Tuesday 31 August 2021

_نادان دوستوں سے خود کو بچائیں__ مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ

_نادان دوستوں سے خود کو بچائیں__ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ


دوستی اچھی چیز ہے اور اسے سماجی زندگی کی پہچان اور شنا خت کہا جاتا ہے، یہ رشتہ داری سے الگ ایک تعلق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان تقویت محسوس کرتا ہے اوروقت پڑنے پر بہت سارے مسائل ان کے ذریعہ حل بھی ہوتے ہیں، لیکن سارے دوست ایسے نہیں ہوتے، با خبر لوگوں کا کہنا ہے کہ دوست تین قسم کے ہوتے ہیں، جانی، مالی اور دستر خوانی، جانی دوست قسمت والوں کو ملتے ہیں اور ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے، ایسے دوست، دوست کے دست وبازو بن جاتے ہیں اور بقول سعدی ”دوست آں باشد کہ گیر د دست دوست،در پریشان حالی و در ماندگی “،
 وہ آخری حد تک آپ کو پریشانی سے نکالنے کے لیے آپ کے معاون بن جائیں گے، آپ کے دفاع میں کھڑے ہو جائیں گے اور وقت آیا تو آپ کی طرف آنے والے ہر تیر کا رخ اپنی طرف کر لیں گے، اور آپ کے لئے ڈھال کا کام کریں گے، ایسے دوست اللہ کی بڑی نعمت ہیں اور آخری حد تک ان کی قدر دانی کی جانی چاہیے، لیکن ایسے دوست عموما دو ایک سے زیادہ نہیں ہوتے۔
دوست کی دوسری اور تیسری قسم مالی اور دستر خوانی میں بڑی مماثلت ہے، ایک مال کی وجہ سے آپ سے قربت حاصل کرتا ہے، دوسرا دستر خوان کا شریک وسہیم رہتا ہے، دوستی کی اسی قسم میں وہ لوگ بھی آتے ہیں، جو آپ کے عہدے، منصب، جاہ وحشمت کی وجہ سے آپ سے قریب ہو جائیں، یعنی اس قسم کی دوستی کسی نہ کسی غرض کی وجہ سے ہوتی ہے، ظاہر ہے مال آنی جانی ہے، آج ہے کل نہیں مال گیا تو دسترخوان سجانے کی استطاعت بھی چلی گئی یہی  حال عہدے اور منصب کا ہے آج آپ پاور فل ہیں تو دسیوں لوگ آپ کے دوست بن جائیں گے، اور آپ کمزور ہوئے تو مجمع آپ کے گرد سے چھٹ جائیگا، کیوں کہ ان کو آپ سے فائدہ اٹھانا ہے، کوئی دوست ترقی کے لیے آپ سے قریب ہو گیاہے اور کوئی غرض نہ ہو تو کم از کم ایسے لوگوں کی یہ غرض تو ضروری ہوتی ہے جسے غالب نے اپنے لفظوں میں کہا ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھر ے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
 ایسے دوستوں کوپہچان لینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ کبھی بھی ان سے نقصان پہونچ سکتا ہے اور کبھی بھی وہ پالا بدل کر آپ کی پیٹھ میں خنجر بھونک سکتے ہیں۔ پھر ایک شعر نوک قلم پر آگیا۔
 دیکھا جو تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف
 اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
دوستوں میں ایک بڑی تعداد نادان دوستوں کی بھی ہوتی ہے، وہ آپ کو بظاہر کوئی نقصان پہونچانے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن وہ عقل سے عاری اور دماغ سے خالی ہیں، ایسے دوست کی محبت سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، مولانا روم نے مثنوی میں ایک تمثیل لکھی ہے کہ ایک چوہے اور کچھوے میں گہری دوستی ہو گئی، دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہنا گوارہ نہیں کرتے، لیکن ایک خشکی کاجانور تھا اور ایک پانی کا، اس لیے ان کا ہر وقت ساتھ رہنا عملاً ممکن نہیں تھا، چنانچہ چوہے نے یہ تجویز رکھی کہ کیوں نہ ہم دونوں پاؤں میں دھاگا باندھ لیں، جب میری ملاقات کی خواہش ہوگی ڈور ہلادوں گا اور تم آجانا، چنانچہ اس تجویز کے مطابق ایک دھاگہ دونوں نے پاؤں میں باندھ لیا، اب ایک سرے پر چوہا تھا اور دوسرے  سرےپر کچھوا، تجویز کے مطابق دونوں کی ملاقات بھی ہوتی رہی، ایک دن ایک گدھ نے چوہے کو دیکھ لیا اور اس پر جھپٹا مارا، اور چوہے کو اپنی چونچ میں پکڑ کر اُڑا ظاہر ہے کہ کچھوا بھی اس کے ساتھ پانی سے نکل گیا اور نکلتا ہوا فضا میں پہونچ گیا، لوگوں نے اس منظر کو دیکھ کر خوب تالیاں بجائیں، ان کی تفریح کا سامان ہو گیا۔ مولانا روم نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نادان کی دوستی سے جان پر بھی بن آتی ہے اور آدمی تماشہ بن جاتا ہے، اس لیے نا دان دوستوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
 ایک اور قصہ نصابی کتاب میں بچپن میں پڑھا تھا کہ ایک بادشاہ نے بندر کو اپنی خدمت پر لگایا، اس کی ڈیوٹی تھی کہ جب بادشاہ سوجائے تو اس کو پنکھا جھلتا رہے، ایک دن بادشاہ سو رہا تھا اور بندر پنکھا جھیل رہا تھا، کہ ایک مکھی آکر بادشاہ کے ناک پر بیٹھی، بندر نے بہت اڑانے کی کوششیں کی لیکن وہ پھر سے آکر بیٹھ جاتی، بندر کو بہت غصہ آیا، اس نے تلواراٹھاکر بادشاہ کی ناک پر دے مارا، مکھی تو بھلا کیامرتی وہ تو اڑ گئی، البتہ بادشاہ کی ناک کٹ گئی، اس قصہ میں بھی یہ سبق ہے کہ نادان سے قربت کے نتیجے میں کبھی ناک بھی کٹ جاتی ہے، گو اس کا احساس اکثر وبیشتر وقوع کے بعد ہی ہوتا ہے۔
 ایسے متعلقین او ردوست ضروری نہیں کہ تلوار سے ہی گزند پہونچائیں، ان کی زبانیں بھی اتنی دراز ہوتی ہیں کہ ان سے آپ کونقصان پہونچ سکتا ہے، اور یہ تلوار کی بہ نسبت زیادہ ضرب کاری ہوتا ہے؛ کیوں کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں، اور زبان کا زخم بھر نہیں پاتا، ہمیشہ ہرا ہی رہتا ہے، ان کا کوئی ارادہ آپ کو نقصان پہونچانے کا نہیں ہے، لیکن انہوں نے آپ کی حمایت میں غیر ضروری زبان درازی کی، اس کا نقصان آپ کو پہونچ گیا،کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ انسانی کی وجہ سے شاخ پر وار کرے اور آپکی جڑ کٹ کر رہ جائے  ایسے دوستوں کی نیت بُری نہیں ہوتی، لیکن الفاظ اپنا کام کر جاتے ہیں، کبھی کبھی بعض دوست آپ کی تعریف وتوصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیں گے تاکہ وہ آپ کو خوش کر سکیں، ایسے دوست آپ کو غفلت میں رکھنے کا سبب بنتے ہیں، اور آپ حقیقت احوال سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کا نقصان آپ کو بھی پہونچتا ہے اور سماج کو بھی،حضرت امیر شریعت رابع سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ملت کو سب سے زیادہ نقصان خوشامد کرنے والوں نے پہونچایا وہ حقیقی صورت حال کے بجائے قائدین کی تعریف کرتے رہے، جس کی وجہ سے بر وقت اور فوری اقدام جو کئے جا سکتے تھے نہیں کیے جا سکے۔ ایسے لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں، آپ اگر ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ اگلے کی تعریف میں ایران طوران کی ہانک رہے ہیں تو ان کے چہرے اور آنکھوں سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اگلے کو بے وقوف بنا رہا ہے، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ ایسی تعریف کو ”بمد خوش کرنی“ کہا کرتے تھے، اس لیے اگر آپ عقل وشعور رکھتے ہیں تو ایسے نادان دوستوں سے بھی بچنے کی کوشش کیجئے جو آپ کو اندھیرے میں رکھ کر آپ کی تعریف کرکے برباد کرنے کے درپے ہیں۔
 ایک مقولہ بہت مشہور ہے کہ نادان دوست سے عقل مند دشمن زیادہ بہتر ہے، ایک واقعہ کسی کتاب میں نظر سے گذرا کہ دوشیرمیں آپس میں رقابت ہو گئی، ایک شیر کمزور تھا، ایک دن دوسرے شیر نے دیکھاکہ اس پر کتے بھونک رہے ہیں، وہ فورا اس کی مدد کو پہونچا اور کتوں کو بھگایا، کسی نے پوچھا کہ یہ تو تمہارا دشمن ہے، تم اس کو بچانے کے لیے کیوں آگے آئے، اس نے کہا کہ دشمنی اپنی جگہ، لیکن میں ایسا کمینہ نہیں ہوں کہ شیر پر کتے بھونکے اور ان کی اس جرأت بے جا کا تماشہ دیکھوں۔ معلوم ہوا کہ عقل مند دشمن کبھی آپ کے کام بھی آسکتا ہے۔اس لئے کہ وہ دشمنی کے حدود وقیود سے واقف ہے اور جو نادان دوست ہے وہ دوستی کے حدود وقیود سے نا واقف ہے، اور اس کی ناواقفیت آپ کو نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔

Thursday 19 August 2021

اتحاد ملت کانفرنس

     اتحاد ملت کانفرنس


مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ

ملک کی 17/ ملی تنظیموں کی شراکت سے اجتماعی قیادت ابھارنے، مسلکی منافرت دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے اتحاد ملت کانفرنس کا انعقاد دہلی کے ہوٹل ریور ویومیں 8/ اگست 2021ء کو کیاگیا، کانفرنس کے کنوینر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم مشترکہ طور پر تھے، شرکت کی دعوت مجھے بھی آئی تھی، اپنی مصروفیات کی وجہ سے دوسرے سیشن میں آن لائن شریک ہو کر تقریر وتجویز سے مستفیض ہو سکا، نظام الاوقات میں امارت شرعیہ کے نمائندہ کو خیالات کے اظہا کا کوئی وقت نہیں دیا گیا تھا، اس لیے بات سماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی، حالاں کہ پورے ہندوستان میں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد امت کا نعرہ سب سے پہلے آج سے ایک سو سال قبل امارت شرعیہ نے ہی لگا یا تھااور آج بھی وہ اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے اور اس کی جد وجہد سے ان ریاستوں میں جو اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں، خاصی کمی آئی ہے، اور اتحاد کی فضا بنی ہے۔

اس کانفرنس میں اجتماعی قیادت کے ساتھ آپسی روابط اور تعاون پر خاصہ زور دیا گیا،اور اختتام پر نو(۹) نکاتی فارمولہ اور چھ نکاتی قرار داد پر ملی قائدین نے اتفاق کیا، اللہ کرے، اس کے قبل ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے بھی ایک میٹنگ بلائی تھی، جس میں ذرائع ابلاغ کو میٹنگ سے دور رکھا گیا تھا، دو چار روز اس کا چرچا رہا، لیکن پھر ایسی خاموشی چھائی، جسے ”صدائے برنہ خواست“ سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ماضی میں مسلم مجلس مشاورت آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہواتھا، اس کے کس قدر اثرات سامنے آئے اس سے ہر پڑھا لکھا طبقہ واقف ہے، حالیہ کانفرنس کے قبل اجتماعی قیادت کے عنوان سے بعض مضامین بھی پڑھنے کو ملے،جس میں اجتماعی قیادت کا مفہوم ہی واضح نہیں تھا، نظام الاوقات میں ایک مجلس کے چار پانچ صدر کے ناموں کے اندراج سے لگا کہ شاید اجتماعی قیادت کا یہی مفہوم ہے، ایسا پہلی بار ہی دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی مجلس کے کئی لوگ مشترکہ صدر ہوں، دیکھنے اور لکھنے میں یہ بات جس قدر بھی بھلی لگے، لیکن عملی نہیں ہے، ہمیں اتحاد امت کے لیے عملی تگ ودو کی زیادہ ضرورت ہے، تجاویز اور قرار داد پاس کرنے اور سمینار سمپوزیم قائم کرنے کی روایت قدیم ہو چکی ہے، اس سے بیداری کا کام لیا جاتا رہا ہے،آج بھی لیا جا سکتا ہے، ضرورت اس سے آگے کے لیے پیش بندی پامردی اور فروعی اختلافات کو دور کرنے کی ہے، اور یہی اس وقت کرنے کا بڑاکام ہے۔

اجلاس کے دوسرے دن اِسی عنوان سے اُسی مقام پر ایک دوسری اتحاد ملت کانفرنس ہوئی،بعض تنظیموں کے ذمہ داروں نے اس میں بھی شرکت کی، اس دوسری کانفرنس کو پہلی کانفرنس کا رد عمل نہیں سمجھنا چاہیے، کیوں کہ کانفرنس کی تیاری ایک دن میں نہیں ہوتی، مہینوں کی محنت کے بعد انعقاد ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے ملی قائدین پر خاصی محنت کرنی پڑتی ہے، تنظیمی اور جماعتی اتحاد سے اوپر اٹھ کر کسی مجلس میں شریک ہونا آسان نہیں ہے، دونوں کانفرنس، اس کی قرار داد اور فارمولہ کی ہم حمایت کرتے ہیں، اتحاد کی دعوت کسی کی طرف سے بھی آئے، امارت شرعیہ کا ہر دور میں موقف یہی رہا ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں، کیوں کہ فروعی مسائل کو عمل کے لیے محدود کرنے اور اجتماعی مسائل میں متحد ہو کر کام کرنا ہمارا شعار رہا ہے، گودوسری تنظیموں کے یہاں یہ رواداری پہلے بھی مفقود تھی، اور آج بھی محدود ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے اور فروعی مسائل کو اجتماعی مفاد کے لیے بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ ہم لوگوں کے کام کا طریقہ یہی ہے اور ہم نے اس سے سر مو انحراف کبھی نہیں کیا ہے۔

 ان دونوں کانفرنس کے سلسلہ میں ہمارے نوجوان دوستوں کی طرف سے بہت سارے بیانات آئے جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر نشر ہوئے۔ کئی تحریروں میں حالات کی خطرناکی کے قرار واقعی احساس کے باوجود عصر حاضر میں کام کے طریقوں سے نو جوان مایوس بھی تھے اور نالاں بھی، حالاں کہ اسلام قنوطیت کے بجائے رجائیت کا قال ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔  لاتقنطوا من رحمۃ اللہ اللہ کی رحمت سے نامید مت ہو اور یہ کہ لا تیئسوا من روح اللہ الا القوم الکٰفرون  اللہ کی رحمت سے کافر ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے جوانوں کو قائدین ملت پر اعتماد رکھنا چاہیے، نوجوان اگر ان تجربہ کار قائدین کا ساتھ دیں گے تو بات بنے گی، علم، حوصلہ، جذبہ کے ساتھ تجربہ نہ ہو تو کبھی کبھی بات بگڑ جاتی ہے، نوجوانوں کا جوش وجذبہ، تجربہ کار قائدین کے مشوروں کی روشنی میں آگے بڑھے تو ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی سر بلندی کے راستے کھلیں گے اور کام آگے بڑھے گا۔

 اس سے انکار نہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے اور شاید ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مشکل مرحلہ آج مسلمانوں کے سامنے ہے، لیکن قوت ارادی اور جوش کے ساتھ ہوش بھی بر قرار رہے تو اس مرحلہ کو آسان کیا جا سکتا ہے۔

 ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ایسی کانفرنس دسیوں پہلے ہو چکی ہیں، ملت کو اس کا اتحاد ملت کانفرنس

ملک کی17/ ملی تنظیموں کی شراکت سے اجتماعی قیادت ابھارنے، مسلکی منافرت دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے اتحاد ملت کانفرنس کا انعقاد دہلی کے ہوٹل ریور ویومیں 8/ اگست 2021 کو کیاگیا، کانفرنس کے کنوینر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم مشترکہ طور پر تھے، شرکت کی دعوت مجھے بھی آئی تھی، اپنی مصروفیات کی وجہ سے دوسرے سیشن میں آن لائن شریک ہو کر تقریر وتجویز سے مستفیض ہو سکا، نظام الاوقات میں امارت شرعیہ کے نمائندہ کو خیالات کے اظہا کا کوئی وقت نہیں دیا گیا تھا، اس لیے بات سماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی، حالاں کہ پورے ہندوستان میں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد امت کا نعرہ سب سے پہلے آج سے ایک سو سال قبل امارت شرعیہ نے ہی لگا یا تھااور آج بھی وہ اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے اور اس کی جد وجہد سے ان ریاستوں میں جو اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں، خاصی کمی آئی ہے، اور اتحاد کی فضا بنی ہے۔

اس کانفرنس میں اجتماعی قیادت کے ساتھ آپسی روابط اور تعاون پر خاصہ زور دیا گیا،اور اختتام پر نو(۹) نکاتی فارمولہ اور چھ نکاتی قرار داد پر ملی قائدین نے اتفاق کیا، اللہ کرے، اس کے قبل ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے بھی ایک میٹنگ بلائی تھی، جس میں ذرائع ابلاغ کو میٹنگ سے دور رکھا گیا تھا، دو چار روز اس کا چرچا رہا، لیکن پھر ایسی خاموشی چھائی، جسے ”صدائے برنہ خواست“ سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ماضی میں مسلم مجلس مشاورت آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہواتھا، اس کے کس قدر اثرات سامنے آئے اس سے ہر پڑھا لکھا طبقہ واقف ہے، حالیہ کانفرنس کے قبل اجتماعی قیادت کے عنوان سے بعض مضامین بھی پڑھنے کو ملے،جس میں اجتماعی قیادت کا مفہوم ہی واضح نہیں تھا، نظام الاوقات میں ایک مجلس کے چار پانچ صدر کے ناموں کے اندراج سے لگا کہ شاید اجتماعی قیادت کا یہی مفہوم ہے، ایسا پہلی بار ہی دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی مجلس کے کئی لوگ مشترکہ صدر ہوں، دیکھنے اور لکھنے میں یہ بات جس قدر بھی بھلی لگے، لیکن عملی نہیں ہے، ہمیں اتحاد امت کے لیے عملی تگ ودو کی زیادہ ضرورت ہے، تجاویز اور قرار داد پاس کرنے اور سمینار سمپوزیم قائم کرنے کی روایت قدیم ہو چکی ہے، اس سے بیداری کا کام لیا جاتا رہا ہے،آج بھی لیا جا سکتا ہے، ضرورت اس سے آگے کے لیے پیش بندی پامردی اور فروعی اختلافات کو دور کرنے کی ہے، اور یہی اس وقت کرنے کا بڑاکام ہے۔

اجلاس کے دوسرے دن اِسی عنوان سے اُسی مقام پر ایک دوسری اتحاد ملت کانفرنس ہوئی،بعض تنظیموں کے ذمہ داروں نے اس میں بھی شرکت کی، اس دوسری کانفرنس کو پہلی کانفرنس کا رد عمل نہیں سمجھنا چاہیے، کیوں کہ کانفرنس کی تیاری ایک دن میں نہیں ہوتی، مہینوں کی محنت کے بعد انعقاد ممکن ہوتا ہے۔ اس کے لیے ملی قائدین پر خاصی محنت کرنی پڑتی ہے، تنظیمی اور جماعتی اتحاد سے اوپر اٹھ کر کسی مجلس میں شریک ہونا آسان نہیں ہے، دونوں کانفرنس، اس کی قرار داد اور فارمولہ کی ہم حمایت کرتے ہیں، اتحاد کی دعوت کسی کی طرف سے بھی آئے، امارت شرعیہ کا ہر دور میں موقف یہی رہا ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں، کیوں کہ فروعی مسائل کو عمل کے لیے محدود کرنے اور اجتماعی مسائل میں متحد ہو کر کام کرنا ہمارا شعار رہا ہے، گودوسری تنظیموں کے یہاں یہ رواداری پہلے بھی مفقود تھی، اور آج بھی محدود ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے اور فروعی مسائل کو اجتماعی مفاد کے لیے بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ ہم لوگوں کے کام کا طریقہ یہی ہے اور ہم نے اس سے سر مو انحراف کبھی نہیں کیا ہے۔

 ان دونوں کانفرنس کے سلسلہ میں ہمارے نوجوان دوستوں کی طرف سے بہت سارے بیانات آئے جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر نشر ہوئے۔ کئی تحریروں میں حالات کی خطرناکی کے قرار واقعی احساس کے باوجود عصر حاضر میں کام کے طریقوں سے نو جوان مایوس بھی تھے اور نالاں بھی، حالاں کہ اسلام قنوطیت کے بجائے رجائیت کا قال ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔  لاتقنطوا من رحمۃ اللہ اللہ کی رحمت سے نامید مت ہو اور یہ کہ لا تیئسوا من روح اللہ الا القوم الکٰفرون  اللہ کی رحمت سے کافر ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے جوانوں کو قائدین ملت پر اعتماد رکھنا چاہیے، نوجوان اگر ان تجربہ کار قائدین کا ساتھ دیں گے تو بات بنے گی، علم، حوصلہ، جذبہ کے ساتھ تجربہ نہ ہو تو کبھی کبھی بات بگڑ جاتی ہے، نوجوانوں کا جوش وجذبہ، تجربہ کار قائدین کے مشوروں کی روشنی میں آگے بڑھے تو ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی سر بلندی کے راستے کھلیں گے اور کام آگے بڑھے گا۔

 اس سے انکار نہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے اور شاید ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مشکل مرحلہ آج مسلمانوں کے سامنے ہے، لیکن قوت ارادی اور جوش کے ساتھ ہوش بھی بر قرار رہے تو اس مرحلہ کو آسان کیا جا سکتا ہے۔

 ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ایسی کانفرنس دسیوں پہلے ہو چکی ہیں، ملت کو اس کا کیا فائدہ پہونچا، بات پورے طور پر نہیں جزوی طور پر صحیح بھی ہے، لیکن تھک ہار کر بیٹھ جانے کے بجائے ایک اور تجربہ کرنا بُرا نہیں ہے، شاید ملک کے جو حالات اس وقت ہیں اس کی وجہ سے ہمارے قائدین کچھ کر گزریں، کیوں کہ خارجی حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں کہ متحد ہو کر کاموں کو آگے بڑھایا جائے۔

œیا فائدہ پہونچا، بات پورے طور پر نہیں جزوی طور پر صحیح بھی ہے، لیکن تھک ہار کر بیٹھ جانے کے بجائے ایک اور تجربہ کرنا بُرا نہیں ہے، شاید ملک کے جو حالات اس وقت ہیں اس کی وجہ سے ہمارے قائدین کچھ کر گزریں، کیوں کہ خارجی حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں کہ متحد ہو کر کاموں کو آگے بڑھایا جائے۔

Saturday 14 August 2021

राज्यकर्मियों को नीतीश ने दिया तोहफा, गांधी मैदान से महंगाई भत्ता बढ़ाने का एलान

 राज्यकर्मियों को नीतीश ने दिया तोहफा, गांधी मैदान से महंगाई भत्ता बढ़ाने का एलान

 15-Aug-2021 10:02 AM

  


PATNA : स्वतंत्रता दिवस के मौके पर गांधी मैदान से अपने संबोधन में मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने राज्य कर्मियों को बड़े तोहफे की घोषणा की है. मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने आज गांधी मैदान से ऐलान कर दिया कि सरकारी सेवकों को बिहार में 28 फ़ीसदी महंगाई भत्ता दिया जाएगा. सरकार इसके लिए जल्द ही अधिसूचना भी जारी कर देगी. सीएम नीतीश ने कहा कि महंगाई भत्ता केंद्र सरकार ने बढ़ाने का फैसला किया और आज हम भी इसे बढ़ाने का एलान करते हैं.*

*बिहार में सरकारी कर्मियों को महंगाई भत्ता पहले 11 घोषणा थी. पिछले दिनों केंद्र सरकार ने महंगाई भत्ते में इजाफा किया था और अब राज्य सरकार ने भी अपने कर्मियों के लिए इसे बढ़ाने की घोषणा कर दी है. नीतीश कुमार ने आज गांधी मैदान में अपने संबोधन के दौरान सरकार के उपलब्धियों की खूब चर्चा की, सरकार की तरफ से नए विश्वविद्यालयों की स्थापना, साथ ही साथ ईको टूरिज्म को लेकर ने विभाग की स्थापना के बारे में नीतीश ने घोषणा की.*

*कोरोना महामारी के दौर में सरकार की तरफ से उठाए गए कदमों के बारे में चर्चा करते हुए नीतीश कुमार ने कहा कि हमने जरूरतमंदों को हर संभव मदद दी है. कोरोना की तीसरी लहर की आशंका के बीच में नीतीश ने लोगों से यह भी अपील की कि वह सावधानी बरतें, मास्क जरूर लगाएं और भीड़भाड़ वाली जगहों से परहेज करें. नीतीश कुमार ने कहा कि जब कोरोना के तीसरे लहर की आशंका जताई जा चुकी है तो हमें लापरवाही नहीं बरतनी चाहिए.*

*नीतीश कुमार ने कहा कि वैक्सीनेशन कार्यक्रम बिहार में रिकॉर्ड स्तर पर चलाया जा रहा है. इतना ही नहीं नीतीश कुमार ने बिहार में आपदा की स्थिति को लेकर भी अपनी चिंता जाहिर की. नीतीश ने कहा कि बिहार में कई* *जिले बाढ़ से प्रभावित हैं और इन* *जगहों पर सरकार की तरफ से* *राहत का काम चलाया जा रहा है.*

ذرا یاد کرو قربانی۔

        ذرایاد کرو قربانی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ



۱۵؍ اگست۱۹۴۷ئ، رات کے بارہ بجے ، ہندوستان کے گلے سے برطانیہ کی غلامی کا طوق اتر گیا ، جبر واستبداد کی بیٹریاں کٹ گئیں ، پوراملک آزادی کی خوشی منا رہا تھا، کیا شہر، کیا دیہات ، کیا بنگلہ، کیا چوراہا، بلکہ کھیت کھلیان تک پر آزادی کا جشن منایا گیا، ۶۹ سال بیت گئے اس دن وتاریخ کو ، سترّویں سال میں ہم داخل ہو رہے ہیں، آزادہندوستان کے ۷۴ سال، کیا کھویا ، کیاپایا یہ ایک الگ کہانی ہے، طویل داستان ہے،۷۴؍ سال کی بھی ،اور اس سے قبل جد وجہد آزادی کے پورے دو سوسال کی بھی، ان دو سو سالوں میں سے پورے ایک سو سال ہم تنہا لڑ رہے تھے، انگریزوں سے نبرد آزما تھے، دوسرے مذاہب کے لوگ انگریزوں کے ہم نوا تھے، کئی ان کے تلوے چاٹ رہے تھے،مسلمانوں کی جانب سے چلائی جا رہی آزادی کی تحریک کو سبوتاز کرنے میں لگے تھے، ان میں اپنے بھی تھے اور غیر بھی ، اسی سازش کا نتیجہ تھا کہ سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میںنہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ تین ہزار انگریزی فوج کے مقابلے سراج الدولہ کی ستر ہزارفوج کومنہہ کی کھانی پڑی ، ۲۲؍ جون ۱۷۵۷ء کی تاریخ کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے جب سراج الدولہ کے جسد خاکی کو سڑکوں پر گھمایاجا رہا تھا ، ایک مجاہد کی لاش ،جس نے شہادت قبول کی، لیکن انگریزوں کی غلامی نہیں، غداروں میں سر فہرست میر جعفر تھا ، غداری کا صلہ بنگال کی نوابی کی شکل میں ملا ، لیکن غداری الگ چیزہے اور نوابی الگ چیز ہے، اس کی نا اہلی نے اسے معزول کرایا ، پھر محمد قاسم منتخب ہوا، وہ بھی میدان کارزامیں آیا، لیکن شجاع الدولہ کی بے وفائی نے بکسر میں ہونے والے معرکہ کا رخ بدل دیا ، اور شاہ عالم جو شجاع الدولہ کا اس جنگ میں حلیف تھا اسے بھی ہزیمت اٹھائی پڑی، یہ معمولی لڑائی نہیں تھی، اس شکست نے انگریزوں کی غلامی کا پرچم اودھ سے لے کر بنگال تک لہرا دیا ، تاریخ ۲۲؍ اکتوبر۱۷۶۴ ء کی تھی۔


۱۷۱۶ء میں حیدر علی نے میسور کا اقتدار سنبھالا اور ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے مقابل اتارا ، اس وقت ٹیپو سلطان کی عمر صرف سترہ سال تھی، کئی معرکوں میں انگریزوں کو پسپائی ہوئی، دب کر اسے صلح کرنی پڑی، حیدر علی کی وفات کے بعدحکمرانی شیر میسور ٹیپو سلطان کے حصہ میں آئی ۱۷۸۴ء میں جب اس کی حکومت کو صرف دو سال ہوئے تھے، انگریزوں کے خلاف منظم تحریک چھیڑ دیا ، ۳؍ مئی ۱۷۸۶ء کو اس مہم کو انہوں نے جہاد کا نام دیا اور عوام میں ایسا جوش بھر دیاکہ ہر خاص وعام انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ا، ٹیپو سلطان کا یہ قول تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ، شیرمیسور نے اس کو عملًا برت کر دکھایا اور جب یہ شیر غداروں کی وجہ سے ۱۷۹۹ء مطابق ۱۲۱۳ھ کو شہید ہوا تو انگریزوں نے اعلان کر دیا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے، لیکن اس ملک کے علماء نے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا ، ان کا زور تھا کہ ہندوستان غیر ملکیوں کا نہیں ، ہندوستانیوں کا ہے ۔ 

1803,1789اور 1806 میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے کئی فتاوے آچکے تھے اور انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستان دار الحرب ہے، ان فتاووںنے حضرت سید احمد شہید ،مولانا اسماعیل شہید ، شاہ رفیع الدین، قاضی ثناء اللہ پانی پتی وغیرہ کو انگریزوں کے خلاف کھڑا کر دیا ، بہار کی سر زمین سے خانوادہ صادق پور کے علماء بھی اس میں پیش پیش رہے اور ان میں سے کئی نے پھانسی کے پھندے کو چوما ، کئی لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور کئی کو کالا پانی بعبور دریا ئے شور کی سزا ملی، جلا وطنی کی مدت میں کئی لوگ انڈمان نکوبار میں ہی سپرد خاک ہوئے، ابتلاء وآزمائش اور سزاؤں کے اس دور میں بھی مسلمان تنہا ہی تھے، 1818تک یہ تحریک اس قدر مقبول ہو چکی تھی کہ جنگ آزادی میں یہ ایک نئے عہد اور نئی تاریخ کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ 

 اسی تحریک کے جاں بازوں میں ایک حاجی شریعت اللہ تھے، جن کی تحریک تو فرائضی تحریک کہی جا تی ہے،لیکن  یہ ایک نقاب تھا جوا س تحریک پر ڈالا گیا تھا ،ورنہ مغربی بنگال میں حاجی محسن عرف دودھو میاں کی رفاقت میں اس تحریک نے انگریزوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا، مولوی نثار علی عرف تیتو میاں نے ۲۳؍ اکتوبر ۱۸۳۰ کو انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ، ۱۹؍ نومبر ۱۸۳۱ء کو اس کا رواںکے افراد انگریزوں کی توپ کا مقابلہ نہ کر سکے اور کچھ نے شہادت پائی اور کچھ نے ہتھیار ڈال دیے ، حیدر آباد دکن میں مولانا سید محمد علی رام پوری ، کیرالہ میں مولانا شیخ محسن کرکلی ، قاضی عمر بلنکوٹی ، سید علوی منفری، سید فضل وغیرہ بھی پیش پیش رہے اور ان حضرات کی کوششوں سے ہندومسلمانوں کو لڑانے کی مویلا سورش ناکام ہو ئی۔ 1857میں مشہور جنگ آزادی لڑی گئی ، جسے ناکام ہونیکی وجہ سے انگریزوں نے غدر کا نام دیا، اس کا آغاز تو میرٹھ سے ہوا تھا اورا س کی منصوبہ بندی میں نانا صاحب اور عظیم اللہ خان کا اہم کردار تھا، لیکن اس تحریک کو ملک گیر بنانے کا سہرا بھی مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کے سر جاتا ہے ، جنہوں نے آگرہ ، دہلی میرٹھ، پٹنہ اور کلکتہ کا سفر کرکے عوام کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کیا اور جنوبی ہندوستان راجستھان اور پنجاب کو چھوڑ کر پورا ملک اس تحریک میں شریک ہو گیا ، یہ وہ موقع تھاجب جدوجہد آزادی میں برادران وطن بھی شریک ہوئے، منگل پانڈے ، جھانسی کی رانی، نانا صاحب، بیگم حضرت محل، تانتیا ٹوپے،بہادر شاہ ظفر اس تحریک آزادی کے بڑے سورما تھے، جن کو ہندوستان کی تاریخ میں یاد رکھا گیا ہے، لیکن اسی تحریک میں شامل ، شاملی کے میدان  کے جیالے حافظ ضامن شہید،مولانا محمد قاسم نانوتوی(م۱۸۸۰)مولانا رشید احمد گنگوہی (م۱۹۰۵)حاجی امداد اللہ مہاجرمکی (م ۱۸۹۹)کو کم یاد کیا جاتا ہے ،حالانکہ ان جیالوں نے جس طرح انگریزی حکومت سے لوہا لیا اور بے سروسامانی کی حالت میں قربانی دی ،وہ تاریخ کا زریں باب ہے اور شاملی کا میدان آج بھی اس کا گواہ ہے۔

اس تحریک کی ناکامی کے بعد غلام ہندوستان میں اسلامی علوم ، تہذیب وثقافت کے تحفظ کا خیال زور پکڑنے لگا ، ان زخمی شاہینوں کو ایک ایسی کمین گاہ کی بھی ضرورت تھی، جہاں سے انگریزوں کے خلاف تحریک جاری رکھی جاسکے، اس کے لیے ضرورت ایک ایسے محاذ کی تھی جس میں جیالے تیار بھی کیے جائیں اور فوری طور پر انگریزوں سے محاذ آرائی کی نوبت نہ آئے، چنانچہ دار العلوم دیو بند کا قیام عمل میں آیا، جس نے اسلامی عقائد وافکار ،علوم نبوت اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کے ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ،مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، مولانا عزیز گل پشاوریؒ، مولانا منصورا نصاریؒ، مولانا فضل ربیؒ، مولانا محمد اکبرؒ، مولانا احمد چکوالیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒجیسے مجاہدین آزادی اس ملک کو دیئے۔ 1884میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ، بدر الدین طیب جی اور رحمت اللہ سیانی مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے اس اجلاس میں سر فہرست تھے۔1885میں کانگریس کا قیام عمل میں آیا ، 1887میں کانگریس کے چوتھے اجلاس کی صدارت بدر الدین طیب جی نے کی ،یہ اجلاس اس وقت کے مدراس اور آج کے چنئی میں منعقد ہوا تھا ،1912میں ریشمی رومال تحریک کی ابتدا دیو بند سے ہوئی، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ نے اپنے رفقاء اور قابل اعتماد شاگردوں کے ساتھ اس کا منصوبہ بنایا ، قبل از وقت اس راز کے کھل جانے کی وجہ سے اس تحریک کوناکامی کا سامنا کرنا پڑا، 1916میں شریف حسین نے آپ کو گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالہ کر دیا اور 1917میں آپ کو جلا وطنی کی سزا دے کو مالٹا بھیج دیا گیا ، آپ کے نامور تلامذہ جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،مولانا عزیز گل پشاوریؒ،مولانا نصرت حسین ؒ، مولانا وحید احمدؒ وغیرہم شامل تھے اپنے استاذکے ساتھ برسوں قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، 1919میں جلیاں نوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا ، جس میں ہزاروں لوگوںپر جنرل ڈائر کے حکم سے گولیا ں چلائی گئیں اور بڑی تعداد میں ہندوستانی شہید ہوئے ،اسی حادثہ نے آزادی کی جد وجہد میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا اور پورا ہندوستان چند مفاد پرستوں کو چھوڑ کر اس تحریک کا حصہ بن گیا ، گاندھی جی 1915میں افریقہ سے لوٹ آئے اور 1920سے تحریک آزادی میں پیش پیش ہو گیے ، خلافت تحریک نے خالص مذہبی تحریک ہونے کے باوجود ہندومسلم اتحاد کو فروغ دیا اور جس کا بڑا فائدہ جد وجہد آزادی کو پہونچا، اب اس قافلہ میں گاندھی کے ساتھ علی برادران یعنی مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الکلام آزاد اور، علماء دیوبند جن کے نام تفصیل سے اوپر آچکے ہیں شامل ہو گئے،بانی امارت شرعیہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ،مولانا فاخر الہ آبادیؒ، مولانا آزاد سجانی، سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خانؒ، مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ،مولانا آزاد سچائی، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا احمد سعید دہلوی ،مولانا شفیع داؤدی، مولانا مظہر الحق، وغیرہ کے اس قافلہ میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ شرکت سے ا س تحریک نے فروغ پایا ، 1919میں جمیعۃ علماء ہند کے قیام کے بعد مسلمانوں کی توجہ اس طرف ہوئی۔ داستانیں ابھی اور بھی ہیں 1921میں موپلا بغاوت، 1922میں چورا چوری کانڈ، 1925میں کاکوری کیس 1930سول نا فرمانی تحریک 1942میں ہندوستان چھوڑو تحریک 1946میں بحری بیڑے کی بغاوت یہ سب اس جد وجہد آزادی کے جلی عنوان ہیں، خواتین نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ، علی برادران کی ماں بی اماں ، سروجنی نائڈو، بی بی امت الاسلام ، زینت محل، کستوربا گاندھی، کملا نہرو، سکینہ لقمانی، اہلیہ شفیع داؤدی کی قربانیوںکو بھی جنگ آزادی میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اس موقع سے رام پرشاد بسمل ، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا ، جنہوں نے ہنستے ہنستے ملک کو آزاد کرانے کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چومنا اور اس پر جھولنا پسند کیا، ان شہیدوں کے خون کی لالی ہمارے ترنگے کا اہم رنگ ہے ۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر ، ڈاکٹرراجندر پرشاد ، پنڈت جواہر لال نہرو، مدن موہن ، نیتا جی شبھاش چندر بوس کی صلاحیتوں سے بھی تحریک کو بہت حوصلہ ملا ۔ آزادی کی اس لڑائی کو عوامی بنانے میں ملک کے اخبارات ورسائل نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی ، امارت شرعیہ کے ترجمان ’’امارت‘‘ کی ضمانت ضبط ہو گئی اور اس کو پابندی کا سامان کرنا پڑا ، اس کے ایڈیٹر کو قید وبندکی صعوبت دی گئی ، چنانچہ اس کا نام بدل کر نقیب کر دیاگیا ،مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال ،البلاغ ، مولانا محمد علی جوہر کا ہمدرد ، مولانا حسرت موہانی کی اردوئے معلیٰ ، مولانا ظفر علی خان کے زمینداروغیرہ نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی، اردو نے آزادی کی تحریک کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور ڈاکٹر محمد اقبال نے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسی نظم کہہ کر عظیم حب الوطنی کا ثبوت دیا ، یوں سب کی قربانیوں کے طفیل ہندوستان آزاد ہوا، ملک کوسیاستدانوںنے دوحصوں میں تقسیم کردیا ، آزادی کا سورج طلوع ہوا تو زمین خون سے لالہ زار تھی ، لوگ پاکستان منتقل ہو رہے تھے، زمین جائیداد ، بنگلے کوٹھیاںسب چھوڑ گیے، مسجدیں ویران ہو گئیں اور جاتے ہوئے بہتوں نے غیروں کے ہاتھوں دنیائے فانی سے جہان باقی کی طرف کوچ کر لیا، دل ٹوٹنے لگے اور ٹوٹتے چلے گیے، مولانا آزاد کی مؤثر تقریر بھی ملک چھوڑنے والوں کے لیے غیر مؤثر ہو گئی ، جو اس ملک میں رہ گیے انہوں نے بائی چانس (By Chance)سکونت نہیں اختیار کی  By Choiceیہاں رہنا پسند کیا ، ہندوستان ان کی پسند تھی ، ترجیحات تھی انہوں نے اپنی ساری توانائی اور ساری صلاحیتیں اس ملک کو ترقی کی راہ پر لگانے میں لگادیں، ملک پر آفت آئی تو ویر عبد الحمید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ٹینک کو آگے بڑھنے سے روک دیا ۔ 

ع   پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں 

 آج اس ملک کے جو حالات ہیں ، ان میں ایک اور آزادی کی جنگ کی ضرورت ہے ، یہ لڑائی بد عنوانی کے خلاف ہو، فرقہ پرستی کے خلاف ہو ، عدم رواداری کے خلاف ہو ، انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ہو ، جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے ہو ،معاشی اور طور پر خود کفیل بننے کے لئے ہو ، غیر ملکی قرضوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہو ، اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج واشاعت کے لیے ہو؛ تبھی ہم سب ملکر گا سکتے ہیں۔

 سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا

Monday 9 August 2021

EPF मे फंस सकता है आपका पैसा

EPF मे फंस सकता है आपका पैसा!

 दिल्ली: कोरोना संक्रमण को देखते हुए कर्मचारी भविष्य निधि संगठन (EPFO) ने मेंबर्स को लॉकडाउन के दौरान पैसे निकालने की छूट दी है. EPFO ने अब या फिर से अलर्ट किया है कि आप आने वाले दिनों में ई-नॉमिनेशन को फाइल किए बिना पैसा नहीं निकाल पाएंगे. आपको बताया दें कि EPF खाताधारक अपने खाते में ई-नॉमिनेशन (e-Nomination) से किसी भी परिवार के सदस्य को नॉमिनी बना सकता है. ई-नॉमिनेशन के जरिए ऑनलाइन पेंशन क्लेम (Online Pension Claim) करने मेंआपको फायदा मिलेगा. साथ ही ई-नॉमिनेशन के जरिए खाताधारक की मृत्यु होने पर नॉमिनी ऑनलाइन ही क्लेम भी कर सकेगा.

     फंस सकता है आपका पैसा

  EPFO के मुताबिक अगर आपने नॉमिनी का सेलेक्शन नहीं किया तो आपका फंड अटक सकता है. आपको बात दें कि EPFO ने यह सर्विस पिछले साल शुरू की थी. लेकिन खाताधारकों ने नॉमिनेशन की प्रक्रिया को पूरा नहीं किया है. लेकिन, अब EPFO इसमें नई प्लानिंग कर रहा है. इसके तहत अगर कोई खाताधारक अपने PF account में नॉमिनी को नहीं जोड़ता है तो वह पीएफ की राशि नहीं निकाल पाएगा. इसके साथ ही कोई भी क्लेम सेटल नहीं होगा. क्लेम करने से पहले ई-नॉमिनेशन 

اتر پردیش کی نئی آبادی پالیسی مفتی ثناءالھدی قاسمی نائب ناظم امارت شریعہ بہار اڈیسہ جھارکھنڈ

  اتر پردیش کی نئی آبادی پالیسی

مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ۔

 عالمی یوم آبادی کے موقع سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2030-2021کے لیے نئی آبادی پالیسی کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سماج میں غربت کا تعلق آبادی کے اضافہ سے ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نئی پالیسی میں دو سے زیادہ بچہ پیدا کرنے والے کو سرکاری نوکری ، سرکاری منصوبوں ، بلدیاتی انتخاب لڑنے اور ملازمت میں ترقی سے محروم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ قانون یوپی سرکار ایسے وقت لائی ہے، جب فیملی ہیلتھ سروے 5کے اعداد وشمار کے مطابق آبادی بڑھنے کی رفتار  ہندوستان میں گھٹی ہے۔


یوگی آدتیہ ناتھ اعلان کرتے وقت یہ بھول گیے کہ اگر ان کے والدین نے "دو یا تین بچے ہوتے ہیں گھر میں اچھے" پر عمل کر لیا ہوتا تو آج اس دنیا میں نہ یوگی جی ہوتے اور نہ ہی دہلی کی گدی پر قابض لوگ نظر آتے، ملک کو گاندھی جی بھی نہیں ملتے۔ اس لیے یہ پالیسی ہی غلط ہے، چین نے پہلے ایک ہی بچہ کا قانون بنا رکھا تھا، لیکن افرادی قوت کم ہوئی تو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی اور ابھی حال میں اس نے تین بچے تک کا قانون پاس کر دیا ہے اب وہاں کے شہری ہی اس سے انکار کرتے ہیں اور حکومت مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے ۔


 اصل میں آبادی پر کنٹرول کا خیال پوری دنیا میں  خوف کی اس نفسیات کی وجہ سے  ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو کھائیں گے کیا، لوگ غریب سے غریب ہوتے جائیں گے ، اور ترقیاتی کاموں پر اثر پڑے گا ، یہ خوف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے رزق کا تعلق وسائل سے جوڑتے ہیں، اور خالق پرہمیں یقین نہیں ہے ، حالاں کہ اللہ رب العزت جب کسی بچے بچی کو دنیا مین بھیجتا ہے تو اسے ایک پیٹ ہی نہیں دو ہاتھ کام کرنے کے لیے اور  دماغ سوچنے کے لیے دے کر بھیجتا ہے ، تاکہ وہ اپنا رزق حاصل کر سکے، جہاں تک وسائل کا تعلق ہے تو اللہ رب العزت امکانات میں اس قدر توسع کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، پہلے ایک ہی فصل ہوا کرتی تھی ، اور پیداوار کی مقدار بھی کم ہوتی تھی، لیکن اب ہم کئی کئی فصلیں اگاتے ہیں اور پیداوار کی شرح بھی پہلے سے تین گنا زیادہ ہے، آبادی بڑھی تو رزق کا انتظام اللہ نے کر دیا ، پہلے ایک منزلہ مکان کاہی تصور تھا وہ بھی پھوس کا اور خستہ حال، لیکن آؓبادی بڑھی تو اللہ نے  کثیر منزلہ عمارت کا خیال  لوگوں کےذہن میں ڈالا اور اب سو سو منزل کی عمارتیں بن  رہی ہیں  ، آؓبادی کے بڑھنےسے ترقی رکی نہیں ، بلکہ ترقیاتی کاموں میں اضافہ ہوا، پہلے مکانات خشک زمین پر ہی بنائے جاتے تھے ، اب سمندر پر بھی مکانات بن رہے ہیں، اور پہاڑ کے سینے کو چیر کر بھی رہائش کی جگہ بنائی جا رہی ہے ۔

 ان چند مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ اور غربت کا کوئی تعلق  بڑھتی ہوئی آبادی سے نہیں ہے، بلکہ اگر ہم نے آبادی پر کنٹرول کا منصوبہ نافذ کیا تو افرادی قوت کے کم ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں پر اثر پڑے گا، اس مشینی دور میں بھی بٹن دبا نے اور مشینوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے، بچے پیدا نہ ہوں گے تو افراد کہاں سے آئیں گے۔


 اسی لیے اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ رزق کا مالک اللہ ہے اور تم تنگی معاش کے ڈر سے بچوں کا قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی کھلاتے ہیں ، انہیں بھی کھلائیں گے، یہ وہ عقیدہ ہے جو انسان کو معاشی تنگی کے خوف کی نفسیات سے نکالتا ہے، کاش یہ بات یوگی آدتیہ ناتھ کی سمجھ میں آجاتی۔

Tuesday 3 August 2021

یکساں شہری قانون:ناقابل عمل مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ

 یکساں شہری قانون:ناقابل عمل

مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی 

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ



 دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے ایک فیصلہ میں یکساں شہری قانون کے نفاذکو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے ، اور کہا ہے  کہ یکساں شہری قانون کے نفاذ کا یہی صحیح وقت ہے، یہ فیصلہ ہائی کورٹ کے جج پرپتھاام سنگھ نے سنایا، یہ مقدمہ ہندومیاں بیوی کا تھا، شوہر ہندو میرج ایکٹ کے تحت طلاق کی مانگ کر رہا تھا ، جب کہ بیوی کا کہنا تھا کہ وہ مینا قبیلہ کی ہے، اور اس کا فیصلہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت نہیں کیا جا سکتا، جج نے اس مقدمہ کو فیملی کورٹ منتقل کر دیا اور واضح طور پر لکھا کہ آج کا ہندوستان ذات، مذہب اور قبائلی رسم ورواج سے اوپر اٹھ گیا ہے، اس لیے یکساں شہری قانون ہی اس قسم کے قضیہ کا واحد حل ہے، اور یہ کہ پرسنل لا کا سہارا لے کر ہندوستان کے لوگوں کو شادی اور طلاق کے مسائل سے الجھنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا، 

عدالت کو ہر ایسے موقع سے دستور کے راہنما اصول دفعہ 44 کی یاد آتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ صحیح وقت پر ریاست سبھی شہریوں کے لیے یکساں شہری قانون نافذ کرے گی ، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے اسی وقت اس قانون کے نفاذ کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ریاست کو کوئی ایسا قانون نہیں لانا چاہیے جو عوام کے لیے قابل قبول نہ ہو۔


 واقعہ یہ ہے کہ یکساں شہری قانون کا نفاذ اس ملک میں ممکن ہی نہیں ،  راہنما اصول کے بہت سارے ایسے دفعات  ہیں  جن  کا نفاذ حکومت کے لیے  اب تک ممکن نہیں ہو سکا، شاہ بانو کیس کے وقت بھی 1985میں یہ مسئلہ اٹھا تھا اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین حکومت کو یہ سمجھا نے میں کامیاب ہو گیے تھے کہ یکساں شہری قانون سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوگا اور علاحدگی پسندی کے مزاج کو فروغ ملے گا۔ کیوں کہ اس ملک کی شناخت رنگا رنگا تہذیب سے ہے، مختلف مذاہب کے اقدار ، رسم ورواج ، طور طریقے مل کر قوس قزح بناتے ہیں، اور بقول ذوق گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن


جس دن حکومت نے یکساں شہری قانون بنا یا اور اس کے نفاذ کی کوشش کی اس دن غیر مسلموں کا بڑا طبقہ آپس میں ہی اختلاف کا شکار ہو جائے گا، کیوں کہ شمالی ہندوستان میں کئی پشتوں تک ہندوؤں کے یہاں گوتر ملا یا جاتا، جس لڑکی سے شادی رچائی جا رہی ہے اس سے  دور دور تک بہن کا رشتہ نہیں ہونا چاہیے، جب کہ جنوبی ہند میں سب سے اچھی شادی غیر مسلموں کے یہاں وہ ہے جو بھانجی سے کی جائے، ظاہر ہے یکساں قانون کسی ایک کے ہی حق میں جائے گا، دوسرا مخالفت پر اتر آئے گا،

 ہندوؤں کے یہاں آخری رسومات کی ادائیگی کے تین طریقے ہیں، کہیں گاڑا جاتا ہے، کہیں جلایا جاتا ہے، اور کہیں دریا برد کیا جاتا ہے، یکساں شہری قانون دو طریقہ کو ختم کرے گا، ظاہر ہے یہ ان کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ اور مسلمانوں کے لیے تو قطعا نہیں، اس لیے کہ ہمارے یہاں تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ عزت کے ساتھ نہلاؤ کفناؤ اور زمین میں خاص طریقہ سے قبر کھود کر دفن کردو۔


 اسی طرح شادی کا طریقہ بھی یکساں کسی مذہب والے کے لیے قابل قبول نہیں ، ہمارے یہاں نکاح کا طریقہ ہے ، کسی کے یہاں سات پھیرے آگ کے گرد لگائے جاتے ہیں اور کسی مذہب میں کوئی دوسرا طریقہ رائج ہے، اس لیے جب بھی یکساں شہری قانون لایا جائے گا، مختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف اقلیتوں کی اکائیاں الگ ہوجائیں گی، جس سےملک کا بھلا نہیں ہوگا۔


اسی طرح  یکساں شہری قانون کے نفاذ سے مختلف مذاہب کے درمیان ٹکراؤ کی  جس فضا کے ختم ہونے کا خوب پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے  وہ بھی موہوم اور فرضی ہے، اس لیے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کوروپانڈو کی بربادی کی داستان چھوڑ جانے والی لڑائ ایک ہی مذہب کے درمیان تھی، مغلیہ عہد میں جو لڑائیاں ہوئیں وہ بھی مذہب کی جنگ نہیں، اقتدارکی جنگ تھی، لڑنے والے ایک ہی مذہب کے تھے، آج بھی جو لڑائیاں  مسلم ممالک میں جا ری ہیں، ان میں دونوں فریق کا مذہب اور ان کے قانون ایک ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت عدالت کے  ذریعہ پیش کیے گئے مشورہ پر کان نہ دھرے اور جس طرح ماضی کے حکمرانوں نے اس مسئلہ پر سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا ہے ویسے ہی موجودہ حکومت بھی نظر انداز کر دے، اس ملک کی بھلائی اسی میں ہے ۔

بہار میں اردو: نئی نسل کو نظر انداز کرنے کا رویہ افسوس ناک۔ پروفیسر کامران غنی صبا

 بہار میں اردو: نئی نسل کو نظر انداز کرنے کا رویہ افسوس ناک۔


پروفیسر کامران غنی صبا 

بہار میں اردو کی لڑائی لڑنے والے سچے لوگ حاشیے پر ہیں. اردو تحریک کے نام پر سوائے پروپیگنڈا کے کچھ نہیں ہو رہا ہے. نئی نسل کو نظر انداز کر کے کوئی تحریک بھلا کیسے کامیاب ہو سکتی ہے. بہار میں نئی نسل کے شعرا و ادبا اور ناقدین کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے. مخلص لوگوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اردو کے حق کے لئے مسلسل لڑ رہی ہے. اسے نام و نمود اور پروپیگنڈا کی کوئی حاجت نہیں ہے. اردو کے لیے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ عملی میدان میں صفر ہیں. تین سال قبل این آئی او ایس نے اپنے نصاب سے اردو کو ختم کر دیا تو بہار میں اردو کے تحریک کار خاموش رہے. بہار اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے فعال اور مخلص نوجوان اردو کی لڑائی لڑنے میدان میں آئے. پٹنہ ہائی کورٹ میں کیس داخل کیا گیا. وکیل نے فیس کے طور پر بڑی رقم کا مطالبہ کیا. اردو کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ مالی تعاون کے نام پر بیک فٹ پر چلے گئے. محمد نظر الہدی قاسمی اور جناب فیروز عالم، مغربی چمپارن پٹنشیر بنے. وہ مسلسل پٹنہ دوڑتے رہے. ایسو سی ایشن کے سکریٹری محمد شفیق اور ان کے رفقا اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے مستقل جدوجہد کرتے رہے. سوائے جناب امتیاز احمد کریمی (ڈائرکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ) کے کسی نے اظہار ہمدردی کا ایک لفظ بھی خرچ کرنا گوارا نہیں کیا. کسی طرح وکیل کی فیس کا انتظام کیا گیا. طویل جدوجہد کے بعد فیصلہ اردو کے حق میں آیا. فیصلہ آنے کے بعد بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی آگے نہیں آیا. حالانکہ اس فیصلے سے نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان کے لاکھوں اردو میڈیم اساتذہ نے چین کا سانس لیا.


بہار کے اسکولوں سے اردو اساتذہ کی یونٹ ختم کیے جانے کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے. اس بار بھی نوجوانوں نے کمر کس لی ہے. معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے. ایک طرف پروپیگنڈے کی سیاست ہے. روزانہ اخبارات میں اپنی قصیدہ خوانی شائع کروائی جا رہی ہے دوسری طرف مخلص نوجوانوں کی چھوٹی سی جماعت نام و نمود کی تمنا سے بے نیاز ہو کر اردو کے لیے زمینی جنگ لڑ رہی ہے. اطمینان کی بات یہ ہے کہ عدالت نے حکومت کو تین ماہ کا وقت دے کر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ہدایت جاری کی ہے. عدالت نے حکومت سے پوچھا ہے کہ بہار میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے تو اسے نظرانداز کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟

اردو کی لڑائی لڑنے والے مخلص نوجوان ہوں یا ادب و صحافت کے میدان کے نو شہسوار. بہار میں نئی نسل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے. یہ صورت حال دوسری ریاستوں میں اتنی افسوس ناک نہیں ہے. دہلی میں نوجوان قلم کاروں کی تربیت اور پذیرائی کے لیے مختلف قسم کے منصوبے ہیں. دہلی اردو اکادمی نئے پرانے چراغ کے عنوان سے جو پروگرام کرتی ہے اس میں نوجوان شعرا و ادبا کی عزت افزائی کی جاتی ہے. دہلی کے اسکولوں میں اردو کی لڑائی لڑنے والے مرد مجاہد منظر علی خاں کی بے لوث اردو خدمات کی دنیا معترف ہے. اس شخص کی بدولت نہ جانے کتنے اردو اساتذہ اردو کی روزی روٹی کھا رہے ہیں. دہلی کے اردو اخبارات نے منظر علی خاں کی ذاتی تحریک کو آفاقی بنانے میں بھر پور تعاون دیا ہے. ایسا شاید بہار میں ممکن نہیں تھا. 

بہار کے سرکاری اداروں کے علمی و ادبی پروگراموں میں نئی نسل کے شعرا و ادبا کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے. سینئر ادبا و شعرا میں گنتی کے چند چہرے ہیں جو سمینار مشاعروں میں گردش کرتے رہتے ہیں. پچھلے سال بہار پبلک سروس کمیشن نے اردو کے 82 اساتذہ مختلف یونیورسٹیوں میں بحال کیے ہیں. کمیشن سے آئے ہوئے یہ اساتذہ کیا اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں ادبی منظر نامے پر ابھرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں؟

اردو ڈائریکٹوریٹ میں امتیاز احمد کریمی کی ڈائریکٹرشپ ختم ہونے کے بعد ڈکٹیٹر شپ کا دور شروع ہو چکا ہے. امتیاز احمد کریمی نے نئی نسل کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے قابل قدر کوششیں کیں. سچ پوچھیے تو ان سے قبل اردو ڈائریکٹوریٹ کو جاننے والا بھی کوئی نہ تھا. انہوں نے ڈائریکٹوریٹ کو بہار کے ہر ضلع میں فعال کیا. افسوس کہ ان کے جانے کے بعد اردو ڈائریکٹوریٹ، بہار اردو اکادمی اور اردو مشاورتی کمیٹی کی طرح نیم مردہ ہو چکا ہے. سب کو اپنے اپنے دانے پانی کی فکر ہے. ایسے میں آواز کون اٹھائے؟ سب کو ڈر ہے کہ آواز اٹھانے والے کو ادارہ کی بلیک لسٹ میں پھینک دیا جائے گا. 

نئی نسل کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کا یہ رویہ اردو کے حق میں بہتر نہیں ہے. جو لوگ اردو کے خدا بنے بیٹھے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں نوجوانوں کے "کفر" نے سر ابھارا تو ان کی خدائی خاک میں مل جائے گی. بلاشبہ آنے والا وقت نئی نسل کا ہی ہے اور نئی نسل اردو کے ساتھ ساتھ اپنے حق کی لڑائی لڑنا بھی جانتی ہے. وہ مصلحت، پروپیگنڈا، اعتراف و انحراف کے مفہوم سے پوری طرح آشنا ہے.

...............................

کامران غنی صبا

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...