Tuesday 9 March 2021

مدارس کامقام اوراس کاتاریخی پس منظر

 مدارس کامقام اوراس کاتاریخی پس منظر

ابوالبرکات،شاذ،قاسمی، جگیراہاں۔ بتیا


مذہب اسلام میں اسلامی دعوت کے شروع ہوتے ہی علوم و معرفت کی تحریک رونما ہوئی، جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو "دار ارقم بن ارقم" میں جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی بنیادی باتوں کی تعلیم دے سکیں اور ان کی رہنمائی کر سکیں ایمان بااللہ کو مضبوط و مستحکم کر سکیں اور مستقبل میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے نئی پلاننگ کرسکیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کر نے کے ساتھ ہی اسلام کی دعوت دور دراز ملکوں میں پھیلنے لگی تو مسجد قبا اور مسجد نبوی علوم و معرفت کا مرکز بنی، جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دین کی تعلیم اور وحی کی وضاحت کیا کرتے اور ان کی روحانی تربیت کیا کرتے تھے، یہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ رسول اکرم نے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے ایک مخصوص دن مقرر کر رکھا تھا، جہاں عورتیں جمع ہوتیں اور آپ انہیں تعلیم دیا کرتے تھے ، آپ کے بعد خلفاء راشدین کا زمانہ آتا ہے ان کے زمانے میں خاص طور سے عمر ابن الخطاب کے دور خلافت میں تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی،آپ نے شہروں میں معلمین کو روانہ کیا تاکہ وہ نو عمر بچوں کو دین کی تعلیم دیں خلفاء راشدین نے دینی علوم کو عصری علوم سے زیادہ اہمیت دی اس کا‌یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیاوی علوم بے کار ہیں بلکہ دنیاوی علوم بھی اس وقت مسجدوں اور مکتبوں میں دی جاتی تھیں۔

   اسلامی فتوحات کا سلسلہ وقت کے رفتار کے ساتھ ساتھ جاری رہا اور مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ کو فتح کیا، یہاں تک کہ اسلامی معاشرہ میں تہذیب وثقافت اور علوم و معرفت کے مراکز بھی متعدد ہوتے رہے مسجدیں جہاں تعلیم دی جاتی تھیں طلباء علوم و معرفت سے معمور ہونے لگے، اس وقت تعلیم و تدریس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ معلم یا استاد مسجد کے کسی ستون پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتےاور طلباء یا شاگرد ان کے ارد گرد حلقہ لگا کر بیٹھ جاتے گویا ان میں کا ہر ایک دوسرے کے لئے ستون ہوتا یہیں سے ایک لفظ بہت مشہور ہوا "اساطین العلم"یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جا تا ہے جو اپنے علم میں کافی مہارت رکھتا ہے،

      مرور ایام کے ساتھ یہ حلقہ مساجد؛مسجد کی چہار دیواری سے نکل کر عرب و عجم تک بلکہ پوری دنیا میں پھیلا اور پوری دنیا میں بڑے بڑے دانشور اور علماء پیدا ہوئے جو انہیں مساجد کے حلقوں سے تربیت پائے ہوئےتھے، ان مساجد کا‌علمی پیغام اندلس پہونچا تو وہاں عبد الرحمن الناصر مسجد قرطبہ کے امام و رییس ہو گئےجو سب سے بڑی یونی ورسٹی تھی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی یونی ورسٹی تھی جہاں تعلیم کا مفت انتظام تھا یورپ ایشیا آسٹریلیا افریقہ وغیرہ دور دراز ممالک سے طلباء جوق در جوق آتے یہاں تک کہ مشرق کے نامور علماء جیسے "ابن القوطیہ" معلم نحو "ابو علی التالی" مشہور کتاب "الامانی" کے مصنف وہاں کشاں کشاں پہونچ گئے ان مسجدوں کی تعلیم و ثقافت کی اہمیت کا اندازہ ہم آج بھی کر سکتے ہیں ان میں سے بعض مسجدوں کی دینی و علمی حیثیت آج بھی باقی  ہےمثلا"جامع ازہر مصر"جس کی شروعات مسجد کے حلقوں سے ہوئی تھی مگر آج عصری و دینی علوم کی حفاظت کا ایک مضبوط و مستحکم قلعہ ہے۔ 

      تاریخی شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ ابو درداء ملک شام کے قاری تھےعبادہ بن صامت فلسطین کے معلم تھے؛ ابودرداء کا معمول تھا کہ ہر روز صبح قرآن کریم کا ایک حصہ یا آیت  پڑھ دیتے اور طلباء اسے غور سے سنتےجب قرأت مکمل ہو جاتی تو ہر شخص اپنی صف سے نکل کر سامنے آتا اور اس کو دہراتا پھر اپنی جگہ چلا جاتا یوں یہ سلسلہ آخری فرد تک چلتا رہتا حدیث،تفسیراور علم فقہ کی تعلیم و تدریس کا یہی طریقہ رائج تھا مسجد کا صحن ہر طالب علم کا خواہ اس کی نسل،ملک،ذات و برادری کوئی بھی ہو"خوش آمدید"کہتا اگر استاد لکڑی کے ٹکڑے،کرسی یا کسی اونچی جگہ پر بیٹھا کرتے تعوذو تسمیہ کے بعد قرآن کریم کو کوئی آیت کا املا کرا دیتے اور طلباء اسکو لکھ لیتے یا یاد کرلیتے موجودہ عہد کی طرح کوئی نصابی کتاب موجود نہی ہوتی استاد پڑھاتے وقت آیات کی تفسیر بھی پیش کرتا اور طلباء املا کی کاپیوں پر اس کو حاشیہ کی شکل میں لکھ لیتے جب جملہ پورا ہوجاتا یا بات پوری ہوجاتی تو استاد سبق کی تعین کےلیےایک خط کھینچ دیا کرتے کہ یہاں سےکل آگے پڑھائی  ہوگی اور یہ سب درس و تدریس کا کام مساجد میں ہی انجام دیا جاتا مساجد کے حلقوں سے وابستہ ہونے کےبعد ہر طالب علم پڑھنے پڑھانے میں لگ جاتا اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مساجد اعلیٰ تعلیم کے لئے ادارے تھے رفتہ رفتہ مساجد سے متصل طلباء کےلئے رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا جو آگے چل کر"مروجہ مدارس"کی شکل اختیار کرگیا ان مدرسوں میں رفتہ رفتہ طلباء کے قیام و طعام کا بھی انتظام ہونے لگا ان میں سے بعض ایسے  مدرسے تھے جن میں درس قرآن ، حفظ قرآن ، فقہ و عربی ادب کی تعلیم کا اہتمام تھا تو بعض دیگر فنون کی تعلیم و تدریس میں معروف و مشہور ہوئے خاص طور سے کچھ مدرسے ایسے بھی تھے جس میں  ڈاکٹری، کشتی رانی ،علم کیمیاء و ساءینسی علوم کی تعلیم دی جاتی تھیں اور طلباء کو متعلقہ فن کی ٹریننگ بھی دی جاتی تھی غرض کہ مدارس کا لفظ ہر دورمیں ان  اداروں کےلیے بولا جاتا تھا جہاں دینی و عصری علوم کی تعلیم دی جاتی تھی آگےچل کر یہ ادارے مذاھب اربعہ کے موافق چار قسم کے ہو گئےجن میں  فقہ حنفی،شافعی،مالکی،اور حنبلی کی الگ الگ تعلیم دی جانے لگی تاریخ میں کچھ ایسے بھی ادارے ملتے ہیں جہاں دو مسلکوں کی تعلیم کا سلسلہ اہتمام تھا تو کسی میں اس سے زائد بھی۔اس قسم کی مدرسوں کے لئے تاجر پیشہ و اہل ثروت وقف کیا کرتے تھے تو کبھی شاہ وقت کی نگرانی ہوتی ۔

    اس بات میں شدید اختلاف ہےکہ تاریخ میں سب سے پہلا "مروجہ مدرسہ"کی بنیاد کس نے ڈالی علامہ زرکشی فرماتے ہیں کہ"اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ سلجوقی امیر امیر قوام الدین نظام الملک نے تاریخ کا سب سے پہلا مدرسہ "مدرسہ نظامیہ"بغداد میں 459ھ=1065ءمیں قایم کیا مگر حافظ شمس الدین ذہبی نے اپنی کتاب "تاریخ اسلام" میں اس سے اختلاف کیا ہے ان کا خیال ہے کہ نیشاپور کا "مدرسہ بیھیہ" نظام الملک کی ولادت سے قبل موجود تھا ان کی رائے کی تائید علامہ المقریزی کے اس قول سے ہوتی ہے وہ فرماتےہیں "المدارس بما حدث فی الاسلام و لم تکن تعرف فی زمن الصحابہ و لاالتابعین و انماحدث عملھابعد الاربعماءہ من سنی الھجرہ و اول من حفظ عنہ  مدرسہ فی الاسلام اھل نیشابورفبنیت المدرسہ البیھیہ و بنی بھا ایضا الامیر نصرالدین سبکتلین مدرسہ"

جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مدرسہ کے طور پر "مدرسہ نظامیہ" مشہور ہے مگر شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل نیشاپور میں مدرسہ بیھیہ موجود تھا ۔

اوپر مذکور ہوا کہ مسجدوں کے حلقوں سے منتقل ہوکر مدرسے مسجدوں سے متصل کمروں میں چلے گئے تھے جہاں طلبہ، اساتذہ،شیوخ اور فقہائے کرام کی آرام گاہیں ہوا کرتی تھیں اس بات کی صراحت "ابن القوطی کی"الحوادث الجامعہ میں بھی دیکھ جا سکتی ہے ساتھ ہی مدرسہ مستنصریہ کے بارے میں دکتور احمد فکری کی وضاحت سے بھی ہوتی ہے ان کی تحقیق کے بموجب بھی مساجد کے متصل مدارس کے کمروں میں فقہائے کرام،طلباء عظام،کی رہایش گاہیں ہوتی تھیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اجرت معلومہ پر بھی مدرسین کو رکھا جانے لگا اور وسیع پیمانے پر علمی،تحقیقی اور تدریسی کام انجام پانے لگا۔

مدارس کی تعلیمی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں چند قدیمی مدرسوں کی تاریخ سے بھی واقفیت ہوتی ہے جن کی  تعلیمی خدمات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے گیے ہیں  جہاں اعلیٰ پیمانے پر تعلیم کا باضابطہ انتظام و انصرام تھا ان میں مدرسہ"سلطان حسن قاھرہ" کا نام اہم ہے جو قاہرہ میں سلطان صلاح الدین کے قلعے کے میدان میں واقع تھا اس کا قیام 764ھ=1363ءمیں عمل میں آیا یہ اس وقت کا سب سے بڑا مدرسہ شمار کیا جاتا تھا یہ حلب کے 

"مدرسہ فرد سیہ" کے بعد سب سے بڑا مدرسہ تھا اسی طرح فارس کا "مدرسہ العطارین"بھی ان قدیم مدرسوں میں سے ہے جس کو "مدرسہ عظمی" کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اس مدرسے کی تعمیر ابو سعید عثمان علی الشیخ عبداللہ بن القاسم المزوار کے زمانے میں 723ھ میں ہوئی سلطان ابو سعید الحجر الأساسی نے اس کی بنیاد رکھی ساتھ ہی اس کے لیے کئ عمارتوں کو خریدا اس مدرسے  میں تیس سے پچاس کمرے طلباء کے قیام کے لئے تھےاس مدرسہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جو اساتذہ اس مدرسے کے معلم ہوتے  وہی مشہور "مدرسہ نظامیہ" کے بھی استاد ہوا کرتے تھے علم و معرفت کے قدیم گہواروں میں دمشق کا "المدرسہ العمریہ"بھی تھا 

جسے مجاہدابوعمراحمدبن محمد المقدسی نے 603ھ میں اسے" الصالحیہ _محلہ میں بنوایا تھا پہلے پہل صرف قرآنی علوم کے لیے خاص تھا مگر بعد میں جملہ علوم کی تعلیم دی جانے لگی اس ادارے میں 360کمرے تھے جن میں 500سے زیادہ طلباء رہا کرتے تھے ہمیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ چھٹی صدی ہجری کے اس مدرسے میں ایک ایسی فیکلٹی بھی تھی جس میں نابینا طلباء کی پڑھائی بھی ہوتی تھی ساتھ ہی ایک شعبہ نرسری کے بچوں کی عمدہ تعلیم تربیت کے لیے بھی تھا وہی ایک بڑی لاءبریری تھی جو ہر خاص و عام کی علمی تشنگی بجھانے کو وقف تھی مدرسے کے خرچ کے لیے بڑی اوقاف کی زمینیں تھیں اس کا‌مطبخ رمضان کے مبارک مہینے میں ہرشخص کے لیے کھول دیا جاتا تھا اس قبیل کا ایک اور مشہور مدرسہ "المدرسہ الغزالیہ بقدس" کا بھی تھا جس کی بنیاد نور الدین زنگی کے زمانے پڑ چکی تھی مگر صلاح الدین ایوبی نے اس کی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دی اور اس کی نگرانی و دیکھ بھال کے لیے قطب الدین مسعود نیشاپوری شافعی کو مقرر کیا "مدرسہ غزالیہ" سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہیکہ  ابو حامد غزالی وہاں ٹھہرے تھے اور اپنی مشہور زمانہ کتاب احیاء علوم الدین یا احیاء العلوم کی تصنیف مکمل کی تھی اس میں ایک فیکلٹی قرأت تو دوسرا نحوی علوم کے لئے مخصوص تھا اسی طرح تاریخ کے قدیم مدرسوں میں ایک اہم نام" مدرسہ قایتبای" کا بھی ہے یہ مسجد نبوی کے قریب تھا جسے سلطان قایتبای نے تعمیر کرایا تھا اس مدرسہ میں ہر چار مسلکوں کی تعلیم دی جاتی تھی یہ خاص طور سے یتیم بچوں کی تعلیم کے لئے مخصوص تھا  گویا کہ یتیم خانہ تھا جہاں یتیموں کی تعلیم و تربیت قیام و طعام کا یکساں انتظام تھا ۔غرض کہ یہ سب ان مدارس اسلامیہ کے فیوض وبرکات اور علم ومعرفت کے روشن منارے ہیں جہاں سے ہماری تہذیب و تمدن کو روشنی ملتی ہے اور جہاں سے علوم و معرفت سے معمور اسلامی فتوحات کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوا افسوس کہ آج ہماری تہذیب میں علم کا رمق باقی نہیں اور نہ ہی ہمارے مدارس میں اس قدر ہمہ گیریت! ہمیں روشن و مثالی زندگی گزارنے کےلیے جملہ علوم میں مہارت حاصل کرنی ہوگی اور ہمارے مدارس کے نظام کو دور اول کے مدارس کے موافق کرنا ہوگا

               ختم شد

            غیر مطبوعہ

   ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

        جگیراہاں،بتیا 

رابطہ نمبر865178174

ای میل۔abulbarkat98@gmail.com

No comments:

Post a Comment

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...