں اگر جنت میں جائیں گے تو غریبوں کا مقام نہیں پاسکتے جہنم میں جائیں گے تو اس میں بھی نچلے طبقہ میں رہیں گے البتہ وہ مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں جو ہر حال میں اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں کہ وہ مال کے مضر اثرات سے بہت حد تک بچے رہتے ہیں۔

امیر غریب ہر مسلمان کے لئے صدقہ لازم ہے ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر کسی آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دست و بازو سے محنت کرے اور کمائے اس سے خود بھی فائدہ اٹھاۓ اور صدقہ بھی کرے عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ نہ کرسکتا ہو تو کیا کرے رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کر کے اس کی مدد ہی کر دے ( یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے) عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے آپ نے فرمایا تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لئے کہے لوگوں نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کم ازکم شر سے اپنے کو روکے یعنی اس کا اہتمام کرے کہ اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے یہ بھی اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب لوگوں پر دولت اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے زکوۃ فرض نہیں ہوتی ان کو بھی صدقہ کرنا چاہیے اگر روپیہ پیسہ سے ہاتھ بالکل خالی ہو تو محنت مزدوری کرکے اور اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ کی سعادت حاصل کرنی چاہیے اگر اپنے خاص حالات کی وجہ سے کوئی اس سے بھی مجبور ہو تو کسی پریشان حال کی خدمت ہی کر دے اور ہاتھ پاؤں سے کسی کا کام نہ کر سکے تو زبان ہی سے خدمت کرے حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہر مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب طاقتور اور توانا ہو یا ضعیف اس کے لئے لازم ہے کہ دامے،درمے، قدمے، سخنے، جس طرح جس قسم کی بھی مدد کر سکے ضرور کرے اور اس سے دریغ نہ کرے۔

صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے فرزند تو میرے ضرورت مند بندوں پر اپنی کمائی خرچ کر میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم اللہ کے بھروسے پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت یعنی اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی تمہیں اپنی نعمتیں بے حساب دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالی بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بند ہو جائیں گے لہٰذا تھوڑا بہت جو کچھ  ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

جو راہ خدا میں خرچ کر دیا جائے وہی باقی اور کام آنے والا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی اور اس کا گوشت للہ تقسیم کر دیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ بکری میں سے کیا باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا صرف ایک دست اس کی باقی رہی باقی سب ختم ہو گیا آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اس دست کے علاوہ جو للہ تقسیم کردیا گیا دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے یعنی آخرت میں ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا (جامع ترمذی)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات یہ ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کر دوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کے لئے اس میں سے کچھ بچا لوں (صحیح بخاری)

جو دولت مند کشادہ دستی سے راہ خدا میں خرچ نہ کریں بڑے خسارے میں ہیں ۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں اور اس کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیں ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ہر طرف خیر کے مصارف میں اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں مگر دولتمندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بندے بہت کم ہیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

ضرورت مندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر وثواب ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا پہننے کو کپڑا دیا اللہ تعالی اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جس مسلم بھائی نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا اور جس مسلم بھائی نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا تو اللہ تعالی اس کو جنت کے سربمہر شراب طہور پلاۓ گا (سنن ابی داؤد،جامع ترمذی)

بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بد چلن عورت اس عمل پر بخش دی گئی کہ وہ ایک کنوئیں کے پاس سے گزری اور اس نے دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالے ہوئے اس کی حالت ایسی ہے کہ گویا وہ پیاس سے مر ہی جائے گا اس عورت کے دل میں ترس آیا وہاں پانی نکالنے کے لیے رسی ڈول کچھ بھی موجود نہیں تھا اس نے اپنا چمڑے کا موزہ پاؤں سے نکالا اور کسی طرح اس کو اپنی اوڑھنی سے باندھا اور محنت مشقت کرکے اسی کے ذریعے سے پانی نکال کر اس کو پلایا وہ عورت اپنے اسی عمل کی وجہ سے بخش دی گئی کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہر حساس جانور جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو اس کو کھلانے پلانے میں اجر و ثواب ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔

اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم و بیش خرچ تو سبھی کرتے ہیں لیکن اس خرچ کرنے سے لوگوں کو وہ روحانی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کے نیک بندوں کو دوسرے مساکین و فقراء پر صدقہ کرنے سے ہوتی ہے کیوں کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو لوگ کار ثواب نہیں سمجھتے بلکہ اس کو مجبوری کا ایک تاوان یا نفس کا ایک تقاضا سمجھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اپنے اہل و عیال اور اعزہ و اقارب پر بھی لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے خرچ کرنا چاہیے اس صورت میں جو خرچ اس مد میں ہوگا وہ سب صدقہ کی طرح آخرت کے بینک میں جمع ہو گا بلکہ دوسرے لوگوں پر صدقہ کرنے سے زیادہ اس کا ثواب ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے ہمارے لئے خیر و سعادت کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اب ہم جو کچھ اپنے بیوی بچوں کے کھانے کپڑے پر حتی کہ ان کے جوتوں پر جائز حدود میں خرچ کریں وہ ایک طرح کا صدقہ اور کار ثواب ہو گا بس شرط یہ ہے کہ ہم اس ذہن سے اور اس نیت سے خرچ کریں ۔

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا جب کوئی صاحب ایمان بندہ اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو اس کے حق میں صدقہ ہوگا اور وہ عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) 

اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت ۔

سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لئے کچھ دینا صرف صدقہ ہے اور اپنے کسی عزیز قریب ( ضرورت مند) کو اللہ کے لئے کچھ دینے میں دو پہلو ہیں اور دو طرح کا ثواب ہے ایک یہ کہ وہ صدقہ ہے اور دوسرے یہ کہ وہ صلہ رحمی ہے (یعنی حق قرابت کی ادائیگی ہے) جو بجائے خود بڑی نیکی ہے ۔(مسند احمد،جامع ترمذی،سنن نسائی، ابن ماجہ، سنن دارمی) رحم و سخاوت پر جنت، حضرت حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری امّت کے بہت سے لوگ نماز روزہ کی کثرت کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ ان کے دلوں کی سلامتی،  سخاوت، اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی و غمخواری ان کو جنت میں لے جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مال کے ساتھ ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ورنہ وہ مال ہی کیا جسے راہ خدا میں خرچ نہ کرسکے،،

دیگھا پٹنہ میں امارت شرعیہ کی جانب سے کمبل کی تقسیم :

 دیگھا پٹنہ میں امارت شرعیہ کی جانب سے کمبل کی تقسیم :



آج مورخہ 15/جنوری 2021ءکوبانس کوٹھی دیگھا (پٹنہ) کے غریب ومحتاجوں کےدرمیان امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کےشعبۂ خدمت خلق کی جانب سے شدید ٹھنڈک کےپیش نظر کمبل تقسیم کیاگیا ہرسال موسم سرمامیں امارت شرعیہ کی جانب سےبہاراڈیشہ وجھارکھنڈ میں ہزاروں  غریب ومحتاج انسانوں  کی زندگیاں  بچانےکیلئے حسب استطاعت بڑےپیمانے پر کمبل کی تقسیم ہوتی ہےجس سےبےسہاروں اور کمزوروں کوبڑی راحت نصیب ہوتی ہےاور ان کےدلوں سےدعائیں نکلتی ہیں چناں چہ گذشتہ سالوں کی طرح  امسال بھی

 مسلسل کئی ہفتوں سے جھگی جھونپڑی ,باندھ کےکنارے اور پسماندہ علاقوں میں حضرت امیر شریعت مولانا سیدمحمدولی رحمانی زید مجدھم کی خصوصی ہدایت پر امارت شرعیہ کےمتحرک وفعال قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب حسب دستور ان محتاجوں کےدرمیان جو شہر کے مختلف حصوں میں بیچارگی ومفلسی کی زند گی گذاررہے ہیں ایسے مقامات کی صحیح نشاندہی کرکے امارت شرعیہ کے ذمہ داران وکارکنان کے ذریعے اس کار خیر اور مقبول کام کو بڑی مستعدی کے ساتھ انجام دیرہے ہیں چناں چہ اسے حصہ کی کڑی کےطور پر آج جمعہ سے قبل امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا  احمد حسین قاسمی صاحب ومولانا ہدایت اللہ قاسمی مبلغ امارت شرعیہ ودیگر کارکنان کےذریعہ بانس کوٹھی دیگھا کی بیواؤں محتاجوں اور بےسہاروں کے درمیان وہاں کے مقامی ذمہ داران کی موجودگی میں کمبل کی تقسیم کاعمل ہوا جس سے غریبوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے ایسی کڑاکے کی ٹھنڈ ک میں ان کے حق میں اس سے بہتر تحفہ کیا ہو سکتا تھا ان کے ساتھ ساتھ مقامی ذمہ داران نے بھی امارت شرعیہ کے اکابرین وخادمین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا

ڈاکٹرمشتاق احمد مشتاق*

                       *ڈاکٹرمشتاق احمد مشتاق*



*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ*

=============================================

 ویمنس کالج حاجی پور ضلع ویشالی کے صدر شعبۂ اردو ، کئی کتابوں کے مصنف، حاجی پور میں اردو تحریک کے مضبوط ستون ، انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی کے سابق اور کاروان ادب ضلع ویشالی کے جوائنٹ سکریٹری، انجمن ترقی اردو بہار کی مجلس عاملہ کے سابق رکن اور کاؤنسلر، مرنجا مرنج ، خود دار، وضع دار، قناعت پسند اور راضی برضائے الٰہی کی عملی اور حقیقی تصویر ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق نے صرف انسٹھ(۵۹) سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا ، عوارض کئی تھے، جسے وہ برسوں سے جسم وجان پر اٹھائے زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے، سائیکل ان کی پسندیدہ سواری تھی، لیکن درد کی وجہ سے اس پر سواری دشوار ہو گئی تو دوسری عوامی سواری کا استعمال کرنے لگے، آخری وقت میں ہچکیوں کا غلبہ تھا، ہمارے دیار میں مشہور ہے کہ ہچکیاں کسی کے یاد کرنے سے آتی ہیں، اگر چہ یہ بات تجربے اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہی جاتی رہی ہے، شرعی اس کی کوئی اہمیت کسی درجہ میں نہیں ہے، ہچکیوں کی کثرت سے ایسا لگ رہا تھا تھا کہ اللہ انہیں اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں، تکلیف زیادہ تھی، اس لیے ان کے آبائی گاؤں بھیرو پور سے اٹھا کر اوما ہوسپیٹل کنکڑ باغ میں انہیں بھرتی کرایا گیا ، جہاں انہوں نے ۳؍ دسمبر ۲۰۲۰ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ ، ۳؍ اگہن ۱۴۲۸ فصلی شب جمعہ بوقت نو بجے آنکھیں موندلیں، جنازہ کی نماز اگلے دن بعد نماز جمعہ ۳؍ بجے شام میں ادا کی گئی ، ان کے ماموں زاد بھائی مولانا ولی الرحمان اشاعتی نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور بھیرو پور (حاجی پور، ویشالی) کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں صرف اہلیہ ارشدی فاطمہ ، ایک بھائی اور چار بہن کو چھوڑا، والدین پہلے ہی جنت مکانی ہو چکے تھے۔

 ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق بن ممتاز احمد (م ۲۰۰۴ئ) بن عبد المجید بن عبد الشکور کی ولادت ۸؍ فروری ۱۹۶۱ء موضع بھیرو پور (بدر پور) حاجی پور ضلع ویشالی میں ان کی نانی ہال میں ہوئی ، والدہ اصغری خاتون بنت عبد الحفیظ کا انتقال ابھی چند سال پہلے ہوا، ان کی دادی ہال چک جادو درگاہ بیلا موجودہ ضلع ویشالی تھی، لیکن ان کے والد نقل مکانی کرکے اپنی سسرال میں آ بسے تھے، ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن وغیرہ انہوں نے جامع مسجد بھیرو پور کے امام اور گاؤں کے معلم حافظ عزیز الرحمان مرحوم سے حاصل کیا، حافظ عزیز الرحمان صاحب کھیری بانکا ضلع مدھوبنی کے رہنے والے تھے اور پچاس سال سے زائد یہاں امامت کے فرائض انجام دیے، گاؤں کے لوگوں نے ان کی پچاس سالہ خدمات کے اعتراف میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد غالبا گولڈن جبلی کے عنوان سے کیا تھا، مشتاق صاحب نے اس موقع سے عزیز الرحمان صاحب کی آپ بیتی اور بیاض کو کتابی شکل دی تھی، انہوں نے خود بھی ایک مضمون حافظ عزیز الرحمان صاحب پر لکھا تھا اور مجھ سے بھی کہہ سن کر لکھوایا تھا، یہ مضمون یادوں کے چراغ جلد دوم میں حافظ عزیز الرحمان صاحب کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا۔

مکتب سے نکلنے کے بعد انہوں نے عصری تعلیمی اداروں کا رخ کیا، دسویں (میٹرک) کا امتحان جنتا ہائی اسکول پانا پور سے پاس کرنے کے بعد انہوں نے آر این کالج حاجی پور میں داخلہ لیا اور انٹر اور بی اے کی تعلیم اسی کالج سے مکمل کی ، یہاں انہیں پروفیسر ثوبان فاروقی جیسے نامور شاعر، ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار سے شرف تلمذ حاصل ہوا، اقبال شناس ، ادیب ونقاد، ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے یہیں انہیں مضمون نگاری کے اصول وجزئیات کی عملی مشق کرائی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے تحقیقی مقالہ کی تسوید وتبیض میں ہاتھ بٹا کر تحقیق کے فن سے آشنا ہوئے، انوار الحسن وسطوی نے انجمن ترقی اردو ، کاروان ادب سے جوڑ کر اردو کی محبت ان کی گھٹی میں پلائی، اس طرح ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کی علمی وادبی صلاحیتیں پروان چڑھیں، اردو کی ترویج واشاعت کے کاموں میں  تازندگی مشتاق احمد مشتاق ان کے ساتھ مل کر مثلث بناتے رہے ، اسی درمیان ۱۹۸۸ء میں انہوں نے بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ایم اے اردو میں کامیابی حاصل کی اور طویل وقفہ کے بعد ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی نگرانی میں’’ اردو شاعری میں طنز ومزاح کی روایت اور رضا نقوی واہی کی شاعری‘‘ پر مقالہ لکھ کر ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹریٹ کرلیا، ان کا یہ تحقیقی مقالہ اب تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکا ہے۔ 

۱۹۹۰ء میں وہ ویمنس کالج حاجی پور شعبہ اردو سے بحیثیت صدر شعبہ منسلک ہوئے اور کوئی تیس سال پورے خلوص دلجمعی سے طلبہ کو اردو پڑھانے کا کام کیا وہ تا حیات اس منصب پر فائز رہے۔

ان کی سب سے پہلی تصنیف ’’مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات‘‘ تھی جسے انہوں نے قلمی مجلد شکل میں حاجی پور سمینار میں مجھے پیش کیا تھا، یہ سمینار انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی نے منعقد کیا تھا اور میری ذات، اور فن کو موضوع سخن بنایا تھا، یہ سمینار ۲۰۰۳ء میں ہواتھا، اور یہ کتاب ۲۰۰۵ء میں پہلی بار طبع ہو ئی تھی، بعد میں اس کا دوسرا ایڈیشن نظر ثانی ، اضافے اور جدید ترتیب کے ساتھ شائع ہوا۔

ان کی دوسری کتاب’’ ذکی احمد شخصیت اور شاعری‘‘ ۲۰۰۹ء میں منظر عام پر آئی ، ’’ڈاکٹر ممتاز احمد خان ، ایک شخص ایک کارواں‘‘ کی ترتیب ۲۰۱۵ء میں مکمل ہوئی اور چھپ بھی گئی ، اسی درمیان انہوں نے اپنے مضامین کا مجموعہ ’’ذوق ادب‘‘ مرتب کرکے شائع کر دیا ، ان کا دوسرا مجموعہ بھی ’’برگہائے ادب ‘‘ کے نام سے تیار تھا، لیکن وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہ قارئین کی نظروں سے اب تک اوجھل ہے، ان کا یہ مسودہ مالی امداد کے لیے اردو ڈائرکٹوریٹ میں جمع ہے، زندگی کے آخری ایام میں پروفیسر ثوبان فاروقی مرحوم پر بھی وہ کتاب ترتیب دے رہے تھے اس مجموعہ کے لیے ایک مضمون انہوں نے مجھ سے بھی لکھوانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی ۔

اردو کے لیے ان کی اس خدمت کو دیکھتے ہوئے دانش مرکز پھلواری شریف نے ۲۰۱۵ء میں انہیں پروفیسر وہاب اشرفی یادگاری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

معاشی بست وکشاد اور بہنوں کی شادی وغیرہ نے ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کو اپنا گھر بسانے کے خیال سے دور رکھا ، ہم لوگ ولیمہ کی خواہش کا اظہار کرتے رہے، لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے، بالآخر ۲۵؍ جولائی ۲۰۱۱ء کویہ روز سعید آیا کہ وہ حکیم افتخار منظر مرحوم عالم گنج پٹنہ کی دختر نیک سے رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے، کم وبیش دس سال بلکہ آخری دم تک رفاقت رہی، مگر اولاد سے محروم رہے، اللہ رب العزت کا اس سلسلے میں واضح ارشاد ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے، جسے چاہتا ہے دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، چنانچہ ان کے حصے میں اولاد کی مسرت نہیں آئی، لیکن وہ راضی برضائے الٰہی تھے، اس لیے کبھی کسی کے سامنے معاشی تنگی اور اولاد کی محرومی کا ذکر نہیں کرتے، وہ اسے اپنی خود داری کے خلاف سمجھتے، ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے ان دونوں موضوع پر گفتگو سے گریز کرتے کہ مبادا یہ گفتگو ان کے اوپر بار نہ ہو۔

 اردو تدریس کے ساتھ اردو تحریک کے حوالہ سے بھی ان کا نام وکام بہار میں معتبر تھا، وہ کوئی بیس سال (۲۰۰۹۔ ۱۹۸۹) انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی شاخ کے جوائنٹ سکریڑی رہے، انجمن ترقی اردو بہار کے کاؤنسلر اور صوبائی مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر کام کیا، ۲۰۱۱ء سے وہ کاروان ادب حاجی پور کے جوائنٹ سکریٹری تھے اور جناب انوار الحسن وسطوی کے معاون کے طور پر کام کر رہے تھے، واقعہ یہ ہے کہ ادبی پروگراموں میں شرکت کا ان کا جیب متحمل نہیں تھا، لیکن ضلع ویشالی اور راجدھانی پٹنہ کی ادبی تقریبات جواردو کے حوالے سے منعقد ہوتیں اس میں وہ ضرور شرکت کرتے، یہ پروگرام ان کی روح کی غذا تھی اور وہ جسم کو توانائی پہونچانے کے لیے غذائی اجناس کے استعمال کی طرح ہی اردو کے پروگراموں میں شرکت کو روحانی ، علمی اور لسانی ضرورت سمجھتے تھے، اس لیے اس کے لیے وقت نکالتے ، سفر کی صعوبت برداشت کرتے اور آمد ورفت کے اخراجات کے لیے زیر بار بھی ہوتے، لیکن اردو کے ساتھ عاشقانہ وابستگی اور جنون انہیں یہ سب کرنے پر آمادہ کرتا اور وہ شرکت سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ یہ تعلق اور شیفتگی ان کی مشاعروں میں بڑھ جاتی تھی وہ اچھے شعروں پر داد دیتے؛ بلکہ مقالہ سنتے وقت بھی اچھے جملوں اور بہترین تعبیرات پر مچل جاتے اور داد دینا شروع کر دیتے۔ تواضع اور انکساری ان کی پہچان اور قناعت ان کی شان تھی، مرنجا مرنج ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے قریب ہوتے، محبت کرتے، جان چھڑکتے اور گرویدگی کے عروج پر پہونچ جاتے۔

 مجھ پر انہوں نے اچھا خاصہ کام کیا تھا اور کہنا چاہیے کہ مجھے اس وقت پہچان لیا تھا، جب میرے روابط محدود تھے، انہوں نے مجھ پر کتاب مرتب کر ڈالی، ایک ایسے آدمی پر جس سے ان کا کسی طرح کا مفاد وابستہ نہیں تھا، مولوی ، دعاؤں کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتا ہے، مجھے اس کا احساس بہت ہوتا ہے کہ میں ان کی محبت کا کوئی صلہ انہیں نہیں دے سکا، قلم ہاتھ میں تھا، لیکن ان کے لیے بہت کچھ لکھ بھی نہیں سکا، ذکی احمد پر جو کتاب انہوں نے مرتب کی تھی، اس پر ایک مضمون لکھ دیا تھا، جو اس کتاب کے اجراء کے موقع سے ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب کے دولت کدہ ساجدہ منزل میں خودہی پڑھ دیا تھا اور بس اللہ اللہ خیر صلی 

پھر جب میرا امارت شرعیہ آنا ہوا، تو فطری طور پر ان کی دلچسپی امارت شرعیہ سے بڑھی ، گاؤں کی تنظیم کے وہ پہلے سے ممبر تھے اور قومی محصول بڑی پابندی سے ادا کرتے تھے، ویشالی میں وفد کے دوروں کی ترتیب بنتی اور ان کا گاؤں بھی اس میں شامل ہوتا تو خصوصی دلچسپی لیتے اور وفد کی آمد کو ہر اعتبار سے کامیاب کرنے کی کوشش کرتے، یہی حال ان کا گاؤں کی دوسری سیرت کے جلسے اور کسی بھی پروگرام کے موقع سے ہوا کرتا، ایک زمانہ میں ان کے گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں مجھے شرکت کی دعوت ملتی اور میں شریک بھی ہوتا، ان دعوتوں میں ان کی دلچسپی کا بھی عمل دخل ہوتا، جب تک میرا قیام وہاں ہوتا مسلسل ساتھ لگے رہتے۔

ان کی جدائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر زبان پر وہی کلمہ جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ لاجل مسمی ۔ اللہ ہی کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے لیا، دیا اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم ان کی موت کو بے وقت کی موت بھی نہیں کہہ سکتے، اور ان کے انتقال پر رنج بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ موت تو اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کے کسی کام پر بندوں کو رنج کا حق نہیں ہے ، ہاں غم سبھی کو ہے اور یہ غم تو اب حرز جاں سا ہو گیا ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

Tuesday 12 January 2021

مدارس بند مت کرنا

          مدارس بند مت کرنا



مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ

ایک زمانہ تھا جب مرکزی حکومت مرکزی مدرسہ بورڈ بنانے کے لیے مصر تھی، اور اس نے پورے ہندوستان سے ایک ہزار سے زائد علماء کی میٹنگ بلائی تھی، اس وقت حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اوردوسری ملی تنظیموں نیزدینی تعلیمی اداروں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز روبہ عمل نہیں لائی جا سکی، علماء اس قسم کے بورڈ کے مضر اثرات کو دیکھ چکے تھے، اور ان کی نظر میں حضرت مولانا محمدقاسم نا نوتویؒ کے اصول ہشت گانہ تھے، جس میں مدارس کو سرکاری نظام سے جوڑنے سے منع کیا گیا ہے۔ مرکزی مدرسہ بورڈ نہ بن سکا، لیکن ملک کی مختلف ریاستوں میں الگ الگ مدرسہ بورڈ پہلے سے قائم ہے اور ان سے ملحق مدارس کا تعلیمی نظام ونصاب مدرسہ بورڈ کے ما تحت ہے، ان مدارس کے تعلیمی معیار سے مطمئن نہ ہونے اورنصاب تعلیم میں غیر معمولی سرکاری دخل اندازی کے باوجود یہ مدارس اپنا کام کرتے رہے اوربعض صوبوں میں حکومت بھی ان کی کارکردگی کو ماڈل کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، بہار اڈیشہ،جھارکھنڈ، آسام، اتر پردیش، مدھیہ پردیش وغیرہ میں مدرسہ بورڈ کے ماتحت یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، پہلے مدارس کے اساتذہ کوسرکاری امداد دی جاتی تھی، جو انتہائی قلیل تھی اور سال سال بھر کے بعد مدارس میں پہونچتی تھی، دھیرے دھیرے اس میں اصلاح ہوئی اور مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا، گو اب بھی اس کا معیار اسی درجہ کے سرکاری کارکنان سے کم ہے اور وہ بہت ساری ان سرکاری مراعات سے بھی محروم ہیں، جو سرکاری کارندوں کو برسوں پہلے سے دی جا رہی ہے،بعض ریاستوں میں مدارس کو تنخواہ کے علاوہ عمارت کی تعمیرات کے لئے بھی رقم فراہم کی جاتی ہے،جیسا کہ ابھی حال ہی میں راجستھان سرکار نے کیا ہے،

بی جے پی دور حکومت میں یہ مدارس خواہ آزادانہ کام کر رہے ہوں، یا بورڈ کے ما تحت ہوں بی جے پی اور اس کی پشت پناہ آر ایس ایس کو بُری طرح کھٹکنے لگی، سب سے پہلے اتر پردیش میں یوگی حکومت نے ان مدارس پرطرح طرح کی پابندیاں لگائیں، نصاب تعلیم میں ترمیم کرکے مدارس کی تعلیم کے اصل موضوعات کو کم کیا، جس سے مدارس کے نظام تعلیم پر برُااثر پڑا، اور وہ دینی سے زیادہ عصری تعلیم کے مراکز ہو گیے اور ان میں دھیرے دھیرے وہ تمام بے راہ روی راہ پانے لگی جوسرکاری اداروں کی اِن دنوں شناخت بن چکی ہے، اس کے با وجود یوپی حکومت نے ان مدارس کو بند کرنے کا دم خم نہیں دیکھا یا، یہ مدارس آج بھی چل رہے ہیں، لاک ڈاؤن میں جس طرح سب جگہ تعلیم وتدریس بند ہے، یہاں بھی بند ہیں، لیکن ان کا وجود قائم ہے، اور لاک ڈاؤن کے بعد یہ پھر سے کام کرنے لگیں گے۔

آسام میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور امسال وہاں انتخاب ہونے ہیں، بی جے پی حکومت ہندو توا رائے دہندگان کو متحد کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف مسلسل کام کر رہی ہے، سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کو پریشان کر نے کے بعد سرکاری گرانٹ سے چلنے والے مدارس کو عام اسکولوں میں تبدیل کرنے کا اس نے فیصلہ کرلیا ہے، اس فیصلے میں سنسکرت پاٹھ شالے بھی شامل ہیں، آسام کے وزیر تعلیم بیمانتا بسوا شرما نے اسمبلی میں یہ بل پیش کیااور اس بل کے ذریعہ آسام میں مدرسہ اور سنسکرت اسکولوں کو ہمیشہ کے لیے عام اسکولوں میں تبدیل کرنے اور آسام میں کبھی بھی مدرسہ یا سنسکرت اسکول نہ کھولنے کا قانون پاس کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

 آسام میں سرکاری مدارس کی تعداد 614ہے، آزاد مدارس کی تعداد 900سے زائدہے، ایک سو سنسکرت سرکاری اسکول اور 500/ نجی اداروں کے ذریعہ چلائے جانے والے سنسکرت اسکول ہیں، اس قانون میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ مدارس کے عملے نہیں بدلے جائیں گے، صرف نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو عصری اسکول کے مطابق کیا جائے گا اور وہ آسام کے تعلیمی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر کام کریں گے، عملے نہ بدلنے کی بات حیرت انگیز ہے،اس لئے کہ مدارس میں جو اساتذہ پڑھا رہے تھے وہ عصری علوم کے بہت سارے سبجیکٹ پڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے،ایسے میں بغیر عملہ بدلے ہوئے اسکولی نصاب کی تعلیم اور تکمیل کس طرح ہو پائے گی یہ سمجھ  سے باہر ہے،اگر سابقہ تدریسی عملہ کو ہی عصری علوم کی تدریس پر لگا دیا گیا تو یقینی طور پر کار طفلاں تمام ہو جائے گا،اور کوالیفائڈ جاہلوں کی پوری فوج تیار ہو جائے گی،اس کے علاوہ اندیشہ یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے وہاں بھی سرکار ی گرانٹ سے چلنے والے مدارس کو بند کرنے کی مہم چلنے لگے گی، یقینا مسلمانوں کے پاس آج بھی ایسے وسائل مہیا ہیں اور مادی قوت موجود ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو سرکاری امداد کے بغیر بھی چلا سکتے ہیں،ملک کے بیش تر حصوں میں پھیلے ہوئے مدارس دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ مدارس کا شمار اقلیتی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، جسے دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کے تحت قائم کیا گیا ہے،اس کی اپنی کمیٹی ہوتی ہے جو اس کو صالح بنیادوں پر قائم رکھنے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے سر گرم عمل رہتی ہے، ظاہر ہے جب یہ مدارس سرکاری اسکول میں بدل جائیں گے تو اس کا اقلیتی کردار ختم ہوجائیگا، حالاں کہ یہ کردار دستوری ہے اور قانون میں اس کے تحفظ کے دفعات موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدارس کی جوجائیداد، آراضی وغیرہ ہیں، اس کو کسی نہ کسی نے اسلامی تعلیم وتدریس کے لیے وقف کیا تھا، شریعت یہ کہتی ہے کہ اوقاف کی چیزیں واقف کی منشاء کے علاوہ استعمال نہیں کی جاسکتیں، جب سرکار مدارس کو ختم کرکے اسکول بنادے گی تو یہ واضح طور پر واقف کی منشا کے خلاف ہوگا اور شریعت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ آسام میں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف زبر دست تحریک چلائی جائے، اسمبلی کے اندر حزب مخالف کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف اس کی مخالفت کرتی رہی ہے، لیکن اسمبلی  کے اندر وہ کامیاب ہوتا ہے،جس کی اکثریت ہوتی ہے، وہاں بی جے پی کی اکثریت ہے، اس لئے یہ بل قانون بن گیا؛لیکن اسمبلی کے باہر کی تحریک عوامی ہوتی ہے اور عوام کے احتجاج کی ہوا جب تیز ہوتی ہے تو وہ پاگل آندھی بن جاتی ہے، جو سارے بند دروازے توڑ کر رکھ دیتی ہے، آسام میں اسی قسم کی تحریک کی ضرورت ہے، ورنہ آنے والے دنوں میں ہمارے علوم، مدارس، تہذیب وثقافت سبھی کچھ کے خطرے میں پڑ جانے کا امکان ہے، اعلی اخلاقی اقدار اور انسانیت کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کا کردار ہر دور میں مثالی رہا ہے،ہم زندہ قوم ہیں،اور زندہ قوموں کی ترقیات سرکاری خیرات کی مرہون منت نہیں ہوتی،زندہ آدمی اپنے پیروں سے چلتا ہے اسے چار کاندھے کی ضرورت نہیں ہوتی،اگر حکومت کو مدارس پر خرچ کی جانے والی رقم سیکولر قدروں کے خلاف لگتی ہے تووہ امداد بند کر دے اور گرانٹ واپس لے لے گویہ فیصلہ بھی احمقانہ اور دستورکے اعتبار سے غلط ہوگا،مگر کسی درجہ میں اسے گوارہ کیا جاسکتا ہے؛لیکن یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ ہماری محنت،جدوجہد سے وقف کی زمین پر قائم اداروں کی حیثیت کو بدل کر رکھ دیا جائے،یہ ادارے مدارس ہیں اور مدارس رہیں گے،اسی لئے حکومت آسام کو ہمارامشورہ ہے کہ مدارس بند مت کرنا،کیونکہ یہ غریب پس ماندہ طبقات میں تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں یہ ختم ہو جائے گا تو غرباء کے بچے تعلیم، تہذیب و ثقافت سے محروم رہ جائیں گے۔(بشکریہ نقیب)

Sunday 10 January 2021

بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن کے زیراہتمام تقریب یوم اردو منعقد

 بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن کے زیراہتمام تقریب یوم اردو منعقد


کوئی بھی زندہ قوم اپنے اسلاف  اور رہنما کو کبھی فراموش نہیں کرتی بلکہ ان کی شخصیت کردار اصول و نظریات اور ان کے نقشے قدم پر چلتی ہے اور بے باک صحافی سماجی خدمت گار اور ممتاز وہ قابل تقلید سیاسی مدبر کے علاوہ مجاہد اردو اور سالاراردو کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والا ایک نئے عہد کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ان کے خیالات کا اظہار بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ریاستی سیکریٹری و ضلع صدر محمد فیروز عالم نے غلام سرور کی یوم پیدائش کے موقع پر سجاد پبلک اردو لائبریری میں مذکورہ ایشن کی جانب سے منعقدہ  اردو تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کہ غلام سرور کی شخصیت فطرت کا ایک حسین مجسمہ تھی انھوں نے عوام اور اردو معلمین سے گزارش کی کہ ہمیں ایک ساتھ ملکر اردو کوعام۔کرنے کی اشدضرورت ہے اور عوام ہرحال میں اپنے بچے کو اردو پڑاھائے اور معلم ڈیوٹی نہیں بلکہ خدمت خلق سمجھ کر کریں!


 اسی موقع پر اسوسی ایشن کے کارگزار ضلع سیکریٹری محمد خالد نے کہا کہ غلام سرور اپنی جات میں ایک انجمن تھے ان کی خدمات اور قربانیاں اس قدر ہیں جس کا یہاں بیان کر پانا ناممکن ہے انہوں نے اردو کے تحفظ و بقا اس کے فروغ کے لئے اردو تحریک چلائی جس میں صوبہ  کی اردو آبادی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور خود بھی ہر ستم برداشت کرکے اردو کے حق کے لیے دلیری کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے حکومت اور حالات سے انہوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ حکومت بہار کو مجبور ہو کر صوبہ بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینا پڑا جس کے بعد اردو کی ترقی کا بند راستہ کھل گیا حکومت کے کئی محکموں میں اردو ملازمین کی کثیر تعداد میں بحالی ہوئی  اور اردو کے نام پر ہزاروں نوجوانوں کو روزگار ملا اس موقع پر چمپارن کے معروف و مشہور ادیب و نقاد جناب ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے کہا کہ غلام سرور جس میدان میں اپنا قدم رکھ دیے تو اس وقت تک قدم کو واپس نہیں کرتے  جب تک اسلو کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا دیتے ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج  بہار میں اردو کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو یہ بھی ان کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے بہار میں اردو اسکول باقی ہیں تو وہ غلام سرور کی تحریک کا نتیجہ ہے اور اگر آج بہار میں اردو صحافت کی تاریخ اور اس کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یہی خراجِ عقیدت ہوگا کہ ہم اردو کو پھر سے عام کریں اس کے تحفظ وفروغ کے تئیں سنجیدہ ہوں ساتھ ہی ساتھ نئی نسلوں کو شیریں زبان سے آراستہ کرانے کی کوشش کریں 


اس موقع پر بزرگ شاعر ابوالخیر نشتر نے کہا کہ غلام سرور آج بے شک ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی تحریر  رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیلئے موجود ہے اسی موقع پر امن ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری حسن اکرام نے کہا کہ غلام سرور صاحب ایک درخشندہ ستارے تھے ان کی زندگی اردو و سے اپنی حیثیت نمایاں شناخت رکھتی ہے وہ نیک دل حق پسند اور حق گو انسان تھے انہوں نے اپنی زبان سے تلوار کا کام لیا اور قوم کی بیداری اور اس کے حقوق کی بازیابی کے لیے ایسا سرخروں ہوے جس سے ی لوگوں کے جسم میں جاں پیدا ہو گئی انہوں نے اردو کے تحفظ کے لیے جوقربانیاں دی ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین  محمد نعیم شکیل  احمد ندوی صدام نصاری اسوسی ایشن کے خواتین سیل کی ضلع صدر عالیہ پروین محمد شاہد نوشاد عالم فیض احمد افروز عالم ابو طالب  نعیم نے بھی سالار اردو غلام سرور کی شخصیت  خدمات پر روشنی ڈالیں تقریب کی نظامت عبدالماجدخازن اسوسی ایشن نے کی صدارت بزرگ شاعر ابو الخیر نشتر نے کی اس موقع پر۔موجود مظہر عالم عالم فیروز عالم  سید ابوذر  احتشام آرزو کے ساتھ کثیر اساتذہ موقع پر موجود رہے

Wednesday 6 January 2021

طرحی نظم

  •                      طرحی نظم


  • یاد سرکار میں محفل کو سجائیں ہم بھی
  • خود کو دیوانہ محمد کا بنائیں ہم بھی
  • *وقت ہے آج بھی بھٹکے ہوئے انسانوں کو
  • *راستہ خلد کا مل جل کے دکھائیں ہم بھی

  • *درگزر کرنا مرے آقا کی سنت ہے تو
  • *اپنے دشمن کو کلیجیے سے لگائیں ہم بھی

  • *چھوڑ کر لہو لعب ہاتھ میں لیکر مشعل
  • *راستہ حق کا زمانے کو دکھائیں ہم بھی

  • *محفل نعت میں آئے ہیں بہت سے شاعر
  • *آپ کہیے تو کوی شعر سنائیں ہم بھی

  • *عاشق مصطفی کہتے ہیں اگر اپنے کو
  • *بھوکوں پیاسوں کو یتیموں کو کھلائیں ہم بھی

  • *ہے گزارش یہی احسن کی جہاں والوں سے
  • *دینی تعلیم سکھیں اور سیکھائیں ہم بھی


  • *ازقلم🖋افتخار حسین احسن*
  • *رابطہ📲6202288565

Tuesday 5 January 2021

حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:حیات وخدمات _______ میرے مطالعہ کی روشنی میں

   حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:حیات وخدمات _______ میرے مطالعہ کی روشنی میں

==========================

عبد الرحیم برہولیاوی

استاد معہدالعلوم اسلامیہ چک چمیلی ویشالی (بہار)9308426298 

Abdurrahim.barhulia@gmail.com 


ابھی میرے مطالعہ میں نوجوان قلم کار، کئی کتابوں کے مصنف و مولف، ای ٹی وی بھارت اردو ارریہ کے جواں سال صحافی جناب محمد عارف اقبال، محلہ کٹرہیا پوکھر، شہر دربھنگہ کی تازہ تصنیف ”حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:حیات وخدمات“ً پر مشتمل ایک علمی و فکری کتاب ہے۔ 1960ء __ 2020ء تک دینی علمی اور اصلاحی خدمات انجام دینے والے ریاست بہار بالخصوص متھلانچل کےمشہور عالم دین حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی کی شخصیت پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل دی گئی ہے۔

حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی صاحب نے متھلانچل میں چھ دہائیوں تک دینی،علمی، فکری اور دعوتی خدمات انجام دی ہیں، ضرورت تھی کہ حضرت مولانا کے خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی وقیع  کتاب منظر عام پر آتی، تاکہ حضرت مولانا کی خدمات کو محفوظ کرلیا جاتا، اللّٰہ نے اس کام کے لئے صحافی محترم عارف اقبال صاحب کو توفیق بخشی، انہوں نے اس اہم کام کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لیا اور اس کام میں مصروف ہوگئے، عارف اقبال صاحب اس سے پہلے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ پر ان کی زندگی میں ہی ایک قیمتی علمی کتاب "باتیں میر کارواں کی" (سوانح حیات) پر کام کر چکے ہیں، کتاب بہت مقبول بھی ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی، حضرت امیر شریعت م سید نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد ایک دوسری کتاب "امیر شریعت سادس:نقوش و تاثرات" کےنام سے ترتیب دی، یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی، راقم الحروف کا مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔

عارف اقبال صاحب کا پڑھنے لکھنے کا شوق زمانۂ طالب علمی ہی سے رہا ہے، آپ پہلے قومی تنظیم میں بچوں کے صفحہ کے لئے لکھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج اپنا نام قلم کاروں کی فہرست میں بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

عارف اقبال صاحب کی تعلیم مدرسہ امدادیہ دربھنگہ،مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، دہلی یونیورسٹی دہلی، پٹنہ یونیورسٹی اور الفلاح یونیورسٹی ہریانہ میں ہوئی، گویا کہ عارف اقبال نےاپنی تعلیم مدرسہ اور یونورسیٹی دونوں جگہ حاصل کی ہے اور دونوں جگہ کے ماحول سے فائدہ اٹھا یا ہے اور بزرگوں کی خدمت میں بھی رہے ہیں۔

ہمارے یہاں اکابرعلماء اور بزرگوں کی خدمات کا اعتراف عام طور پر انکے مرنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے، اس روایت کو عارف اقبال نے توڑا ہے، 478/صفحات پر مشتمل اس کتاب کی اشاعت  کا کام کریٹیو اسٹار پبلی کیشنز، جامعہ نگر دہلی سے کرایا ہے، اس کتاب کی قیمت =/500 روپے ہے، آپ بھی اس کتاب کو نویلٹی بکس، قلعہ گھاٹ دربھنگہ، بک امپو ریم، سبزی باغ پٹنہ، مکتبہ النور دارالعلوم دیوبند، مدرسہ اسلامیہ جھگڑوا دربھنگہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔

مرتب کتاب نے کتاب کا انتساب اپنے اساتذہ، بزرگوں، قدردانوں اور دوستوں کے نام، پھر اپنے والدین کے ‌نام کیا ہے، یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں فہرست مضامین اور عناوین درج ہیں، جس میں عکس تحریر (مکتوب) حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی صفحہ15 پر درج ہے۔

اس باب میں مکتوب بنام مرتب کتاب، امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب صفحہ22 تا 24 پر درج ہے، جو ‌نہایت ہی اہم اور حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ مرتب کتاب عارف اقبال کو حضرت امیر شریعت نے لکھا ہے، دعائیہ کلمات حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب نے لکھا ہے، مقدمہ عارف اقبال، مرتب کتاب ‌نے صفحہ29 تا 40 بہت تفصیل سے لکھا ہے، جو پڑھنے کے لائق ہے۔ حرف تحسین کے عنوان سے حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی کویت نے لکھا ہے، پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا تحریر کردہ ہے، اظہار خیال کے عنوان سے حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پور ی نوراللہ مرقدہ نے لکھا ہے، تقریظ حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی صاحب کی ہے، قلبی تاثرات سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمد ‌نے لکھا ہے، اس کو پڑھ کر ڈاکر شکیل احمد صاحب کا اردو سے دلی لگاؤ اور بزرگوں سے قلبی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حرف محبت کے عنوان سے معروف نقادجناب حقانی القاسمی صاحب نے لکھا ہےجس سے کتاب کی جامعیت کا پتا چلتا ہے ۔

دوسرا باب: "نقوشِ حیات" کے عنوان سے صفحہ 65 تا 133 ہے، اس باب میں پہلا مضمون دارالعلوم دیوبند وقف دیوبند کے استاذ حدیث مولانا شمشاد رحمانی قاسمی صاحب کا "حضرت مولانا سید ابو اختر: ایک اثر انگیز شخصیت" درج ہے، اسی باب میں شاعر و ادیب فضیل احمد ناصری قاسمی صاحب کا مضمون بھی صفحہ 79 تا 85 پر موجود ہے، جس کا عنوان ہے "وہ اختر جو بہار کے افق پر آج بھی روشن ہے"، مولانا فضیل احمد ناصری قاسمی نے خوب ڈوب کر لکھا ہے، صفحہ 86 تا 99 پر انجینئر عادل اختر عادل کا مضمون "میرے ابو جان" کے عنوان سے درج ہے، جو حضرت مولانا کے صاحب زادے ہیں، انہوں نے بھی اچھا لکھنے کی کوشش کی ہے، اس باب میں مولانا اشرف عباس قاسمی، مولانا خالد نیموی قاسمی، مفتی آفتاب غازی، سید گلفشاں بانو، حذیفہ حسن اور قاری نسیم اختر قاسمی کے مضامین شامل ہیں۔

کتاب کا تیسرا باب "مشاہدات و تاثرات" کے عنوان سے صفحہ 149 سے شروع ہو تا ہے، اس باب میں پہلا مضمون مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب کا "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی: مصلح قوم و ملت" درج ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: مولانا سید ابو اختر قاسمی با صلاحیت استاد، مشہور خطیب اور نامور عالم دین ہیں، یہ خطابت اور اصلاحی تقریروں سے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں، مولانا کا نام ہی دینی جلسوں کی کامیابی کے ضمانت دیتا ہے، صفحہ 154 پر مشہور صاحب قلم ادیب، مدیر ہفتہ وار نقیب، و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، و نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی کا مضمون بھی شامل باب ہے، مولانا ‌نے حضرت مولانا ابو اختر قاسمی اور ان کا درس حدیث کے عنوان سے بہت کھل کر تفصیل سے لکھا ہے، مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا کے حوالے سے جو کام کر نے کا ہے، وہ ان کے علمی افادات کو یکجا کر کے شائع کر نا ہے، ان افادات میں سب سے اہم کام ان کا "درس حدیث" ہے، مفتی صاحب کا مضمون صفحہ 159 پر ختم ہو تا ہے۔ اس کے بعد "جہد مسلسل کا ایک معتبر نام: مولانا سید ابو اختر قاسمی" کے عنوان سے پروفیسر شکیل احمد قاسمی، اورینٹل کا لج پٹنہ سٹی کا مضمون بھی شامل ہے، امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب کا مضمون "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی: ایک تاثر" بھی درج ہے، صفحہ 169 تا 179 پر مشہور صحافی کالم نگار صفی اختر صاحب کا طویل اور تفصیلی مضمون "عندلیب شہر: حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی" درج ہے، صفی اختر صاحب لکھتے ہیں کہ "مولانا محترم کے اندر شاعری کا بھی پا کیزہ ذوق ہے، انہوں نے وقت اور زمانہ کے مزاج کو سمجھتے ہوئے انہی خطوط پر اپنی نا فعیت کے ساتھ عوام و خواص کے درمیان پتے کی باتیں کی اور کا میاب رہے"، آگے لکھتے ہیں: "ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے استاد بھی تھے، یہی میرے لئے باعث افتخار ہے"، اس باب میں مفتی احمد نادر القاسمی، پروفیسر مولانا اعجاز احمد، مفتی عبدالسلام قاسمی، ڈاکٹر مشتاق احمد، مولانا عبدالکریم قاسمی، پروفیسر ایم کمال الدین، پروفیسر شمیم باروی، آچاریہ شوکت خلیل، ڈاکٹر عطا عابدی، ڈاکٹر منظر سلیمان، غفران ساجد قاسمی، ڈاکٹر ایوب راعین، ڈاکٹر منصور خوشتر، مولانا ارشد فیضی، سیف اسلام قاسمی، مولانا احمد حسین قاسمی، ڈاکٹر احسان عالم، قاری فرید عالم صدیقی، مولانا خالد سیف اللہ ندوی، حافظ صلاح الدین المفتاحی کے مضامین بھی شامل ہیں۔

چوتھا باب: "تعلیمی و تنظیمی خدمات" کے عنوان سے صفحہ 277 تا 299 ہے، اس باب میں ڈاکٹر عبد المتین قاسمی، محمد عمر انصاری، قاضی ارشد رحمانی، محمد قمر عالم فخری کی مضامین درج ہیں۔

اس کتاب کا پانچواں باب: "خطابت و ظرافت" کے عنوان سے صفحہ 305 سے شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں پہلا مضمون ڈاکٹر عبد الودود قاسمی صاحب کا ہے، جو حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی کی تمثیلی خطابت سے شروع ہوتا ہے، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی لکھتے ہیں کہ "مولانا ابو اختر قاسمی کاش اگر تخلیقی پہلو پر بھی تھوڑا وقت صرف کیے ہوتے، تو آج ان کا شمار ان کی بہترین تمثیل بیانی مرقع کشی اور طنز و مزاحیہ انداز بیان کی وجہ سے اردو مزاح کے ایک بلند پایہ ادیب و انشائیہ نگار میں ہوتا؛ کیوں کہ مولانا کہ پاس ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ بر محل اشعار، چست درست فقرے، زبان پر دسترس اور قدرت کاملہ حاصل ہے ،،۔ صفحہ 318 پر محترم نور السلام ندوی صاحب کا مضمون "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی،خطابت و ظرافت کے آئینے میں" وہ لکھتے ہیں کہ "مولانا ابو اختر صاحب متنوع خصوصیات اور جامع کمالات کے مالک ہیں، شفیق مربی، بہترین استاد، ذی استعداد عالم دین، شعلہ بیان مقرر، کامیاب منتظم، بذلہ سنج اور زندہ دل انسان ہیں"، اس باب میں مزید مولانا عرفان سلفی، رضوان‌احمد ندوی، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی، مولانا محمد عالم قاسمی، مفتی عین الحق امینی‌قاسمی، مفتی محمد نافع عارفی کے مضامین شامل ہیں، اس باب کا اختتام صفحہ365 پر ہوتاہے۔

کتاب کا چھٹا باب بھی بہت اہم ہے "شاگردوں کی نظر میں" یہ باب صفحہ371سے شروع ہوتاہے، اس باب میں مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نوراللہ مرقدہ، فضل رحمانی، اے این شبلی، سہیل احمد رحمانی، قاری افضل امام فاروقی، مولانا نوشاد احمد قاسمی، فاتح اقبال ندوی قاسمی، ڈاکٹر سرفراز عالم، شاہنواز بدر قاسمی، ڈاکٹر محمد وجیہ الحق، محمد عاصم بدر کے مضامین شامل ہیں، جو کہ صفحہ 423 تک ہے۔ ان لوگوں نے مولانا ابو اختر قاسمی صاحب کو جیسا دیکھا اور پایا، جو چیزیں مولانا سے حاصل کی ہیں، ان سب کو بڑے تفصیل اور سلیقہ سے پیش کیا ہے، ان کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی مقبولیت اپنے شاگردوں میں بھی بہت خاص تھی، مولانا کا اندازِ تربیت منفرد اور نرالا تھا، اپنے شاگردوں میں بھی اپنی الگ خاص شناخت رکھتے تھے۔

اس کتاب کا ساتواں اور آخری باب صفحہ 433 سے شروع ہوتا ہے، جس کا آغاز منظوم تاثرات سے ہوتا ہے، ذماں برداہوی صاحب نے پہلا منظوم کلام "نذرانۂ عقیدت" پیش کیا ہے،اس کے بعد "میرے سمدھی" کے عنوان سے صفحہ 435 پر پروفیسر خلیل الرحمٰن سلفی نے‌ اپنا منظوم تاثرات پیش کیا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر امام اعظم صاحب نے صفحہ 435 تا 436 پر "رئیس علم‌:حضرت مولانا ابو اختر قاسمی" کے عنوان سے دو صفحات پر مشتمل معیاری منظوم تاثرات پیش کیے ہیں، اخیر کے اشعار دیکھیں،

امام بھی ہیں، مدرس بھی اور خطیب بھی ہیں

نظام دین سے بالواسطہ قریب بھی ہیں

تمام درجے ہیں ان کے بلند اے اعظم

کہ خوش خیال بھی ہیں آپ، خوش نصیب بھی ہیں

اس باب میں عر فان احمد پیدل، منور عالم راہی، امان ذخیروی، مفتی اشتیاق احمد قاسمی، ابو نصر فارہق صارم، مظہر مجاہدی بھاگلپور ی، عادل اختر عادل کا بھی منظوم تاثرات شامل ہے، 452 صفحہ پر یہ باب ختم ہوتا ہے۔

صفحہ 456 پر عبادہ صفی متعلم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا انگریزی زبان میں مضمون شامل ہے ،صفحہ 458 پر قمر اشرف سینیر جر نلسٹ ہندوستان ٹائمز کا مضمون بھی شامل ہے۔ 

آخری 16صفحات میں مولانا ابو اختر قاسمی صاحب کی چند یاد گار نایاب تصاویر کو جگہ دی گئی ہے، ایک صفحہ پر دار العلوم دیوبند کی سند فضیلت کو لگایا گیا ہے، اس ضخیم کتاب کے مطالعہ کے لئے کافی وقت در کار ہے، کتاب کی ترتیب بھی سلیقے مندی سے کی گئی ہے، تصاویر بھی درج کرکے یاد داشت محفوظ کر لی گئی ہے۔

کتاب کی طباعت بھی عمدہ ہے، 

بیک کو ر پر ڈاکٹر ابو بکر عباد، شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی کا کتاب اور مرتب کتاب پر ایک جامع مضمون موجود ہے، جو کتاب کے حسن میں اضافہ کرتا ہے، ڈاکٹر ابو بکر عباد صاحب لکھتے ہیں کہ

 "مولانا ابو اختر قاسمی اسلاف کی یادگار، طالب علموں کے لئے روشنی کا مینار اور نئی نسل کے لیے قابل تقلید ‌نمونہ ہیں، اشد ضرورت تھی کہ ان کی شخصیت اور کارناموں کو مبسوط شکل میں وسیع پیمانے پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے؛ تاکہ ہماری علمی، تہذیبی اور سوانحی روایت کی اشاعت اور تحفظ کا کام تعطل کا شکار نہ ہو۔میں عارف اقبال صاحب کو اس علمی کام پر پُر زور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں رہے گا اور دستاویزی حیثیت کی یہ کتاب اہل علم کہ حلقہ میں مقبول ہوگی۔“

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...