Saturday 29 August 2020

سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری

         سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری




        سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری

       از قلم۔کلیم الحق ندوی مغربی چمپارن بہار   

                          
حال ہی میں مرکزی حکومت نے اپنی کابینہ سے سرکاری اداروں میں گریڈ بی اور سی ملازمین کی بحالی کے لئے ایک نئی ایجنسی تشکیل دی ہے اور اس کا نام قومی بحالی ایجنسی یعنی( National Recruitment Agency )تشکیل دی ہے اور قومی سطح پر ریلوے، بینکنگ اور دیگر مرکزی دفاتر میں گریڈ بی اور سی ملازمین کے لئے اجتماعی اہلیتی جانچ یعنی Common Eligibility Testکی شرط رکھی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے بیروزگاروں کو مختلف طرح کی پریشانیوں سے نجات ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ مالی خسارے سے بھی عافیت ملے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں تقریباً بیس ایجنسیوں کے ذریعہ ملک کے مختلف سرکاری اداروں کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات منعقد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً اسٹاف سلکشن کمیشن سب سے بڑا ادارہ ہے جو قومی سطح پر سرکاری ملازمتوں کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کا انعقاد کرتا ہے اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ کروڑ بے روزگار نوجوان اس امتحان میں شامل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ریلوے ، بینکنگ کے لئے بھی الگ الگ مقابلہ جاتی امتحانات منعقد ہوتے ہیں اور بیروزگار اس میں شامل ہو کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں ۔ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں دن بہ دن سرکاری ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ بیشتر سرکاری ادارے نجی کمپنیوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ ریلوے جیسے بڑے محکموں کو بھی نجی ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری چل رہی ہے اور جزوی طورپر کئی اسٹیشنوں اور ٹرینوں کے نظم ونسق کی ذمہ داری پرائیوٹ کمپنیوں کو دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی کی شرح میں دنوں دن اضافہ ہو رہا ہے اور تعلیم کے تئیں بیداری بھی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بھی خوش آئند اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے بیشتر نوجوان گریجویشن کے بعد فوری طورپر سرکاری ملازمت چاہتے ہیں جب کہ اس سچائی سے وہ بھی واقف ہیں کہ سرکاری محکموں میں ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ بالخصوص حالیہ دس برسوں میں تو بیروزگاروں کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔حال ہی میں چوتھے درجے کی ملازمت کے لئے تین لاکھ سے زائد گریجویٹ، ایم اے اور پی ایچ ڈی سند یافتہ لوگوں نے درخواستیں دی تھیں جب کہ چوتھے درجے کے کاموں کی تفصیل میں یہ درج تھا کہ ملازم کو میٹرک پاس ہونا چاہئے اور اسے سائیکل چلانی آنی چاہئے ۔ کیوں کہ اس کا کام محکمے کے خطوط کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کا ہوگا۔ لیکن اس تفصیل کی وضاحت کے باوجود ایم اے اور پی ایچ ڈی سند یافتہ نے درخواستیں دیں اور آخر میں اس محکمے نے اس اسامی کو ہی رد کردیا ۔ اسی طرح اسٹاف سلکشن ، ریلوے بھرتی بورڈ، بینکنگ سروس وغیرہ بی اور سی گریڈ کی ملازمت کے لئے اسامیاں نکالتی رہتی ہیں لیکن امتحان کے جو طریقہ کار ہیں اس میں کافی وقت لگتا ہے اور بیروزگار نوجوان مایوسی کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس نئی پالیسی سے شاید تھوڑی سی راحت ان بیروزگاروں کو ملے گی کہ وہ مختلف طرح کی ملازمتوں کے لئے سالوں بھر الگ الگ فارم بھرتے تھے اور امتحانات میں شامل ہونے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں بھٹکتے رہتے تھے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اب قومی بحالی ایجنسی کے ذریعہ ہی امتحان منعقد ہوگا اور اسی ایک ایجنسی کے ذریعہ مختلف اداروں اور بورڈوں میں بحالیاں ہوں گی۔ اس میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ ایک امیدوار اگر اس قومی سطح کے امتحان میں یعنی سی ای ٹی میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کی مدت تین سال تک رہے گی اور اس درمیان میں اسے دوبارہ کوئی امتحان نہیں دینا ہوگا۔ اگر تین کے عرصے میں ملازمت مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ اسے پھر امتحان دینا ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ امتحان کی سطح پر تو بیروزگاروں کو تھوڑی سی راحت ملے گی لیکن ہندوستان جیسے کثیر الآبادی والے ملک میں ایک ایجنسی کے ذمہ تمام سرکاری محکموں کے لئے بی اور سی گریڈ کے ملازموں کا انتخاب آسان نہیں ہوگا اور پھر شخصی اجارہ داری کو بھی فروغ ملے گا۔اس وقت مختلف بورڈوں کے الگ الگ چیئر مین اور ممبران ہیں جن میں مختلف علاقے کے لوگ شامل رہتے ہیں ۔ اب جب کہ قومی سطح پر ایک ہی بورڈ ہوگا تو ممکن ہے کہ حکومت ملک کے جغرافیائی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھے لیکن اس کے باوجود بھی علاقائی حق تلفی کا اندیشہ ہے۔ مثلاً محکمہ ریلوے کاالگ الگ زون میں بحالیوں کے لئے بورڈ کام کر رہا ہے جس میں اس علاقے کے بیروزگاروں کو آسانی بھی ہو رہی ہے۔ اب جب کہ ایک ہی ایجنسی ہوگی تو ممکن ہے کہ وہ محرومی کا شکار بھی ہوں۔
بہر کیف! جب بھی کوئی نئی پالیسی بنتی ہے تو اس کے دونوں پہلو ہوتے ہیں ۔ اگر کچھ آسانیاں ہوتی ہیں تو کچھ پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے کابینہ سے اس نئی پالیسی کو منظوری دے دی ہے اب اس کا عملی نفاذ ہونا باقی ہے ۔ لیکن حکومت کی طرف سے اسے ایک انقلابی قدم قرار دیا جا رہاہے۔یہ ذکر پہلے ہی آچکا ہے کہ سرکاری ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اس لئے بیروزگاروں کو دیگر روزگار کے جو مواقع ہیں اس کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ بالخصوص اقلیت مسلم طبقے کے بیروزگاروں کو خود انحصاریت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ مثلاً ایک بڑا روزگار مویشی پروری اور ماہی پروری ہے ۔لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان دونوں روزگار کی جانب اقلیت طبقے کے بیروزگار نوجوان متوجہ نہیں ہیں۔ جب کہ یہ دونوں روزگار خود انحصاریت کا ایک نسخۂ کیمیا ہے۔اگر انفرادی طورپر نہیں تو اجتماعی طورپر بھی مویشی پروری اور ماہی پروری کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ حال ہی میں ہمارے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ گذشتہ پانچ سالوں سے مویشی پروری اور پولٹری فارم چلا رہے ہیں اور اس سے نہ صرف وہ خود خوشحال ہیں بلکہ ایک درجن سے زائد مزدوروں کو بھی روزگار مل رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ دودھ کی قلت ہمیشہ رہے گی اور مویشی پروری سے نقد آمدنی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اسی طرح پالٹری فارم سے بھی یومیہ آمدنی یقینی ہے۔ انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ اگر کسی دیہی علاقے میں پانچ دس نوجوانوں کا گروپ مویشی پروری سے لگ جائیں تو انہیں سرکاری ملازمت کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ دوسروں کو بھی روزگار دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں واقعی بیروزگاری دور کرنے کا یہ ایک کار آمد نسخہ ہے مگر مسلم معاشرے میں اس کے تئیں دلچسپی نہیں دیکھی جا رہی ہے جب کہ اقتصادی پستی کو دور کرنے کے لئے اسی طرح کے روزگار کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ملازمتوں کی راہیں بہت دشوار ہیں اور صرف اسی پر تکیہ کرکے ہم اپنی مشکلوں سے نجات نہیں پا سکتے۔اس لئے مسلم معاشرے میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے گھریلوں صنعتوں اور خصوصی طورپر مویشی پروری، ماہی پروری اور مرغ پروری کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ اس سے بیروزگار ی دور ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی استحکام بھی حاصل ہوگا۔میرے پاس اکثر مسلم بیروزگار نوجوان آتے رہتے ہیں اوراپنی بیروزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ ان کے سامنے جب کبھی اس طرح کے روزگار کو اپنانے کی گذارش کرتا ہوں تو وہ ذہنی طورپر تیار نظر نہیں آتے ساتھ ہی ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں بھی برادرِ وطن کے مقابلے وہ سنجیدہ نہیں ہیں ۔ایسی صورت میں آخر ہمارے معاشرے کی تصویر کیسے بدلے گی ؟ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سرکاری ملازمتیں سبھوں کو نہیں مل سکتیں ۔ اکثریت طبقے کے نوجوانوں سے بھی ہمیں سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح مختلف طرح کے روزگاروں کے ذریعہ اپنی اقتصادی حالت کو مستحکم کر رہے ہیں ۔اب سرکاری طورپر بھی مختلف طرح کے قرض کی سہولت فراہم ہے ۔ بالخصوص اقلیت طبقے کے لئے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے ذریعہ بھی قرض مہیا کرائے جاتے ہیں لیکن ایسا دیکھا جا رہاہے کہ قرض لے کر ہم روزگار کو بڑھانے کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوتے ۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ بیروزگاری کے ساتھ ساتھ مقروض بھی ہو جاتے ہیں اور سال دوسال کے بعد قرض وصولی کے لئے حکومت کو قانونی کاروائی کرنی پڑتی ہے ۔جب کہ اکثریت طبقے کے نوجوان سرکاری قرض کی بدولت اپنی تجارت کو فروغ دے کر خود مختار ہو رہے ہیں ۔ اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے حالات دنو ں دن تبدیل ہو رہے ہیں ۔ بالخصوص کورونا کے بعد تو ملک کی اقتصادی حالت خستہ حال ہے اور سرکاری ملازمت کے امکانات دوردور تک مسدود ہیں۔
ایم۔کے۔حق ندوی

2 comments:

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...