Sunday 29 November 2020

अप्रशिक्षित शिक्षकों की बर्खास्तगी बदले की कार्रवाई! राज्य सचिव BSUTA मोo फिरोज आलम

 

अप्रशिक्षित शिक्षकों की बर्खास्तगी बदले की कार्रवाई! राज्य सचिव BSUTA मोo फिरोज आलम,

अप्रशिक्षित शिक्षकों की अविलंब ट्रेनिंग करवाने की कोई व्यवस्था कराये बिहार सरकार!!
जो शिक्षक किसी भी ट्रेनिंग कॉलेज यूनिवर्सिटी में नामांकित हो चुके हैं उनके ऊपर किसी भी तरह की कार्रवाई नहीं किया जाए

 या जो शिक्षक अनुकंपा पर बहाल हुए हैं उन्हें वेतन सहित ट्रेनिंग करने की अनुमति प्रदान किए जाएं 
और करवाई करने के लिए जो सरकार के द्वारा पत्र निर्गत किया गया है उसे ढील देते हुए कम से कम 2 साल की और वृद्धि किया जाए 


सुबे के अप्रशिक्षित शिक्षकों के ऊपर बर्खास्तगी के करवाई का बिहार स्टेट उर्दू टीचर्स एसोसिशन के राज्य सचिव मोहम्मद फिरोज आलम ने पुरजोर विरोध किया है तथा नीतीश सरकार पर आरोप लगाया है कि विगत विधानसभा चुनाव में शिक्षक व कर्मचारियों के द्वारा एनडीए विरोध मतदान पर सरकार आरटीई के बहाने बदले की कार्रवाई कर रही है!
वर्तमान सरकार अपनी कमजोरी और कोताहीयो का ठीकरा बिहार के शिक्षकों पर फोड़ना चाहती है आपको बता दें कि सरकार की अनियमितता की वजह से शिक्षक समुदाय काफी परेशान हैं 2 साल की ट्रेनिंग में चार-चार साल समय की बर्बादी हो रही है लेकिन सरकार इसके लिए कोई पहल नहीं कर रही है आपको यह भी बता दें कि भारत सरकार के मानव संसाधन विकास मंत्रालय के द्वारा देश के साडे 14 लाख शिक्षकों को प्रशिक्षित करने के लिए  एनआईओएस को चुना गया था जोकि एन आई ओ एस उसकी काबिल नहीं थी जिसकी  खामियाजा आज भी  शिक्षक भुगत रहे हैं और दर-दर की ठोकरें खा रहे हैं कभी पटना की गलियों के चक्कर लगा रहे हैं तो कभी नोएडा दिल्ली के चक्कर लगा रहे हैं!
  इतने भारी मात्रा में शिक्षकों को ट्रेनिंग करवाना सरकार के लिए भले ही उपलब्धि हो लेकिन एनआईओएस पूरी तरह से विफल रही और सरकार के इशारे पर एनआईओएस भी शिक्षकों को समय समय पर प्रताड़ित करती रही आज भी हजारों शिक्षक ट्रेनिंग प्रक्रिया पूर्ण करने के बावजूद भी अप्रशिक्षित शिक्षकों का वेतन प्राप्त कर रही है जिनको इंटर में 50% अंक कम होने का बहाना लगा कर के रिजल्ट को नॉट क्लियर दिखाया जा रहा है बार-बार शिक्षकों द्वारा परीक्षा देने के बावजूद भी पुनः उसी रिजल्ट को दर्शाया जा रहा है जिसके वजह से  शिक्षक पुनः कॉपी जांच के लिए तरह-तरह की प्रक्रियाओं को अपना रहे हैं उसके बावजूद भी हो उसी नंबर को या 2-4 नंबर घटा बढ़ा करके दर्शाया जाता है जो के निंदनीय है सरकार को चाहिए कि किसी भी शिक्षक पर कार्रवाई करने से पहले उसे जुड़े सभी पदाधिकारियों को जरूर सबक सिखाऐ जो कि शिक्षकोंं के मानसिक आर्थिक शारीरिक रूप से प्रताड़ित कर रहे हैं बिहार सरकार के मुखिया नीतीश कुमार शुरू से ही शिक्षकों के खिलाफ रहे हैं जब जब शिक्षक समुदाय के द्वारा  आंदोलन किया जाता है उसके मांगों को सुनने के बजाय उसके ऊपर लाठियां बरसाई जाती हैं आज यही हाल किसानों के साथ हो रहा है
बिहार सरकार ने हर संभव कोशिश  कर शिक्षक आंदोलन को कमजोर करने की कोशिश की और बहुत हद तक कामयाब भी रही चाहे वह कोर्ट के मामला हो या फिर रोड की इसलिए फिर से बिहार स्टेट उर्दू टीचर्स एसोसिएशन बिहार सरकार से यह मांग करती है कि अप्रशिक्षित शिक्षकों की अविलंब ट्रेनिंग करवाने की कोई व्यवस्था कराऐ या जो शिक्षक किसी भी ट्रेनिंग कॉलेज यूनिवर्सिटी में नामांकित हो चुके हैं उनके ऊपर किसी भी तरह की कार्रवाई नहीं किया जाए या जो शिक्षक अनुकंपा पर बहाल हुए हैं उन्हें वेतन सहित ट्रेनिंग करने की अनुमति प्रदान किए जाएं और करवाई करने के लिए जो सरकार के द्वारा पत्र निर्गत किया गया है उसे ढील देते हुए कम से कम 2 साल की और वृद्धि किया जाए ऐसा नहीं करने पर सरकार के खिलाफ आंदोलन किया जा सकता है या कोर्ट के सहारा भी लिया जा सकता है उक्त भात बिहार स्टेट उर्दू टीचर्स एसोसिएशन के राज्य सचिव सह जिला अध्यक्ष मोहम्मद फिरोज आलम ने बताई

Thursday 26 November 2020

عقیقہ اور اس کی رسمیں

    عقیقہ اور اس کی رسمیں  



قارئین کرام  ۔ جب کسی انسان کو اللہ تعالی اولاد کی عظیم نعمت سے سرفراز فرماتا ہے تو اس کے شکرانے کے طور پر اس سے متعلق چند احکام متوجہ ہوتے ہیں جن کا ذکر احادیث مبارکہ میں تفصیل سے آیا ہے اولاد کی ولادت کے وقت داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا اچھا نام رکھنا تحنیک کروانا یعنی کسی نیک آدمی سے کھجور یا اس جیسی کوئی میٹھی چیز چبوا کر نومولود کے    منہ میں دینا ساتویں دن عقیقہ کرنا اس کے سر کے بال منڈوانا اور بال کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا یہ تمام اعمال سنت اور مستحب ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کی ولادت پر یہ امور انجام دیے ہیں اور  ارشاد فرمایا ہر بچہ عقیقہ کی وجہ سے گروی ہوتا ہے اس لئے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ اور تکلیف ہٹاؤ ۔ 

عقیقہ کا شرعی حکم  ۔ 

اگر گنجائش ہو تو ہر ماں باپ کو اپنی اولاد کا عقیقہ ضرور کرنا چاہیے اس سے متعلق عام  طور پر تین طرح کی احادیث ملتی ہیں ایک وہ جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے یا پھر جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کرنے کا تذکرہ ہے اس طرح کی احادیث کی تعداد زیادہ ہے دوسری وہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے عقیقہ   کی ا باحت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس طرح کی حدیثیں کم ہیں تیسری قسم وہ ہے جن میں عقیقہ کے منسوخ کئے جانے کا تذکرہ ہے اختلاف کے سبب فقہاء کے مسالک بھی متعدد ہوگئے احناف کے یہاں  اس سلسلے میں دو قول پائے جاتے ہیں ایک استحباب کا اور دوسرا جواز کا ۔ 

مالابد منہ میں ہے عقیقہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت وجوب کی بھی ہے اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک مستحب ہے  ۔ 

عقیقہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ۔ 

حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ تعالی اللہ  عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کردو ہم نے وزن کیا درہم برابر یا اس سے کچھ کم تھے بال ۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے بچہ پیدا ہو وہ اس کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری قربان کرے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض اور واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا درجہ استحباب کا ہے۔ 

اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں   کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ہاں اگر اللہ تعالی نے وسعت دی ہے تو دو کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے۔ 

بچے کے سر پر زعفران لگانے کا ثبوت ۔ 

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا تو بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا پھر جب اسلام آیا تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کے مطابق ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور بچے کا سر صاف کرا کے یعنی منڈوا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں۔ 

عقیقہ کس عمر تک ہے ۔ 

عقیقہ کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ساتویں روز کیا جائے اگر ساتویں روز نہ ہو تو چودہویں روز یا اکیسویں روز کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عقیقہ کے جانور کو ساتویں روز ذبح کیا جائے یا چودہویں روز یا اکیسویں روز بہت سے علماء نے ساتویں دن کی تعداد کا لحاظ کر کے بالغ ہونے تک مدت لکھی ہے اور بہت سے حضرات نے کسی مدت کی قید نہیں لگائی ہے عقیقہ خود مستحب اور اس کو مستحب طریقہ سے ادا کرنا چاہیے لہذا ساتویں روز عقیقہ کرنا بہتر ہے   نہ ہو سکے تو چودھویں دن یا اکیسویں دن کرے کسی مجبوری کے اس سے زیادہ تاخیر نہ کرے۔ 

مسئلہ۔ 

بڑھاپے تک عقیقہ جائز تو ہے مگر وہ عقیقہ کیا ایک خیراتی ذبیحہ ہوگا۔ 

عقیقے کا جانور ۔ 

جس جانور کی قربانی درست ہے اس کا عقیقہ بھی درست ہے اور جس جانور کی قربانی جائز نہیں اس کا عقیقہ بھی درست نہیں۔ 

عقیقے کی رسمیں۔ 

پیدائش کے ساتویں روز لڑکے کے لیے دو بکرے اور لڑکی کے لیے ایک ذبح کرنا اور اس کا گوشت کچا یا پکا کر تقسیم کر دینا اور بالوں کے برابر چاندی وزن کر کے خیرات کر دینا اور سرمونڈ نے کے بعد زعفران سر میں لگا دینا بس یہ باتیں تو ثواب کی ہیں باقی جو فضولیات نکالی گئی ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ 

1, برادری اور کنبے کے لوگ جمع ہو کر سر مونڈنے کے بعد کٹوری میں اور بعض سوپ میں جس کے اندر کچھ اناج بھی رکھا جاتا ہے کچھ نقد بھی ڈالتے ہیں جو نائ کا حق سمجھا جاتا ہے اور یہ اس گھر والے کے ذمے قرض سمجھا جاتا ہے بے بنیاد اور بے اصل ہے۔ 

2, یہ جو دستور ہو گیا ہے کہ جس وقت بچے کے سر پر استرہ رکھا جائے اور نائ سر مونڈنا شروع  کرے اس وقت بکرا ذبح ہو یہ مہمل رسم ہے  ایسی باتیں تراش لینا بری بات ہے شریعت سے سب جائز ہے چاہے سر مونڈنے کے کچھ دیر بعد ذبح کرے یا ذبح کرکے سر منڈائے سب درست ہے بشرطیکہ اس دن میں یہ دونوں کام ہو جانا چاہیے۔ 

3, بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچے  کے ماں باپ نانا نانی دادا دادی کو کھانا درست نہیں اس کی کوئی اصل نہیں اس کا قربانی جیسا حکم ہے جس طرح قربانی کا گوشت سب  اہلِ خانہ کھا سکتے ہیں اسی طرح عقیقہ کا گوشت بھی سارے لوگ کھا سکتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ رسومات و خرافات اور نام و نمود سے حفاظت فرمائے اور شریعت و سنت کے مطابق عقیقہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ 

شمشیر عالم مظاہری۔ دربھنگوی۔ 

امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی۔ بہار رابطہ نمبر۔۔7631287846

بہار اسمبلی انتخاب ٢٠٢٠ ء

 بہار اسمبلی انتخاب ٢٠٢٠ ء       

 

 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ

 بہار اسمبلی انتخاب ٢٠٢٠ء کے اعلان شدہ نتائج نے ایک بار پھر نتیش کمار کی قیادت پر پسندیدگی کی مہر لگادی ہے، حالاں کہ مقابلہ این ڈی اے اور عظیم اتحاد میں کانٹے کا رہا، این ڈی اے ایک سو پچیس سیٹ پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا او رعظیم اتحاد کو ایک سو دس سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا، یعنی وہ حکومت بنانے کے لیے درکار ممبروں کی مطلوبہ تعداد سے بارہ عدد پیچھے رہ گئی اور راجد اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حزب مخالف میں بیٹھنے کو مجبور ہو گئی، کانگریس انیس سیٹوں پر نہیں سمٹ جاتی تو مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں عظیم اتحاد کو دشواری نہیں ہوتی، چراغ پاسوان نے اپنا جھونپڑا جلا ڈالا، صرف ایک سیٹ پر اسے اکتفا کرنا پڑا، لیکن اس نے جدیو کو ہرانے میں اہم رول ادا کیا، جس کی وجہ سے اسمبلی اور حکومت میں جدیو کی حیثیت چھوٹے بھائی کی ہوگئی ہے، بی جے پی پہلی بار بہار میں اتنی نشستوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے، پپو یادو خود اپنی سیٹ نہیں بچا سکے اور ان کا کھاتا بھی نہیں کھل سکا، راجد کے بڑے لیڈر عبد الباری صدیقی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا جلوہ دکھایا اور سیمانچل کی پانچ سیٹوں پر جیت حاصل کرکے تاریخ رقم کی ہے، اور کئی مقامی سیاسی پارٹیوں کی بساط الٹ دی، وزیر اقلیتی فلاح خورشید عالم کی ہار کا غم مسلمانوں کو اس لیے نہیں ہوا کہ وہ پہلے ہی سیاست کے مندر میں اپنے ایمان کا سودا کر چکے تھے اور مندروں میں پوجا پاٹھ کے ان کے ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دلچسپی ان سے ختم ہو گئی تھی، اس بار کے انتخاب میں انیس مسلم امید وار جیت کر آئے جو ٢٠١٥ء سے پانچ کم ہیں،٢٠١٥ء میں یہ تعداد چوبیس تھی،٢٠٠٠ء میں ٢٩/ ارکان اسمبلی مسلمان منتخب ہوئے تھے، ١٩٨٥ء میں بہار اسمبلی میں کل تین سو پینتیس ٣٣٥سیٹیں تھیں اور چونتیس مسلم ارکان انتخاب  جیت کرا ٓئے تھے، اس اعتبار سے دیکھیں تو مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے، یہ موضوع بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے غور وفکر کا ہے، صرف یہ کہنا کہ فلاں پارٹی کی وجہ سے مسلم ارکان کی تعداد کم ہو گئی، یہ”اپنا ٹھیکرہ دوسرے کے سر پھوڑنے“ جیسی بات ہے، سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے جو وجوہات ہیں اس پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے۔

 اس انتخاب کے لیے جو ایکزٹ پول سامنے آئے تھے، وہ سبھی کے غلط ثابت ہوئے، اس کی وجہ یہ رہی کہ جو خاموش رائے دہندگان تھے ان کی تعداد کا اندازہ ایکزٹ پول والوں کو نہیں تھا، اسی طرح خواتین کی حصہ داری پر ایکزٹ پول میں توجہ مرکوز نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے ایکزٹ پول کے سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

 اس انتخاب نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ابھی بھی رائے دہندگان کے نزدیک جذباتی نعرے اور ذات پات کی برتری ہی اہم ہے، مُدّے اور مسائل چاہے جس قدر اٹھائے جائیں، آخر وقت میں سب دھرے رہ جاتے ہیں، اور ووٹ ذات پات اور جذباتی نعروں پر ہی مل پاتا ہے، بی جے پی کے پاس ہندوتوا، آر ایس ایس اور فرقہ پرستی کے حوالے سے بہت سے نعرے ہیں، جس سے وہ رائے دہندگان کو لبھالیتے ہیں اور مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں، فرق انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کا بھی پڑتا ہے، وزیر اعظم، وزیر داخلہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور اس جیسے دوسرے لوگوں نے جلسے کرکے لوگوں کے رجحان کو ہندتوا پر مرکوز کرنے کا کام کیا، نتیش جی نے تیسرے مرحلہ کے پرچار میں اپنے ترکش کا آخری تیر ”میرا آخری چناؤ“ کہہ کر چھوڑدیا، اس کا بھی تصویر بدلنے میں اہم رول رہااور تیسرے دور کے انتخاب میں اٹھہتر(٧٨) میں باون(٥٢) سیٹیں این ڈی اے کی جھولی میں جاگریں، جب کہ عظیم اتحاد کے پاس صرف تیجسوی پرساد یادو ایک چہرہ تھا، جس نے دن رات ایک کر دیا تیجسوی نے انتخابی دوروں کا رکارڈ قائم کیا اور اس معاملہ میں انہوں نے اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، انہوں نے حکمت عملی سے اپنی ماں رابڑی دیوی اور بھائی تیج پرتاپ یادو کو انتخابی جلسوں سے الگ رکھا، راجد کے صدر جگدانند سنگھ بھی نظر نہیں آئے، یہ ون مین شو تھا جس میں تیجسوی تنہا دوڑتے رہے،، نوجوان ان کی طرف متوجہ بھی ہوئے، نوکری، پڑھائی دوائی اور سینچائی کے نام پر لوگوں کی بھیڑ بھی اجلاس میں خوب جُٹی اور اندازہ لگایا جارہا تھا کہ مسلم، یادواورنو جو ان مل کر تیجسوی کو اقتدار تک پہونچادیں گے، لیکن کمند جب دوچار گز لب بام آنے کو رہ گیا تھا ٹوٹ گئی، کمند ٹوٹنے میں ان کی بعض ناعاقبت اندیشیوں کا بھی قصور ہے۔اگر وہ مانجھی، سہنی اور کشواہا کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوتے تو مودی اور نتیش کمار سے ناراض رائے دہندگان حالات کا رخ بدل سکتے تھے، راہل گاندھی نے بھی دورے کیے، لیکن وہ بھیڑ کو ووٹ میں بدلنے کے فن سے ناواقف ہیں، اس لیے پورے ملک میں کانگریس کی ناؤ ڈوبتی جارہی ہے، مختلف ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، بھاجپا انٹھاون (٥٨)میں چالیس (٤٠)سیٹوں پر فتح درج کرانے میں کامیاب ہو گئی، اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

   آواز یں اٹھنے لگی ہیں کہ وزیر اعلیٰ بھاجپا کا ہونا چاہیے، اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں پھر سے غور کریں گے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، حکومت تک رسائی کے لیے ان کے یہاں بھی قول وقرار، عہدے، اعلانات کی کوئی حیثیت کبھی نہیں رہی ہے،٢٠١٥ء میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم مٹی میں مل جائیں گے، لیکن بھاجپا سے سمجھوتہ نہیں کریں گے، جب کہ حکومت میں باقی رہنے کے لیے انہوں نے پلٹی ماری اوربھاجپا کی گودی میں جا گرے، موجودہ انتخاب میں ان کے قد کو چھوٹا اور جدیو کے ارکان اسمبلی کی تعداد کم کرنے کے لیے بھاجپا نے لوجپا کو ان کے مقابل کھڑا کر دیا، پیٹھ نتیش کی تھپتھپاتی رہی اور اندرونی حمایت لوجپا کو دیتی رہی، انتخابی اجلاس سے نتیش کمار کی تصویریں غائب کر دی گئیں، خود نتیش کمار نے لوگوں سے مودی کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کر دیا، اپنے عہد میں کیے گیے کاموں کا تذکرہ وہ کم کرتے اورمودی کی ستائش میں زیادہ وقت لگانے لگے،اور یہ معاملہ اس قدر سنجیدہ ہو گیا کہ چراغ پاسوان نے اپنے چراغ سے اپنی جھونپڑی جلا ڈالی،کہناچاہیے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ لیکن نتیش کے قد اور جدیو کی سیٹ کو کم کرکے رکھ دیا، اس طرح اس بار کے انتخاب میں مجلس اتحاد المسلمین سے زیادہ لوجپا، پپو یادو، کشواہا،بسپا اور مکیش سہنی کی پارٹی نے ووٹ کٹوا ہونے کا کام کیا، عظیم اتحاد میں اگر کوئی پارٹی فائدے میں رہی تو وہ بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی ہے، جس کی واپسی پھر سے بہار کی سیاست میں ہو گئی ہے۔

این ڈی اے کی سرکار میں وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود نتیش کمار کی پوزیشن انتہائی کمزور رہے گی، پہلے دور میں بی جے پی ان سے مغلوب تھی، دوسرے دور میں وہ اس کے دباؤ میں رہے، جب کہ اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد بی جے پی سے بہت زیادہ تھی، اب کی بار کی پارٹی کے ممبران صرف تینتالیس(٤٣) ہیں، ایسے میں بی جے پی چاہے گی کہ مکھوٹا نتیش کمار کار ہے اور ایجنڈہ سارا اس کا چلے، جیسا خود نتیش کمار نے ایک زمانہ میں جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر کیا تھا، لیکن جب جیتن رام مانجھی جیسا کمزور آدمی اس رویہ کو زیادہ دن برداشت نہیں کر سکا، تو نتیش کمار کس طرح اسے برداشت کر سکیں گے، یہ جگ ظاہر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت این ڈی اے کی کمزور ہو گی اور حزب مخالف مضبوط رہے گا، ایسے میں ہندوستانی سیاست میں جوالٹ پلٹ کی گرم بازاری رہتی ہے اور جسے اس ملک میں خود بھاجپا والوں نے شروع کیا ہے اس کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ بننے سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ”سات نشچے“ پروگرام کو آگے بڑھائیں اور جو منصوبے پہلے سے چل رہے تھے ان کو تسلسل ملے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ گذشتہ دور اقتدار میں جن مسئلوں کو

 حل نہیں کر سکے تھے یا جن کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی تھی، اس پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے اساتذہ کی جانب سے مسلسل اٹھائے جانے والے مطالبہ”ایک کام، ایک تنخواہ“کو مان کر ان کے ساتھ انصاف کریں گے، ٹی ای ٹی امیدوار کامیاب ہونے کے بعد بھی ملازمتوں سے دور کھے گیے ہیں، انہیں ان کا حق دلایا جائے گا، جوانوں کے لیے روزگار، کسانوں کے لیے کھاد اور سینچائی کی سہولت کی فراہمی جیسے اہم امور پر توجہ دی جائے گی، اقلیتوں کے نام پر قائم جو ادارے کس مپرسی کا شکار ہیں اور جو دن بدن اپنی کارکردگی کھو تے جا رہے ہیں، ان کے اندر حرکت اور فعالیت پیدا کی جائے گی، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے مسئلے پر نتیش جی کی رائے ماضی میں مذبذب رہی ہے، وہ حلیف پارٹی کی حیثیت سے بھاجپا کو ان منصوبوں کو سرد بستے میں ڈالنے یا اس میں مناسب ترمیم کرنے کے لیے تیار کرسکیں گے، گو یہ کام آسان نہیں ہے، بھاجپا اپنے ایجنڈے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، بہار اور مختلف ریاستوں کے ضمنی انتخاب میں کامیابی نے اس کے قد کو کچھ اور اونچا کر دیا ہے، ایسے میں مضبوط حکمت عملی اور پختہ عزم وارادہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، امیدیں اور توقعات حکمراں طبقے سے ہی لگائی جاتی ہیں، مطالبات بھی اسی سے کیے جاتے ہیں، فی الوقت ہم نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات ہی پیش کر سکتے ہیں

Tuesday 24 November 2020

कांग्रेस के दिग्गज नेता अहमद पटेल का (निधन) इंतकाल


कांग्रेस के दिग्गज नेता अहमद पटेल का (निधन) इंतकाल


 कांग्रेस के वरिष्ठ नेता अहमद पटेल का निधन हो गया है. बुधवार की सुबह 3.30 बजे उन्होंने अंतिम सांस ली. उनके बेटे फ़ैसल पटेल ने ट्विटर पर यह जानकारी दी. उन्होंने लिखा कि एक साथ कई अंगों ने काम करना बंद कर दिया था जिसकी वजह से उनका निधन हो गया.

फ़ैसल ने यह भी लिखा कि, "अपने सभी शुभचिंतकों से अनुरोध करता हूं कि इस वक्त कोरोना वायरस के नियमों का कड़ाई से पालन करें और सोशल डिस्टेंसिंग को लेकर दृढ़ रहें और किसी भी सामूहिक आयोजन में जाने से बचें."

क़रीब एक महीने पहले अहमद पटेल कोरोना वायरस से संक्रमित हुए थे. 71 साल के पटेल का निधन दिल्ली के अस्पताल में हुआ है.

अहमद पटेल कांग्रेस पार्टी के कोषाध्यक्ष थे.

अहमद पटेल जब तक कांग्रेस प्रमुख सोनिया गांधी के राजनीतिक सलाहकार रहे तब तक पार्टी में काफ़ी ताक़तवर रहे. वे 1985 में राजीव गांधी के संसदीय सचिव भी रहे थे.

कांग्रेस पार्टी के कोषाध्यक्ष के तौर पर उनकी नियुक्ति 2018 में हुई थी. आठ बार के सांसद रहे पटेल तीन बार लोकसभा के लिए चुने गए और पाँच बार राज्यसभा के लिए. आख़िरी बार वो राज्यसभा 2017 में गए और यह चुनाव काफ़ी चर्चा में रहा था.

गांधी परिवार के विश्वासपात्र

1986 में अहमद पटेल को गुजरात कांग्रेस का अध्यक्ष बनाकर भेजा गया. 1988 में गांधी-नेहरू परिवार द्वारा संचालित जवाहर भवन ट्रस्ट के सचिव बनाए गए. यह ट्रस्ट सामाजिक कार्यक्रमों के लिए फंड मुहैया कराता है.

धीरे-धीरे अहमद पटेल ने गांधी-नेहरू ख़ानदान के क़रीबी कोने में अपनी जगह बनाई. वो जितने विश्वासपात्र राजीव गांधी के थे उतने ही सोनिया गांधी के भी रहे.

21 अगस्त 1949 को मोहम्मद इशाक पटेल और हवाबेन पटेल की संतान के रूप में अहमद पटेल का जन्म गुजरात में भरुच ज़िले के पिरामल गांव में हुआ था.

80 के दशक में भरूच कांग्रेस का गढ़ हुआ करता था. अहमद पटेल यहां से तीन बार लोकसभा सांसद बने. इसी दौरान 1984 में पटेल की दस्तक दिल्ली में कांग्रेस के संयुक्त सचिव के रूप में हुई.

जल्द ही उन्हें पार्टी में प्रमोशन मिला और तत्कालीन प्रधानमंत्री राजीव गांधी के संसदीय सचिव बनाए गए.

शोक संदेश

कांग्रेस के वरिष्ठ नेता और मध्य प्रदेश के मुख्यमंत्री दिग्विजय सिंह ने ट्विटर पर लिखा कि एक अभिन्न मित्र विश्वसनीय साथी चला गया.

उन्होंने लिखा, "अहमद पटेल नहीं रहे. एक अभिन्न मित्र विश्वसनीय साथी चला गया. हम दोनों 1977 से साथ रहे. वे लोकसभा में पहुँचे मैं विधानसभा में. हम सभी कांग्रेसियों के लिए वे हर राजनीतिक मर्ज़ की दवा थे. मृदुभाषी, व्यवहार कुशल और सदैव मुस्कुराते रहना उनकी पहचान थी. कोई भी कितना ही ग़ुस्सा हो कर जाए उनमें यह क्षमता थी वे उसे संतुष्ट कर ही भेजते थे. मीडिया से दूर, पर कांग्रेस के हर फ़ैसले में शामिल. कोई कड़वी बात भी बेहद मीठे शब्दों में कहना उनसे सीख सकता था. कॉंग्रेस पार्टी उनका योगदान कभी भी नहीं भुला सकती. अहमद भाई अमर रहें."

कांग्रेस के वरिष्ठ नेता अभिषेक मनु सिंघवी ने ट्वीट कर अहमद पटेल के निधन पर गहरा दुख जताया है.

उन्होंने अपने ट्वीट में कहा है, "मैं अहमद पटेल के निधन से बहुत दुखी हूं. उनके बेटे फ़ैसल से रोज़ बात होती थी. ईश्वर उनकी आत्मा को शांति दे. अहमद पटेल सबसे शांत, तेज़-तर्रार और फोकस्ड पॉलिटिकल माइंड के नेता थे. उनमें जैसी प्रतिभा थी वैसा कोई नहीं है. कांग्रेस के लिए यह बड़ा नुक़सान है. बीमारी के दौरान मैंने अहमद पटेल से कई बार बात की थी."


Tuesday 17 November 2020

जिला पदाधिकारी द्वारा घर पर ही छठ करने का अपील

 

जिला पदाधिकारी द्वारा घर पर ही छठ करने का अपील
छठ महापर्व पर कोविड-19 से बचाव हेतु गृह विभाग, बिहार सरकार द्वारा जारी किया आवश्यक दिशा-निर्देश।


कोविड-19 को देखते हुए श्रद्धालुओं से घर पर ही छठ पूजा करने की अपील।


जिलाधिकारी द्वारा संबंधित अधिकारियों को गृह विभाग के दिशा-निर्देशों का अनुपालन सुनिश्चित कराने का दिया गया निदेश।


इस वर्ष लोक आस्था का महापर्व छठ वैश्विक महामारी कोविड-19 की पृष्ठभूमि में दिनांक-18 से 21 नवंबर 2020 के मध्य मनाया जा रहा है। छठ पूजा में श्रद्धालुगण अस्तगामी एवं उदीयमान भगवान भास्कर को अर्घ्य समर्पित करते हैं।  गृह विभाग, बिहार सरकार द्वारा कोविड-19 के मद्देनजर छठ पूजा के आयोजन के संबंध में आवश्यक दिशा-निर्देश जारी किया गया है। 


उक्त के आलोक में छठ महापर्व के अवसर पर कोविड-19 के फैलाव की रोकथाम हेतु जिलाधिकारी, पश्चिम चम्पारण, बेतिया, श्री कुंदन कुमार द्वारा आज संबंधित पदाधिकारियों को कोविड-19 के परिप्रेक्ष्य में केन्द्र एवं राज्य सरकार द्वारा जारी निदेशों का अनुपालन सुनिश्चित कराने का निदेश दिया गया.


(1) जिले के छठ पूजा समितियों, नागरिक इकाईयों, वार्ड पार्षदों, त्रिस्तरीय पंचायत प्रतिनिधियों एवं अन्य गणमान्य व्यक्तियों से समन्वय स्थापित करने हेतु बैठक आयोजित कर कोविड-19 के संक्रमण से बचाव के लिए केन्द्र एवं राज्य सरकार द्वारा समय-समय पर निर्गत निदेशों का व्यापक प्रचार-प्रसार कराना सुनिश्चित किया जाय। साथ ही विभिन्न स्तरों पर छठ पूजा समितियों के साथ प्रशासनिक पदाधिकारियों द्वारा बैठक का आयोजन किया जाय जिसमें कोविड-19 के संक्रमण के विभिन्न पहलुओं एवं बरती जाने वाली सावधानियों के संबंध में उन्हें अवगत करायी जाय। साथ ही माइकिंग कराकर प्रचार प्रसार करने का निदेश दिया गया है।


(2) छठ पर्व करने वाले श्रद्धालुओं को अधिकाधिक प्रेरित किया जाय कि वे अपने घरों पर ही छठ पूजा करें। नदियों एवं तालाब घाटों पर कोविड-19 के संक्रमण के फैलाव को रोकने हेतु छठ पर्व के दौरान सुबह एवं शाम को दिए जाने वाले अर्घ्य को घर पर ही करने की सलाह दी जाय।


(3) जिले के नदियों से छठ व्रती यदि पूजा हेतु जल लेकर जाना चाहें तो जिला प्रशासन द्वारा जल ले जाने हेतु आवश्यक व्यवस्था की जाय। इस प्रक्रिया के दौरान भी मास्क का उपयोग एवं सोशल डिस्टेंसिंग का अनुपालन सुनिश्चित किया जाय।


(4) ग्रामीण क्षेत्रों एवं शहरी क्षेत्रों में अवस्थित छोटे तालाबों पर छठ महापर्व के आयोजन के दौरान मास्क का प्रयोग एवं सोशल डिस्टेंसिंग के मानकों का अनुपालन कराया जाय।


(5) ग्रामीण क्षेत्रों एवं शहरी क्षेत्रों में अवस्थित तालाबों जहां अर्घ्य की अनुमति दी जायेगी वहां अर्घ्य के पूर्व एवं बाद में सैनेटाईजेशन का कार्य नगर निकाय एवं ग्राम पंचायत द्वारा सुनिश्चित करायी जाय।


(6) जिन तालाबों पर अर्घ्य की अनुमति दी जाय, वहां कोविड-19 से संबंधित जागरूकता फैलाने की भी कार्रवाई की जाय। इस हेतु आवश्यक प्रचार-प्रसार सामग्री का उपयोग किया जाय। साथ ही पब्लिक एड्रेस सिस्टम के माध्यम से भी आमलोगों एवं श्रद्धालुओं को जागरूक किया जाय। छठ पूजा के आयोजकों/कार्यकर्ताओं एवं उससे संबंधित अन्य व्यक्तियों को स्थानीय प्रशासन द्वारा निर्धारित शर्तों का पालन करना होगा। छठ पूजा घाट पर प्रायः स्पर्श की जाने वाली  सतहों, यथा बैरिकेडिंग आदि को समय-समय पर साफ एवं प्रभावी कीटाणुनाशक से विसंक्रमित किया जाय। इसके साथ ही छठ पूजा घाट पर यत्र-तत्र थूकना सर्वथा वर्जित होगा। तालाब में अर्घ्य देने के दौरान श्रद्धालु डुबकी नहीं लेंगे। छठ पूजा घाट पर बैठने या खड़े रहने की व्यवस्था इस तरह से की जाय कि पर्याप्त सामाजिक दूरी बनी रहे। दो गज की दूरी का अनिवार्य रूप से पालन किया जाय एवं मास्क का प्रयोग शत-प्रतिशत सुनिश्चित किया जाय। छठ पूजा घाट के आसपास खाद्य पदार्थ का स्टाॅल नहीं लगाया जायेगा। साथ ही कोई सामुदायिक भोज/प्रसाद या भोग का वितरण नहीं किया जायेगा।


(7) छठ पूजा के दौरान 60 वर्ष से अधिक उम्र के व्यक्ति, 10 वर्ष से कम उम्र के बच्चे, बुखार से ग्रस्त व्यक्ति एवं अन्य गंभीर बीमारियों से ग्रस्त व्यक्ति को सलाह दी जाती है कि वे छठ घाट पर नहीं जायें। 


(8) छठ महापर्व के अवसर पर किसी प्रकार के मेला/जागरण/सांस्कृतिक कार्यक्रम का आयोजन नहीं किया जायेगा।


(9) छठ महापर्व के आयोजकों एवं प्रशासन द्वारा पर्याप्त सैनेटाईजेशन की व्यवस्था की जायेगी।


(10) छठ पूजा हेतु वाहनों के प्रयोग को यथासंभव विनियमित किया जायेगा।


(11) जिला प्रशासन द्वारा छठ पूजा के दौरान विधि-व्यवस्था बनाये रखने हेतु पर्याप्त संख्या में मजिस्ट्रेट, पुलिस पदाधिकारी एवं पुलिस बलों की प्रतिनियुक्ति कर दी गयी है। साथ ही एनडीआरएफ एवं एसडीआरएफ की भी व्यवस्था की जा रही है।


(12) उपरोक्त दिशा-निर्देशों का उल्लंघन करने वाले व्यक्तियों के विरूद्ध आपदा प्रबंधन अधिनियम की धारा 51-60 के प्रावधानों के अतिरिक्त भा0द0वि0 की धारा 188 एवं अन्य सुसंगत धाराओं के अधीन कानूनी कार्रवाई की जायेगी।

Sunday 15 November 2020

ظلم اور اس کےدفاع کے طریقے


ظلم اور اس کےدفاع کے طریقے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارتشرعیہ،پٹنہ

  آج پوری دنیا میں ظلم و ستم کی جو گرم بازاری ہے وہ نئی نہیں ہے،ہر دور میں یہ گرم بازاری رہی ہے اور اس قدر رہی ہے کہ انبیائے کرام اور مصلحین کو قتل کرنے تک سے لوگ باز نہیں آئے،ہردور میں ظلم کے خلاف کچھ لوگوں کے کھڑے ہونے کی روnایت بھی قدیم ہے، مکی دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ظلم ڈھائے گئے اس کا ایک طویل سلسلہ ہے، کعبۃ اللہ میں طواف سے روکنا،جسم اطہر پر پتھر برسانا،خون میں لہولہان کرنا اور شعب ابی طالب میں قید کرنا یہ سب کفارمکہ کے ذریعہ کئے گئے ظلم و ستم کے جلی عنوان ہیں۔

 ظلم عدل کی ضد ہے، ظلم کے معنی زیادتی اور بے جگہ چیزوں کے رکھنے کے ہیں، انصاف کے خلاف کئے جانے والے سارے کام ظلم کے دائرے میں آتے ہیں، ظالم کا ساتھ دینا اور ظلم پر خاموش رہنا بھی بعض اعتبار سے ظلم ہی ہے۔

اللہ رب العزت کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا یہ سب سے بڑا ظلم ہے، اسے اللہ نے ظلم عظیم قرار دیا ہے ”اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ“مغفرت کی گنجائش ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے، ارشاد فرمایا”اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ“اللہ تعالی اس کی مغفرت نہیں کرتا جس نے اس کے ساتھ شرک کیا، اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا، قرآن کریم میں اللہ رب العزت پر افترا اور جھوٹ کا تذکرہ بار بار آیا ہے  اور اسے بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے،ہر دور میں انبیائے کرام نے اس ظلم کو دور کرنے کے لیے آواز یں بلند کیں،اس ظلم کے ختم کرنے کا جو نبوی طریقہ ہے وہ دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہونا ہے، ہماری جدو جہد کے بہت سے مراکز ہیں،لیکن دعوت دین کا کام جس بڑے پیمانے پر ہمیں کرنا چاہیے تھا ہم نہیں کر سکے اور دھیرے دھیرے اس سے غافل ہو کر رہ گئے ہیں، ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، ایک طبقہ نے اس دعوت کو قبول کر لیا اور وہ امت اجابت کے زمرے میں داخل ہوگئی، دوسرے نے قبول نہیں کیا،یہ امت دعوت ہے اور ان تک اللہ کا کلمہ پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، دعوت کے کاموں کے لئے جو اصول و ضوابط قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، ان کی رعایت بھی ضروری ہے،اسوہئ نبوی کے مطابق دعوت کا کام نہیں کیا گیا تو روئے زمین سے اس بڑے ظلم کا خاتمہ نہ ہو سکے گا۔

 ظلم کی دوسری قسم گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنی ذات پر ظلم کرنا ہے، ظلم کی اس قسم کوآپ حقوق اللہ میں کمی کوتاہی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے”وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَاللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ“ جس نے اللہ کے حدود کو توڑا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مساجد میں جانے سے روکنا، اللہ کی آیات کو جھٹلانا اسی قبیل سے ظلم ہے، اس ظلم کو دور کرنے کا نبوی طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا جائے اور معصیت کے ارتکاب سے پورے طور پر اجتناب کیا جائے،اس سلسلے میں سیرت اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے اور ان کے اسوۃکے مطابق زندگی گزارنا ہی اصل ہے، اس ظلم کو دور کرنے کے لیے انسان کو تزکیہ نفس پر توجہ کی ضرورت ہے،جس قدر تزکیہ ہو گا اسی قدر اس دوسرے قسم کے ظلم سے بچنا ممکن ہو سکے گا،بلکہ جب تزکیہ کامل ہوگا تو گناہوں کی طرف طبیعت مائل ہی نہیں ہوگی، اللہ تعالی کا ارشاد ہے”قَدْ أَفلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا“بیشک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیااور بیشک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔ 

ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد میں کمی کوتاہی ہے،کسی کا مال ہڑپ کرلینا، کسی کو ستانا،مزدور کو وقت پر اجرت نہ دینا، قرض کی ادائیگی میں وسعت کے باوجود ٹال مٹول کرنا،اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کو غلام بنانا، گواہی سے انکار کرنااور حقیقت واقعہ سے واقفیت کے باوجود اسے چھپا لینا، ان سب کا تعلق تیسری قسم کے ظلم سے ہے،یہ معاملہ بڑا سنگین ہے، مسلم شریف میں ایک روایت”باب تحریم الظلم“کے ذیل میں درج ہے،اس میں فرمایا گیا کہ قیامت کے دن امت کا مفلس ترین وہ انسان ہوگا جس نے حقوق اللہ میں کوتاہی نہیں کی ہوگی، لیکن حقوق العباد میں ظلم کو راہ دیا ہوگا، اس دن اس کے سارے نیک اعمال کا ثواب مظلوموں کے کھاتے میں چلا جائے گا اور نیکی برباد گناہ لازم آئے گا،ظلم کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی جامع حدیث بخاری شریف میں آئی ہے ”اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوْماً“اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،اس حدیث میں ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کے لئے کہا گیا ہے،ظالم کی مدد تو یہ ہے کہ اس کی کلائی پکڑلی جائے کہ وہ ظلم سے باز آ جائے، موجودہ دور میں اس سے مراد وہ تمام جائز طریقے ہیں،جن کا سہارا لے کر ظلم سے روکا جا سکتا ہو، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ ہونے دیا جائے اور ہر ممکن طور پر اس کی حمایت اور دفاع میں آگے آیاجائے تاکہ ظالم کی ہمت اور کمر ٹوٹ جائے۔

مکی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ظلم کے خلاف صبر و برداشت کا تھا،یہ صبر و برداشت غیر معمولی ہوا کرتا تھا، اُن ممالک میں جہاں مسلمان کی دور سے گزر رہے ہوں،ظلم کے دفاع کا یہ بھی ایک طریقہ ہے،ایک طریقہ ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کرظلم کے خلاف محاذ بنانے کا ہے، قبل نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوئے تھے جو ایک صاحب کے مالی حقوق دلانے کے لئے ہوا تھا،یہ مکہ کے چند نوجوانوں کی تحریک تھی، جس نے بہت سارے ظلم کو ختم کرنے کا کام کیا تھا، یہ معاہدہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ اونٹنی سے زیادہ پسند تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج بھی اگر کوئی اس قسم کے معاہدہ کے لیے ہمیں بلائے گا تو میں حاضر ہوں،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے دفاع اور مظلوموں کی حمایت کا نبوی طریقہ یہ بھی ہے کہ کمزور اقوام و ملل مل کر ظلم کے دفاع کے لیے متحدہ اور مشترکہ ایجنڈے پراٹھ کھڑے ہوں تاکہ وہ ظالم طاقتوں کا مقابلہ کرسکیں۔

 مظلوموں کی حمایت کا دوسرا طریقہ میثاق مدینہ ہے،جو جو ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بقائے باہم کے اصول پر کیا تھا،یہ میثاق بھی ظلم کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ہے، اس قسم کا کوئی معاہدہ جو آج کے جمہوری دور میں بقائے باہم کے اصول پر مبنی ہو، ظلم کے دفاع کیلئے نبوی طریقہئ کار کے عین مطابق ہے۔

 ظلم کی دفاع کے طریقے زمان و مکان کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں، ہندوستان میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے حوالے سے شہریوں کو پریشان کرنا، بنیادی حقوق سے محروم رکھنا یا محروم کرنے کی کوشش کرنا بھی ظلم کے دائرے میں آتا ہے،اس کے دفاع کے لئے ہندوستان میں احتجاج مظاہرے اور دھرنوں کا طویل اور تاریخی سلسلہ شروع ہوا تھا اور ملک کی بڑی آبادی احتجاج کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی،یہ احتجاج اور مظاہرے عالمی طور پر ناانصافیوں کو ختم کرنے میں مؤثر رول ادا کرتے ہیں اور حکمراں جماعت اسی زبان کو سنتی اور سمجھتی ہے، اس لئے ظلم کی دفاع میں پوری دنیا میں اس کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، البتہ اسلام مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے دفاع کیلئے کسی بھی ایسے کام کو پسند نہیں کرتا جس سے اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا لازم آتا ہو، ارشاد خداوندی ہے”وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ“اس ممانعت کا حاصل یہ ہے خود سوزی اور اس طرح کے دوسرے کام جس سے اپنی اور غیر متعلق لوگوں کی جان و مال کا نقصان پہونچے اس کی حمایت نہیں کی جا نی چاہئے،اسلام میں ظلم کے دفاع کے لیے بھی حدود و قیود مقرر ہیں اور ہم اس کی خلاف ورزی کر کے ظلم کے دفاع کا کام نہیں کر سکتے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظلم کی الگ الگ قسموں کے دفاع کے لئے اسوہئ رسول اکرم میں الگ الگ نمونے موجود ہیں،ان کو برت کر ہم اس دنیا کو ظلم وستم سے پا ک کر سکتے ہیں،اس معاملہ میں شرک سے پاک سماج کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،رب مانی کا مزاج بنتا ہے تومن مانی ختم ہوتی ہے،اور انسان خدائی احکام اور نبوی ہدایات کا خوگر ہو کر ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ کر سکتا ہے،قانون الٰہی کی پابندی اورمنکرات سے اجتناب ظلم کے دفاع میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔(بشکریہ نقیب)

Saturday 7 November 2020

EPF कर्मचारी भविष्य निधि संगठन के खाताधारखो को दीपावली का तोहफा

 EPF कर्मचारी भविष्य निधि संगठन के खाताधारखो को दीपावली का तोहफा,


नई दिल्लीः कर्मचारी भविष्य निधि संगठन (EPFO) दिवाली से पहले अपने करोड़ों अंशधारकों को जल्द ही एक बड़ा तोहफा देने जा रहा है. इस तोहफे को पाने के लिए जल्द ही अपने पीएफ खाते (PF Account) को अपडेट कर लें.

खाते में डाला जाएगा ब्याज का पैसा
ईपीएफओ ने पिछले महीने घोषणा की थी कि वो पीएफ खाताधारकों के खाते में ब्याज का पैसा दिवाली से पहले ट्रांसफर कर देगा. पहली किस्त के तौर पर खाते में 8.50 फीसदी में से 8.15 फीसदी ब्याज की राशि ट्रांसफर होगी. बची हुई 0.35 फीसदी राशि दिसंबर से पहले खाते में आएगी. सरकार हर साल पीएफ रकम पर ब्याज देती है. इसी के तहत इस साल भी सरकार ब्याज दे रही है.

ऐसे देख सकते हैं पीएफ की पासबुक
आपको सबसे पहले https://passbook.epfindia.gov.in/MemberPassBook/Login.jsp पर जाना होगा. लिंक खुलने के बाद आपसे लॉगिन आईडी और पासवर्ड पूछा जाएगा. इस विकल्प में आपको UAN नंबर और पासवर्ड डालना होगा. इसके बाद अगले स्‍टेप में अपनी पासबुक को देखने के लिए मेंबर आईडी का चुनाव करना होगा.

फोन पर मंगा सकते हैं पीएफ बैलेंस
अगर कर्मचारियों को हिंदी में जानकारी चाहिए तो वे EPFOHO UAN HIN लिखकर 7738299899 पर भेज सकते हैं. इसी तरह अपने रजिस्टर्ड मोबाइल नंबर से 011-22901406 पर मिस्ड कॉल देकर भी जमा रकम की जानकारी हासिल कर सकते हैं.

महागठबंधन को 145 से 50 सीट तो एनडीए गठबंधन को 85 से 98 सीट

महागठबंधन को 145 से 50 सीट तो एनडीए गठबंधन को 85 से 98 सीट

बिहार विधानसभा 2020 में महागठबंधन का सरकार बनना तय!


बिहार विधानसभा 2020 का चुनाव शांतिपूर्ण तरीके से संपन्न हुआ आज आखिरी चरण में 56 फ़ीसदी के आसपास मतदान हुआ लेकिन अभी आंकड़े थोड़ी सी बढ़ सकती है हजारों  उम्मीदवारों की भाग्य EVM मशीन में कैद हो गई आने वाला इसी 10 तारीख को गिनती होना है और देखिए कि बिहार में सरकार बदल रही है या फिर नीतीश कुमार के वापसी होती है यह कहना अभी जल्दबाजी होगी लेकिन हमारे चैनल के द्वारा किए गए सर्वे एवं लोगों के विचार जानने के बाद जो आंकड़े सामने आए हैं वह निम्न प्रकार है



अभी तक बिहार विधानसभा के जितने भी रुझान आए हैं सभी में महागठबंधन सरकार बनाते हुए नजर आ रही है लेकिन कई ने तो बड़ी बहुमत दिखाया है तो कई लोगों ने कांटे का टक्कर दिखाया है लेकिन शाहीन उर्दू ऑनलाइन न्यूज़ पोर्टल द्वारा भारी बहुमत के साथ महागठबंधन की सरकार बनती दिख रही है हमने कई तरीकों से इसको परखने की कोशिश किया है डबल इंजन के सरकार पूरी तरह से फेल साबित हुई जंगलराज वाला मुद्दा का भी धराशाई हुआ मेरा एग्जिट पोल आपको कैसा लगा आप सभी हमें कमेंट करके अवश्य बताएं आने वाले इसी 10 तारीख को इससे मिलान जरूर करें अगर हमारा एग्जिट पोल सटीक साबित होता है तो हमें अपने धन्यवाद से जरूरत नवाज़,

Monday 2 November 2020

10 राज्यों की 54 विधानसभा सीटों पर होने वाले उपचुनाव के लिए आज मतदान शुरू

  10 राज्यों की 54 विधानसभा सीटों पर होने वाले उपचुनाव के लिए आज मतदान शुरू

भोपाल/लखनऊ/अहमदाबाद: 10 राज्यों की 54 विधानसभा सीटों पर होने वाले उपचुनाव के लिए आज मतदान शुरू . इनमें सबकी निगाहें मध्य प्रदेश पर टिकी हैं. एमपी की 28 विधानसभा सीटों पर उपचुनाव है, जहां अपनी सरकार बचाने के लिए बीजेपी का कांग्रेस के साथ मुकाबला है.


मध्य प्रदेश में 28 विधानसभा सीटों पर होने वाले उपचुनाव का रिजल्ट प्रदेश में किसी भी दल की सरकार बनाने में अहम साबित हो सकते हैं. प्रदेश की 28 विधानसभा सीटों के उपचुनाव में राज्य के 12 मंत्रियों सहित कुल 355 उम्मीदवार मैदान में हैं. सत्ताधारी बीजेपी के पास 107 विधायक हैं और उसे बहुमत के लिए नौ और सीटों की जरूरत है जबकि कांग्रेस के पास सदन में 87 विधायक हैं.


10 राज्यों की 54 विधानसभा सीटों पर उपचुनाव




मध्य प्रदेश: जौरा, सुमौली, मुरैना, दिमनी, अंबाह, मेहगांव, गोहद, ग्वालियर, ग्वालियर पूर्व, डबरा, भांडेर, करेड़ा, पोहरी, बमोरी, अशोक नगर, मुंगौली, सुरखी, मल्हारा, अनूपपुर, सांची, बियोरा, आगर, हाटपिपलिया, मंधाता, नेपानगर, बदनवर, सांवेर और सुवासरा.



यूपी: आज 7 विधानसभा सीटों पर उपचुनाव के लिए मतदान शुरू .

 उन्नाव की बांगरमऊ

, अमरोहा की नौगांव सादात, फ़िरोज़ाबाद की टूंडला, बुलन्दशहर की सदर,

 जौनपुर की मल्हनी, 

कानपुर देहात की घाटमपुर

 और देवरिया सदर पर मतदान होरहा है 



गुजरात: अब्दसा, लिमडी, मोरबी, धारी, गढ़ा (एसटी), कर्जन, डांग्स (एसटी) और कपराडा (एसटी)



कर्नाटक: सिरा, राजा राजेश्वरी नगर



ओडिशा: बालासोर, तीर्थोल



झारखंड: दुमका, बेरमो



नगालैंड: दक्षिणी अंगामी- I, पुंग्रो-किफिर



तेलंगाना: दुब्बाका



छत्तीसगढ़: मरवाही



हरियाणा: बड़ौदा

बिहार के पूर्व मुख्यमंत्री सतीश प्रसाद का निधन

बिहार के पूर्व मुख्यमंत्री सतीश प्रसाद का निधन



 PATNA : इस वक्त की बड़ी खबर बिहार के राजनीतिक गलियारे से आ रही है. जहां बिहार के पूर्व मुख्यमंत्री सतीश प्रसाद सिंह का निधन हो गया है. सतीश प्रसाद सिंह ने सोमवार को दिल्ली में अंतिम सांस ली. सतीश प्रसाद सिंह 1968 में पांच दिन के लिए बिहार के सीएम बने थे.

बिहार के इतिहास में सबसे कम समय तक मुख्यमंत्री रहने का रिकॉर्ड संयुक्त सोशलिस्ट पार्टी के नेता सतीश प्रसाद सिंह के नाम था. वे महज पांच दिन के लिए मुख्यमंत्री बने थे.

दरअसल, 1967 में हुए चौथे विधानसभा चुनाव में कांग्रेस बहुमत नहीं पा सकी थी, इसके कारण बिहार में पहली गैर-कांग्रेसी सरकार बनी थी. तब जनक्रांति दल में रहे महामाया प्रसाद सिन्हा को पहला गैर-कांग्रेसी मुख्यमंत्री बनाया गया, मगर 330 दिनों तक सत्ता संभालने के बाद उन्हें कुर्सी छोड़नी पड़ी.

इसके बाद संयुक्त सोशलिस्ट पार्टी के नेता सतीश प्रसाद सिंह मुख्यमंत्री बनाए गए मगर वह भी पांच दिन में हटा दिए गए. इसके बाद बीपी मंडल को मुख्यमंत्री की शपथ दिलाई गई मगर वे भी महज 31 दिन ही सीएम की कुर्सी संभाल सके.

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...