Tuesday 21 September 2021

4دسمبر تک دے سکتے ہیں آن لائن درخواست ، مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس و دیگرمدارس کے مولوی پاس طلبا و طالبات کے لیے ایک سنہرا موقع : عبدالقیوم انصاری

 4دسمبر تک دے سکتے ہیں آن لائن درخواست ، مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس و دیگرمدارس کے مولوی پاس طلبا و طالبات کے لیے ایک سنہرا موقع : عبدالقیوم انصاری


پٹنہ 18؍ ستمبر (بلاغ 18 ڈاٹ کام۔

مدینہ اسلامی انٹر نیشنل یونیورسٹی میں ڈگری کورس میں داخلے کا آغاز۔ عبدالقیوم انصاری بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے اطلاع دی ہے کہ نتیش کمار وزیر اعلا بہار کے ڈائنمک قیادت میں مدرسہ بورڈ سے پاس مولوی کے طلبا و طالبات کو مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کی راہ ہموار ہوئی۔ واضح ہوکہ اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے شرعی کالج اور سائنس کالج میں بیرونی اسکالر شپ پر بیچلر میں داخلہ کے لیے مورخہ ۔12 ستمبر2021 سے 4؍ دسمبر 2021 تک آن لائن درخواست یونیورسٹی کے پورٹل /www.iu.edu.sa//:https پر دی جاسکتی ہے۔ شرعی کالج میں شرعیہ (اسلامک لا ) چار سالہ ڈگری کورس ، دعوہ و اصولِ دین چار سالہ ڈگری کورس ، قرآن کریم اور علوم اسلامیہ چار سالہ ڈگری کور س ، عربی زبان چار سالہ ڈگری کورس ، قوانین اور عدالتی علوم ، چار سالہ ڈگری کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ جو طلبا و طالبات سائنس کالج میں داخلہ لینا چاہتے ہیں وہ الکٹریکل انجینئرنگ ، میکینکل انجینئرنگ ، سول انجینئرنگ پانچ سالہ کورس، کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن سسٹم، انفارمیشن ٹکنالوجی ، پانچ سالہ کور س، فزکس، کمیسٹری اور حساب چار سالہ کورس میں سائنس کے طلبا داخلہ لے سکتے ہیں ۔ داخلہ کے لیے ہائی اسکول ڈپلوما/انٹر پاس کے ساتھ ۔ ساتھ مدارس کے مولوی کی سند ہونا لازمی ہے۔ داخلہ کے لیے کچھ ضروری شرائط ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہوگا جو حسبِ ذیل ہیں:

۱۔ ہائی اسکول ڈپلوما یا اس کے مساوی سرٹیفکٹ کو حاصل کیے ہوئے پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوئے ہوں۔


۲۔ درخواست گزار سعودی عرب میں مقیم نہ ہو۔

۳۔ درخواست گزار اچھے اخلاق او رکردار کا حامل ہو۔

۴ درخواست گزار کی عمر 17 سال سے کم اور پچیس سال سے زیادہ نہ ہو۔

۵۔ نظم و ضبط کی بنا پر کسی یونیورسٹی سے نکالا نہ گیا ہو۔

۶۔ درخواست گزار نے سعودی عرب کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے کوئی اور اسکالر شپ حاصل نہ کی ہو۔

۷۔ سرٹیفکٹ اورکاغذات اپنے ملک کے مزاج حکام سے تصدیق شدہ ہوں۔

۸۔پولیس کیرکٹر سرٹیفکٹ ۔



 

۹۔اپنے ملک کے کسی معروف ادارے یا کسی مذہبی شخصیت کا تذکیہ ۔

۱۰۔ میڈیکل سرٹیفکٹ۔

۱۱۔ ریاست اور یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے کا عہد کرنا۔


۱۲۔ قرآن کریم کے کالج میں داخلہ کے لیے مکمل قرآن کریم کا حافظ ہونا اور اس کے لیے زبانی امتحان پاس کرنا شرط ہے۔

ساتھ ہی داخلہ لینے والے امیدوار کو مطلع کیا جاتا ہے کہ شرعی کالجوں میں تعلیم عربی میں دی جائے گی ۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے درخواستیں وصول کرنے کے لیے دنیا میں کہیں بھی یونیورسٹی کے دفاتر یا ایجینٹ نہیں ہیں۔ داخلہ صرف مخصوص آن لائن پورٹل کے ذریعہ وصول کی جاتی ہے۔خواہش مند طلبا و طالبات جو درج بالا شرائط کو پورا کرتے ہیں و ہ متعین وقت کے دوران آن لائن درخواست دے سکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے سلیکشن ہونے کے بعد سفری اخراجات اور کورس کو مکمل کرنے کے تمام اخراجات یونیورسٹی کی جانب سے ادا کی جائے گی

Sunday 12 September 2021

کتابوں کی دنیا

       کتابوں کی دنیا



 درس علم النحو 

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ


نحومیر ہمارے مدارس میں عربی اول میں عموماً پڑھائی جاتی ہے،کتاب کی زبان فارسی ہے اور فارسی ہندوستان میں عموماً متروک ہوچکی ہے، اس لئے فارسی میں لکھی ان کتابوں کی تدریس کے لئے مدارس میں اعدادیہ یا فارسی کے درجات الگ سے رکھے جاتے ہیں؛ تاکہ فارسی میں لکھی گئی کتابوں کے ذریعہ نحو و صرف کے قواعد اصول اور مبادیات کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے لیے آسان ہوجائے۔

  بعد کے دنوں میں درس و تدریس سے وابستہ اساتذہ کرام میں اس خیال نے زور پکڑا کہ کیوں نہ ان کتابوں کو اردو میں منتقل کیا جائے؛ تاکہ مادری زبان میں افہام و تفہیم کا کام کیاجائے؛ چنانچہ کتاب الصرف، کتاب النحو، تمرین الصرف، تمرین النحو، آسان صرف، آسان نحو وغیرہ کتابیں وجود میں آئیں، اور درس وتدریس کا سلسلہ ان کتابوں کے ذریعہ جاری ہوگیا،اسی ذیل میں فارسی کتابوں کو اردو کا لباس پہنانے کا کام بھی شروع ہوا اور نحومیر، علم الصیغہ، میزان، منشعب، فصول اکبری وغیرہ حذف واضافہ،ترمیم و تنقیح، مشق وتمرین اور تسہیل کے ساتھ ہمارے سامنے آئیں۔ان کتابوں میں عموماً تعریفات اور امثلہ اصل اور پرانی کتابوں کے باقی رہ گئے،ضرب زید کے ذریعہ بے چارہ زید کبھی مارتا ہے کبھی مار کھاتا ہے،یہ مثال اس قدر عام ہوا کہ لوگوں نے زید نام رکھنا ہی چھوڑ دیا،زید کا غلام اب بھی ہمارے بچوں کو مضاف مضاف الیہ سمجھاتا ہے؛ حالانکہ غلام کا رواج کب کا ختم ہوگیا،اب بچہ غلام کو جانتاہی نہیں ہے اور ولد سے ہم اسے بدل نہیں پارہے ہیں۔

    اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ میں کتابوں کو رٹ کر امتحان نکالنے کا مزاج بن گیا بغیر سمجھے بوجھے ’رٹو مل“ ہونے سے کتاب تو نکل جاتی ہے؛ لیکن فن نہیں آتا ہے؛ حالانکہ مقصود کتاب پڑھانا نہیں فن پڑھانا ہے،فن پڑھے گا تو جاری مجری صحیح کی مثال میں ”دلو“ سے آگے بڑھ جائے گا مرکب منع صرف کی مثال میں بعلبک،معدیکرب اور حضر موت تک محدود نہیں رہ جائے گا۔

     اس کے پاس انسانی اسماء کی سینکڑوں مثالیں ہوں گی؛ جنہیں وہ مرکب بنائی کے طور پر جانے گا اور پہچانے گا، فن پڑھانے کا یہ فائدہ فوری ہوگا اور اگر اس نے قواعد کو سمجھ کر رٹ لیا تو اسے ان علوم میں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا،فن پڑھاتے وقت طلبہ سے قرآن کریم کی آیتوں سے مثال اخذ کرانے سے زیادہ فائدہ ہوتاہے، قرآن کریم سے رغبت بڑھتی ہے اور قرآن مجید سے بہتر مثالیں اور کہاں مل سکتی ہیں، شاید باید کوئی قاعدہ ایسا ہوگا جس کی مثال قرآن کریم میں مذکور نہ ہو ضرورت شوق پیدا کرنے کی ہے۔

  درس وتدریس کا یہ انداز جوہمارے یہاں رائج ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نصاب فہرست کتب کو کہتے ہیں؛ حالانکہ نصاب فہرست کتب کا نہیں ان ابحاث و موضوعات کا نام ہے، جن کو طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے اساتذہ کو پڑھانا ہے، اب یہ استاذ کا مسئلہ ہے کہ وہ کن کتابوں کی مدد سے بچوں کو صحیح طور سے سمجھا سکتا ہے،کتابیں بذات خود نصاب نہیں ہیں؛ بلکہ مباحث کو سمجھانے کے لیے معاون اور مددگار ہیں،اساتذہ اگر کتاب پڑھاتے وقت مباحث اور اس کی مشق پر توجہ مرکوز رکھیں تو طلبہ کی صلاحیتوں کو پر لگ سکتاہے،میں نے خود بھی بیس سال پڑھایاہے اس لئے دوران تدریس کے جو تجربات و مشاہدات ہیں وہ کاغذ پر پھیلتے چلے گئے۔

    میرے سامنے مولانامفتی ماہتاب عالم ابو ناصحہ قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ حنفیہ عربی کالج جمیلا گیدرگنج مدھوبنی کی کتاب درس علم النحو ہے،اس میں انہوں نے نحومیر کو اردو قالب میں ڈھالا ہے، مثالیں وغیرہ بھی وہیں سے ماخوذ ہیں، کچھ جگہوں پر اس میں اضافہ بھی درج ہے۔

   مفتی ابو ناصحہ قاسمی صاحب پڑھتے لکھتے ہیں، لکھنے کی دلیل تو یہ کتاب ہے اور پڑھے بغیر لکھا نہیں جاسکتا اس لئے معلوم ہوا کہ وہ پڑھتے بھی ہیں، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدرسے میں ہیں اس لیے پڑھاتے بھی رہیں، اس کی دعاء کرنی چاہئے۔یہ بات حفظ ماتقدم کے طور پر لکھ دیاہے؛ کیوں کہ پیش لفظ میں جو کچھ انہوں نے لکھاہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ طلبہ کو پڑھاتے بھی ہیں۔

درس علم النحو در اصل حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی سابق ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کی درسی افادات کا مجموعہ ہے، جسے مفتی صاحب نے درس کے وقت قلم بند کرلیا،پھرپڑھاتے وقت اس سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسے مرتب کرڈالا اب یہ طباعت کے لئے تیار ہے،زبان اگر مزید آسان کرسکیں؛جن جگہوں پر مثالیں درج نہیں ہیں،اسے درج کردیں جن اصطلاحات کی تعریف درج ہونے سے رہ گئی ہے، اس کو بھی شامل کتاب کرلیا جائے تو اس کتاب کی افادیت بڑھ جائے گی۔

   ہمارے استاذ محدث کبیر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ پہلے مرحلہ میں ہی یہ بات طئے کرلینی چاہئے کہ کتاب کس کے لئے لکھی جارہی ہے،اسلوب مثالیں وغیرہ اسی اعتبار سے لانی چاہئیے، میرا خیال یہ ہے کہ درس علم النحو اساتذہ کے لئے تو مفید ہے، طلبہ کے لیے مزید مفید بنانے کے لئے گراں بار نہ ہوتو اوپر جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے،اس کے مطابق اس کتاب پر نظر ثانی کر لی جائے ۔ اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول عام اور افادہ تام نصیب فرمائے آمین

دی بہار ٹیچرس ہسٹری میکر اعزاز سے نواز ے گئے اردو ٹیچر وجیہ الحق

دی بہار ٹیچرس ہسٹری میکر  اعزاز سے نواز ے گئے اردو ٹیچر وجیہ الحق



ضلع گوپال گنج کے این پی ایس لہسی ٹولہ ویجئے پور بلاک اونچکا گاؤں کے اردو معلم وجیہہ الحق کو دی بہار ٹیچرس ہسٹری میکر نے اعزاز سے نوازا ہے۔  یہ اعزاز جناب پروفیسر کے سی سنہا (وائس چانسلر نالندہ اوپن یونیورسٹی) جناب ونودانند جھا (ڈائریکٹر اسٹیٹ کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ ، بہار) سےحاصل کیا ہے۔  یہ اعزاز آن لائن اردو کام کرنے پر سینٹ زیویرس کالج آف ایجوکیشن ، پٹنہ میں منعقدہ اعزازی تقریب میں ملا ، جس میں کل 110 اساتذہ کو اعزاز دیا گیا ہے۔

دی بہار ٹیچرس ہسٹری میکر میرا موبائل میری تعلیم کے بینر کے تحت ، بہار کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نے کورونا دور کے لاک ڈاؤن میں ہر مضمون کو آن لائن پڑھایا تھا اور اب بھی آن لائن پڑھاتے ہیں جس کے لیے ہر ایک کو اعزاز سے نوازا کل گیا جس میں بہار کے سرکاری اسکولوں کے پرائمری سے لے کر +2 کے اساتذہ شامل ہیں۔

Tuesday 7 September 2021

پریشان حال انسانوں کی مددکرنا امارت شرعیہ کی پہلی ترجیح:

 پریشان حال انسانوں کی مددکرنا امارت شرعیہ کی پہلی ترجیح:


احمد حسین قاسمی

________________________________

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کی جانب سےچمپانگربھاگلپورمیں دوسوکےقریب سیلاب متاثرہ خاندانوں کےدرمیان ریلیف کی تقسیم

....................................................

(پریس ریلیز6/ستمبر:بھاگلپور)

امسال مختلف اضلاع میں انسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد سیلاب سے متاثرہوئی ہےجس کےنتیجےمیں انسانی جانوں کےساتھ بڑےپیمانےپرکھیتی واملاک کوبھی کافی نقصان پہنچا ہے۔

جہاں سرکاری وغیرسرکاری دیگرتنطیموں نےانسانوں کی راحت رسانی کاکام انجام دیاوہیں ملک کی مشہور دینی وملی تنظیم امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ نےنمایاں طورپرپچھلےکئی مہینوں سےمسلسل سیلاب سےمتاثرمختلف اضلاع میں لوگوں کوعبوری راحت پہنچانےاورحتی الوسع ان کی باز آبادکاری میں مصروف ہے اس حوالہ سے پورنیہ کھگڑیا اوربھاگلپورکے مختلف بلاک ومواضعات میں بالترتریب امارت شرعیہ کی ریلیف ٹیموں نے نقدرقومات اشیاء خوردنی اور کپڑوں کی تقسیم کی ہے

اس تعلق سـے امارت شرعیہ کے موجودہ نائب امیرشریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی صاحب قاسمی زیدمجدہ اور قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی القاسمي صاحب نےبڑی فکرمندی کامظاہرہ فرمایااورپےدرپےحسب ضرورت امارت شرعیہ کے ذمہ داران کی قیادت میں ریلیف ٹیموں کوبیت المال امارت شرعیہ سے راحتی سامان دےکرمتاثرہ علاقوں میں بروقت بھیجنے کافیصلہ کیاجس کا سلسلہ ہنوزجاری ہے.

اسی کی ایک کڑی وفد بھاگلپور ہے چنانچہ آج امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی صاحب کی قیادت میں بھاگلپورکے چمپانگرعلاقہ:احمدنگر ناتھ نگراور مدنی نگر میں سیلاب متاثرہ ایک سو اسی سےزائد خاندانوں کےدرمیان ریلیف کی تقسیم عمل میں آئی روزمرہ استعمال ہونےوالے کھانےکےضروری سامان اورضرورت کےکپڑےوغیرہ ان متاثرین کو علماءکےہاتھوں دئےگئےآج علی الصباح سب سے پہلے یہ راحتی ٹیم ان متاثرہ علاقوں میں جاکرکئی محلوں کا جائزہ لیا سیلاب کاپانی چمپانگر کے احمد نگراور دوسرے نشیبی محلوں میں اب تک موجود ہے لوگ اب بھی باندھ اور اونچی جگہوں پر پناہ لئے ہوئے ہیں مولانا شمیم قاسمی صاحب کے مدرسہ کاشف العلوم میں کئی خاندان پناہ گزیں ہیں جس کامعائنہ کرکے امارت شرعیہ کی ٹیم نے ان کی پریشانیوں کودل سے محسوس کیا مذکورہ محلہ کی نئی سمینٹڈ سڑک جو حال ہی میں بنی تھی بری طرح ٹوٹ گئی ہےجس سے راہگیروں کو کافی دقتوں کا سامنا رہتاہے حکومت بہار سے گزارش ہے کہ جس طرﺡ دوسرے اضلاع کے سیلاب متاثرین کی سرکاری سطح سے روپئے کےذریعہ امداد کی گئی ہے بھاگلپور کے ان سیلاب متاثرین کی بھی سروے کراکر امداد کی جائے اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی تعمیر کرائی جائے یہ ریشمی شہر بہار کے معروف صنعتی شہروں میں شمار ہوتا ہے ان کا خیال ترجیحی بنیادپر رکھنا چاہیے

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ نےاپنےقیام کے شروع دن سےہی ملک میں خدمت خلق کواپنا نصب العین بناکرکام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ صرف اس نے اپنےدائرہ کار چارصوبوں  بہاراڈیشہ جھارکھنڈومغربی بنگال میں ہی انسانی وسماجی خدمات انجام نہیں دیں بلکہ اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاکر پورے ملک میں جہاں بھی کوئی اسمانی یا زمینی حادثات وآفات رونماہوئے ہیں امارت شرعیہ اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں حاضر رہی ہے 

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کی اس راحت رسانی پر مقامی علماء وسماجی ذمہ داران اپنےدل کی گہرائیوں سے اس سوسالہ قدیم تنظیم کا شکریہ اداکیا

پٹنہ کےوفد میں شریک علماءکرام میں مفتی مجیب الرحمن قاسمی معاون قاضی شریعت مفتی مولاناخورشید انور قاسمی قاضئ شریعت بھاگلپور وبانکا

اور مولانا منعام الدین قاسمی مبلغ امارت شرعیہ تھے اور مقامی علماء کرام میں مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگربھاگلپورکے مہتمم مولانا قاری اسعد قاسمی صاحب شیخ الحدیث مولاناغلام رسول صاحب  مفتی یونس قاسمی مولانا اشتیاق قاسمی مفتی ریحان مولانا عطاءاللہ مظاہری صاحب مفتی عبیدالرحمن قاسمی ودیگر اعیان شہر وصحافی حضرات موجود تھے

عالم ، مولانا، مولوی اور مُلّا

   عالم ، مولانا، مولوی اور مُلّا


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

دینی علوم کے حاملین اور مذہبی شناخت رکھنے والے افراد واشخاص کے لیے عالم،مولانا مولوی اور مُلا کے الفاظ عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے مفہوم، مدلول اور اصطلاحی معنی میں بڑا فرق ہے ، یہ الفاظ لغوی اور اصطلاحی طور پر ایک دوسرے کے مترادف نہیں ہیں، بلکہ ہر ایک کا معنی ومفہوم الگ الگ ہے۔

 عالم کے معنی لغت میں جاننے والے کے آتے ہیں، اس کے لغوی معنی میں ایسا عموم ہے کہ کسی بھی طرح کی باتیں جاننے والوں کو عالم کہا جا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ، عام بول چال میں عالم کے عمومی معنی متروک ہو چکے ہیں ہر جاننے والے کو کوئی عالم نہیں کہتا ، بلکہ اس کا اطلاق کچھ خاص قسم کی صلاحیت رکھنے والے پر ہی ہوتا ہے ، گویا عرف عام نے اس لفظ کو لغوی معنی سے نکال کر ایک الگ معنی میں استعمال کرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے عالم کی الگ اصطلاح وجود میں آئی، منطق کی اصطلاح میں اسے منقول اصطلاحی کہا جاتا ہے ۔ دار العلوم دیو بند نے اپنے ایک فتویٰ میں لکھا ہے کہ :’’ علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کو ثقہ اساتذہ سے پڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عرفا عالم کہا جاتا ہے‘‘۔ (جواب نمبر 16857( 

اس فتویٰ میں دو باتیں اہم ہیں، ایک مخصوص نصاب اور دوسرے ثقہ اساتذہ سے اس مخصوص نصاب کی تعلیم کے بعد فراغت ، دار العلوم دیو بند کے اس فتویٰ کا حاصل یہی ہے، اس فتویٰ کی رو سے ان کے نزدیک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں، لیکن مخصوص نصاب کا ثقہ اساتذہ سے پڑھ کر تکمیل ضروری ہے۔ یعنی درمیان میں کچھ پڑھ کر تعلیم منقطع کرنے والے کو بھی عالم نہیں کہیں گے ۔

دار العلوم دیو بند کے دوسرے فتویٰ میں لکھا ہے کہ دور حاضر کے عرف میں عالم وہ شخص ہے جو قرآن وحدیث کو با قاعدہ پڑھے ہوئے ہو اور قرآن وحدیث کو، اس کے احکام کو براہ راست سمجھتا ہو، جماعت میں نکلنے والا اگر کچھ باتیں دین کی سیکھ لے تو اسے عالم نہیں کہا جائے گا، اسی طرح جس نے محض کتابوں کا مطالعہ کرکے کچھ باتیں سیکھ لیں وہ بھی عالم نہیں کہا جائے گا، جب تک کسی مستند عالم کے پاس یا کسی مستند مدرسہ میں رہ کر تمام علوم آلیہ کو سیکھ کر علوم قرآن اور اس کی تفسیر کو نہ پڑھے اور اسی طرح علم حدیث کو نہ سیکھے تو وہ اہل علم کے یہاں اصطلاحی عالم شمار نہیں کیا جائے گا، عالم کے لیے با قاعدہ تمام علوم کو سات آٹھ سال تک پڑھنا ضروری ہے۔ (فتویٰ 146973، 28دسمبر 2016)

ارشاد الفحول میں علامہ محمد بن علی شوکانی نے عالم ہونے کے لیے پانچ شرطوں کا ذکر کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم وہ شخص ہوگا، جو نصوص قرآن وسنت صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتابوں کا عالم ہو، تخریج پر قادر ہو، صحیح اور ضعیف احادیث ، لسان عرب، لغات کے معنی اسکی ترکیب کو جانتا ہو، مسائل اجماع کا عارف، ناسخ ومنسوخ کا عالم اور اصول فقہ کا علم رکھتا ہو، کیوں کہ اصول فقہ احکام شرعیہ کے استنباط کی بنیاد ہے۔ (جلد 2صفحہ 297-303(

عالم کے اسی اصطلاح اورعرف کی وجہ سے مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں ان کی علمی عبقریت وعظمت کے باوجود ترجمان جلد 14شمارہ 3صفحہ 227 کے حوالہ سے فتاویٰ محمودیہ میں ان کا اقرار نقل کیا ہے کہ’’ مجھے گروہ علماء میں شامل ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے ، میں ایک بیچ کی راہ کا آدمی ہوں جس نے جدید اور قدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے کچھ کچھ حصہ پایا ہے ، دونوں کوچوں کو خوب چل پھر کر دیکھا ہے‘‘ ۔(فتاویٰ محمودیہ1 صفحہ367)

  اسی عرف کی وجہ سے یونیورسٹی کے شعبہ مطالعات اسلامی(اسلامک اسٹڈیز) سے فارغ ہونے والے کو بھی عالم نہیں کہا جاتا ، ان کے لیے عرف میں اسلامک اسکالر کا لفظ مستعمل ہے ، عام طور پرنہ تو ان کو عالم سمجھا جاتاہے اور نہ ہی انہیں مقتدیٰ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، الا یہ کہ وہاں جانے کے پہلے انہوں نے کسی دینی تعلیمی ادارے سے متعینہ نصاب کی تکمیل کی ہو۔دار العلوم دیو بند ہی کے ایک فتویٰ255-278/N=4/1441میں لکھا ہے کہ ’’جانتے ہوئے کسی غیر عالم کو عالم ، غیر حافظ کو حافظ یا غیر مفتی کو مفتی کہنا درست نہیں ہے ، اور اگر کوئی شخص لا علمی میں یا دوسروں کی دیکھا دیکھی کہتا ہے تو اسے حقیقت بتادی جائے۔‘‘ایک اور فتویٰ دار العلوم دیو بند کا ہے جس میں لکھا ہے کہ عالمیت کا کورس پڑھے بغیر اپنے آپ کو عالم کہنا درست نہیں ۔

 دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فتاویٰ ندوۃ العلماء میں مذکور ہے کہ ’’جو شخص با قاعدہ کسی دینی درسگاہ یا کسی عالم دین سے علم حاصل نہیں کیا ہو، انہیں عالم کے لقب سے پکارنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اپنے کو عالم کہلانا درست ہے‘‘۔ 

البتہ جو واقعتا عالم ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ ’’بے شک زمین پر علماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں‘‘۔ (مسند احمد 313-4، مسند انس بن مالک حدیث (12600

ایک اور طبقہ ہے جس نے کسی مدرسہ میں پڑھے بغیر بورڈ سے صرف عالم فاضل کی سند حاصل کی ہے ، عرف میں وہ بھی عالم نہیں سمجھا جاتاکیوں کہ ان کی نصابی تعلیم نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ ذریعہ معاش کے حصول کے لیے امتحان دے کر سند حاصل کر لیتے ہیں، اس لیے عرف عام انہیں عالم ماننے کو تیار نہیں ، یہ بات آج کے پس منظرمیں کہی جا رہی ہے ، ماضی میں بورڈ کے مدارس کے فارغین کی حیثیت بھی عالم کی ہوتی تھی ، بھلا حضرت مولانا عبد الرحمنؒ امیر شریعت خامس کے عالم با عمل ہونے سے کسے انکار ہو سکتا ہے ۔

عالم کو ان دنوں عالم صاحب کم، مولانا کے لفظ سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے ، اس کے بھی حقیقی معنی متروک ہو گیے ہیں، البتہ عالم کے معنی میں تخصیص تھی، یہاں تعمیم ہے ، مولانا صرف عالم پرہی نہیں عرف عام میں غیر عالم پر بھی بولا جاتا ہے ، مذہبی معلومات کے ساتھ وضع قطع اسلامی انداز کی ہو، لانبا کرتا، ٹخنہ سے اوپر پاجامہ اور چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ وعظ وخطابت دعوت وتبلیغ اور اسلامی افکار واقدار کی ترویج واشاعت سے جوجڑ گیا اور بادی النظر میں خلاف شرع کام کرنے والا نہ ہو تو اسے مولانا صاحب کہتے ہیں،یہ بھی ایک عرف ہے ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا شفیع داؤدی وغیرہ کے نام کے ساتھ اسی عمومی معنی کے اعتبار سے مولانا لگاتے ہیں، حالاں کہ ان حضرات کی تعلیم کسی درسگاہ اسلامی میں نہیں ہوئی تھی، مولیٰ ایسا لفظ ہے جو قرآن واحادیث اور کلام عرب میں بار بار آیا ہے ، اس کے بہت سارے معنی ہیں، ’’نا‘‘ ضمیر ہے جو بطور مضاف الیہ اس کے ساتھ جڑ گیا ہے ، اس کے لیے کسی درس نظامی کا فارغ ہونا ضروری نہیں ہے ۔تبلیغی جماعت میں کثرت سے ایسے افراد مل جائیں گے جو کہیں کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں، لیکن ان کی وضع قطع دعوت وتبلیغ سے جڑے ہونے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیںمولانا کہا کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تمام لوگ جو مولانا کہے جا رہے ہیں ان کا عالم ہونا ضروری نہیں ہے ، لیکن جو عالم اصطلاحی ہیں وہ مولانا کہے جاتے ہیں،منطق کی اصطلاح میں ان دونوں میں عموم خصوص کی نسبت ہے ، یعنی ہر عالم، مولانا کہا جا تا ہے ، لیکن ہر مولاناکہا جانے والا عالم نہیں ہوتا، البتہ بعض صورتوں میں فرد واحد عالم اور مولانا دونوں ہو سکتا ہے ۔

اسی قبیل کا ایک لفظ مولوی ہے ، جس کے معنی مالک کے آتے ہیں،مالک حقیقی تو اللہ رب العزت ہے، اس لیے اس کے مجازی معنی اللہ والے کے لیے جاتے ہیں، مولانا جلال الدین رومی نے صوفیوں کی ایک جماعت بنائی تھی ، جس کو مولوی کہا کرتے تھے، غیاث اللغات میں اس لفظ کی تحلیل وتشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مولوی بفتح المیم ولام منسوب بمولا بمعنی خدا وند کے ہیں، بعد میں یائی نسبت کی وجہ سے جو کہ چوتھا حرف تھا واؤ پر بدل گیا کیوں کہ الف مقصورۃ جب تین حرفی کلمہ کے آخر میں ہو تو نسبت کے وقت واؤ پر بدل جاتا ہے‘‘ مولانا روم نے یہ لفظ ایک جگہ اپنے لیے بھی استعمال کیا ہے ۔

مولوی ہر گزنشد مولائے روم 

تا غلام شیخ تبریزے نہ شد 

ایک زمانہ تک یہ لفظ وکلاء کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا، اب عام طور پر کم مذہبی معلومات رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، گاؤں کے امام اور مؤذن کے لیے بھی یہ لفظ مستعمل ہے ، عرف کے اعتبار سے اسے مولانا سے نیچے کا لفظ سمجھا جاتا ہے ، بڑے علماء اور اکابر اپنے شاگردوں کو خواہ وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو مولوی صاحب ہی کہہ کرپکارتے ہیں، اپنے ماتحت عالموں کے لیے بھی اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے نزدیک مولوی اس کو کہتے ہیں جو مولانا والا ہو یعنی علم دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوف خدا وغیرہ اخلاق حمیدہ رکھتا ہو (التبلیغ 133)ہمارے حضرت امیر شریعت سادس دفتر کے تمام کارکنوں کو مولوی صاحب ہی کہا کرتے تھے ، البتہ حضرت امیر شریعت سابع ’’مولانا‘‘ کے لفظ سے یاد کرتے تھے ، بلکہ بغیر مولانا لگائے کسی کو پکارا جائے تو وہ خفا ہوا کرتے تھے ۔ 

 الفاظ کی اسی درجہ بندی میں ایک لفظ مُلّا بھی ہے ، ہمارے یہاں بہار میں 1978 سے پہلے تک فوقانیہ پاس کو مُلّا کہہ کر پکارتے تھے ،یہ لفظ پہلے معزز لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ عام طور پر کسی کو حقارت کے ساتھپیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، ملا اور محتسب کی جنگ بھی ہر دور میں چلتی رہی ہے ، ان دنوں یہ لفظ غیر مسلموں کی جانب سے ڈاڑھی ٹوپی والوں کے لیے اور کہیں کہیں عام مسلمانوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہاں بھی یہ لفظ آیا ہے ، لکھتے ہیں 

افغانیوں کے غیرت دیں کا ہے یہ علاج 

مُلّا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو

بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ’’علوم الٰہیہ میں جس کی بھی علمی سند حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچتی ہو اسے مُلا ، مولوی ، مولانا ، عالم کہہ سکتے ہیں اور جن کی علمی سند حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہونچتی ہو، وہ نہ تو ملا ہے، نہ ہی مولوی، نہ ہی مولانا اور نہ ہی عالم ۔‘‘   

طرحی غزل

  •    *طرحی غزل*
  • *ازقلم افتخار حسین احسن*
  • *رابطہ6202288565*۔

  •  دل وجاں اب نثار مت کرنا.
  • تتلیوں کا شکار مت کرنا.

  • حسن ڈھل جاے گا میاں اک دن.
  • *حسن کا اعتبار مت کرنا*

  • جن کی عادت ہو بے وفائ کی.

  • ایسے لوگوں سے پیار مت کرنا.

  • جو چلاتا ہے پیٹھ پر خنجر.
  • دوستوں میں شمار مت کرنا.

  • چھوڑ کر جارہا ہوں یہ محفل.

  • اب مرا انتظار مت کرنا.

  • عشق دھوکہ ہے اس لیے احسن.

  • بھول کر آنکھیں چار مت کرنا.

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...