Tuesday 9 March 2021

عائشہ کی خودکشی ذمہ دار کون؟

  عائشہ کی خودکشی ذمہ دار کون؟

۔از قلم۔ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

جگیراہاں،بتیا رابطہ8651781747

احمدآباد کی رہنے والی عائشہ نامی لڑکی جہیز کی وجہ سے مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے بالآخر مردکی بے وفائی و بے غیرتی کا مقابلہ نہ کرسکی اور زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے سابرمتی ندی کی روانی میں اپنی زندگی کو پانی کی طرح بہا دیا اور خودکشی کرلی۔اس نے خودکشی سے قبل ندی کے پاس  ایک ویڈیو بھی بنایا جو اس پہ گزرنے والی داستان کو بیان کرتا ہے یوں تو عایشہ ویڈیو میں چہرے کی مسکان کے ساتھ بات کر رہی ہے مگر اسکے چہرے کی چمک کے پیچھے غموں کا ایک سمندر ہے جو اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نہی چھپتا۔ یہ ویڈیو کءی اعتبار سے کافی اہم ہے اس ویڈیو میں انسانیت کا ماتم ہے قانون کی بالادستی کی مسخ شدہ تصویر ہے حقوق انسانی کے علمبرداروں کے لئے لمحہ فکر ہے، مودی کے گجرات ماڈل کی ایک جھلک ہے ، تو وہی مسلم معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ ہے اور  علمائے دین  کے لئے ایک تازیانہ بھی !

ویڈیو دیکھنے اور اس لڑکی کے چہرے کے چڑھتے اترتے نقوش کو پڑھنے کے بعد ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس قدر برے برتاؤ کا بالکل حقدار نہیں تھی جو اس کے ساتھ روا رکھا گیا ،بلکہ وہ ایک پڑھی لکھی،ہنس مکھ اور بے حد محبت کرنے والی تھی ورنہ موت سے قبل اس قدر خود اعتمادی کے ساتھ بھی کوئی مسکراتا ہے !!! اس نے اس حادثہ سے قبل تک اپنے شوہر کو اپنی محبت کا احساس دلانے کی کوشش کیا تھا جو سب رایگان گیا اور یہ سب کے سب نحوست تھی اس براءی کی جسے ہم "جہیز"کے نام سے جانتے ہیں ۔

    بلاشبہ جہیز معاشرے کا ناسور ہے جو ہندستانی معاشرے کی تہ تک پھیلا ہوا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ  جہیز نامی وایرس نے اپنا بھیانک روپ اختیار کر لیا ہے جس کی دہشت نے سب کو پریشان کر رکھا ہے اس کی لپیٹ میں‌نہ جانے کتنی جانیں آچکی ہیں۔ لا تعداد والدین اپنی بچیوں کو مادر رحم میں اس لئے مار دیتے ہیں کہ انہیں شادی کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا ہوگا دور جاہلیت کی طرح آج بھی بچی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو کچھ والدین کے چہرے کالے پڑجاتے ہیں انہیں بچیوں کی پیدائش ناخوشگوار لگتی ہے جہیز جیسے معاشرتی برائی کی وجہ سے کتنی بیٹیاں اپنے گھروں میں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور اپنے ہاتھوں پر مہندی سجانے کا انتظار کر رہی ہیں جہیز کی نحوست کا اندازہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہےکہ اس نے نکاح جیسی آسان و عظیم‌ سنت کو مشکل بنا دیا ہے جبکہ اسکی وجہ سے زنا جیسا عظیم‌ گناہ آسان ہوگیا ہے اور یہ صورت‌حال مکمل ہندستانی ‌معاشرے کا ہے جس میں ہر اقوام ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی وغیرہ شامل ہیں اگر ہم‌بات کرتے ہیں صرف مسلم معاشرے کی جو اپنی زندگی کہ ہر فعل و عمل اور روز مرہ کی زندگی میں شریعت مطہرہ کے اصولوں کا پابند ہے جس کا یقین‌آخرت اور مرنے کے بعد حساب و کتاب پر ہے اسکی بھی حالت نازک تر ہے شریعت اسلامی میں جہیز جیسی کوئی چیز نہیں یہاں تو نکاح کو آسان کرنے، عورتوں سے محبت کرنے، ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی بات کی گءی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین نعمتوں میں سے ایک عورت بھی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں کی نگاہوں سے یہ حقیقت کوسو دور ہے یا وہ ان حقائق سے واقف ہوتے ہوءے بھی اس کوقبول  کرنے سے قاصر ہیں دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو مسلمان ہونے کا کرتے ہیں مگر شریعت کے قوانین کو ٹھکرا کر اللہ کی نعمتوں اور وعدوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں  اور عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں جہیز کے پس منظر‌میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ مرد کو اللہ نے نظام‌عالم کو چلانے،گھریلو امور کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی ہے فرمایا گیا‌ہے "عورتوں کی بہ نسبت مردوں کو زیادہ ذمہ دار بنایا گیا ہے "اس لیے مرد کی مردانگی یہ ہیکہ وہ محنت کرے بزنس کرے اسکے لیے اسباب اکٹھا کرے نوکری چاکری کرے مگر تف  ہے آج کے نوجوانوں پر ان کی جوانی پر قوت بازو ہوتے ہوئے بھی عورت سے پیسہ کماتے ہیں اور شادی سے قبل و بعد طرح طرح کی فرمائش کرتے ہیں جس کو ادا نہ کرنے پر تعلقات خراب ہوتے ہیں دو خاندانوں‌اور دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں جس کا انجام فساد،مقدمہ بازی،خوں ریزی ،اور خود کشی ہوتی ہے ایسے جوانوں کو جوان کہتے ہوئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے یا اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن‌لینی چاہیے۔       لوگوں کو مال و زر کی لالچ نے اس قدر بے پرواہ کردیا ہیکہ عوام و خواص سب اس جہیز نامی حمام میں ننگے نظر آتے ہیں ہم نے بہت سے علماء،مدارس کے فضلاء لمبی داڑھی رکھنے والوں اور منبر و محراب سے دہاڑ دہاڑ کر تقریریں  کرنے والوں کو جہیز کا‌مطالبہ کرتے یا مطالبہ کے وقت خاموش حمایت کرتے دیکھا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عایشہ جیسی خودکشی یا جہیز کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی کا اصل ذمہ دار کو‌ن ہے ؟اور معاشرے سے جہیز کی بیماری کو کیوں کر ختم‌کیا جا سکتا ہے ؟جہیز ایک ایسی بیماری ہے جو صرف قانون بنانے یا قانون کے دفعات کو نافذ کرنے ،لمبی لمبی تقریریں کرنے،بڑے بڑے مضامین لکھنے،پوسٹر بازی کرنے،یا چوک چوراہوں پر رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ  کرنے سے ختم نہی کیا جا سکتا بلکہ سماج و معاشرے کے ہر فرد کو اس سماجی برائی کے خاتمے کے لیے مل کر کوشش کرنی ہوگی عایشہ کی خود کشی کے پس منظر میں ہم بلاشبہ کہ سکتے ہیکہ اس خود کشی کا ذمہ دار معاشرے کا ہر ذی شعور فرد ہے قانون کی پاسبانی کر رہے اس کے رکھوالے بھی ہیں حقوق انسانی کے لیے آواز اٹھانے والے افراد و ادارے بھی ہیں مذہب کے رہنماء بھی ہیں بلکہ ہندوستان کا ہر وہ شہری ہے جو شوشل ریفارمنگ سے دل چسپی رکھتا ہے کیوں کہ اگر وہ خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیے ہوتے تو اس خودکشی کی نوبت نہیں آئی ہوتی یا ہر سال ملک ہندستان میں سات ہزار جہیز کے جو کیسیز آتے ہیں اس کی شرح میں کمی آءی  ہوتی اس لیے اگر ہم‌ جہیز جیسی براءی سے معاشرہ کو پاک کرنا چاہتے ہیں اگر ہم‌چاہتے ہیں کہ عایشہ کی طرح ہمارے ملک کی دیگر بیٹیاں نہ ماری جاییں نہ جلاءی جاییں تو ضروری ہے کہ ہمارے قانونی سسٹم کو چاک و چست کیا جائے حکومت کے لیڈیز فرسٹ کے دعوے کو درست طریقے سے زمینی سطح پر نافذ کیا جاءے نوجوانوں کو خاص کر پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس کے لئے پہل کرنی ہوگی محبت،ہمدردی اور انسانیت کے جذبات کو فروغ دینے ہوں گے بیٹی اور بہو کے فرق کو مٹانا ہوگا اور چونکہ عایشہ کا معاملہ مسلم معاشرے سے تعلق رکھتا ہے اس لیے پوری ذمہ داری کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں اور ملت سے درد رکھنے والے حضرات کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ہمارا حال تو یہ ہیکہ اگر کچھ مولوی حضرات ایسے شادیوں میں جن میں ناچ گانے بینڈ باجے یا جہیز کی لین دین ہو نکاح پڑھانے سے انکار کرتے ہیں تو  کچھ ایسے بھی بھکاری مولوی مل جاتے ہیں جو ساری صورتحال سے واقف ہوتے ہوئے بھی نکاح پڑھا دیتے ہیں اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ عائشہ کی خود کشی کے ذمہ دار ایسے ناعاقبت اندیش دولت وثروت کے لالچی "ملانے" بھی ہیں جن کی لا پرواہی سے یہ نازک حالات رونما ہو رہے ہیں اس لئے جہیز جیسی سماجی برائی کے خاتمے کے لئے ہم سب کو مل کر کام‌ کرنا ہوگا اور مسلم معاشرے میں پھیلی براءیوں کے خاتمے و مکمل اصلاح کی ذمہ داری علمائے کرام پر زیادہ ہے اس لیے انہیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا سب کے اجتماعی کوشش کے بغیر جہیز جیسی لعنت سے معاشرے کو نہی بچایا جا سکتا۔

              ختم شد  

1 comment:

  1. علماء اور لمبی داڑھی کے خلاف دل میں جو کینہ ہے وہ ہنوز برقرار ہے اللہ ہدایت کی توفیق دے
    اگر کوئی عالم جہیز کی مطالبہ کرتا ہے تو اس میں لمبی داڑھی کا کیا قصور ہی

    ReplyDelete

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...