Wednesday 31 March 2021

نوجوان صحافی عارف اقبال ”کلدیپ نیر“ ایوارڈ سے سرفراز

  •  نوجوان صحافی عارف اقبال ”کلدیپ نیر“ ایوارڈ سے سرفراز 

  • 26مارچ (عبد الرحیم برہولیا وی)
  • ای ٹی وی بھارت اردو سے وابستہ جواں سال صحافی و مصنف محمد عارف اقبال کومظفرپور میں ادارہ تحفیظ القرآن فیض کالونی مالی گھاٹ کی جانب سے منعقد ایک علمی کانفرنس میں ان کی بہترین کالم نگاری اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں ”کلدیپ نیر“ ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہ ایوارڈ کانفرنس میں موجود مہمان خصوصی قاری محمدصہیب(ریاستی صدر یوتھ ونگ، راجد)، حضرت مولانا مفتی اقبال احمد قاسمی (استاذ حدیث مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور) اور استاذالاساتذہ حضرت مولانا صدر الحسن رحمانی ( ناظم تعلیمات مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور) کے دست مبارک سے عارف اقبال کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ریاستی صدر قاری صہیب نے کہا کہ صحافی عارف اقبال کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جس کام کے لئے یہ ہاتھ بڑھاتے ہیں اسے انجام تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ قوت برداشت، مستقل المزاجی اور خوش اخلاقی ان میں بدرجہ اتم موجود ہے، بہت کم دنوں میں اپنی سنجیدہ اور زمینی صحافت سے نہ صرف لوگوں کو متاثر کیا ہے بلکہ نوجوانوں کے لئے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں، آپ گرچہ خطہ سیمانچل کی زمین پر صحافتی امور کو انجام دیتے ہیں مگر ان کی مختلف ایسوز اور اسٹوری ریاستی پیمانے پر لوگوں کو متاثر کرتا ہے، میں انہیں ان کے پچپن کے ایام سے جانتا ہوں ، یہ اس وقت بھی منفرد کام کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آج بھی صحافتی کاموں میں انفرادیت رکھتے ہیں، استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اقبال احمد قاسمی نے کہا کہ عارف اقبال ایک روشن خیال اور مدبر و جانبازصحافی ہیں،  بہت کم ایسے صحافی ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر اثر رکھتے ہیں، عارف اقبال جس پیشہ سے وابستہ ہیں آج کے دور میں اس کے ساتھ انصاف کرنا نہایت مشکل کام ہےمگر عزیزم اس پر ثابت قدم رہے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی رہیں گے۔ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا صدر الحسن رحمانی نے عارف اقبال کو دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ عزیزم اس کم عمری میں اپنی محنت، جدوجہد اور منفرد سوچ کی وجہ سے علمی و ادبی دنیا میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔میں ذاتی طور سے ان کی صلاحیت و صالحیت سے متاثر رہا ہوں، جس مقام پر آج یہ کھڑے ہیں ان میں بزرگوں ، اساتذ کرام اور والدین کی دعائیں شامل ہیں، آج کے نوجوانوں کو عارف اقبال جیسا بلند حوصلہ اور اپنے کاموں کے تئیں فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کانفرنس کے کنوینر مولانا تاج الدین قاسمی اور ادارہ تحفیظ القرآن کے ناظم قاری ذکی انور عرفانی نے کہا کہ آج ضرورت ہے مختلف حلقوں میں نمایاں کام کرنے والے باصلاحیت افراد کی بھرپور حوصلہ افزائی ہو، عارف اقبال کومذکورہ ایوارڈ ملنے پر شہر کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے مبارک باد پیش کی ہے.

کیا ہماری روح مطمئن ہے؟

 کیا ہماری روح مطمئن ہے؟

کامران غنی صبا

 ہمارا وجود جسم اورروح کا مرکب ہے۔ جس طرح ہماری جسمانی نشو ونما کے لیے اچھی غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر ہم غذائوں کے معاملہ میں بداحتیاطی کرتے ہیں تو ہماری جسمانی صحت پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹھیک اُسی طرح ہماری روحانی نشوو نما کے لیے پاکیزہ روحانی غذائیں ناگزیر ہیں۔ جسمانی غذائیں ہمارے جسم پر اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہیں جبکہ روحانی غذائیں ہمارے اخلاق و کردار اور ہماری شخصیت پر اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔جس طرح کچھ لوگ جسمانی غذائوں کے معاملہ میں بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے، وہ عموماً اپنی صحت سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی طرح روحانی غذائوں پر توجہ نہیں دینے سے ہم مختلف قسم کی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جسمانی غذائوں کے مقابلے میں روحانی غذائوں پر توجہ دینا نسبتاً زیادہ مشکل کام ہے۔کیوں کہ جسمانی غذائوں کا تعلق صرف ہمارے دہن سے ہے۔یعنی غذائیں منھ کے ذریعہ سے ہمارے شکم میں ہوتی ہوئی جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچتی ہیں۔ جبکہ روحانی غذائیں ہماری بصارتوں، سماعتوں اور افکار و احساسات کے ذریعہ ہماری روح میں داخل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنی روح کو جیسی غذائیں مہیا کریں گے ہمارے اخلاق و کردار پر ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کے اس مادی دور میں اپنی روح کو پاک و صاف رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جسمانی صحت کو متاثر کرنے والی غذائیں اگر ہمارے سامنے پیش کی جائیں تو ہم بہت آسانی سے بچ سکتے ہیں لیکن روحانی صحت کو متاثر کرنے والی غذائوں سے بچ پانا آج کے عہد میں انتہائی مشکل چیلنج ہے۔ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کر کے نہیں زندہ رہ سکتے۔ ہمارے ارد گرد مخرب اخلاق اور حیا سوز مناظر گردش کر رہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں دیکھنے پر مجبور ہیں۔ کیا ہماری روح پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ ہماری سماعتیں محفوظ نہیں ہیں۔ہم وہ چیزیں سننے پر مجبور ہیں جن سے ہماری سماعتیں آلودہ ہوتی ہیں۔ یقیناً سماعتوں سے ہو کر یہ آوازیں جب ہماری روح میں اترتی ہیں تو ہماری روح پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 

 اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنی روح کو ماحول کی آلودگی اور زہرناکی سے کس طرح محفوظ رکھیں؟اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک جملے میں ہماری مکمل رہنمائی کر دی ہے۔ قَدافلح من زکاھا۔ کامیاب ہوا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کیا۔(سورۃ الشمس آیت9)۔ تزکیہ کرنا صاف اور پاک کرنے کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے پاک اسے کیا جائے گا جس میں کچھ آلودگی ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ پاک و صاف کرنے کی کچھ صورتیں بھی ہوں گی۔ جس طرح جسمانی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ڈاکٹر کچھ خاص غذائیں تجویز کرتے ہیں۔ کچھ خاص غذائوں سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ان سب کے باوجود مریض کو آفاقہ محسوس نہ ہو تو الگ سے بھی کچھ دوائیں تجویز کرتے ہیں اسی طرح روحانی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں کچھ خاص روحانی غذائیں لینی پڑتی ہیں۔وہ روحانی غذائیں جو ہماری بصارتوں اور سماعتوں سے ہوتی ہوئی ہماری روح کو آلودہ کرتی ہیں، ان سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جسمانی صحت کے لیے ورزش کی جاتی ہے اسی طرح روحانی نشوو نما کے لیے بھی ورزشیں ضروری ہیں۔ صوفیائے کرام اپنی خانقاہوں میں روحانی ورزش کی بھی مشق کرایا کرتے تھے۔لوگوں سے کم ملنا جلنا، گوشہ نشین ہو جانا، کچھ خاص ایام کے لیے کسی غذا کو ترک کر دینا ، مخصوص اوراوراد وظائف وغیرہ انہیں ورزشوں کا حصہ تھے۔ افسوس کہ خانقاہوں میں یہ روایات اب اگر باقی بھی ہیں تو صرف رسوم کے طور پر۔

 آج ہمارے چاروں طرف جو بداخلاقی، بے حیائی،بے حسی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ روحانی بیماریاں ہیں جو ماحول کے اثرات سے ہمارے اندر داخل ہو چکی ہیں۔ اخبارات و رسائل، ٹیلی ویژن چینلز، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، یوٹیوب غرض ہمارے چاروں طرف اخلاق سوز مناظرکا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ نوجوان نسل نہ چاہتے ہوئے بھی اس سمندر میں اترنے پر مجبور ہے۔ ہم مسلسل آلودہ ہو رہے ہیں۔ اس سے بچنے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ ہم "قد افلح من زکاھا" کے عمل کو مسلسل دہراتے رہیں۔اگر نادانستگی میں ہماری سماعتیں اور بصارتیں آلودہ ہو رہی ہیں تو فوراً رجوع الی اللہ کرکے اپنے نفس کو پاک کر لیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ یعنی: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔(سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذکر التوبة)۔نفس کی پاکیزگی کے لیے کچھ اضافی اعمال کو اپنی معمولات کا حصہ بنا لیں۔ مثلاً نوافل کی کثرت، توبہ و استغفار کی کثرت، صدقۂ جاریہ کے کچھ ایسے کام جن کا اجر ہمیشہ ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہے۔بندگان خدا کی فلاح و بہبود کے ایسے کام جن سے ان کی دعائیںملتی رہیں اور مسلسل اپنا محاسبہ۔

 اللہ ہماری روح کو پاکیزگی عطا فرمائے اور ہماری نفوس کو اس مقام تک پہنچا دے جن کے متعلق قرآن نے یہ بشارت دی ہے ۔" اے اطمینان والی روح!اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔پس میرے بندوں میں شامل ہو۔اور میری جنت میں داخل ہو۔(سورۃ الفجر)

....................

Tuesday 30 March 2021

1अप्रैल से बिहार के साढे चार लाख नियोजित शिक्षकों का बढ़ेगा वेतन शिक्षा मंत्री!

1अप्रैल से बिहार के साढे चार लाख  नियोजित शिक्षकों का बढ़ेगा वेतन शिक्षा मंत्री!


पटना सूत्र 1अप्रैल 2021 से साॅफ्टवेयर द्वारा मिलेगा बिहार के चार लाख नियोजित शिक्षकों को नया वेतनमान।।शिक्षा मंत्री ने कही बड़ी बातें.....new salary of niyojit teachers will be given by software in April 2021

● 1 अप्रैल 2021 से नियोजित शिक्षकों का वेतन 35000₹ से 40000₹ प्रतिमाह होगा.

● 1 अप्रैल 2021 से राज्य के लगभग 4 लाख नियोजित शिक्षकों को साॅफ्टवेयर द्वारा मिलेगा नया वेतनमान .

बिहार के लगभग 4 लाख नियोजित शिक्षकों के हितैषी माने जा रहे शिक्षा मंत्री-श्री विजय कुमार चौधरी ने होली के शुभ अवसर पर कहा कि हमारे माननीय मुख्यमंत्री-श्री नीतीश कुमार बिहार के नियोजित शिक्षकों पर विशेष नजर रखते है।

    जब जब शिक्षकों को परेशानी होती है हमारे मुख्यमंत्री उनकी समस्याओ का समाधान तुरंत करते है। 2006 मे नियोजित शिक्षकों की बहाली भी हमारे मुख्यमंत्री जी ने की थी।उस समय इनको 4000₹ प्रतिमाह मिल रहा था लेकिन आज देखिए नियोजित शिक्षकों के वेतन मे कितना बढ़ोतरी हो गया है।आज के समय मे नियोजित शिक्षकों को 25000₹ से 30000₹ प्रतिमाह मिल रहा है।

मंत्री जी ने कहा कि बिहार सरकार बिहार के चार लाख नियोजित शिक्षकों को 1 अप्रैल 2021 से नया वेतनमान देने जा रही है। 1 अप्रैल से बिहार के लगभग चार लाख नियोजित शिक्षकों के मूल वेतन मे 15% की बढ़ोतरी हो जाएगी।15% बढ़ोतरी होते ही नियोजित शिक्षकों का वेतन 35000₹ से लेकर 40000₹ प्रतिमाह हो जाएगा।

       बिहार मे नियोजित शिक्षकों को 1 अप्रैल 2021 से बढ़ा हुआ वेतन साॅफ्टवेयर के माध्यम से मिलेगा।ये साॅफ्टवेयर अप्रैल से काम करना शुरू कर देगा।

      मंत्री जी ने कहा कि साॅफ्टवेयर द्वारा नियोजित शिक्षकों के वेतन निर्धारण करने से बिहार के नियोजित शिक्षकों को बहुत ही ज्यादा फायदा होगा क्योंकि बिहार मे साॅफ्टवेयर के द्वारा सबसे पहले वर्ष 2015 मे नियोजित शिक्षकों का वेतन निर्धारण किया गया था लेकिन जब सातवां वेतन लागू की गई तो साॅफ्टवेयर का इस्तेमाल नही किया गया।जिसके कारण वेतन मे विसंगतियां होने की शिकायत मिल रही है।बिते दिनो सदन मे भी माननीय सदस्यों ने भी इस संबंध मे सवाल किया था,यानि वेतन मे होनेवाली विसंगतियों के बारे मे जानकरी दी थी साथ ही उन्होने लिखित भी शिकायतें दी है।हमलोगो ने इसबार साॅफ्टवेयर तैयार कराने मे सभी तरह की बारीकियों पर एक्सपर्ट द्वारा विशेष ध्यान दिलवाया है।

इसलिए मै बार-बार बिहार के नियोजित शिक्षकों से अपील करता हूँ कि आप धैर्य बनाकर रखें और अपना ध्यान बच्चों की पढ़ाई पर केन्द्रित रखे।हमलोग आपकी सभी तरह की समस्याओं को सुलझाने की हर संभव कोशिश करते रहेंगे।

Thursday 25 March 2021

حفاظتِ قرآن کریم، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

   حفاظتِ قرآن کریم



مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

------------------------------------------------------

قرآن کریم اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل آخری کتاب ہے، اب کوئی نہ دوسرا رسول آئے گا اورنہ دوسری کتاب الہی،اس لئے اللہ رب العزت نے خود ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی،تاکہ پہلے نازل شدہ تین آسمانی کتابوں کی طرح کوئی اس میں تحریف اورتبدیلی نہ کرسکے،ارشاد باری ہے :ہم نے اسے نازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،اللہ رب العزت بغیر اسباب کے قرآن کریم کی حفاظت پر قادر ہیں،ہمارا ایمان ویقین ہے ،لیکن اللہ رب العزت نے اس کائنات کا جونظام بنایاہے اس میں اسباب ووسائل کی بھی اپنی اہمیت ہے،اسی لئے اپنی قدرت کاملہ کے باوجود اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کے لئے حفاظ کرام،مخارج حروف اورلحن کی حفاظت کے لئے مجودین اورقراء کرام ،الفاظ کے معانی کی حفاظت کے لئے محدثین اورمفسرین، آیات ربانی سے احکام الہی کی تخریج کے لئے فقہاء کرام اوررسم الخط کی حفاظت کے لئے علماء رسم الخط کو پیدا کیا،ان میں سے بہت حضرات قرآن کریم سے متعلق کئی کئی علوم وفنون کے ماہر تھے،ان حضرات نے اسباب کے درجہ میں ہرسطح پر قرآن کریم کی حفاظت کا نظم کیا، بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کارسم الخط محفوظ نہیں ہے ،حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، اگر رسم الخط محفوظ نہ ہوتا توپوری دنیاکے چھپے ہوئے قرآن کریم میں سورہ فاتحہ کی آیت میں مٰلک یوم الدین الف کے بغیر اورمالِ ھذ االکتاب پورے لام سے نہیں لکھاجاتا،اس قسم کی بہت ساری مثالیں شاطبیہ اوراس فن پر لکھی گئی دوسری کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں، یہ حفاظت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام الہی ہے۔اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو جواس کے کلام الہی میں شک کرتے تھے ،پہلے دس سورہ ،پھر دس آیت اورآخرمیں ایک آیت ہی اس قسم کی بناکر لانے کے لئے چیلنج دیا، چودہ سوسال سے زائد گذرنے کے بعد بھی یہ چیلنج آج بھی قائم ہے، عرب اپنی فصاحت اوربلاغت لسانی کے باوجود حیران وشصدر رہ گئے اورایک آیت قرآن کریم کی طرح بناکر لانے سے بھی عاجز ودرماندہ رہے، قیامت تک یہ عاجزی درماندگی باقی رہے گی اوراس چیلنج کا جواب کسی کے بس میں نہیں ہے۔

بعد میں ہندوستان میں کئی سرپھرے ایسے سامنے آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات کے معانی ومطالب کو اس کے شان نزول اورحقیقت واقعہ سے الگ کرکے پیش کیا اوران آیتوں کو جو دشمنوں کے مقابلے کے لئے تھیں ،ان کوتشدد پھیلانے کا ذریعہ قراردیا، اوریہ معاملہ ان لوگوں کی طرف سے آیاجن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ ہیں اورجن کے نزدیک ہجومی تشدد کے ذریعہ سرراہ کسی کوبھی مارڈالا جاتاہے۔

ماضی قریب کا جائزہ لیں توایسے ہی سرپھرے لوگوں میں حیدرآباد کا باشندہ چاندمل چوپڑا تھا، اس کا جب کھوپڑا خراب ہواتواس نے ۱۹۸۵ء میں شرپسندوں کے اکسانے پر کلکتہ ہائی کورٹ میں قرآن کریم پر پابندی لگانے کا مقدمہ دائر کیا،یہ مقدمہ کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج پدما خستگیر کے یہاں دائر ہوا،انہوں نے اس مقدمہ کو سماعت کے لئے قبول کرلیا،چیف جسٹس نے اس مقدمہ کو جسٹس بساک کی عدالت میں بھیج دیا، مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے حکومتی سطح سے اس کیس کو لڑا، مسلمانوں نے خاموشی اختیار کی، اپنا وکیل بھی کھڑا نہیں کیا ، سرکاری وکیل اورایڈوکیٹ جنرل نے جو موقف اخیتار کیاوہ یہ تھاکہ جن آیات کو بنیادبناکر مقدمہ کیا گیاہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوگی، بحث کا موضوع صرف یہ ہوگاکہ کیاکسی آسمانی کتاب پر مقدمہ چل سکتاہے؟جسٹس بساک نے تھوڑی ہی دیر میں چاندمل کا مقدمہ خارج کردیااورفیصلہ دیاکہ کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چلایاجاسکتا۔

اب پھر سے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیرمین وسیم رضوی کا دماغ خراب ہواتواس نے سپریم کورٹ میں چھبیس(۲۶) آیتوں کے نکالنے کے لئے مقدمہ کیاہے،اس مقدمہ کا مقصد سستی شہرت کاحصول اوراپنی مدت کار میں گھوٹالے اوربدعنوانیوں کی طرف سے نظرہٹانا ہے، اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرکے دوبارہ کسی عہدے پر براجمان ہوناہے، لیکن اس پر یہ مقدمہ الٹا پڑگیاہے، پورے ہندوستان میں اس پر تھوتھو ہورہی ہے، اورخود اس کی کمیونٹی کے شیعوں نے اسے اپنے سے خارج کردیاہے، اس کی والدہ ،بہن،بھائی وغیرہ نے بھی اس سے براء ت کااظہار کردیاہے اورخبر ہے کہ اس کمینے سے اپنا رشتہ منقطع کرلیاہے، اس مقدمہ کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں بیرون ہندبھی اس پر لعن طعن کی کثرت ہورہی ہے، یقیناوہ ملعون اسی کامستحق ہے۔اس مقدمہ میں کولکاتا ہائی کورٹ کا فیصلہ نظیر بن سکتاہے اورہمارا موقف یہی ہے کہ قرآن کریم آسمانی کتاب اورکلام الہی ہے اس میں ترمیم ،تحریف اورکسی بھی قسم کی تبدیلی کا حق نہ تو کسی عدالت کو ہے اورنہ فرد کو، عام انسانی تصانیف میں بھی کسی دوسرے کو تحریف وترمیم کا حق نہیں ہوتا؛چہ جائیکہ جواحکم الحاکمین اورپورے عالم کے خالق ومالک کا کلام ہو اس پر کوئی عدالت کس طرح غور کرسکتی ہے اورکسی کواس کے مندرجات کو نکالنے کا حق کس طرح ہوسکتاہے،یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے ،جس کی وجہ سے روزانہ اخبارات میں مذمتی قرارداد اوروسیم رضوی پر ایف آئی آر درج کرنے کی خبریں آرہی ہیں،ایک صاحب نے وسیم رضوی کے سر کی قیمت گیارہ لاکھ لگادی ہے، ظاہر سی بات ہے غیرت وحمیت کے باوجود اس قسم کا اعلان صحیح نہیں ہے، اس معاملہ میں حکمت عملی اورطریقہ کار پر مسلم قائدین خصوصا حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم سے مشورہ بھی کرنا چاہئے ،تاکہ ناسمجھی اورجوش میں ہمارا کوئی قدم ہمیں ہی نقصان نہ پہونچادے۔(بشکریہ نقیب)

बोर्ड (BSEB) 12वीं का रिजल्ट से संबंधित देखने के लिए क्लिक करें है

 बोर्ड (BSEB) 12वीं का रिजल्ट से संबंधित देखने के लिए क्लिक करें है



 बिहार स्कूल एजुकेशन बोर्ड (BSEB) 12वीं का रिजल्ट आज जारी हो सकता है. इस वर्ष करीब 13 लाख स्टूडेंट्स ने बिहार बोर्ड की 12वीं परीक्षा देने के लिए आवेदन किया था.

बिहार बोर्ड की ओर से 12वीं का रिजल्ट आधिकारिक वेबसाइट onlinebseb.in, bsebssresult.com और biharboardonline.bihar.gov.in पर जारी होगा. परीक्षार्थी अपना रिजल्ट इस वेबसाइट से अपना रिजल्ट चेक कर सकते हैं.

Wednesday 24 March 2021

प्रखंड शिक्षा पदाधिकारी घुस लेते हुए गिरफ्तार

 प्रखंड शिक्षा पदाधिकारी घुस लेते हुए गिरफ्तार!



समस्तीपुर, बिहार न्यूज़ 

बिथान: प्रखंड के बीआरसी भवन पर प्रखंड शिक्षा पदाधिकारी घूस लेते हुए निगरानी के हत्थे चढ़ गए।
सूत्रों से जानकारी के मुताबिक उत्क्रमित मध्य विद्यालय, केलवारी के शिक्षक विकास कुमार की बकाया राशि के भुगतान के एवज में स्थानीय प्रखंड शिक्षा पदाधिकारी ने ₹20000 की मांग की थी।
जिसको लेकर शिक्षक विकास कुमार ने निगरानी में इसकी शिकायत दर्ज कराई थी।
आज संध्या बेला में पटना से आई निगरानी की टीम ने प्रखंड शिक्षा पदाधिकारी संजय कुमार को रंगे हाथ घूस लेते हुए धर दबोचा।
बिहार पंचायत नगर प्रारंभिक शिक्षक संघ के प्रदेश महासचिव सह जिला अध्यक्ष रामचंद्र राय ने कहा- शिक्षकों का दोहन शोषण करने वाले ऐसे भ्रष्ट पदाधिकारियों की ऐसी ही दुर्गति होनी चाहिए।
ऐसे व्यक्तित्व गुणवत्तापूर्ण शिक्षा व शिक्षकों के लिए ही नहीं बल्कि पूरे समाज के लिए एक कलंक है।जिसे संगठन किसी भी कीमत पर बर्दाश्त न करता आया है और ना करेगा।

Tuesday 23 March 2021

اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں تو اردو کو اپنے گھر سے شروع کریں،اردو کارواں کا پیغام!

 اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں تو اردو کو اپنے گھر سے شروع کریں،اردو کارواں کا پیغام!  



امارت شرعیہ کیمپس پھلواری شریف، پٹنہ میں اردو کارواں کے نئے دفتر کا افتتاح ،دعائیہ مجلس کا انعقاد

)پھلواری شریف23مارچ) آج مورخہ۲۳؍مارچ کو امارت شرعیہ کیمپس پھلواری شریف میں اردو کارواں کے نئے دفتر کے افتتاح کے موقع پر ایک دعائیہ مجلس کا انعقاد ہوا۔ اس دعائیہ مجلس میں اردو کارواں کے نائب صدر اور بہار اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری ، کارواں کے نائب صدر مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کے ساتھ کارواں کے ارکان میں سے مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ،مولانا سہیل اختر قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا شمیم اکرم رحمانی معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا محمد عادل فریدی قاسمی کارکن شعبۂ نظامت امارت شرعیہ بھی شریک ہوئے ، ان کے علاوہ مولانا احمد حسین قاسمی معاون ناظم امار ت شرعیہ،  جناب سید نثار احمد صاحب ایڈمنسٹریٹر مولانا منت اللہ رحمانی پارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور مولانا محمد ارشد رحمانی آفس سکریٹری امارت شرعیہ نے  بھی شركت كی ۔ 

اس موقع سے اردو کارواں کے ذمہ داروں نے اردو کے کارواں کے ذریعہ اردو کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پوری حکمت عملی کے ساتھ عملی جد وجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ اس دفتر سے اردو کارواں اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے پورے صوبے میں تحریکی طور پر کام کرے گی ۔ کارواں کے نائب صدر جناب مشتاق احمد نوری صاحب نے کہا کہ سرکار کی جن غلطیوں کی وجہ سے اردو کا نقصان ہوا ہے ، اردو کارواں اس کو ٹھیک کرنے کی محنت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اردو کے بارے میں بحث کرنے سے اردو کی ترقی نہیں ہو گی ، اردو کی بقاء اور اس کی ترقی کے لیے ہمیں خود کچھ کرنا ہو گا ، اگر ہم خلوص سے کچھ کریں گے تو یقینا تبدیلی محسوس کریں گے ، انہوں نے اردو کارواں کی جانب سے پوری اردو آبادی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم دل سے اردو سے محبت کرتے ہیں تو اردو کو اپنے گھر سے شرو ع کریں ۔انہوں نے کہا کہ اردو میں خطوط لکھنے کا رواج ڈالیے ، اردو میں پتے لکھ کر پوسٹ کیجئے ، تجربہ کر کے تو دیکھئے اگر بڑی تعداد میں اردو میں پتے لکھے ہوئے خطوط بھیجے جائیں گے تو محکمہ ڈاک بھی اردو داں ڈاکیہ کو رکھنے پر مجبور ہوگا۔

اردو تحریک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو کی تحریک بہار میں شروع ہی سے چل رہی ہے ، ایک زمانہ تھا جب پروفیسر عبد المغنی اور جناب غلام سرور صاحب مرحوم اس تحریک کے روح رواں تھے، ان لوگوں کی کوشش سے اردو کو بہار میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا ، دوسری سرکاری زبان کے کئی پہلو تھے ، لیکن سارا زور سرکاری طور پر اردو میں نیم پلیٹ لگانے پر ہی صرف کیا گیا، دوسرے نکات کو نظر انداز کیا گیا ، اردو والے بھی اس آدھے ادھورے درجے سے مطمئن ہوگئے اور اس غلط فہمی میں رہے کہ اردو کو سارا حق مل گیا، لیکن حقیقت ہے کہ ابھی اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔

غلام سرور مرحوم اور پروفیسر عبد المغنی کے انتقال کے بعد جو ارد و تحریک کمزور ہو چکی تھی۔ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی سر پرستی میں اردو کارواں کے قیام کے ساتھ اب اس تحریک میں دوبارہ روح پھونکی گئی ہے اور نئی توانائی پیدا ہوئی ہے ۔ ان شائ اللہ اردو کارواں کے ذمہ دار اور ارکان اس تحریک کو زندہ اور سرگرم رکھنے کے لیے اپنی پوری توانائی لگا دیں گے ۔ کارواں کے دوسرے نائب صدر اور امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے کہا کہ سرکار سے جو کام کروانے کے ہیں اس کے لیے اردو کارواں کے ذریعہ مضبوط مطالبات وزیرا علیٰ ، وزیر تعلیم اور متعلقہ وزارتوں کے سامنے رکھے جائیں گے ، لیکن ساتھ ہی ہم اردو والے بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں ، اردو صرف ہماری زبان نہیں بلکہ ہمارا تہذیبی ورثہ اور ہماری ملی و قومی شناخت ہے ، اس شناخت کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں اپنے گھروں میں اردو کی آبیاری کرنی ہوگی ، اس کی جڑوں میں پانی دینا ہوگا ، صرف تنوں اور پتوں پر پھوار ڈال کر ہم اردو کی ترقی اور بقا کی امید نہیں کر سکتے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اردو کارواں کے ذریعہ اور امارت شرعیہ کی ترغیب تعلیم اور ترقی اردو کی ریاست گیر تحریک کے ذریعہ ہم پورے صوبے میں اردو کی ایسی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوں گے جس کی  روشنی پورے ملک میں محسوس کی جائے گی۔

دفتر کے افتتاح کے بعد نائب  صدر جناب مشتاق احمد نوری نے اپنے چیمبر میں بیٹھ کر باضابطہ نائب صدر کی ذمہداری سنبھالی انہوں نے امیر شریعت بہار اڈیشه و جهاركهنڈحضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب سے فون پر گفتگو کرکے کام کرنے کے سلسلے میں ضروری ہدایات حاصل کیں۔ہولی کے بعد  ان شاء اللہ وزیر اعلی بہار اور وزیر تعلیم سے ملاقات کرکے انہیں عرض داشت پیش کی جا ئے گی۔ جناب نوری صاحب روزانہ صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک دفتر میں تشریف رکھیں گے۔اردو  كے سلسله میں كوئی مشوره دینا هو یا لینا هو تو  دفتری اوقات میں جناب مشتاق احمد نوری صاحب سے مل سكتے هیں۔

اردو زبان سلیقہ سے جینے کا ہنر سکھاتی ہے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

  اردو زبان سلیقہ سے جینے کا ہنر سکھاتی ہے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

روز میری لینڈ اسکول ، کاغذی محلہ بہار شریف میں’’ اردو کی عظمت و افادیت سے قوم و ملت کی بے رغبتی ‘‘کے عنوان پر منعقد سیمینار میں نائب ناظم امارت شرعیہ کا فکر انگیز خطاب


اردو ہماری زبان بھی ہے ، ہماری تہذیبی پہچان بھی ہے ، اورساتھ ہمارے دینی و ملی سرمایہ کی نگہبان بھی ہے ۔ اردو کی بقاء  میں ہماری تہذیب کی بقاء اور اردو کے زوال میں ہماری تہذیب ، ثقافت اور ملی شناخت کا زوال ہے ۔ اگر ہم اردو کی ترقی چاہتے ہیں اور اس کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں میں اردو کو زندہ رکھنا ہو گا ، اس کی جڑوں کی آبیاری کرنی ہوگی ۔ زبانیں سرکاری مراعات اور حکومتوں کی مہربانیوں سے زندہ نہیں رہتیں ، بلکہ زبانیں زندہ رہتی ہیں ان کے استعمال کرنے سے ، بولنے سے ، لکھنے سے پڑھنے سے ، سمجھنے سے اور برتنے سے ۔لیکن آج حال یہ ہے کہ اردو ہمارے گھروں سے رخصت ہوتی جارہی ہے ، اس کی جڑیں سوکھ رہی ہیں ، اور ہم پتوں پر چھڑکاؤ کررہے ہیں۔ہم نہ خود اردو پڑھتے لکھتے اور بولتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو ہم نے اردو بولنے ، پڑھنے ، لکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار کیا ہے ۔ ہم اردو کے لیے حکومت سے لڑ رہے ہیں ، ممکن ہے وہاں ہم جیت بھی جائیں لیکن حقیقت میں آج ہم اردو کی لڑائی اپنے گھروں میں ہی ہار چکے ہیں۔ ہمیں اس ہار کو جیت میں بدلنا ہے اور اپنے گھروں میں اردو کا ماحول بنانا ہے ، اگر سچ مُچ ہم اردو کی ترقی چاہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار نائب ناظم امارت شرعیہ مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے بہار شریف ، ضلع نالندہ کے کاغذی محلہ میں واقع روز میری لینڈ اسکول میں مورخہ ۲۱؍مارچ کو ‘‘اردو کی عظمت و افادیت سے قوم و ملت کی بے رغبتی’’  کے عنوان پر منعقد سیمینار میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ اردو زبان اپنے بولنے والوں کو سلیقہ سے جینے کا ہنر بھی سکھاتی ہے ۔ آپ نے اردو کی بقاء کے لیے اردو کے الفاظ اور تلفظ کے ساتھ اردو املا، رسم الخط اور خوشخطی پر بھی توجہ دینے کی گذارش کی ، انہوں نے کہا کہ جیسے انسانوں کے خاندان ہوتے ہیں اسی طرح زبانوں کے بھی خاندان ہوتے ہیں ، الفاظ، تلفظ، املا، رسم الخط وغیرہ زبان کے اہل خانہ اور اس کے خاندان کے افراد ہیں ، اردو زبان کو مکمل طور پر فروغ دینا ہے تو ان چیزوں کی بھی حفاظت کرنی ہوگی ، آج اردو والے اردو بولنا تو جانتے ہیں ، لیکن لکھنا بہت کم لوگ جانتے ہیں ، بڑے بڑے اہل قلم اور نام نہاد اردو کے ادیب و شعرائ دیوناگری میں اردو لکھ رہے ہیں ۔ اس طرح اردو کیسے ترقی کرے گی ۔


مولانا شمیم اکرم رحمانی معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ، ملک کے بڑے حصہ میں یہ عوامی رابطے کی زبان ہے ،اس کے با وجود اردو محرومی کا شکار ہے ، اس کی وجہ جہاں ایک طرف حکومت کی بے اعتنائی ہے تو دوسری طرف ہم بھی کم قصور وار نہیں ہیں ، ہم نے اس زبان کو اس کا حق دینے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ بہار میں تو اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ، لیکن اس کے با وجود اردو دو طرفہ مشق ستم بنی ہوئی ہے ۔ ابھی حکومت ہند نئی تعلیمی پالیسی لے کر آئی ہے ، اس میں تو کہیں اردو کا نام و نشان تک نہیں ہے ، ایک سازش کے تحت اردو کو دیش نکالا دینے کی تیاری چل رہی ہے ، ایسے وقت میں ہماری ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس زبان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایمانداری کے ساتھ اقدام کریں ۔



اس سیمینار سے جناب منوج کمار ڈی ای او نالندہ نے بھی خطاب کیا اور اردو زبان کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو بہت ہی خوبصورت زبان ہے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے ، یہ زبان محبت کا سندیش دیتی ہے اور امن و بھائی چارہ کی پیغامبر ہے ،ملک کے ہر باشندہ کو چاہئے کہ اس خوبصورت زبان سے محبت کرے اور اس کو سیکھے۔روز میری لینڈ اسکول کے ڈائرکٹر جناب انصار رضوی صاحب نے کلمات تشکر پیش کیے ، انہوں نے مہمانوں کے علاوہ تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی ہدایت پر امارت شرعیہ کے ذریعہ شروع کی گئی اردو تحریک کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر شریعت مد ظلہ نے صحیح وقت پراردو کی ترقی و ترویج و اشاعت کی آواز اٹھائی ہے ، آپ نے اردو کے بارے میں پورے بہار اور جھارکھنڈ میں جو صدا لگا ئی ہے ، اس نے عوام الناس کو اردو کی عظمت اور افادیت کا احساس دلایا ہے ، انہوں نے قوم کی بے حسی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج جو اردو روز بروز بے زبان ہوتی جارہی ہے ، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، انہوں نے کہا کہ اگر اردو کی شناخت باقی رکھنی ہے تو اردو کو عام و روزمرہ کی زندگی میں جذبہ اور محبت کے ساتھ استعمال کرنا ہو گا ، اس کی شروعات ہم سب کو اپنے گھروں سے کرنی ہوگی ، تبھی اردو کو اپنا کھویا ہوا وقار مل سکتا ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ امارت شرعیہ کی اردو تحریک کے مثبت اور دور رس نتائج ظاہر ہوں گے اور اردو کے لیے عمومی مزاج بنانے میں یہ تحریک کامیاب ہوگی، ساتھ ہی امار ت شرعیہ کی قیادت میں شروع کی گئی یہ تحریک حکومت کے سامنے بھی اردو کی مضبوط آواز رکھے گی اور حکومت سے بھی اس کا واجب حق دلانے میں کامیاب ہوگی ۔مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس سیمینار کی نظامت کے فرائض مفتی اعجاز احمد ناظم مدرسہ اشاعت الاسلام بہار شریف نالندہ نے انجام دیے ، سیمینار کا آغاز قاری محمد سہیل صاحب کی تلاوت کلام مجید سے ہوا ، خطبہ استقبالیہ روز میری لینڈ اسکول کی طالبہ زینب نے پیش کیا۔ آخر میں صدر مجلس کی دعا پر سیمینار کا اختتام ہوا۔

Thursday 18 March 2021

*خود غر ضی - سماج کے ما تھے کا کلنک*

 خود غر ضی - سماج کے ماتھے کا کلنک

 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ 

-----------------------------------------------------------------          خود غرضی: مفاد پر ستی ،مطلب پر ستی اور دو سر وں کے مفاد کو نظر انداز کر کے اپنا الّو سید ھا کرنے کا نام ہے،یہ ایسی خبیث صفت ہے جو انسان کی انفر ادی اور اجتما عی زند گی میںدبے پاؤں دا خل ہوجاتی ہے اور سماجی نظام کو دیمک کی طر ح چاٹ چاٹ کر کھو کھلا کر دیتی ہے ، اس سے انسا نیت تباہ ہو تی ہے ،امن عالم میں دراڑیں پڑتی ہیں،سماجی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور بسا اوقا ت ملکی وملی مفاد کو بھی زک پہو نچتی ہے ،چند ٹکوں کے حصو ل کے لئے ملک کے اہم دستاویز کا سو دا کر لینا، کا رو بار کو چمکا نے کے لئے ذخیرہ اندو زی ،منا فع خوری ،سودی لیں دین ،بد دیا نتی، فریب دہی، یہ سب خو د غرضی کی ہی مختلف قسمیں ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی اورہم ان میں گر دن تک ڈو بتے چلے جا تے ہیں ۔

آج مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انسان کی بنیا دی ضرو ر تیں کیسے پو ری ہو ں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خو د غرضی کے جر اثیم نے جو ہم میں{ھل من مزید}’’کچھ اور ‘‘کی وبا پھیلا ئی ہے ،اس کو کیسے دور کیا جائے ،مر ض جتنا پر انا ہو تا ہے، اتنا ہی اس کو دو ر کرنا مشکل ہو تا ہے ،یہ مر ض بھی کا فی پر انا ہے، رسولو ں ،ریفار مر وں نے اپنے اپنے طور پر اسے دور کرنے کی کو ششیں کیں،جس کی وجہ سے خو د غرضی اور دو سری بر ائیوں کے خلا ف انسانی ذہن بیدار ہوا،ایثار و قر بانی کے ایسے ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملے کہ عقل حیران رہ گئی ،لیکن جیسے جیسے ذہن ان تعلیما ت سے دور ہوتا گیا ،خود غرضی کے جر ا ثیم دل و دماغ میں پھر سے آبسے اورزندگی کا ہر شعبہ اورہر میدان اس کی گرفت میں آگیا،گھر سے لیکر بازاروں تک ،کھیت کھلیان سے لیکر میدان جنگ تک ،خاند ن سے لیکر بین الا قوامی انجمنوں اورتنظیموں تک ،اسکا دائرہ وسیع ہو گیا،وہ ایر ان وعراق جنگ ہویا تامل سنہا لیوں کی لڑا ئی ،دو عظیم جنگوں کا سانحہ ہویا خالصتان کی دم تو ڑ تی تحر یک، ہند وپاک کی تقسیم کاسا نحہ ہو یا مصر و شام کا تنا زعہ، دینی اداروں میں ہنگامہ وسو رش ہویاکارخانوں میں  ہڑتالوں کا سلسلہ ،سب کی جڑ وں میں خود غر ضی کی کا رفر ما ئی ہے ،فر ق اگر ہے تو صر ف یہ کہ کچھ لوگ چھو ٹے پیما نے پر ،انفر ادی طور پر اس کا شکار ہیں اور کچھ اجتما عی طور پر قومی پیمانے پر اس کا م کو کررہے ہیں ،جس کے نتیجے میں آج ساری دنیا تجا رت کی منڈی یا لو ہا ر کی بھٹی بن کر ر ہ گئی ہے ، ساری زمین میدان جنگ ہے ،اور امن و شانتی کے بڑے بڑے دعووںکے باوجودچھو ٹی اورکمزور قو موں کے لاکھو ں بے گنا ہ انسان اس اجتماعی خود غر ضی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔

یہاں ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اپنے مفاد کا تحفظ اور بات ہے اور خود غرضی اور چیز،اپنے مفاد کا تحفظ اور ضرورت پر نظر رکھنا فطری ہے اور شر یعت بھی اسے مذموم اور لائق ملامت نہیں سمجھتی،ہاں خاندان،سماج اورمعاشرہ کے تئیں اگر کو ئی اپنے فرائض کو اس مفادکے پیش نظر بھو ل جا ئے ،اور ملک وملت کی جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہو تی ہیں وہ پس پشت چلی جائیں تویہ لائق ملا مت بھی ہے اور مذموم بھی، بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ اپنے مفاد کے تحفظ اور خود غر ضی میں ایک ایسافاصلہ ہے ،جس کی سر حد ی تقسیم شاید ممکن نہیں ،اس کی تعیین کا م کرنے کے انداز اورطور طریقوں سے ہو سکتی ہے کہ یہ اپنے مفاد کا تحفظ ہے یا محض خود غر ضی ،شریعت مطہر ہ نے شاید؛ اسی لئے اپنے مفادکے تحفظ کا حق دینے کے باوجو د اسے دوسروں کی ضرورتوں پر قربان کر دینے کو ایک اچھا عمل قراردیا ہے اور اسے کا میابی کے اسباب میں شمار کرایاہے ۔

اسی طرح خود غرضی اوربے غرضی کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے ،غرض کے معنی مقصد کے آتے ہیں اور اس معنی میں انسان کا ہر کا م کو ئی نہ کوئی غر ض لئے ہو تاہے،بے غر ض کا م بے مقصد اورمہمل کہلاتا ہے ،خو د غر ضی کا م کو اپنے تک محدو د کر دیتی ہے اور بے غر ضی اسے مہمل بنا دیتی ہے انسان کو نہ تو بے مقصد کا م کر نا چا ہئے اور نہ ہی صر ف اپنے مفاد کے چکر میں پڑنا چاہئے ۔

یہا ں پر اب فطری طورپر یہ سو ال پیداہو تاہے کہ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟یہ مرض انسان میں کیو ں پیدا ہو تا ہے ؟ اور اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ؟میر اخیال ہے کہ ایک مسلما ن اور ابدی دین کے حامل ہو نے کی حیثیت سے اس کا جو اب ہمیں اسلامی تعلیمات میں تلاش کر نا چاہئے ،جہا ں تک میر ی تلا ش ،جستجو اور میر ے فہم کی با ت ہے تو میر ے نزدیک اس کے چا ر بڑے اسباب ہیں :

حُب نفس :

یعنی اپنی محبت ،یہ اپنا پن ،اپنی ذا ت ،اپنے خاند ان اعز و اقر با اور ملک وملت تک محیط ہے ،خود غر ضی کے اکثر واقعات اسی کے بطن سے پیداہوتے ہیں ،اللہ رب العزت نے اسی لئے باربار اعلان کیا کہ تمہا ر اپنا کچھ بھی نہیں ہے ،یہ آسمان اور زمین اور اس کے در میان کی تما م چیز یں صر ف اور صر ف اللہ کے لئے ہیں ،اور اگر تم پوشیدہ یا ظاہر طور پر اپنا الو سیدھا کر نا چا ہتے ہو تو اللہ کے پا س اس کا ریکا رڈ مو جو د ہے (بقرہ :۲۸۴) پھر اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان بھی کروایا کہ میر ی نمازیں ،عبادتیں اورزندگی ،موت سب سارے جہا ں کے پالنہار کے لئے ہیں (الانعام:۱۶۲)جب معاملہ یہ ہے تو اتنی گنجا ئش کہا ں ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لئے کچھ سو چے ۔

حُب مال :

 خو د غر ضی کا دوسرا سبب حُبِّ مال ہے ،اسے وسیع معنوں میں ہم دنیا کی محبت بھی کہہ سکتے ہیں جب انسان اپنے سے زیاد ہ ما ل والے کو دیکھتا ہے ،اچھے مکا ن ،دیدہ زیب لباس ،لذیذ اورشہو ت انگیز کھانے ،شاند ار اور پر شو کت سوا ریوںپر اس کی نظر پڑتی ہے ،تو وہ دنیا کی نا پا ئیدا ری کو بھو ل کر اس کی آب و تاب کے پیچھے بے تحاشہ دوڑ نے لگتا ہے اور جا ئز و نا جا ئز کی پر واہ کئے بغیر اس کے حصو ل کے لئے کو شاں ہوجاتا ہے ،اس کی اس ریس سے کتنے کے مفاد کو زک پہو نچتی ہے اور کتنو ں کا نقصان ہوتا ہے ،اسکا احساس اسے نہیں ہو تا ،اسے اپنے حلوے مانڈ ے سے کام ہو تا ہے اور بس، قر آن کر یم نے مال و دولت کے سینت سینت کر رکھنے کو اخر وی نقصانات کا سبب بتایا ،(التوبہ) اوریہ واضح کیا کہ مال کی محبت کو ئی اچھی چیز نہیں؛بلکہ وہ فتنہ میں مبتلا کرنے والی چیز ہے اور صحیح یہ ہے کہ مال ودولت کا حصو ل کسی کو مالدار نہیں بنا تا، تم سب کے سب محتاج ہو اورغنی تو صر ف خدائے بزرگ و بر تر کی ذات ہے ،حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے دولت والوں کو زیادہ غریب اورمحتاج قرار دیا ،اور فرما یا کہ مسکینوں پر مہر با نی کر و ،ان کی صحبت اختیا ر کرو اورہمیشہ اپنے سے ابتر حا ل لو گو ں دیکھو، (مسند احمد)اس سے دنیا کی رونق اور تب وتاب ،نگا ہوں میں کم ہو گی اور خود غرضی کے بجا ئے ایثار و قر بانی کا جذبہ پید اہو گا ۔

عز وجاہ کی ہوس :

خو د غرضی کا تیسرا سبب عز وجا ہ کی ہو س ہے ،جو دوسرے تمام اسباب سے زیادہ خطرناک اورنظام عالم کے فسادکا سبب ہے ،دراصل ہو تا یہ ہے کہ انسان جب عزہ وجاہ کی ہوس میں مبتلا ہو تا ہے تووہ حرص وہو اکا غلام بن جا تاہے ،وہ بہرحال اس عہد ے اور منصب کے حصو ل کی کو شش کرتاہے، جس سے اسے اپنی عزت میں اضا فہ کی امید ہو تی ہے، آج کی سیاست اور الکشنی نظام اس کی بدترین مثالیں ہیں ،اسلام نے انسانوں کی اس فطرت کے پیش نظر ان تما م لو گو ں کو عہدے دینے سے منع کیا جو خو د اس کو حا صل کر نا چا ہتے ہیں ،اس طرح ا س نے اس بڑے دروازے کو بند کردیا،جس سے خو د غر ضی کی جڑ وںکو و افر مقدار میںپانی پہنچتا تھا ۔

بگڑا معاشرہ :ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں اسکا آوا کا آوا بگڑ اہوا ہے ،اور مثل مشہور سے کہ خر بوزے کو دیکھ کر خربو زہ رنگ پکڑ تا ہے ،اس لئے خود غرضی کی وبامتعد ی ہو کرپھیلتی جا رہی ہے ،گو ہما رے رہنماؤں اورمصلحین کو اس کا حد در جہ احساس ہے ،لیکن وہ اس کا علا ج اسلامی تعلیما ت سے الگ ہو کر ڈھو نڈتے ہیں؛اس لئے کو ئی تد بیر کا رگر نہیں ہوتی ،ضر ورت اس بات کی ہے کہ قر آن وحد یث کی روشنی میں اس کاعلاج کیا جائے ورنہ فتنہ فساد ،قتل و غارت گری کا وہ بازار گر م ہوگا کہ ساری زمین خون سے لالہ زار ہو جا ئے گی (جس کی مثا لیں اب بھی نایاب نہیں ہیں ) اس وقت بند باندھنا اورسد باب کی کو شش کرنا فضول اوربیکا ر ہوگا ۔

آخر میں دعا ء ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ان امر اض سے نجا ت دے؛ تاکہ یہ دنیا پھر سے رہنے کے لائق  بن جائے ۔

قرآن مجید کی عظمت و فضیلت

 قرآن مجید کی عظمت و فضیلت ۔

شمشیر عالم مظاہری۔دربھنگوی۔

امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔

قرآن مجید کی بے انتہا عظمت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالی کی حقیقی صفت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیاں اور عالم بالا و عالم غیب کی مخلوقات میں عرش،کرسی، لوح و قلم، جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ کے مقرب ترین فرشتے یہ سب اپنی معلوم و مسلم عظمت کے باوجود غیر اللہ اور مخلوق ہیں لیکن قرآن مجید اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی اور اس سے الگ کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقی صفت ہے جو اس کی ذاتِ عالی کے ساتھ قائم ہے یہ اللہ پاک کا بے انتہا کرم اور اس کی عظیم تر نعمت ہے کہ اس نے اپنے رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کر سکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں پھر اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا راہنما بنا سکیں ۔

قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی نے طوی کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ بے جان درخت جس کو حق تعالیٰ نے اپنا کلام سنوانے کے لیے بطور آلہ کے استعمال فرمایا تھا۔  جو بندہ اخلاص اور عظمت و احترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کو اس وقت شجرۂ موسوی نصیب ہوتا ہے اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالی کے کلام مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی شرف کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔

قرآن بے مثل ہے قیامت تک کے لئے پوری دنیا کو چیلنج ۔

فرما دیجئے کہ اگر انسان اور جن تمام مل کر بھی اس قرآن کی مثال لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے (بنی اسرائیل) 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی سے جو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ خود قرآن حکیم ہے چنانچہ کفار نے جب معجزہ طلب کیا، تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔

اور انہوں نے کہا کہ پیغمبر پر اس کے خدا کی طرف سے نشانیاں کیوں نہ اتریں کہہ دے کہ نشانیاں خدا کی قدرت میں ہیں میں تو صاف صاف خدا کے عذاب سے صرف ڈرانے والا ہوں، کیا ان کو یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے اس پر کتاب اتاری جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے! (سورہ عنکبوت)

 لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی کتاب آئی ہے جو سراسر نصیحت اور دلوں کی بیماری کے لئے شفا ہے اور ( اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس قرآن میں)  رہنمائی اور ( عمل کرنے والے)  مومنین کے لئے ذریعہ رحمت ہے آپ کہہ دیجئے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے اس فضل و مہربانی یعنی قرآن کے اترنے پر خوش ہونا چاہیے۔ یہ قرآن اس دنیا سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع رہے ہیں  (سورہ یونس) 

آپ فرما دیجئے کہ بلاشبہ اس قرآن کو روح القدس یعنی جبرئیل علیہ السلام آپ کے رب کی طرف سے لائے ہیں تاکہ یہ قرآن ایمان والوں کے ایمان کو مضبوط کرے اوریہ قرآن فرمانبرداروں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے (سورہ نحل)

یہ قرآن جو ہم نازل فرما رہے ہیں یہ مسلمانوں کے لیے شفا اور رحمت ہے (سورہ بنی اسرائیل)

اور یہ بڑی باوقعت کتاب ہے جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف سے آ سکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے یہ خدائے حکیم و محمود کی طرف سے نازل کی گئی ہے (حم سجدہ)

پھر کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا ( اللہ تعالی کی طرف سے نہ ہوتا) تو ضرور یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے (سورہ نساء)

کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنے جی سے بنا لیا ہے تو کہہ دے کہ وہ ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں ہی لے آئیں اور اپنی مدد کے لیے خدا کے سوا جس کو چاہیں بلالیں۔ اگر وہ سچے ہیں (سورہ ھود)

اگر تم کو اس میں بھی کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا ہے تو اس جیسی ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے سوا اپنے تمام گواہوں کو بلاؤ اگر تم سچے ہو (سورہ بقرہ)

قرآن انسانیت کے لیے آب حیات ۔

یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتاری ہے تاکہ اس کے ذریعہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں (سورہ ابراھیم)

قرآن مجید انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والی کتاب ہے،بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھا نے والی کتاب ہے، قعر مذلت میں پڑے ہوؤں کو اوج ثریا پر پہنچا نے والی کتاب ہے،اور اللہ سے بچھڑے ہوؤں کو اللہ سے ملانے والی کتاب ہے، قرآن مجید انسانیت کے لئے منشور حیات ہے، انسانیت کے لئے دستور حیات ہے، انسانیت کے لیے ضابطۂ حیات ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے آب حیات ہے،قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس کا دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کا چھونا بھی عبادت ہے، اس کا پڑھنا بھی عبادت ہے، اس کا پڑھانا بھی عبادت ہے، اس کا سننا بھی عبادت ہے، اس کا سنانا بھی عبادت ہے، اس کا سمجھنا بھی عبادت ہے، اس پر عمل کرنا بھی عبادت ہے، اور اس کا حفظ کرنا بہت بڑی عبادت ہے،

قرآن کا معلم اور متعلم ۔

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے (صحیح بخاری)

قرآن مجید کو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے جب دوسرے کلاموں پر اس طرح کی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جس طرح کی اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پر حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سیکھنا سکھانا دوسرے تمام اچھے کاموں سے افضل و اشرف ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم پیغمبرانہ وظیفہ وحی کے ذریعہ 

قرآن مجید کو اللہ تعالی سے لینا اس کی حکمت کو سمجھنا اور دوسروں تک پہنچانا اور اس کو سکھانا تھا اس لیے اب قیامت تک جو بندہ قرآن مجید کے سیکھنے سکھانے کو اپنا شغل اور وظیفہ بنائے گا وہ گو یا رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے خاص مشن کا علمبردار اور خادم ہو گا۔ اور اس کو رسول صلی اللہ وسلم سے خاص الخاص نسبت حاصل ہوگی۔اس بنا پر قرآن پاک کے متعلم اور معلم کو سب سے افضل و اشرف ہونا ہی چاہئے لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب کہ قرآن مجید کا یہ سیکھنا سکھانا اخلاص کے ساتھ اور اللہ کے لیے ہو اگر بدقسمتی سے کسی دنیوی غرض کے لیے قرآن سیکھنے سکھانے کو کوئی اپنا پیشہ بنائے تو حدیث پاک میں ہے کہ وہ ان بد نصیبوں میں سے ہو گا جو سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے اور اس کا اولین ایندھن بنیں گے  ،،اللھم احفظنا،،

تلاوتِ قرآن کا اجر وثواب ۔

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس نے ایک نیکی کما لی اور یہ کہ ایک نیکی اللہ تعالی کے قانون کے مطابق دس نیکیوں کے برابر ہے (مزید وضاحت کے لیے آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا)(یعنی میرا مطلب یہ نہیں ہے)کہ،، الم،، ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے،لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے، اس طرح الم پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہوگا ( جامع ترمذی، سنن دارمی)

قرآن کی تلاوت قلب کا صیقل ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی آدم کے قلوب پر اسی طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جس طرح پانی لگ جانے سے لوہے پر زنگ آجاتا ہے عرض کیا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کے اس زنگ کو دور کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ،موت کو زیادہ یاد کرنا،  اور قرآن مجید کی تلاوت (شعب الایمان للبیہقی)

قرآن اور قوموں کا عروج و زوال ۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی اس کتاب پاک (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سوں کو اونچا کرے گا اور بہت سوں کو نیچا گرائے گا (صحیح مسلم)

قرآن مجید اللہ تعالی کی صفتِ  قائمہ اور بندوں کے لئے اس کا فرمان اور عہد نامہ ہے اس کی وفاداری اور تابعداری اللہ تعالی کی وفاداری اور تابعداری ہے اسی طرح اس سے انحراف اور بغاوت اللہ تعالی سے انحراف اور سرکشی ہے اور اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ جو قوم اور جو امت خواہ وہ کسی نسل سے ہو اس کا کوئی بھی رنگ اور کوئی بھی زبان ہو قرآن مجید کو اپنا راہنما بناکر اپنے کو اس کا تابعدار بنادے گی اور اس کے ساتھ وہ تعلق رکھے گی جو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے اس کا حق ہے اللہ تعالی اس کو دنیا اور آخرت میں سر بلند کرے گا۔ اور اس کے برعکس جو قوم اور امت اس سے انحراف اور سرکشی کرے گی وہ اگر بلندیوں کے آسمان پر بھی ہوگی تو نیچے گرا دی جائے گی ۔

مسلمان بھائیو ! حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم دنیا کی عظیم ترین کتاب بھی ہے، اور مظلوم ترین کتاب بھی ہے، دنیا کی کسی شخصیت پر کسی قوم پر کسی کتاب پر اتنا ظلم نہیں ہوا ہو گا جتنا ظلم خود مسلمانوں نے قرآن حکیم پر کیا ہے ہم قرآن کے نام پر تقریبات تو منعقد کرتے ہیں، ہم اپنے جلسوں کی رونق کے لئے تو اسے پڑھتے ہیں، ہم جھوٹی سچی قسمیں کھانے کے لئے تو اسے سر پر رکھتے ہیں، ہم بیماروں کی شفا کے لیے اس سے تعویذ تو بناتے ہیں، ہم اسے خوبصورت غلافوں میں بند کرکے طاقوں پر تو سجاتے ہیں،  ہم اپنے مردوں کے ایصال ثواب کے لئے تو اسے پڑھتے پڑھواتے ہیں لیکن اس پر عمل کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔

افسوس تو یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو مردوں کی کتاب بنالیا حالانکہ یہ تو زندہ اور جیتے جاگتے لوگوں کی کتاب تھی ہم اپنی زندگی میں تو اس کو اپنے  گھر میں داخل ہونے نہیں دیتے ہاں مرنے کے بعد یہ ہمارے گھر میں داخل ہو سکتا ہے معاوضہ دے کر چند قرآن خوانوں کو لے آتے ہیں اور قرآن خوانی کروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنے والے کی بخشش کا سامان کر دیا خواہ مرنے والا زندگی بھر قرآن مجید کے قریب بھی نہ گیا ہو خواہ اس نے اپنی زندگی میں قرآن کے کسی حکم پر عمل نہ کیا۔ خواہ اس نے ساری زندگی جہنم کا ایندھن ہی جمع کیا ہو، وہ شراب نوش ہو، وہ سود خور ہو، وہ غریبوں کے حقوق سلب کرنے والا ہو، وہ ظالم ہو، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کا عقیدہ ہی صحیح نہ ہو،  وہ یورپ کا مقلد ہو، وہ ملحد ہو،وہ مشرک ہو، خواہ وہ کچھ بھی ہو لیکن مسلمان خاندان سے اس کا تعلق ہو تو ہم قرآن خوانی کروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس کو جنت کا حقدار بنا دیا۔ 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر ۔

ہم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر ۔

Wednesday 17 March 2021

ذکی احمد:شخصیت اورشاعری__ایک مطالعہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ

 ذکی احمد:شخصیت اورشاعری__ایک مطالعہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ




ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم حاجی پوری کانام وکام علمی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے، وہ مختلف موضوعات پرلکھتے رہتے تھے، سمیناراور ادبی پروگراموں میں ان کی شرکت ہوتی رہتی تھی۔ ایک بڑی خوبی ان میں یہ تھی کہ کسی بھی سمینار میں خالی ہاتھ نہ جاتے تھے اورنہ آتے تھے۔ خالی ہاتھ نہ جانے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہیں کہ بغیر مقالہ کے شریک نہیں ہوتے تھے،رہ گئی خالی ہاتھ نہ آنے کی بات تو اس کامطلب نذرانہ،محنتانہ اوررخصتانہ نہیں ہے، یہ تومولیوں کو بھی اب لوگ نہیں دیتے جو ہمیشہ سے کارِ ثواب سمجھا جاتا رہا ہے، ڈاکٹر مشتاق احمد کوکون دیتا ، میری مراد معلومات سے دامن بھرکرلوٹنے سے ہے۔ان کا بس چلتا  تو سارے مقالے حاصل کرلیتے تھے، نہیں تو اتنی بارفون کرتے اور اتنا خط لکھتے کہ آپ کو دینا ہی ہوتا، جب مقالے حاصل ہوجاتے تو اب ان پر کتاب تیار کرتے ،نہیں ممکن ہوتاتو سارے مقالے کو کسی رسالہ کو بھیج دیتےتاکہ گوشہ ہی آجائے۔ اب جب کتاب چھپ کرآئی ، کسی پرچہ کا گوشہ آیا تو آپ دیکھ کر متحیر ہوتےکہ اچھا! اتنا شاندار کام ہوا، اتنا خوبصورت چھپا، اتنا قیمتی مجموعہ آگیا۔ مشتاق صاحب ہیں کہ سب سے داد وصول کررہے ہیں۔

 میں ان کے نام کے آخری مشتاق پر ہمیشہ غور کرتا رہاہوں کہ آخر اس کاکیا مصرف ہے؟ کبھی دوچار مصرعے توان سے سنے نہیں، کبھی ایسے ہی دیوان بغل میں دبائے آکھڑے ہوتےکہ یہ رہی عمربھر کی کمائی اوریہ رہا دوسرے مشتاق کا کمال، یعنی پہلا مشتاق احمد نثر کا اور دوسرا مشتاق شاعری کا،تو اوربات ہے۔ جب تک ایسا محیرالعقول معاملہ سامنے نہیں آتا،اور اب آبھی نہیں سکتا ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر جو کچھ وہ لکھتے رہے تھے اور جس طرح کتابیں تیار کرتے تھے، اس کی داد وصول کرنے کے لیے ایک دوسر ا مشتاق بھی تخلص کی شکل میں ساتھ لگارکھا تھا۔

یہ تمہیداس لیے قائم کی گئی ہے تاکہ آپ کوبتائوں کہ ایسے ہی سمیناری مقالوں پر مشتمل ایک سوبار ہ صفحات کا ایک مجموعہ ذکی احمد کی شخصیت اور شاعری پرابھی جلوہ افروزہے،ٹائٹل ، سبحان اللہ، کاغذ وطباعت ماشاء اللہ اورمواد الحمدللہ، آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ، دل میں دیکھ کر فرحت و سرور کی لہر اٹھتی ہے اور دماغ شاد کام ہوتاہے۔ 

ڈاکٹر مشتاق احمدنے اس کتاب میں ذکی احمدکی شخصیت اور شاعری پر ڈاکٹر ممتازا حمد خاں،مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، انوارالحسن وسطوی،سید مصباح الدین احمد، مشتاق شمسی، عبدالرافع، ارشد ترابی، ڈاکٹر شکیل احمد خاں ، عارف حسن وسطوی، کے مقالے جمع کیے ہیں ، ناصرزیدی ، واحد نظیر، عبدالغفور شمس کا منظوم کلام بھی شامل کتاب ہے۔پروفیسر ثوبان فاروقی نے حسب روایت مختصر مگر جامع لکھا ہے۔ نذرالاسلام نے ’’اس کتاب کے بارے میں‘‘ جو کچھ لکھا ہے وہ وقیع بھی ہے اورقیمتی بھی، ان کوپڑھتے وقت مجھے بہت غصہ آتاہے، کہ انھوں نے لکھنا اور چھپنا کیوں بند کردیاہے؟ فکر معاش کے ساتھ وہ یہ کام بھی کرتے رہتے تو ہمارے ادبی سرمایہ میں قیمتی اضافہ ہوتا، ان کے اس سرمایہ پر ہم سب کا حق ہے اورانھیں چاہئے کہ ہمارا حق ہمیں دیں، ہم تو شریف مولوی ٹھہرے، بعض لوگ حق چھیننے پر بھی یقین رکھتے ہیں اورتحریریں جبرواکراہ کے ساتھ بھی وجود میںآتی رہتی ہیں، برضا ورغبت کی اس میں قید نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نظمی کا قلم اس کتاب پرلکھتے وقت خوب چلا ہے، اندرکی بات مشتاق صاحب ہی بتاتےکہ یہ برضا ورغبت ہے یا بالجبر واکراہ۔

کتاب پرلکھتے وقت نظمی کی جو کیفیت رہی ہو، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ذکی احمد ہم سب کی پسند ہیں،ان کی شخصیت میں جو سادگی اورجاذبیت ہے، ان کی شاعری میں جو خلوص اورسنجیدگی ہے وہ اہل قلم سے خراج تحسین وصول کرلیتی ہے، ذکی صاحب نے ہر طبقہ کے لیے لکھا ہے، ان کا اپنا مرثیہ ہو،یابچوں کی نظموں کا مجموعہ جھولا، سیل رواں ہو یامیٹھے گیت،ان کی غزلیں ہوں یانظمیں، ان میں ہیئت کی پاسداری ، روایت کا رکھ رکھاؤ ، رچا بسا ہوا ہے۔ پروفیسر ثوبان فاروقی نے بجالکھاہے:

’’ذکی احمد شاعری کے حوالے سے کسی نوع کی بے جا آزادی کے قائل نہیں، ان کی شاعری جدیدیت کے منفی اثرات سے بڑی حد تک گریزاں ہے، ان کی پابند نظمیں ان کے کلاسیکی رجحان کی غماز ہیں، مثنوی کی ہیئت میں ان کا مرثیہ جوان کے نجی حالات اور واقعات پر مشتمل ہے، اسے بجا طور پر جدید اردوشاعری کاایک شاہکار کہنا چاہئے‘‘۔ ان کی غزلیں ان کے لطیف احساسات وجذبات کی مدھم مگر مدھر سرگوشیاں ہیں‘‘۔(حرف اول صفحہ۴)

اس کتاب میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے تین مقالے’’ذکی احمد کی غزل گوئی‘‘ ذکی احمد کی تخلیق _ اپنا مرثیہ‘‘ ایک جائزہ ‘‘جھولا _ایک تبصرہ ایک تعارف ‘‘ شامل ہے۔ جس میں ڈاکٹر ممتازاحمد خاں نے ذکی احمد کی غزل گوئی ، اپنا مرثیہ اورجھولا پرتفصیلی بحث کی ہے۔ ان کی رائے  میں: 

’’ذکی احمد کی غزل میں دھیمے دھیمے پگھلنے کی ایک کیفیت بھی ملتی ہے، حزن کی ایک ہلکی سی رو، ان کی غزل کی رگوںمیں دوڑتی ہے، ان کا لہجہ مدھم اوران کی آواز شکستہ وخستہ معلوم ہوتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کم لوگوں کومعلوم ہے کہ ہمدرد ہیں، یہ ہمدرد ،ہمدردی والا نہیں، تخلص والا ہے۔اس تخلص نے ان کی زندگی میں ہمدردی کوبھی داخل کردیا ہے،عموماً ادیبوں کے ساتھ ان کی ہمدردی ایک ہی بار ہوتی ہے، ایک ہی شخص پرباربار لکھنا وہ پسند نہیں کرتے، لیکن ذکی احمد کی موزونیت، قادرالکلامی اورسادگی ایسی بھائی کہ تین تین مقالہ لکھ دیا، ذکی احمد کی سادگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ سادگی زبان کی بھی ہے اور فکر وخیال کی بھی، بحور،لفظیات ،پیرایہ ہائے اظہار ہر اعتبار سے ان کی غزلیں سادگی کی حامل ہیں، پیچیدہ بیانی،مشکل پسندی ان کی غزل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ذکی احمد لطیف اور مشکل مضمون کوبھی سادہ انداز میں سوچتے اور پیش کرتے ہیں، مگر ان کی سادگی، پھیکی، بے رس اور بے مزہ نہیں ہوتی، بلکہ تازہ شگفتہ، حسین و دلنشیں ہوتی ہے۔ ‘‘(ذکی احمد کی غزل گوئی صفحہ۱۱)

ذکی احمد کی شاہکار تخلیق ’’اپنا مرثیہ‘‘ پر اس مجموعہ میں چار مقالات شامل ہیں۔ ایک ڈاکٹر ممتاز احمدخاں کادوسرا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، تیسرا سید مصباح الدین احمد اور چوتھا ارشد ترابی کا، ڈاکٹرممتاز احمدخاں نے اس کی بڑی خوبصورتی اور خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ:

’’اس میں شاعر کی ذاتی زندگی کے واقعات کے ساتھ آج کے مسلم معاشرے کی اخلاقی،معاشرتی اورتمدنی زندگی کے بے شمار جلوے بڑی بے ساختگی سے جمالیاتی کیفیتوں اور شعری لطافتوں کے ساتھ محفوظ ہوگئے ہیں۔ عصری حسیت کاایسا سادہ اور نادروبدیع نمونہ، جدید ادب میں شاید بہت تلاش کے بعد بھی نہ ملے‘‘۔ 

(ذکی احمد کی تخلیق ’اپنامرثیہ‘ پر ایک جائزہ صفحہ۵)

حالاں کہ غزلوں کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ:

’’ان کی غزل میں سیاسی موضوعات ومعنویت کی تلاش بے سود ہوگی اور ان میں عصری حسیت کا سراغ لگانا کوشش فضول ثابت ہوگا‘‘(ذکی احمد کی غزل گوئی صفحہ۱۰)

ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے تفصیلی مقالہ میں’’اپنامرثیہ‘‘ کے فکر وفن، ندرت خیال اورٹائٹل کے دروبست اور مندرجات کا جائزہ لیاہے اور لکھا ہے کہ:

’’اپنا مرثیہ فنی طور پر مثنوی اورفکری طور پر مرثیہ ہے،اپنابھی اور قوم وملت کابھی‘‘۔

سید مصباح الدین احمد نے ’’اپنا مرثیہ‘‘ کو ایک قلب تپاں کی آواز قراردیاہے۔ لکھتے ہیں:

’’ذکی احمد کی یہ تخلیق وقتی جذبے یا شاعرانہ رنگ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بالغ نظر فنکار، ایک حساس اوردرد مند شاعر کے قلب تپاں کی آواز ہے‘‘۔ (صفحہ ۵۲)

ارشد ترابی نے’’ اپنا مرثیہ‘‘ کو ان کی بالغ نظری اورپختہ سیاسی شعور کا آئینہ دار قراردیا ہے۔لکھتے ہیں:

’’چھوٹی بحر میں یہ اشعار ان کی بالغ نظری اورپختہ سیاسی شعور کے آئینہ دار ہیں جن سے قنوطیت کے بدلے حرکت وعمل کا درس ملتاہے‘‘۔(صفحہ ۶۷)

’’جھولا‘‘ ایک تبصرہ ایک تعارف میں ڈاکٹر ممتازاحمدخاں نے ہمیںبتایاہے کہ:

’’ یہ نظمیں نرسری کے بچوں کے لیے نہیں بلکہ کچھ ہوش مند بچوں کے لیے ہیں۔ اس لیے اس میں شاعر سے اعلیٰ شعری تخلیق اورفلسفے کی توقع نہیں کی جانی چاہئے، یہاں علامتوں،اشاروں،کنایوں، ابہام ، استعاروں کی گنجائش نہیں ہوتی،اس کے باوجود یہ نظمیں، جس مقصد کے تحت لکھی گئی ہیں، اس میں یہ بے حد کامیاب ہیں، زبان کی چاشنی ،دل کی منظر نگاری، دلنشیں نصیحت یہ سب چیزیں اس طرح آپس میں شیر وشکر ہوگئی ہیں کہ ان کو الگ الگ کرکے دکھانا مشکل ہے‘‘۔(صفحہ ۸۲)

مجموعی طورپر ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ:

’’ذکی احمد کی شاعری لفظوں کی بازی گری ،اوزان وبحور اورہئیتوں کے نت نئے تجربوں کی شاعری نہیں ہے،وہ روایتی ہئیتوں اور سانچوں میںبڑی سادگی اورسہولت سے اپنے احساسات وتاثرات کی ترجمانی کرلیتے ہیں ، ہندی الفاظ کے برمحل استعمال سے ان کاکلام اور ہنس مکھ ہوجاتا ہے‘‘۔(صفحہ ۸۰)

ڈاکٹر صاحب کے مقالوں پر تبصرہ کچھ طویل ہوگیاہے، کیاکیجئے گا؟ بعض لوگوں پر لکھنے بیٹھئے تو ’’چل مرے خامے بسم اللہ‘‘ کہئے اورقلم جوچلتا ہے تورکتا ہی نہیں، میں نے بھی اسے آزاد چھوڑدیا، اس لیے بھی کہ ہم عصروں میں ڈاکٹر مشتاق کاامتیاز ،ممتاز کی بے پناہ توجہ کا رہین منت ہے۔ اس زاویہ سے سوچئے تو یہ حق تھاکہ ان کے مقالوں پر گفتگو طویل ہو۔

آگے بڑھئے، ایک اور مقالہ نگار کا ذکر کرتے ہیں اوروہ ہیں انوارالحسن وسطوی ’’آشیانہ‘‘ میں ’’گھر‘‘ بنارکھاہے۔انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری ہیں،لکھتے بھی ہیں اور چھپتے بھی ہیں، کسی مہینے میں تحریر نظر سے نہ گزرے تواندیشہ ہونے لگتاہے کہ مزاج دشمناں ناساز تونہیں، ممتاز ومشتاق کے ساتھ جب تک ان کا نام نہ لیاجائے ، مثلث بنتا ہی نہیں، اب مثلث کون سمجھتا ہے، چلئے تربھج سمجھئے، اردو آبادی میں بھی اب مثلث ، مربع، مساوی الاضلاع جیسی اصطلاحیں اجنبی ہوگئی ہیں۔ اسی لیے مثلث کو تربھج سمجھانا پڑتاہے۔ کس کوکہئے اورکس کاماتم کیجئے۔ 

بہر کیف! بات چل پڑی ہے انوار الحسن وسطوی کی ،ان کے دومقالے ’’ذکی احمد__ ایک تعارف ایک تاثر‘‘ اور’’بچوں کا شاعر__ذکی احمد‘‘ اس مجموعے میں شامل ہیں۔ دیگر مقالہ نگاروں نے شاعری پربہت کچھ لکھ ڈالا تھا شخصیت پر گفتگو کم ہوئی تھی، اس لیے یہ مقالہ اگر شامل کتاب نہ ہوتا توذکی احمد کی حیاتی تقویم کی کمی کھٹکتی اورشخصیت کاگوشہ تشنہ رہ جاتا، انوار الحسن وسطوی نے اس مقالہ میںان کی خاندانی وجاہت ، علمی پس منظر اور دیگر مشغولیات کا تفصیل سے ذکر کیاہے ۔اوربجا لکھا ہے کہ:

’’ان بزرگوں کی صحبت نے ذکی احمد کی شخصیت کوجلابخشی،دینی، علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے وہ شریف النفس سنجیدہ اور مثالی انسان بن سکے‘‘۔ (صفحہ ۳۷)

بچوں کا شاعر ذکی احمدمیں انوارالحسن نے ان کی شاعری کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی ہے اوربچوں کے لیے ان کی جو شاعری ہے اس کابھرپور جائزہ لیاہے ، انھوں نے عبدالقوی دسنوی کے حوالہ سے ہمیں یہ بتایاہے کہ بچوں پرلکھناکتنا دشوار ہے۔ موضوعات کے تنوع کے باوجود بچوںکے لیے جو شاعری ذکی احمد نے کی ہے اس کاامتیاز انوارالحسن وسطوی صاحب کی نظرمیں یہ ہے کہ:

’’تمام نظموں میں بچوں کو پند ونصیحت کی ہے،کہیں اخلاقی در س ہے تو کہیں عمل کی ترغیب، کہیں حصول علم کی تلقین ہے تو کہیں علم حاصل نہ کرنے کے نقصانات کابیان‘‘۔ (صفحہ ۴۳)

انوارالحسن صاحب نے انھیں اسمٰعیل میرٹھی اور شفیع الدین نیر کی طرح بچوں کا شاعر تو نہیں ماناہے ،البتہ انھیں دوسرے بڑے شاعروں کے ساتھ ادب اطفال میںجگہ دی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ادب اطفال میںان کی جو تخلیقات ہیں ان کی بناء پر نظیرؔاکبرآبادی، محمد حسین آزادؔ، الطاف حسین حالیؔ ،افسرؔ میرٹھی،حفیظؔ جالندھری،علامہ اقبالؔ، احمد ندیمؔقاسمی، اسلمؔ جیراجپوری ، جگن ناتھ آزادؔ، سراج انور اورعلقمہ شبلی جیسے شاعروں کی صف میںضرور شامل کیاجاسکتاہے‘‘۔(صفحہ ۴۷)

لیکن جناب عبدالرافع صاحب کی رائے ہے :

’’بچوں کے شاعر کی حیثیت سے اسماعیل میرٹھی اورشفیع الدین نیر کے بعد اگر اعتماد کے ساتھ کسی شاعر کانام لیاجاسکتاہے تو وہ ذکی صاحب ہی ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی نظموں کے لیے موضوع کاانتخاب اورپھر ان کاانداز بیان، اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی نظموں میںطنز بھی ہے۔ مزاح بھی ہے، پندونصائح بھی ہیں، اخلاق وکردار سازی بھی ہے‘‘۔( سیل رواں ۔ایک مطالعہ ،صفحہ ۵۶)

عبدالرافع صاحب نے ذکی احمدکی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے:

’’وہ ایک اچھے استاذ بھی ہیں، ایک قادر الکلام شاعر بھی ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ ایک نہایت ہی اچھے انسان ہیں، مخلص، ملنسار، بااخلاق ، نرم خو اور نرم گو، بے حد پاک طینت ‘‘۔ (صفحہ۵۳)

دوسرے مقالہ نگاروں کی طرح عبدالرافع صاحب نے بھی سادگی، بے ساختگی ، پرکاری، شدت جذبات کااظہار اورموضوع کے انتخاب کوان کی شاعری کی خصوصیات قراردیاہے اورلکھا ہے :

’’ذکی صاحب کی شاعری میں مطالعہ بھی ہے،مشاہدہ بھی ہے، فکر بھی ہے اور تدبر بھی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ انفرادیت بھی ہے‘‘۔(صفحہ ۵۶)

مشتاق شمسی نے ذکی احمد کوبے نیاز شاعر قرار دیاہے،جنھیں نہ صلے کی تمنا ہے اور نہ ستائش کی خواہش، وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہیں، ان کے اشعار کی شگفتگی اصل ہے، حالاں کہ وہ پوری زندگی غم دوران اور غم جاناں کے شکا ررہے ہیں،مشتاق شمسی نے دوسرے کئی مقالہ نگارں کی طرح ان کی نثر نگاری پربھی اپنی رائے دی ہے اورخوب دی ہے۔لکھتے ہیں:

’’ذکی احمد صرف شاعر ہی نہیں بلکہ منفرد انداز کے نثرنگار بھی ہیں اگرچہ اردومیں انھوں نے کم لکھاہے؛ لیکن جوکچھ لکھا ہے وہ جامع ہے اور چند صفحات کی تحریر طولانی تحریروں پربھاری ہے، اس میں خلوص ، سچائی ،شگفتگی اورروانی ایسی ہے کہ پڑھتے وقت قاری اپنا سب کچھ بھول جاتا ہے، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، مشتاق احمد نوری ، شفیع جاوید،پروفیسر نجم الہدیٰ وغیرہ ذکی احمد کی نثر کے بے حد معترف ہیں‘‘۔

پیش لفظ کوبھی مضمون مان لیجئے توڈاکٹرمشتاق احمد مشتاق کے دومضامین اس مجموعہ کی زینت ہیں، پیش لفظ میں انھوںنے عرض حال کیاہے،تاکہ ہم پرشش احوال سے بچ جائیں، اور ذکی احمد شخصیت کے چند گوشے میں انھوں نے ذکی صاحب کی شخصیت کے بعض اہم گوشوں پرروشنی ڈالی ہے اوران کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں سے بھی روشناس کرایاہے، انھوںنے ہمیں برمحل یہ مشورہ بھی دیاہے :

’’ہم لوگوں کو اپنے ادباء وشعراء کااحترام کرناچاہئے اورانھیں صحیح مقام دینا چاہئے‘‘ (صفحہ ۷۸)

مشتاق صاحب نے یہ مشورہ ہی نہیں دیاہے بلکہ اس ڈگر پر چل کر سمت سفر کی تعین بھی کی ہے۔ اس بناپر کہاجاسکتاہے کہ وہ قول وعمل کے تضاد کے نہ قائل ہیںاورنہ شکار۔آج کے اس دور میں یہ بڑی بات ہے۔

ڈاکٹر شکیل احمد خاں لکچرر شعبہ اردو سبھاش چندر بوس میٹنری کالج لال باغ مرشد آباد نے ذکی احمد کی نظم نگاری کو اپنا موضوع سخن بنایاہے۔ انھوںنے ان کی شاعری کوچار ادوار میں تقسیم کیاہے۔انھوں نے پہلے دور میں جو ۱۹۰۹ء سے شروع ہوتاہے غزلوں کی کثرت اورچند نظموں کا تذکرہ کیاہے ، دوسرا دور ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۵ء تک ہے جس میں مناظر قدرت اورذاتی تجربات کوانھوں نے اشعار میں ڈھالا ہے ۔تیسرا دور ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۵ء کا ہے جب بچوں کے لیے نت نئی ہندی اردو میں انھوں نے نظمیں لکھیں۔ چوتھادور ۱۹۷۶ء سے تاحال ہے، جس میں مختلف موضوعات پر انھوں نے نظمیں لکھی ہیں، جن میں ذہنی بالیدگی اور فنی پختگی ہے۔ شکیل احمد خاں نے نظم کے حوالہ سے جذبات نگاری، منظرنگاری وغیرہ پربھی بحث کی ہے۔

اس مجموعہ کاآخر ی مضمون ’’ذکی احمد ادبیوں کی نظرمیں‘‘ ہے،ا ن میں نادم بلخی، پروفیسر نجم الہدیٰ، حسن امام درد، ڈاکٹررئیس انور، عبدالمنان طرزی، عفت موہانی، مشتاق احمد نوری، کلدیپ گوہر، ڈاکٹر نجیب اختر، ڈاکٹرریحان غنی اور واحدنظیر کے آراء شامل کیے گئے ہیں۔ مجموعہ میں جن حضرات کے مقالے ہیں، ان کی آراء شاید تکرار کے نقطۂ نظر سے شامل نہیں کی گئی ہیں۔ اگر ا ن کوبھی شامل کرلیاجاتا تو یہ جامع مقالہ ہوجاتاکیوںکہ ہر مقالہ غزل کے شعر کی طرح ایک اکائی ہوتاہے، اور اس اکائی کوجامع ہونا چاہئے۔ اس مجموعہ سے نکال کر اس مقالہ کودیکھیں تو تشنگی کااحساس ہوگا۔

مجموعہ میں ناصر زیدی کا منظوم خط بہ نام ذکی احمدشامل ہے۔ جواصلاً ’’اپنا مرثیہ‘‘ ملنے کی رسید ہے۔ جس میںاپنا مرثیہ بھیجنے اوریادآوری کا شکریہ اداکیا گیاہے۔ واحد نظیر نے ۲۳؍اپریل ۱۹۹۵ء کوالوداعیہ کے موقع سے عقیدت کے جو پھول کھلائے تھے، اس کوبھی شامل کتاب کرلیاگیاہے۔ واحد نظیر نے ذکی احمد کومیل کا وہ پتھر قراردیاہے جس سے منزل کا نشان ملتاہے۔

جس سے منزل کا نشاں ہم پائیں گے

اے ذکی وہ میل کا پتھر ہے تو

پروفیسر عبدالغفور شمس کے ندرانۂ خلوص پریہ کتاب ختم ہوتی ہے۔ یہ نذرانہ خلوص ۱۶؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مدرسہ فردوس العلوم لعل گنج ویشالی کے الوداعیہ میں پیش کیا گیاتھا۔ عبدالغفور شمس بقامت کہتر اوربہ قیمت بہتر کے صحیح مصداق ہیں اردو ،فارسی، عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے اور اچھی شاعری کرتے ہیں، نذرانۂ خلوص کے یہ چند اشعار دیکھئے اورمجھے اجازت دیجئے۔

یہ علاقہ تیرے خونِ دل سے لالہ زار ہے

اب کہاں آئے گا کوئی تجھ سا دیوانہ ذکی

علم و فن کا یہ چمن تھا تیرے دم سے پُربہار

تو تھا اک روشن دیا اور ہم تھے پروانہ ذکی

ہم نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے کبھی صحبت تری

یاد آئیں گے ہمیں بے اختیارانہ ذکی

مدرسہ، اسکول، یہ غربت کدے اور یہ ڈگر

دم بخود ہیں آج کھوکر تجھ سا مستانہ ذکی

ہادیٔ دیں، مرثیہ ، جھولا وہ تصویرِ بتاں

نغمات خواند شبان عندلیبانہ ذکی

تو رہے چاہے جہاں بھی شادکام زندگی

گرددت ہر روز افزوں شان جانانہ ذکی

Sunday 14 March 2021

قرآن پاک کا محافظ خود رب کائنات ہے اس لیے تبدیلی ناممکن ۔فیروز

 قرآن پاک کا محافظ خود رب کائنات ہے اس لیے تبدیلی    

 ناممکن ۔فیروز عالم  


(بتیا/پریس ریلیز )




آج مورخہ۱۴ مارچ سنہ ۲۰۲۱ء بروز اتوار کو بہاراسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن کے صوبائی سیکریٹری وضلع صدر محمد فیروز عالم کے صدارت ایک اہم نشست ہوئی جس میں صوبائی سکریٹری وضلع صدر محمد فیروز عالم نے کہا کہ قرآن کریم اللہ کی دی ہوئی وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کی ترمیم صبح قیامت تک نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ اللہ تعالی نے خود ا سکی حفاظت کو ذمہ دار لی ہے!

لیکن وسیم رضوی جیسا ملعون سستی شہرت اور ناپاک سیاست کو چمکانے کے لئے اس طرح کی گھٹیا حرکت کیا ہے،جس کو کبھی براداشت نہیں کیاجائے گا یقینا یہ کھیل قانونی شکنجےسے بچنے اور فیشن کے طور پر پر سیکورٹی حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا، ہم سپریم کورٹ سے گزارش کرتے ہیکہ قرآن مقدس کے خلاف داخل پیٹشن پہلے ہی نظر میں خارج کرتے ہوے اسکے اوپر قانونی کاروائی کرے کیونکہ اس کافر وسیم رضوی نے آئینی حق کا ناجائز استعمال کرتے ہوے ملک کے حالات کو خراب کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ یہ مذہبی آزادی اور عقیدت کا مسئلہ ہے جو کہ عدالت کے دائرہ اختیار سےباہر ہے باوجود اس کے اس نے سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے امن وامان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے جس پوری دنیا کے مسلمان اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اخیر میں ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معلون وسیم رضوی کو گرفتار کر اس پر مقدمہ چلایا جائے ورنہ ملک کا امن و امان بگڑ جائے گا!

Friday 12 March 2021

कल से सभी राष्ट्रीयकृत बैंक हड़ताल पर अपने बैकिंग कार्यों को शीघ्र ही करलें निष्पादन पैसों के अभाव में एटीएम भी हो सकते हैं बंद

कल से सभी राष्ट्रीयकृत  बैंक हड़ताल पर अपने बैकिंग कार्यों को शीघ्र ही करलें  निष्पादन पैसों के अभाव में एटीएम भी हो सकते हैं बंद!



 जिन लोगों का राष्ट्रीयकृत बैंक में खाता है उनका अगर बैंक में कोई बेहद जरूरी और महत्वपूर्ण काम है तो इस जल्द निपटा लेने का आज मौका है। क्योंकि, शनिवार से मंगलवार तक बैंक लगातार बंद रहेंगे। शनिवार को सभी बैंकों में दूसरे शनिवार का अवकाश है। अगले दिन रविवार है।

इसके अलावा सोमवार 15 मार्च और मंगलवार 16 मार्च को यूनाइटेड फोरम ऑफ बैंक यूनियन की ओर से सभी राष्ट्रीयकृत बैंकों में हड़ताल का ऐलान किया गया है। जिसके चलते राष्ट्रीयकृत बैंक बंद रहेंगे। बुधवार को सभी बैंक खुलेंगे। आज शुक्रवार को और हड़ताल के बाद बुधवार को बैंक खुलने पर बैंकों में ग्राहकों की भारी भीड़ उमड़ने की संभावना है।


आपको बता दें कि सरकारी बैंकों के निजीकरण के प्रस्ताव के खिलाफ यूनाइटेड फोरम आफ बैंक यूनियंस (यूएफबीयू) ने 15 मार्च से दो दिन की हड़ताल का आह्वान किया है। यूएफबीयू नौ बैंक यूनियनों का संयुक्त मंच है।

वित्त मंत्री निर्मला सीतारमण ने पिछले महीने पेश आम बजट में सार्वजनिक क्षेत्र के दो बैंकों के निजीकरण का प्रस्ताव रखा है। सरकार ने अगले वित्त वर्ष में विनिवेश के जरिये बड़ी राशि जुटाने का प्रस्ताव किया है। सरकार इससे पहले आडीबीआई बैंक में अपनी अधिकांश की हिस्सेदारी भारतीय जीवन बीमा निगम को बेच चुकी है। पिछले चार साल में सार्वजनिक क्षेत्र के 14 बैंकों का विलय किया जा चुका है।

आल इंडिया बैंक एम्पलायीज एसोसियेसन (एआईबीईए) के महासचिव सी. एच. वेंकटचलम ने एक वक्तव्य में कहा कि 4,9, और 10 मार्च को मुख्य श्रम आयुक्त के साथ हुई समाधान बैठक में कोई सकारात्मक परिणाम नहीं निकला। ''इसलिये 15 और 16 मार्च 2021 को लगातार दो दिन हड़ताल का फैसला किया गया है। बैंकों के करीब 10 लाख कर्मचारी और अधिकारी इसमें भाग लेंगे।

भारतीय स्टेट बैंक सहित ज्यादातर बैंक अपने ग्राहकों को इस बारे में सूचित कर चुके हैं। बैंकों ने हालंकि, यह भी कहा है कि वह बैंक शाखाओं में कामकाज को सामान्य बनाये रखने के लिये हर संभव प्रयास कर रहे हैं।

यूनाइटेड फ्रंट और बैंक यूनियंस (यूएफबीयू) में आल इंडिया बैंक एम्पलायीज एसोसियेसन (एआईबीईए) आल इंडिया बैंक आफीसर्स कन्फेडरेशन (एआईबीओसी) नेशनल कन्फेडरेशन आफ बैंक एम्पलायीज (एनसीबीई) आल इंडिया बैंक आफीसर्स एसोसियेसन (एआईबीओए) और बैंक एम्पलायीज कन्फेडरेशन आफ इंडिया (बीईएफआई) शामिल हैं।


Tuesday 9 March 2021

عائشہ کی خودکشی ذمہ دار کون؟

  عائشہ کی خودکشی ذمہ دار کون؟

۔از قلم۔ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

جگیراہاں،بتیا رابطہ8651781747

احمدآباد کی رہنے والی عائشہ نامی لڑکی جہیز کی وجہ سے مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے بالآخر مردکی بے وفائی و بے غیرتی کا مقابلہ نہ کرسکی اور زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے سابرمتی ندی کی روانی میں اپنی زندگی کو پانی کی طرح بہا دیا اور خودکشی کرلی۔اس نے خودکشی سے قبل ندی کے پاس  ایک ویڈیو بھی بنایا جو اس پہ گزرنے والی داستان کو بیان کرتا ہے یوں تو عایشہ ویڈیو میں چہرے کی مسکان کے ساتھ بات کر رہی ہے مگر اسکے چہرے کی چمک کے پیچھے غموں کا ایک سمندر ہے جو اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نہی چھپتا۔ یہ ویڈیو کءی اعتبار سے کافی اہم ہے اس ویڈیو میں انسانیت کا ماتم ہے قانون کی بالادستی کی مسخ شدہ تصویر ہے حقوق انسانی کے علمبرداروں کے لئے لمحہ فکر ہے، مودی کے گجرات ماڈل کی ایک جھلک ہے ، تو وہی مسلم معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ ہے اور  علمائے دین  کے لئے ایک تازیانہ بھی !

ویڈیو دیکھنے اور اس لڑکی کے چہرے کے چڑھتے اترتے نقوش کو پڑھنے کے بعد ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس قدر برے برتاؤ کا بالکل حقدار نہیں تھی جو اس کے ساتھ روا رکھا گیا ،بلکہ وہ ایک پڑھی لکھی،ہنس مکھ اور بے حد محبت کرنے والی تھی ورنہ موت سے قبل اس قدر خود اعتمادی کے ساتھ بھی کوئی مسکراتا ہے !!! اس نے اس حادثہ سے قبل تک اپنے شوہر کو اپنی محبت کا احساس دلانے کی کوشش کیا تھا جو سب رایگان گیا اور یہ سب کے سب نحوست تھی اس براءی کی جسے ہم "جہیز"کے نام سے جانتے ہیں ۔

    بلاشبہ جہیز معاشرے کا ناسور ہے جو ہندستانی معاشرے کی تہ تک پھیلا ہوا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ  جہیز نامی وایرس نے اپنا بھیانک روپ اختیار کر لیا ہے جس کی دہشت نے سب کو پریشان کر رکھا ہے اس کی لپیٹ میں‌نہ جانے کتنی جانیں آچکی ہیں۔ لا تعداد والدین اپنی بچیوں کو مادر رحم میں اس لئے مار دیتے ہیں کہ انہیں شادی کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا ہوگا دور جاہلیت کی طرح آج بھی بچی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو کچھ والدین کے چہرے کالے پڑجاتے ہیں انہیں بچیوں کی پیدائش ناخوشگوار لگتی ہے جہیز جیسے معاشرتی برائی کی وجہ سے کتنی بیٹیاں اپنے گھروں میں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور اپنے ہاتھوں پر مہندی سجانے کا انتظار کر رہی ہیں جہیز کی نحوست کا اندازہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہےکہ اس نے نکاح جیسی آسان و عظیم‌ سنت کو مشکل بنا دیا ہے جبکہ اسکی وجہ سے زنا جیسا عظیم‌ گناہ آسان ہوگیا ہے اور یہ صورت‌حال مکمل ہندستانی ‌معاشرے کا ہے جس میں ہر اقوام ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی وغیرہ شامل ہیں اگر ہم‌بات کرتے ہیں صرف مسلم معاشرے کی جو اپنی زندگی کہ ہر فعل و عمل اور روز مرہ کی زندگی میں شریعت مطہرہ کے اصولوں کا پابند ہے جس کا یقین‌آخرت اور مرنے کے بعد حساب و کتاب پر ہے اسکی بھی حالت نازک تر ہے شریعت اسلامی میں جہیز جیسی کوئی چیز نہیں یہاں تو نکاح کو آسان کرنے، عورتوں سے محبت کرنے، ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی بات کی گءی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین نعمتوں میں سے ایک عورت بھی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں کی نگاہوں سے یہ حقیقت کوسو دور ہے یا وہ ان حقائق سے واقف ہوتے ہوءے بھی اس کوقبول  کرنے سے قاصر ہیں دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو مسلمان ہونے کا کرتے ہیں مگر شریعت کے قوانین کو ٹھکرا کر اللہ کی نعمتوں اور وعدوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں  اور عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں جہیز کے پس منظر‌میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ مرد کو اللہ نے نظام‌عالم کو چلانے،گھریلو امور کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی ہے فرمایا گیا‌ہے "عورتوں کی بہ نسبت مردوں کو زیادہ ذمہ دار بنایا گیا ہے "اس لیے مرد کی مردانگی یہ ہیکہ وہ محنت کرے بزنس کرے اسکے لیے اسباب اکٹھا کرے نوکری چاکری کرے مگر تف  ہے آج کے نوجوانوں پر ان کی جوانی پر قوت بازو ہوتے ہوئے بھی عورت سے پیسہ کماتے ہیں اور شادی سے قبل و بعد طرح طرح کی فرمائش کرتے ہیں جس کو ادا نہ کرنے پر تعلقات خراب ہوتے ہیں دو خاندانوں‌اور دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں جس کا انجام فساد،مقدمہ بازی،خوں ریزی ،اور خود کشی ہوتی ہے ایسے جوانوں کو جوان کہتے ہوئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے یا اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن‌لینی چاہیے۔       لوگوں کو مال و زر کی لالچ نے اس قدر بے پرواہ کردیا ہیکہ عوام و خواص سب اس جہیز نامی حمام میں ننگے نظر آتے ہیں ہم نے بہت سے علماء،مدارس کے فضلاء لمبی داڑھی رکھنے والوں اور منبر و محراب سے دہاڑ دہاڑ کر تقریریں  کرنے والوں کو جہیز کا‌مطالبہ کرتے یا مطالبہ کے وقت خاموش حمایت کرتے دیکھا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عایشہ جیسی خودکشی یا جہیز کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی کا اصل ذمہ دار کو‌ن ہے ؟اور معاشرے سے جہیز کی بیماری کو کیوں کر ختم‌کیا جا سکتا ہے ؟جہیز ایک ایسی بیماری ہے جو صرف قانون بنانے یا قانون کے دفعات کو نافذ کرنے ،لمبی لمبی تقریریں کرنے،بڑے بڑے مضامین لکھنے،پوسٹر بازی کرنے،یا چوک چوراہوں پر رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ  کرنے سے ختم نہی کیا جا سکتا بلکہ سماج و معاشرے کے ہر فرد کو اس سماجی برائی کے خاتمے کے لیے مل کر کوشش کرنی ہوگی عایشہ کی خود کشی کے پس منظر میں ہم بلاشبہ کہ سکتے ہیکہ اس خود کشی کا ذمہ دار معاشرے کا ہر ذی شعور فرد ہے قانون کی پاسبانی کر رہے اس کے رکھوالے بھی ہیں حقوق انسانی کے لیے آواز اٹھانے والے افراد و ادارے بھی ہیں مذہب کے رہنماء بھی ہیں بلکہ ہندوستان کا ہر وہ شہری ہے جو شوشل ریفارمنگ سے دل چسپی رکھتا ہے کیوں کہ اگر وہ خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیے ہوتے تو اس خودکشی کی نوبت نہیں آئی ہوتی یا ہر سال ملک ہندستان میں سات ہزار جہیز کے جو کیسیز آتے ہیں اس کی شرح میں کمی آءی  ہوتی اس لیے اگر ہم‌ جہیز جیسی براءی سے معاشرہ کو پاک کرنا چاہتے ہیں اگر ہم‌چاہتے ہیں کہ عایشہ کی طرح ہمارے ملک کی دیگر بیٹیاں نہ ماری جاییں نہ جلاءی جاییں تو ضروری ہے کہ ہمارے قانونی سسٹم کو چاک و چست کیا جائے حکومت کے لیڈیز فرسٹ کے دعوے کو درست طریقے سے زمینی سطح پر نافذ کیا جاءے نوجوانوں کو خاص کر پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس کے لئے پہل کرنی ہوگی محبت،ہمدردی اور انسانیت کے جذبات کو فروغ دینے ہوں گے بیٹی اور بہو کے فرق کو مٹانا ہوگا اور چونکہ عایشہ کا معاملہ مسلم معاشرے سے تعلق رکھتا ہے اس لیے پوری ذمہ داری کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں اور ملت سے درد رکھنے والے حضرات کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ہمارا حال تو یہ ہیکہ اگر کچھ مولوی حضرات ایسے شادیوں میں جن میں ناچ گانے بینڈ باجے یا جہیز کی لین دین ہو نکاح پڑھانے سے انکار کرتے ہیں تو  کچھ ایسے بھی بھکاری مولوی مل جاتے ہیں جو ساری صورتحال سے واقف ہوتے ہوئے بھی نکاح پڑھا دیتے ہیں اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ عائشہ کی خود کشی کے ذمہ دار ایسے ناعاقبت اندیش دولت وثروت کے لالچی "ملانے" بھی ہیں جن کی لا پرواہی سے یہ نازک حالات رونما ہو رہے ہیں اس لئے جہیز جیسی سماجی برائی کے خاتمے کے لئے ہم سب کو مل کر کام‌ کرنا ہوگا اور مسلم معاشرے میں پھیلی براءیوں کے خاتمے و مکمل اصلاح کی ذمہ داری علمائے کرام پر زیادہ ہے اس لیے انہیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا سب کے اجتماعی کوشش کے بغیر جہیز جیسی لعنت سے معاشرے کو نہی بچایا جا سکتا۔

              ختم شد  

مدارس کامقام اوراس کاتاریخی پس منظر

 مدارس کامقام اوراس کاتاریخی پس منظر

ابوالبرکات،شاذ،قاسمی، جگیراہاں۔ بتیا


مذہب اسلام میں اسلامی دعوت کے شروع ہوتے ہی علوم و معرفت کی تحریک رونما ہوئی، جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو "دار ارقم بن ارقم" میں جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی بنیادی باتوں کی تعلیم دے سکیں اور ان کی رہنمائی کر سکیں ایمان بااللہ کو مضبوط و مستحکم کر سکیں اور مستقبل میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے نئی پلاننگ کرسکیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کر نے کے ساتھ ہی اسلام کی دعوت دور دراز ملکوں میں پھیلنے لگی تو مسجد قبا اور مسجد نبوی علوم و معرفت کا مرکز بنی، جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دین کی تعلیم اور وحی کی وضاحت کیا کرتے اور ان کی روحانی تربیت کیا کرتے تھے، یہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ رسول اکرم نے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے ایک مخصوص دن مقرر کر رکھا تھا، جہاں عورتیں جمع ہوتیں اور آپ انہیں تعلیم دیا کرتے تھے ، آپ کے بعد خلفاء راشدین کا زمانہ آتا ہے ان کے زمانے میں خاص طور سے عمر ابن الخطاب کے دور خلافت میں تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی،آپ نے شہروں میں معلمین کو روانہ کیا تاکہ وہ نو عمر بچوں کو دین کی تعلیم دیں خلفاء راشدین نے دینی علوم کو عصری علوم سے زیادہ اہمیت دی اس کا‌یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیاوی علوم بے کار ہیں بلکہ دنیاوی علوم بھی اس وقت مسجدوں اور مکتبوں میں دی جاتی تھیں۔

   اسلامی فتوحات کا سلسلہ وقت کے رفتار کے ساتھ ساتھ جاری رہا اور مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ کو فتح کیا، یہاں تک کہ اسلامی معاشرہ میں تہذیب وثقافت اور علوم و معرفت کے مراکز بھی متعدد ہوتے رہے مسجدیں جہاں تعلیم دی جاتی تھیں طلباء علوم و معرفت سے معمور ہونے لگے، اس وقت تعلیم و تدریس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ معلم یا استاد مسجد کے کسی ستون پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتےاور طلباء یا شاگرد ان کے ارد گرد حلقہ لگا کر بیٹھ جاتے گویا ان میں کا ہر ایک دوسرے کے لئے ستون ہوتا یہیں سے ایک لفظ بہت مشہور ہوا "اساطین العلم"یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جا تا ہے جو اپنے علم میں کافی مہارت رکھتا ہے،

      مرور ایام کے ساتھ یہ حلقہ مساجد؛مسجد کی چہار دیواری سے نکل کر عرب و عجم تک بلکہ پوری دنیا میں پھیلا اور پوری دنیا میں بڑے بڑے دانشور اور علماء پیدا ہوئے جو انہیں مساجد کے حلقوں سے تربیت پائے ہوئےتھے، ان مساجد کا‌علمی پیغام اندلس پہونچا تو وہاں عبد الرحمن الناصر مسجد قرطبہ کے امام و رییس ہو گئےجو سب سے بڑی یونی ورسٹی تھی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی یونی ورسٹی تھی جہاں تعلیم کا مفت انتظام تھا یورپ ایشیا آسٹریلیا افریقہ وغیرہ دور دراز ممالک سے طلباء جوق در جوق آتے یہاں تک کہ مشرق کے نامور علماء جیسے "ابن القوطیہ" معلم نحو "ابو علی التالی" مشہور کتاب "الامانی" کے مصنف وہاں کشاں کشاں پہونچ گئے ان مسجدوں کی تعلیم و ثقافت کی اہمیت کا اندازہ ہم آج بھی کر سکتے ہیں ان میں سے بعض مسجدوں کی دینی و علمی حیثیت آج بھی باقی  ہےمثلا"جامع ازہر مصر"جس کی شروعات مسجد کے حلقوں سے ہوئی تھی مگر آج عصری و دینی علوم کی حفاظت کا ایک مضبوط و مستحکم قلعہ ہے۔ 

      تاریخی شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ ابو درداء ملک شام کے قاری تھےعبادہ بن صامت فلسطین کے معلم تھے؛ ابودرداء کا معمول تھا کہ ہر روز صبح قرآن کریم کا ایک حصہ یا آیت  پڑھ دیتے اور طلباء اسے غور سے سنتےجب قرأت مکمل ہو جاتی تو ہر شخص اپنی صف سے نکل کر سامنے آتا اور اس کو دہراتا پھر اپنی جگہ چلا جاتا یوں یہ سلسلہ آخری فرد تک چلتا رہتا حدیث،تفسیراور علم فقہ کی تعلیم و تدریس کا یہی طریقہ رائج تھا مسجد کا صحن ہر طالب علم کا خواہ اس کی نسل،ملک،ذات و برادری کوئی بھی ہو"خوش آمدید"کہتا اگر استاد لکڑی کے ٹکڑے،کرسی یا کسی اونچی جگہ پر بیٹھا کرتے تعوذو تسمیہ کے بعد قرآن کریم کو کوئی آیت کا املا کرا دیتے اور طلباء اسکو لکھ لیتے یا یاد کرلیتے موجودہ عہد کی طرح کوئی نصابی کتاب موجود نہی ہوتی استاد پڑھاتے وقت آیات کی تفسیر بھی پیش کرتا اور طلباء املا کی کاپیوں پر اس کو حاشیہ کی شکل میں لکھ لیتے جب جملہ پورا ہوجاتا یا بات پوری ہوجاتی تو استاد سبق کی تعین کےلیےایک خط کھینچ دیا کرتے کہ یہاں سےکل آگے پڑھائی  ہوگی اور یہ سب درس و تدریس کا کام مساجد میں ہی انجام دیا جاتا مساجد کے حلقوں سے وابستہ ہونے کےبعد ہر طالب علم پڑھنے پڑھانے میں لگ جاتا اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مساجد اعلیٰ تعلیم کے لئے ادارے تھے رفتہ رفتہ مساجد سے متصل طلباء کےلئے رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا جو آگے چل کر"مروجہ مدارس"کی شکل اختیار کرگیا ان مدرسوں میں رفتہ رفتہ طلباء کے قیام و طعام کا بھی انتظام ہونے لگا ان میں سے بعض ایسے  مدرسے تھے جن میں درس قرآن ، حفظ قرآن ، فقہ و عربی ادب کی تعلیم کا اہتمام تھا تو بعض دیگر فنون کی تعلیم و تدریس میں معروف و مشہور ہوئے خاص طور سے کچھ مدرسے ایسے بھی تھے جس میں  ڈاکٹری، کشتی رانی ،علم کیمیاء و ساءینسی علوم کی تعلیم دی جاتی تھیں اور طلباء کو متعلقہ فن کی ٹریننگ بھی دی جاتی تھی غرض کہ مدارس کا لفظ ہر دورمیں ان  اداروں کےلیے بولا جاتا تھا جہاں دینی و عصری علوم کی تعلیم دی جاتی تھی آگےچل کر یہ ادارے مذاھب اربعہ کے موافق چار قسم کے ہو گئےجن میں  فقہ حنفی،شافعی،مالکی،اور حنبلی کی الگ الگ تعلیم دی جانے لگی تاریخ میں کچھ ایسے بھی ادارے ملتے ہیں جہاں دو مسلکوں کی تعلیم کا سلسلہ اہتمام تھا تو کسی میں اس سے زائد بھی۔اس قسم کی مدرسوں کے لئے تاجر پیشہ و اہل ثروت وقف کیا کرتے تھے تو کبھی شاہ وقت کی نگرانی ہوتی ۔

    اس بات میں شدید اختلاف ہےکہ تاریخ میں سب سے پہلا "مروجہ مدرسہ"کی بنیاد کس نے ڈالی علامہ زرکشی فرماتے ہیں کہ"اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ سلجوقی امیر امیر قوام الدین نظام الملک نے تاریخ کا سب سے پہلا مدرسہ "مدرسہ نظامیہ"بغداد میں 459ھ=1065ءمیں قایم کیا مگر حافظ شمس الدین ذہبی نے اپنی کتاب "تاریخ اسلام" میں اس سے اختلاف کیا ہے ان کا خیال ہے کہ نیشاپور کا "مدرسہ بیھیہ" نظام الملک کی ولادت سے قبل موجود تھا ان کی رائے کی تائید علامہ المقریزی کے اس قول سے ہوتی ہے وہ فرماتےہیں "المدارس بما حدث فی الاسلام و لم تکن تعرف فی زمن الصحابہ و لاالتابعین و انماحدث عملھابعد الاربعماءہ من سنی الھجرہ و اول من حفظ عنہ  مدرسہ فی الاسلام اھل نیشابورفبنیت المدرسہ البیھیہ و بنی بھا ایضا الامیر نصرالدین سبکتلین مدرسہ"

جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مدرسہ کے طور پر "مدرسہ نظامیہ" مشہور ہے مگر شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل نیشاپور میں مدرسہ بیھیہ موجود تھا ۔

اوپر مذکور ہوا کہ مسجدوں کے حلقوں سے منتقل ہوکر مدرسے مسجدوں سے متصل کمروں میں چلے گئے تھے جہاں طلبہ، اساتذہ،شیوخ اور فقہائے کرام کی آرام گاہیں ہوا کرتی تھیں اس بات کی صراحت "ابن القوطی کی"الحوادث الجامعہ میں بھی دیکھ جا سکتی ہے ساتھ ہی مدرسہ مستنصریہ کے بارے میں دکتور احمد فکری کی وضاحت سے بھی ہوتی ہے ان کی تحقیق کے بموجب بھی مساجد کے متصل مدارس کے کمروں میں فقہائے کرام،طلباء عظام،کی رہایش گاہیں ہوتی تھیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اجرت معلومہ پر بھی مدرسین کو رکھا جانے لگا اور وسیع پیمانے پر علمی،تحقیقی اور تدریسی کام انجام پانے لگا۔

مدارس کی تعلیمی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں چند قدیمی مدرسوں کی تاریخ سے بھی واقفیت ہوتی ہے جن کی  تعلیمی خدمات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے گیے ہیں  جہاں اعلیٰ پیمانے پر تعلیم کا باضابطہ انتظام و انصرام تھا ان میں مدرسہ"سلطان حسن قاھرہ" کا نام اہم ہے جو قاہرہ میں سلطان صلاح الدین کے قلعے کے میدان میں واقع تھا اس کا قیام 764ھ=1363ءمیں عمل میں آیا یہ اس وقت کا سب سے بڑا مدرسہ شمار کیا جاتا تھا یہ حلب کے 

"مدرسہ فرد سیہ" کے بعد سب سے بڑا مدرسہ تھا اسی طرح فارس کا "مدرسہ العطارین"بھی ان قدیم مدرسوں میں سے ہے جس کو "مدرسہ عظمی" کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اس مدرسے کی تعمیر ابو سعید عثمان علی الشیخ عبداللہ بن القاسم المزوار کے زمانے میں 723ھ میں ہوئی سلطان ابو سعید الحجر الأساسی نے اس کی بنیاد رکھی ساتھ ہی اس کے لیے کئ عمارتوں کو خریدا اس مدرسے  میں تیس سے پچاس کمرے طلباء کے قیام کے لئے تھےاس مدرسہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جو اساتذہ اس مدرسے کے معلم ہوتے  وہی مشہور "مدرسہ نظامیہ" کے بھی استاد ہوا کرتے تھے علم و معرفت کے قدیم گہواروں میں دمشق کا "المدرسہ العمریہ"بھی تھا 

جسے مجاہدابوعمراحمدبن محمد المقدسی نے 603ھ میں اسے" الصالحیہ _محلہ میں بنوایا تھا پہلے پہل صرف قرآنی علوم کے لیے خاص تھا مگر بعد میں جملہ علوم کی تعلیم دی جانے لگی اس ادارے میں 360کمرے تھے جن میں 500سے زیادہ طلباء رہا کرتے تھے ہمیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ چھٹی صدی ہجری کے اس مدرسے میں ایک ایسی فیکلٹی بھی تھی جس میں نابینا طلباء کی پڑھائی بھی ہوتی تھی ساتھ ہی ایک شعبہ نرسری کے بچوں کی عمدہ تعلیم تربیت کے لیے بھی تھا وہی ایک بڑی لاءبریری تھی جو ہر خاص و عام کی علمی تشنگی بجھانے کو وقف تھی مدرسے کے خرچ کے لیے بڑی اوقاف کی زمینیں تھیں اس کا‌مطبخ رمضان کے مبارک مہینے میں ہرشخص کے لیے کھول دیا جاتا تھا اس قبیل کا ایک اور مشہور مدرسہ "المدرسہ الغزالیہ بقدس" کا بھی تھا جس کی بنیاد نور الدین زنگی کے زمانے پڑ چکی تھی مگر صلاح الدین ایوبی نے اس کی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دی اور اس کی نگرانی و دیکھ بھال کے لیے قطب الدین مسعود نیشاپوری شافعی کو مقرر کیا "مدرسہ غزالیہ" سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہیکہ  ابو حامد غزالی وہاں ٹھہرے تھے اور اپنی مشہور زمانہ کتاب احیاء علوم الدین یا احیاء العلوم کی تصنیف مکمل کی تھی اس میں ایک فیکلٹی قرأت تو دوسرا نحوی علوم کے لئے مخصوص تھا اسی طرح تاریخ کے قدیم مدرسوں میں ایک اہم نام" مدرسہ قایتبای" کا بھی ہے یہ مسجد نبوی کے قریب تھا جسے سلطان قایتبای نے تعمیر کرایا تھا اس مدرسہ میں ہر چار مسلکوں کی تعلیم دی جاتی تھی یہ خاص طور سے یتیم بچوں کی تعلیم کے لئے مخصوص تھا  گویا کہ یتیم خانہ تھا جہاں یتیموں کی تعلیم و تربیت قیام و طعام کا یکساں انتظام تھا ۔غرض کہ یہ سب ان مدارس اسلامیہ کے فیوض وبرکات اور علم ومعرفت کے روشن منارے ہیں جہاں سے ہماری تہذیب و تمدن کو روشنی ملتی ہے اور جہاں سے علوم و معرفت سے معمور اسلامی فتوحات کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوا افسوس کہ آج ہماری تہذیب میں علم کا رمق باقی نہیں اور نہ ہی ہمارے مدارس میں اس قدر ہمہ گیریت! ہمیں روشن و مثالی زندگی گزارنے کےلیے جملہ علوم میں مہارت حاصل کرنی ہوگی اور ہمارے مدارس کے نظام کو دور اول کے مدارس کے موافق کرنا ہوگا

               ختم شد

            غیر مطبوعہ

   ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

        جگیراہاں،بتیا 

رابطہ نمبر865178174

ای میل۔abulbarkat98@gmail.com

معراج کا پیغام :امت مسلمہ کے نام

  معراج کا پیغام  :امت مسلمہ کے نام 



*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ*

-------------------------------------------------------

طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبیٔ رحمت ﷺنے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے : 

’’ الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔‘‘

زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاء اعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج  جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میںسرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے ابنیاء کی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاء کی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟  سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ ﷺ اپنے حجرہ ٔمبارکہ سے نکلے، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول ﷺ نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمۂ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔

تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی ﷺ نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعۂ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا ﷺ لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔

یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو {فَاَوْحَی اِلیٰ عَبْدِہِ مَا اَوْحٰی}کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد{ ذَالِکَ مِمَّا اَوْحَی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ} ( یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں ) کہہ کر واضح کردیا کہ’’ مااوحی‘‘ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔

۱۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ {اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغْفِرُاَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَشَائ}

۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔

واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔

۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو :   والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔

۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجائو کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ،  خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپنائو ۔

۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو:    اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔

۶۔  زنا کے قریب مت جائو:  اس لئے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ پُرا راستہ ہے، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے۔

۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو:   اس حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔

۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جائو:  یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔

۹۔ اپنا عہد پورا کرو: معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

۱۰۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے’’ ویل‘‘ میں ڈالے جائو گے یہ تواخروی عذاب ہے، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔

۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور ﷺ نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرء کذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پائوں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔

۱۲۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو :  اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول  ﷺ نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔

یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشان ہوسکتی ہے آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا ﷺ معراج میں تشریف لے گئے تھے، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے، وہ تاریخ آسکتی ہے، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...