Wednesday 30 December 2020

نئےسال کی شروعات مثبت سوچ اورایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے کریں

   نئےسال کی شروعات مثبت سوچ اورایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے کریں!

 قارئین کرام!

  نئے سال کی شروعات مثبت سوچ،  اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے کریں حکومت ہند کی تانا شاہی کردار اور عالمی وباء کوڈ19نے ہندوستان کو صدیوں پیچھے لاکر کھڑا کردیا ہے جس طرح عالمی سطح سطح پر 2020 کو الوداع کہنے اور 2021 کا استقبال کی تیاری زوروں پر ہے ٹھیک اسی طرح ماقبل میں بھی کیا گیا تھا لیکن ہمیں ملا کیا یہ لمحے فکریہ ہے! ہمیں ملا تو ملا صرف آپ سے نفرت تعلیمی شعبہ کی بربادی سرکاری املاک کی نجی کرن  اور جواہرلال نہرو یونیورسٹی، BHU,شاہین باغ ،کسان مہا موومینٹ کی تاریخی احتجاج اور اسکی بربادی اور حکومت ہند کی دوہری نظریہ اور بربریت,CAA,NRC GST,نوٹبندی جسکی ملک کو کوئی ضرورت نہیں تھی اور نا ہی ملک اسکے لئے تیار تھا ،بلکہ عوام پر  زبردستی تھوپا گیا جس کے وجہ سے ملک  مالی بحران کے شکار ہوتا چلا گیا موجودہ حکومت کے غلط پالیسیوں اور فسطائیت  کیوجہ سی سپریم کورٹ ای،ڈی،سی،بی،آئی، جیسی بڑی۔بڑی ایجنسیوں سے لوگ پورے طور سے بدظن ہوئے ہیں اور ذہنی تناؤ سے متاثر ہوے ہیں،جوکہ ملک خوش آئند مستقبل کے لئے بھیانک خطرہ ہے، کوڈ 19 کے چلتے ہندوستان کے کروڑوں شہریوں کی نوکریاں چلی گئی شروعاتی دور میں تو لوگوں نے بھی خوب مدد کیا تھا اور تصویر کھنچوائی تھی لیکن افسوس صد افسوس کے آج بھی غریبوں کی چولہے بڑی مشقت سے روشن ہو رہی ہے حکومت ہند کو چاہیے کہ ہندوستان کی اصل چہرہ سامنے لائے اور پھر سے گنگا جمنی تہذیب کو بحال کر اور آپسی میل ملاپ سے ہندوستان کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کریں نہیں تو اب بہت دیر ہو جائے گی اور پھرسے ہندوستان کو پٹری پر لانا ناممکن ہو جائگا  

       محمد فیروز عالم

 صوبائی سیکریٹری بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن alamfiroz13890@gmail.com

Tuesday 29 December 2020

نئے سال کا پیغام امت مسلمہ کے نام...

نئے سال کا پیغام امت مسلمہ کے نام... 

شمشیر عالم مظاہری دربھنگو ی امام جامع مسجد شاہ میاں رہوا ویشالی بہار۔8521913285..

قارئینِ کرام ۔

اللہ تبارک و تعالی کا دین اور اسکے احکامات قرآن کریم اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شکل میں مسلمانوں کو عطا ہوئے اب ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام معاملات خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی انہیں شریعت اسلامی کے مطابق استوار کرے کیونکہ یہ شریعت آخری شریعت ہے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے یہی شریعت راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔

وقت کی قدر کریں ۔

اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں اور آپ کو جو زندگی عطا فرمائی ہے اس کا ایک ایک لمحہ بڑی عظیم دولت ہے ایک ایک لمحہ اس کا قیمتی ہے کچھ پتہ نہیں کب یہ زندگی چھین جائے اور کب ختم ہو جائے اور یہ اس لیے ملی ہے تاکہ انسان اس زندگی کے اندر اپنی آخرت کی بہتری کا سامان کرے جس انسان کے اندر ذرا بھی عقل ہوگی وہ اپنی زندگی کے لمحات کو اور اس قیمتی دولت کو اصل مقصد کے حاصل کرنے کے لئے خرچ کرے گا اور بے کار اور بے مصرف کاموں میں خرچ کرنے سے بچے گا۔

یہ جو اللہ تعالی نے نظام بنایا ہے دن کی اور  اور رات کا ایک دن جاتا ہے رات آتی ہے پھر رات جاتی ہے دوسرا دن نکلتا ہے اسی طرح یہ جو نظام بنایا ہے کہ ایک ہفتہ الگ اکائی رکھتا ہے ہفتے کا کوئی اختتام ہوتا ہے کوئی آغاز ہوتا ہے ایک ہفتہ نکلتا ہے ایک نیا ہفتہ شروع ہوتا ہے اور اسی طرح جو اللہ تعالی نے مہینوں کے آنے جانے کا نظام بنایا اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالٰی نے زمانوں کو سالوں میں تقسیم کیا ایک سال گزرتا ہے اور ایک نیا سال آتا ہے اس کی بہت سی مصلحتیں ہیں ایک مصلحت اس میں یہ بھی ہے کہ انسان صبح سے شام تک کے کاموں کا جائزہ لےحضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  فرمایا کرتے تھے کہ ہر شخص اپنے صبح سے لے کر شام تک کی زندگی کا جائزہ لے کہ میں کیا کیا کرتا ہوں؟ کتنے فرائض و واجبات میں ادا کرتا ہوں؟ کتنی سنتیں ترک کرتا ہوں؟ کتنے نیک اعمال ایسے ہیں جو میں نہیں کرتا؟ اور کتنی برائیاں کتنی غلطیاں اور کتنے گناہ ایسے ہیں جو میں کرتا ہوں؟ ان سب کی ایک فہرست بنا ؤ پھر اس فہرست میں غور کر کے دیکھو کہ کتنے گناہ ایسے ہیں جو کسی تکلیف کے بغیر فوراً چھوڑ سکتے ہو ان کو تو فورا چھوڑ دو اور جن گناہوں کے چھوڑنے میں تھوڑا سا وقت درکار ہے ان کو چھوڑنے کے لئے کوشش شروع کر دو اور اللہ تعالی سے مدد مانگتے رہو ۔

خالق کائنات نے دنیا کے نظام کو وقت کے ساتھ مقید کر دیا ہے۔

اللہ جل جلالہٗ نے فرمایا قسم ہے زمانہ کی کہ جس کے تغیرات موجب عبرت ہیں کہیں رنج کہیں خوشی کہیں ثروت کہیں غربت کہیں صحت کہیں بیماری کہ انسان اپنی  عزیز عمر کو ضائع کر کے بڑے خسارہ میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق بات کہنے کی اور حق پر قائم رہنے کی وصیت اور تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے جس میں طاعات پر اہتمام بھی داخل ہے اور شہوتوں اور ناجائز امور سے نفس کو روکنا بھی داخل ہے اور مصائب اور زمانہ کے حوادث پر صبر کرنا بھی داخل ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک محاسبہ کی جگہ سے نہیں ہٹ سکتے جب تک پانچ چیزوں کا مطالبہ نہ ہوجائے اور ان کا معقول جواب نہ ملے ۔

1, اپنی عمر کس کام میں خرچ کی ۔

2, اپنی جوانی کس چیز میں خرچ کی ۔

3, مال کہاں سے کمایا ۔

4, مال کہاں خرچ کیا ۔

5, اپنے علم میں کیا عمل کیا ۔ 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر طریقہ سے قیامت کے محاسبوں کی فہرست شمار کر دی اور ان میں سے ہر ہر چیز کے متعلق دوسری احادیث میں مختلف عنوانات سے ان پر تنبیہ فرمائی گئی ہے ۔

سب سے اول مطالبہ اور جواب طلب چیز یہ ہے کہ اپنی عمر جس کا ہر سانس انتہائی قیمتی سرمایہ ہے کس چیز میں خرچ کی ہم لوگ کیوں پیدا کیے گئے ہماری زندگی کسی مصلحت کے لئے ہے کسی کام کے لئے ہے یا ایک بیکار چیز پیدا کی گئی حق تعالیٰ شانہٗ نے خود اس پر تنبیہ

فرمائی ہے۔افحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون تو کیا تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی بیکار فضول پیدا کیا ہے اور تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ تم ہماری طرف نہیں لائے جاؤ گے اور تمہیں اپنی زندگی کا حساب  دینا نہیں ہوگا اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ دوسری جگہ  حق تعالیٰ شانہٗ نے مقصد زندگی بھی خود ہی ارشاد فرما دیا وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ایسی حالت میں ہر شخص کو اپنی زندگی کے پورے اوقات کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے قیمتی اوقات کا کس قدر حصہ تو اس مقصد میں خرچ کرتا ہے جس کام کے لئے وہ پیدا کیا گیا اور کتنا حصہ اپنی ضروریات تفریحات اور غیر متعلق مشاغل میں خرچ کرتا ہے ۔

مطالبہ کی دوسری چیز حدیث میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ جوانی کی قوت کس چیز میں خرچ کی گئی کیا اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے کاموں میں اس کی عبادت میں مظلوموں کی حمایت میں ضعیفوں اور اپاہجوں کی اعانت میں ۔ یا فسق و فجور میں عیاشی اور آوارگی میں بے بسوں پر ظلم کرنے میں ناحق کی مدد کرنے میں ناپاک دنیا کے کمانے میں اور دین و دنیا دونوں جگہ کا م نہ آنے والے فضول مشغلوں میں ۔

اس کا جواب ایسی عدالت میں دینا ہے جہاں نہ تو کوئی وکالت چل سکتی ہے نہ جھوٹ فریب اور لسانی کام آسکتی ہے جہاں کی خفیہ پولیس ہر وقت ہر آن آدمی کے ساتھ رہتی ہے اور یہی نہیں بلکہ خود آدمی کے وہ اعضاء جن سے یہ حرکات کی ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے اور جرائم کا اقرار کریں گے ۔

تیسری چیز جو حدیث میں ذکر کی گئی جس کے جواب کے بغیر قیامت میں حساب کی جگہ سے ٹلنا نہ ہو سکے گا وہ یہ ہے کہ مال جو حاصل کیا کس ذریعہ سے حاصل کیا جائز تھا یا ناجائز تھا ۔

چوتھا مطالبہ حدیث میں یہ ہے کہ مال کو کہاں خرچ کیا جائز چیزوں میں خرچ کیا ہے یا نا جائز امور  میں خرچ کیا ہے اور اپنی دولت میں سے آخرت کے لئے کیا جمع کیا ہے تم نے اخلاص کے ساتھ اگر اپنے مال میں سے ایک کھجور بھی خرچ کی ہے ہم نے اس کو بڑھا کر پہاڑ کے برابر کردیا ہے اور یہ بھی سوال ہوگا کہ تم نے اس مال کو ناجائز چیزوں میں کیوں خرچ کیا فضول خرچی کیوں کی اس طرح ہر انداز سے سوال ہوگا ۔

پانچواں مطالبہ حدیث میں جس کا قیامت کے میدان میں جواب دینا ہوگا یہ ہے کہ جو علم حق تعالیٰ شانہٗ نے تمہیں عطا کیا تھا اس پر  کس حد تک عمل کیا کسی جرم کا معلوم نہ ہونا کوئی عذر نہیں قانون سے ناواقفیت کسی عدالت میں بھی معتبر نہیں تو اس کا معلوم کرنا اپنا فریضہ ہے اور یہ بات کہ اللہ کا حکم  معلوم نہیں تھا مستقل جرم اور مستقل گناہ ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر مسلمان پر مذہبی علم سیکھنا فرض ہے لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ علم کے بعد کسی جرم کا کرنا زیادہ سخت ہےاپنے علم سے ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہا کرو علم میں خیانت مال میں خیانت سے زیادہ سخت ہے اور اللہ تعالیٰ شانہٗ کے یہاں  اس کا مطالبہ ہوگا۔

یہ پانچ سوالات ہیں جب تک ان تمام سوالات کے جوابات نہ دے دے گا اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی اجازت نہ ہو گی اللہ تبارک و تعالی ہم سب کے ساتھ بغیر سوال و جواب کے چشم پوشی کا معاملہ فرمائے ہمارے اعمال تو ایسے نہیں جو دربار عالی میں پیش ہونے کے لائق ہوں اگر چشم پوشی کا معاملہ نہ ہوا تو خیر نہیں بس اس کی بےپناہ رحمت سے یہی امید ہے کہ ہم سب کو بغیر حساب و کتاب کے جنت نصیب فرمائے گا ۔

ہمارا سب سے بڑا دشمن ۔

شیطان ہمارا اتنا بڑا دشمن ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ بتا دیا ان الشیطان لکم عدوا فاتخذوہ عدوا بےشک شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم بھی اسے دشمن بنا کے رکھو اور جو غفلت کی وجہ سے شیطان کے چکر میں آ گئے ان کو تنبیہ فرمائی  الم اعھد الیکم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین ۔ اے بنی آدم کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نہیں کرو گے یہ تمہارا ظاہر باہر دشمن ہے اور تم صرف میری عبادت کرو گے ھذا صراط مستقیم یہ ہے سیدھا راستہ۔  اللہ رب العزت کی بات ماننے والے حزب الرحمن ہیں اور شیطان کی پیروی کرنے والے حزب الشیطان ہیں ۔

شیطان کا تسلط ۔

جو آدمی اللہ رب العزت کی یاد سے آنکھیں چرا لیتا ہے اللہ رب العزت اس پر شیطان کو مسلط کر دیتے ہیں اس سے بڑی  سزا کوئی نہیں ہوسکتی یوں سمجھئے کہ اس کو دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں جیسے ایک آدمی اگر کسی کے دشمن سے راہ و رسم رکھے تو اس کو دشمن کے حوالے کر دیتا ہے کہ تو جان اور تیرا کام جانے چنانچہ قرآن عظیم الشان میں اللہ نے فرمایا اور جو رحمان کی یاد سے آنکھ چراۓ ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے  ہیں اور وہ  اس کا ساتھی بن جاتا ہے قرآن مجید سے معلوم ہوا کہ ایسا بندہ شیطان کے پنجے میں پھنس جاتا ہے اور اس کا پیروکار بن جاتا ہے ۔

دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں ایک وہ جو رب کو رب مانتے ہیں اور رب کی سنتے ہیں۔ دوسرے وہ جو من کی سنتے ہیں۔ رب کی سننے والے رحمانی کہلاتے ہیں اور من کی سننے والے شیطانی کہلاتے ہیں بے مقصد چیزوں میں پڑجانا شیطانی لوگوں کا کام ہوتا ہے اور مقصد کی طرف رواں دواں وہی ہوتے ہیں جو رحمان کی ا طاعت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں وہ ہر کام میں رب کی خوشنودی ملحوظ رکھتے ہیں اور آخرت کے نفع کو سامنے رکھ کر قدم بڑھاتے ہیں

یورپ کی غلامی ۔

جو لوگ یورپ کی غلامی میں مبتلا ہیں جو یورپ سے آنے والی ہر بات کو آسمانی وحی سمجھ کر سینے سے لگانے کے لئے تیار رہتے ہیں خواہ یورپ کی اتباع سے معاشرتی زندگی کا سکون تباہ ہو جائے  ان کو تو بس اس کی اتباع کرنی ہے شریعت کے احکام ان کو بھاری محسوس ہوتے ہیں لیکن انگریزوں کے طور طریقے بڑے آسان نظر آتے ہیں مغرب کی آندھیوں نے ہمارے بہت سے چراغ بجھا دئیے ہیں سال کے اختتام پر نئے سال کا جشن منانے والے مقصد حیات سے غافل اور انجام سے بے خبر ہیں شیطان ان پر مسلط ہو چکا ہے اور انکے عقل کو اپنی شرارت کی رسی سے کس کر باندھ دیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ زندگی کے قیمتی لمحات گزرنے پر جشن مناتے ہیں حالانکہ عقلمند انسان لمحات گزرنے اور قیمتی چیزوں کے ختم ہونے پر جشن منایا نہیں کرتے بلکہ جائزہ لیا کرتے ہیں مسلم نوجوان بھی اس رات کو اس طرح مناتے ہیں جیسے  غیر قوم مناتے ہیں جن کے سامنے نہ جنت ہےنہ جہنم ہے نہ آخرت ہے وہ تو معذور لوگ ہیں  انہیں آخرت کا علم ہی نہیں وہ تو اسی دنیا کو جنت بنانے کے چکر میں ہیں  ان کی نقل میں مسلم نوجوان بھی راتوں کو اٹھ کر اور بارہ بجے کیا کیا نافرمانیاں کرتے ہیں ۔

31 دسمبر کی رات بارہ بجتے ہی آزاد خیال مغرب کے دلدادہ تہذیب جدید کے غلام اور مقصد حیات سے غافل لوگ شور مچاتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کوئی موسیقی کی آواز پر ناچتا ہے تو کوئی پٹاخے چھوڑ کر خوش ہوتا ہے تو کوئی شرافت کو بالائے طاق رکھ کر غیر محرموں کے ساتھ رقص کر تا جاتا ہے اس وقت اخلاقیات کے جنازے نکلتے دکھائی دیتے ہیں ان کی حرکتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے

مسلم نوجوان بھی غیروں کے دکھا دیکھی مغرب کے پیچھے دوڑ کر نہ صرف اپنے قیمتی اوقات ضائع کر رہے ہیں بلکہ اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں جو قوم زندگی کے حساب کتاب کا عقیدہ رکھتی ہے جو گزرے ہوئے اوقات پر باز پرس کئے جانے کا یقین رکھتی ہے جو ایک ایک لمحہ کو صدی سے بڑھ کر جانتی ہے اور اپنی کامیابی اور ناکامی کا زینہ اسی کو قرار دیتی ہے افسوس ہوتا ہے وہ کیسے اس چکر میں پڑ گئی وہ تو اس نبی کی امت ہے جس نے انسان کو جینا سیکھایا اور سوال و جواب کے دن سے آگاہ کیا مگر یہ بھی اسے بھلا کر ایسے جی  رہے ہیں جیسے حساب دینا ہی نہیں ایسے خوشیاں منا رہے ہیں جیسے مرنا ہی نہیں اور نئے سال کی آمد پر ایسے شور مچا رہے ہیں جیسے نئے سال کا گھنٹہ بجا کر ان کی زندگی میں اضافہ کا اعلان کر دیا گیا ہو حالانکہ سال نو قیمتی زندگی کے ایک سال گزر جانے کی اطلاع دے رہا ہےہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا اور ہم قبر کے اور قریب ہو گئے دنیا سے ایک سال اور دور ہوگئے موت سے ایک سال قریب ہو گئے اپنی زندگی سے ایک سال دور ہو گئے اس کے باوجودہماری زندگی عجیب بنتی جا رہی ہے کہ زبان سے ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ اگر کوئی ہمارے عملوں  کو دیکھے تو وہ  ہماری من مرضی کے ہوتے ہیں ۔

اسلام دین فطرت ہے ۔

اور فطرت روح کی بالیدگی کا تقاضا کرتی ہے اور اسلام روح کی بالیدگی اور اس کی تفریح کا پورا سامان مہیا کرتا ہے اور اس کا کامل و مکمل نظام عطا کرتا ہے جب کہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں روح کی صحیح تفریح اور بالیدگی کا فطری نظام موجود نہیں ریڈیو ٹیلی ویژن نغمے موسیقی اور دیگر خرافات جن کو سامان تفریح سمجھا جاتا ہے یہ نفس کی تفریح کا سامان ہے روح کی تفریح کا نہیں یہی وجہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اور دیگر مقبولان الٰہی کی زندگی ان  کھیل تماشوں کی تفریح سے بالکل خالی  ملتی ہے اورآج بھی ان تفریحات کی طرف  فساق و فجار کا رجحان ہے جو حضرات روحانیت سے آشنا اور معرفت الہی کے جام سے سرشار ہیں وہ ان چیزوں کو لہو ولعب سمجھتے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تفریح نفس کو موٹا اور فربہ کرکے انسان کو یاد خدا سے غافل کر دیتی ہے اس لئے اسلام عین تقاضائے فطرت کے مطابق ان کو غلط اور لائق احتراز بتلاتا ہے ۔

نسبت کی لاج رکھیں ۔

مسلمان کا ایک نام ہے یہ اللہ کو ماننے والا ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے والا ہے یہ دین دار ہے اس کا اللہ تعالی کے یہاں بھی احترام ہے اور لوگوں کے یہاں بھی اس کا ایک وقار ہے چنانچہ   جب ہم کسی سے کہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو وہ ہم سے توقعات رکھتا ہے لہٰذا اسلام اور مسلمانوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اللہ تعالیٰ  لہو ولعب سے بچاۓ قرآن وحدیث کے حکموں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

ایک اور اینٹ گرگئ دیوار حیات سے ۔

ناداں کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک ۔

Saturday 26 December 2020

जिलावार नये नगर पंचायत, नगर परिषद की सूची बिहार सरकार की मोहर

जिलावार नये नगर पंचायत, नगर परिषद की सूची बिहार सरकार की मोहर 

जिलावार नये नगर पंचायत, नगर परिषद की सूची

जिला      नगर पंचायत

1- पटना   :   पुनपुन, पालीगंज

2- नालंदा  :  हरनौत, सरमेरा, रहुई, परवलपुर, गिरियक, अस्थावां, एकंगरसराय, चंडी

3- भोजपुर : गड़हनी

4- बक्सर  : चौसा, ब्रह्मपुर

5- कैमूर   : हाटा, कुदरा, रामगढ़

6- रोहतास : चेनारी, दिनारा, काराकाट, रोहतास

7- मुजफ्फरपुर : मुरौल, सकरा, बरूराज, मीनापुर, कुढ़नी, सरैया, माधोपुर सुस्ता

8- पश्चिम चंपारण : लौरिया, जोगापटी

9- वैशाली  : जन्दाहा, गोरौल, पातेपुर

10- मुंगेर   : तारापुर

11- शेखपुरा : चेवाड़ा, शेखोपुरसराय

12- जमुई  : सिकंदरा

13- खगड़िया : अलौली, परबत्ता, मानसी, बैलदौर

14- गया    : वजीरगंज, फतेहपुर, डोभी, इमामगंज, खिजरसराय

15- औरंगाबाद : बारूण, देव

16- नवादा   : रजौली

17- जहानाबाद : घोषी, काको

18- अरवल   : कुर्था

19- पूर्णिया   : चंपानगर, बायसी, अमौर, जानकीनगर, धमदाहा, मीरगंज, भवानीपुर, रूपौली

20- कटिहार  : कोढ़ा, बरारी, कुर्सेला, अमदाबाद, बलरामपुर

21- अररिया   : रानीगंज, जाकीहाट, नरपतगंज

22- किशनगंज : पौआखाली

23- सीवान   : बसंतपुर, गुठनी, आंदर, गोपालपुर, हसनपुरा, बड़हड़िया

24- सारण   : मशरख, मांझी, कोपा 

25- दरभंगा   : बहेड़ी, हायाघाट, घनश्यामपुर, बिरौल, भरवाड़ा, सिंहवाड़ा, जाले, कमतौल, फुलपरास, 

26- समस्तीपुर : सरायरंजन, घरारी, 

27- भागलपुर : हबीबपुर, सबौर, पीरपैंती, अकबरनगर

28- बांका    : कटोरिया

29- सहरसा  : सौरबाजार, बनगांव, नवहट्टा, सोनवर्षा

30- सुपौल   : पीपरा, राघोपुर

31- मधेपुरा  : सिंहेश्वर, बिहारीगंज, आलमनगर 


नगर पंचायत से नगर परिषद में अपग्रेड 

जिला      नगर परिषद

1- नालंदा    : राजगीर

2- भोजपुर   : पीरो

3- रोहतास   : नोखा

4- पूर्वी चंपारण : चकिया, रामनगर

5- वैशाली   : लालगंज, महुआ

6- सीतामढ़ी  : जनकपुर रोड, बैरगनिया

7- शिवहर   : शिवहर

8- बेगूसराय : तेघड़ा, बलिया, बखरी

9- मुंगेर      : हवेली खड़गपुर

10- खगड़िया  : गोगरी  जमालपुर

11- गया : बोधगया, शेरघाटी, टेकारी

12- नवादा  : वारिसलीगंज, हिसुआ

13- मुजफ्फरपुर : कांटी, मोतीपुर, साहेबगंज

14- पूर्णिया    : सकबा, बनमनखी 

15- अररिया   : जोगबनी

16- गोपालगंज : बरौली, मीरगंज  

17- समस्तीपुर : रोसड़ा, दलसिंहसराय

18- भागलपुर : नवगछिया

19- सहरसा   : सिमरी बख्तियारपुर


नये नगर परिषद : 

जिला         नगर परिषद 

1- पटना       :  बिहटा, संपतचक

2- बेगूसराय   : बरौनी

3- मधेपुरा     : उदाकिशनुगंज

4- सुपौल      : त्रिवेणीगंज

5- समस्तीपुर  : ताजपुर, शाहपुर पटोरी 

6- लखीसराय : सूर्यगढ़ा


जिनके क्षेत्र का हुआ विस्तार :


जिला     नगर निकाय

1- नालंदा   :  नगर निगम बिहारशरीफ

2- पटना    : नगर परिषद मसौढ़ी

3- खगड़िया : नगर परिषद खगड़िया

4- सीवान   :  नगर परिषद सीवान

5- शेखपुरा  : नगर परिषद शेखपुरा, नगर परिषद बरबीघा

6- बेगूसराय : नगर परिषद बीहट

7- बक्सर   : नगर परिषद डुमरांव, नगर परिषद बक्सर

8- वैशाली  : नगर परिषद हाजीपुर

9- भागलपुर : नगर परिषद सुल्तानगंज

10- नवादा    : नगर परिषद नवादा 

Thursday 24 December 2020

بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن فروغ اردو کےلئے پابند عہد

 

بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن فروغ اردو کےلئے پابند عہد 

اسوسی ایشن کے نائب صدر ظہور عالم نے کہا کہ اساتذہ اپنے۔اپنے حلقہ میں جمعہ کے دن مسجدوں کے توسط سے عوام کو بھی اردو زبان کی اہمیت و افادیت روشناس کرائیں   

آج مورخہ 24/دسمبر2020ء بروز جمعرات کو گورنمنٹ اردو مڈل اسکول منشا ٹولہ، مغربی چمپارن، بتیا کے احاطے میں بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن،ضلع اکائی مغربی چمپارن کی ایک اہم نشست تنظیم کے صوبائی سکریٹری و ضلع صدر محمد فیروز عالم کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں درج ذیل فیصلے لئے گئے:-

 ✳️ ہر سال 10 جنوری کو (جناب غلام سرور صاحب کی  یوم ولادت کے موقع پر) ایسوسی کے زیر اہتمام  یومِ اردو منایا جائے گا۔

 


✳️ 14جنوری 2021 کو نرکٹیاگنج سب ڈویژن کے اردو اساتذہ کی ایک اہم نشست ہوگی ۔جسمیں اردو اساتذہ کے علاوہ مدرسہ ٹیچر و پرائویٹ اسکول کے اردو ٹیچرز بھی مدعو ہونگے۔


 ✳️ ایسوسی ایشن کے اراکین اسکول در اسکول وزٹ کر اردو اساتذہ کے سامنے تنظیم کی اہمیت و افادیت اور اب تک کی کارکردگی پیش کریں گے۔تاکہ ایک ایک اردو معلم کو تنظیم سے جوڑا جا سکے۔


✳️ اسکول کا نام ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہر حال میں لکھوانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ 


✳️ 'اردو اساتذہ فلاحی شعبہ' قائم کیا جائگا۔ جوکہ مصیبت زدہ اساتذہ کےلئے فوری راحت پیکیج کا بندوبست کرے گا۔


✳️ سابق ضلع سکریٹری جناب طارق صاحب کے مستعفی عہدے پرجناب خالد انور کو کارگزار ضلع سکریٹری کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔


✳️ جناب جسیم الدین انصاری صاحب کی تنظیم میں واپسی پر انکا استقبال کرتے پھر سے انہیں ترجمان کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

اس نشست میں جناب سید محمد اشفاق احمد فریدی،نائب صدر ظہور عالم  جسیم الدین انصاری، امتیاز احمد محمد خالد، منصور عالم آلوک رنجن رحمت اللہ محمد جاوید اختر، محمد الیاس مظہر عالم  ارمان علی   حبیب اللہ نائب صدر علی اختر  عبدالوہاب نائب صدر محترمہ روزی خاتون فیروز عالم بگہاں افروز عالم  نوشاد عالم محمد مشتاق ساجد وغیرہ شامل تھے۔


         محمد فیروز عالم

 صوبائی سکریٹری و ضلع صدر 

 بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن،مغربی چمپارن،بتیا

اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکانات

           اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکانات

کامران غنی صبا


اسسٹنٹ پروفیسر نیتیشور کالج، مظفرپور

سال 2020ختم ہونے والا ہے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے جہاں یہ سال معاشی بحران کا سال بن تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی یہ سال بہت خسارے میں رہا۔ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ ابھی تک بند ہے۔ خدا کرے کہ نیا سال طلبہ و طالبات کے لیے بہتر ثابت ہو۔

نئے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ فروری میں انٹرمیڈیٹ اور پھر میٹرک کے امتحانات ہونے ہیں۔ بورڈ امتحانات کے بعد طلبہ و طالبات کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے کیریر کا انتخاب ہے۔ میرے پاس اکثر طلبہ و طالبات کے فون آتے ہیں اور وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے طلبہ و طالبات اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں اس قدر خدشات بھرے ہوتے ہیں کہ وہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔

اردو کے تعلق سے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو اچھی ملازمت نہیں مل پاتی ہے ۔میرا تجربہ و مشاہدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میں نے اردو سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی باصلاحیت نوجوان کو کبھی بے روزگار نہیں دیکھا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ضرور ہے لیکن مجھے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں اردو بطور لازمی مضمون پڑھنے والے طلبہ و طالبات کی اکثریت بحالتِ مجبوری اردو کا انتخاب کرتی ہے۔ ان میں کچھ تو مدارس کے ویسے طلبہ ہوتے ہیں جن کے پاس اردو یا عربی پڑھنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ طالبات میں اکثر کے والدین انہیں اس وجہ سے اردو دلواتے ہیں کہ ان کی بچیاں آسانی سے ڈگری حاصل کر لیں گی جس کے بعد رشتہ ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ ایسے طلبہ و طالبات میں کتنے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے نصاب میں کون کون سی کتابیں شامل ہیں یا اگر معلوم ہو بھی گیا تو نصابی کتابوں تک ان کی رسائی کورس کی تکمیل تک نہیں ہو پاتی۔ ایسے طلبہ و طالبات بازار میں چھپے گیس پیپر پڑھ کر ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب روزگار حاصل کرنے کے لیے انہیں مسابقاتی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو روزگار نہیں ملتا اور وہ یوں ہی بے کار بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے طالب علموں کو بھی دیکھا ہے جو امتحان سے ٹھیک ایک دن پہلے گیس پیپر لے کر آتے ہیں کہ اس میں کون کون سے سوالات اہم ہیں، بتا دیے جائیں۔ یعنی وہ گیس میں بھی گیس کروا کر اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں۔

حالیہ چند برسوں میں اردو میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نجی شعبہ میں اخبارات، الکٹرانک میڈیا، اشاعتی اداروں، تعلیمی اداروں میں اردو جاننے والوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ آسامیاں آتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی آنے کے بعد اردو ٹائپ رائٹر، اردو ڈیزائنر، ویب ڈیزائنر، کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ جیسے نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ اردو جاننے والے آپریٹرز ابھی بھی بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے جانکار کمپیوٹر آپریٹر کے پاس دوردراز کے لوگ بھی اپنا کام لے کر آتے ہیں۔ اخبارات اور اشاعتی اداروں کے دفاتر میں بھی اردو کے جانکار اچھے کمپیوٹر آپریٹرز ہمیشہ تلاش کیے جاتے ہیں۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اچھا کیریر بنانے کے لیے بہت سارے ادارے اردو میں صحافت کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ صحافت کے شعبہ میں کیریر بنانے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان جرنلزم یا گریجوئشن کے بعد ماس میڈیا کا کوئی کورس کیا جا سکتا ہے۔

درس و تدریس کے شعبہ میں بھی اردوکے اچھے اساتذہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔درس و تدریس کے شعبہ میں آنے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) یا گریجوئیشن کے بعد بیچلر آف ایجوکیشن(بی ایڈ) کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ایل ایڈ یا بی ایڈ کرنے کے بعد آپ کسی اچھے پرائیوٹ اسکول یا ویکنسی آنے پر سرکاری اسکول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر بھی بہت سارے ملکوں میں ’’انڈین اسکول‘‘ قائم ہیں۔ جہاں دوسرے مضامین کے ساتھ اردو کے اساتذہ بھی اچھی تنخواہ پر بحال کیے جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں قائم ہندوستانی اسکولوں میں اساتذہ کو قیام و طعام کے علاوہ اور بھی بہت ساری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ان اسکولوں کے لیے انٹرویو ہندوستان میں ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ اسکول آن لائن انٹرویو بھی لیتے ہیں۔

گریجوئیشن کے بعد اگر آپ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کر لیا اور نیٹ امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو آپ کالج اور یونیورسٹی کے استاد بننے کے اہل ہو جاتے ہیں۔لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ہی صبر و ضبط اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے میرا مشورہ عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ گریجوئیشن کرنے کے بعد بی ایڈ کر کے اسکول کی ملازمت حاصل کر لینی چاہیے ۔ یہ راستہ محفوظ ہے اور آسان بھی۔ ورنہ بہت سارے لوگ گریجوئیشن کرنے کے بعد ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں اور اتنے برسوں تک ملازمت نہیں ملنے کی وجہ سے احساس کمتری اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔

اردو پڑھ کر اچھی ملازمت حاصل کرنا پہلے کی بہ نسبت آسان ہوا ہے۔ اردو میں روزگار کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھے ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کامیابی کا ’’شارٹ کٹ‘‘نسخہ ڈھونڈنے کی بجائے محنت اور مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ اپنے سامنے بڑا ہدف رکھیں لیکن ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے اہداف بھی حاصل کرتے جائیں۔ ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی۔

مفتی مبین احمد سعیدی قاسمی مہتمم مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ایک دعائیہ مجلس منعقد ہوئی،


     مفتی مبین احمد سعیدی قاسمی مہتمم مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ایک دعائیہ مجلس منعقد ہوئی، 


 آج مؤرخہ 24/دسمبر 2020ء مرکزی دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں مفتی مبین احمد سعیدی قاسمی مہتمم مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ایک دعائیہ مجلس منعقد ہوئی، جس میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی مدظلہ العالی نے فرمایا کہ مفتی مبین صاحب قاسمی جو امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی صاحب کے دیرینہ رفیق ہیں ان کی والدہ کا انتقال ہم تمام کے لیے ملال کا باعث ہے.

لہذا مرحومہ کیلئے دعاء مغفرت کرنا ہمارا فرض بھی ہے اور ہمارے لئے باعث سعادت بھی، اللہ تعالٰی مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے ان کے تمام حسنات کو قبول فرمائے اور جملہ تقصیرات سے صرف نظر فرمائے اور اللہ پاک مفتی مبین قاسمی، تمام خویش واقارب وجملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.

حضرت ناظم صاحب نے مرحومہ کے لیے خود دعا فرمائی، اس دعائیہ مجلس میں امارت شرعیہ کے صدر مفتی مولانا سہیل احمد قاسمی، مفتی مولانا سعیدالرحمن قاسمی، نائب مفتی مولانا احتکام الحق قاسمی، مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ کے نائب قاضی مولانا محمد انظار عالم قاسمی، امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی، مولانا سید محمد عادل فریدی، مولانا نصیرالدین مظاہری، مولانا اختر حسین شمسی، مفتی محمد نورالدین قاسمی محمدآبادی، مفتی عبدالمنان قاسمی، قاری شاہد اقبال جامعی، مولانا وصی اللہ ندوی، مفتی محمدابوذر مفتاحی، مولانا محمداعجاز مفتاحی و دیگر علمائے امارت شرعیہ موجود تھے.

Tuesday 15 December 2020

رویے کی شعبدہ بازی،کامران غنی صبا،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

             رویے کی شعبدہ بازی

                            کامران غنی صبا

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج، مظفرپور


کبھی غور کر کے دیکھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ پوری کائنات ہمیں ہمارے رویے کے مطابق نظر آتی ہے۔ بلکہ اکثر تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہمارا رویہ ہی کائنات کا رویہ بن جاتا ہے۔اگر ہمارے رویے میں محبت شامل ہے تو کائنات بھی ہم سے محبت کرنے لگ جاتی ہے۔ اگر ہمارا رویہ منفی ہے تو پوری کائنات ہمیں ’’منفیات‘‘ کے حصار میں جکڑی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اگر ایک شخص محبت تقسیم کرنے والا ہے تو بدلے میں اسے محبت ہی ملتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض دفعہ اسے محبت کے بدلے میں نفرت بھی مل جائے لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ سو لوگوں سے محبت سے پیش آنے والوں کو بدلے میں نوے افراد سے محبت ہی ملنی ہے۔اسی مقام پر پہنچ کر ’’رویہ‘‘ کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ اگر ایک شخص مثبت رویہ کا حامل ہوگا تو وہ نوے افراد سے ملنے والی محبت کی قدرو قیمت کو سمجھے گا۔ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ان محبتوں کا ذکر کرے گا اس کے برعکس منفی رویہ کا حامل شخص نوے افراد سے ملنے والی محبت کو بھول کر صرف دس افراد کواپنی گفتگو کو موضوع بنائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سے محبت کرنے والے بقیہ نوے افراد بھی رفتہ رفتہ اسے سے کنارہ کش ہوتے جائیں گے اور آخر کار وہ تن تنہا رہ جائے گا۔ 

انسان کی فکر اس کے رویہ سے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا رویہ اس کے افعال و کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔ مقررین، مصلحین، قلم کار اور دانشور طبقے کا رویہ ان کی تحریر و تقریر اور اسلوب ولفظیات سے ظاہر ہوتا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مقررین اپنی تقریر میں ہمیشہ گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ زمانہ خراب ہے، ہر طرف گمراہی ہے، بددینی ہے، بے راہ روی ہے۔ ان کے خطابات سنیے تو سوائے لعن طعن کے شاید ہی کوئی تعمیری بات نکل کر سامنے آ سکے۔ بعض مقررین کی گفتگو سن کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں ان کے سوا کوئی ہدایت یافتہ ہے ہی نہیں۔ ایسے مقررین کو اگر اختیار دے دیا جائے تو وہ اپنے اور اپنے پیروکاروں کے سوا ساری دنیا کو اٹھا کر جہنم میں جھونک دیں۔ وہیں بعض مقررین کی باتیں سیدھے دل پر نقش ہوتی ہیں۔ ان کے رویے میں نرمی ہوتی ہے۔ سوز ہوتا ہے۔ اسرارِ عشق ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کو سمجھ کر اس کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے۔یہی معاملہ اصحاب قلم کا بھی ہے۔ رویہ ہی قلم کو اسلوب عطا کرتا ہے اور اسلوب ہی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔چنانچہ رویہ ہی زبان اور قلم کو مقبولیت عطا کرتا ہے۔بعض رویے ’مصنوعی‘ بھی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر مقررین اور اصحاب قلم کے رویوں کی اصلیت تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ تحریر و تقریر کا مصنوعی رویہ مصنف یا مقرر کے اصل رویہ سے بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی مقرر کے چند ایک خطابات کو سن کر یا کسی صاحب قلم کی چند ایک تحریروں کو پڑھ کر ہم اس کے اصل رویہ تک پہنچ جائیں ایسا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ رویے کے مشاہدے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں جس شخص کے رویے کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہے اس سے ہمارا راست تعلق بھی ہو۔ یعنی اگر کوئی مقرر یا صاحب قلم اپنی تحریر و تقریر میں صلہ رحمی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ حقیقی زندگی میں لوگوں سے اس کا رویہ صلہ رحمی والا ہی ہو۔ اگر اس کا رویہ حقیقی ہوگا تو اس کے قول و فعل میں یکسانیت ہوگی۔ دوراندیش اور ذہین سامع و قاری مقرر اور صاحبِ قلم سے ملے بغیر بھی اس کے رویے کا اندازہ لگا لیتا ہے۔

’رویہ‘‘ کے تعلق سے قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ ’’رویہ‘‘ اور ’’فکر‘‘کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ ہماری فکر کے مطابق ہی ہمارا رویہ تشکیل پاتا ہے۔ مثال کے طور پر چند ایک تجربات کے روشنی میں ہم نے اپنے ذہن میں ایک مفروضہ قائم کر لیا کہ بغیر جھوٹ بولے دفتر سے چھٹی نہیں مل سکتی ۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دفتر سے چھٹی مانگنے والا ہر شخص ہمیں جھوٹا نظر آئے گا۔کچھ لوگوں کی فکر انتہائی منفی ہوتی ہے۔انہیں دنیا کے ہر کام میں عیب ہی عیب نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کا رویہ بھی منفی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک باپ کا رویہ اپنے بیٹے کے تعلق سے منفی ہے۔ اب اگر اس کا بیٹا امتحان میں کم نمبر لائے گا تو باپ کو شک ہوگا کہ اس کے بیٹے نے نصابی کتابوں کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں۔ اور اگر اس کا بیٹا اچھے نمبر سے کامیاب ہو جائے تو وہ شک کرے گا کہ ضرور اس نے امتحان میں چوری کی ہوگی۔ 

رویہ میں مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔ ہمارا رویہ جیسا ہوگا ہمیں ویسے ہی افراد و احباب بھی میسر آئیں گے۔ مثلاً جس شخص کا رویہ جھوٹ بولنے پر مبنی ہوگا بالکل یقینی سی بات ہے کہ اس کے حلقۂ احباب میں جھوٹ بولنے والوں کی کثرت ہوگی۔ منفی رویے کے حامل شخص کے ارد گرد مثبت رویے کے حامل افراد بہت کم نظر آئیں گے۔ جھگڑالو رویہ رکھنے والوں کا سابقہ اکثر جھگڑا کرنے والے لوگوں سے ہی ہوتا ہے۔ محبت کرنے والوں کو محبت اور نفرت کرنے والوں کو بدلے میں نفرت ہی ملنی ہے۔ یعنی ساری شعبدہ بازی رویوں کی ہی ہے۔معروف صوفی دانشور احمد اشفاق کہتے ہیں:

’’کوئی شخص ، کوئی رشتہ، کوئی جذبہ کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ ان کے بھی پائوں ہوتے ہیں۔ بس ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کر کبھی یہ بھاگ کر قریب آ جاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں۔

Thursday 3 December 2020

शिक्षकों पर सख्त हुई सरकार, बांका में 32 शिक्षकों को हटाया गया!

 शिक्षकों पर सख्त हुई सरकार, बांका में 32 शिक्षकों को हटाया गया!   

नीतीश कुमार की सरकार के खिलाफ मोर्चा खोलने वाले शिक्षकों को लेकर सरकार भी अब सख्त हो गई है। चुनाव परिणामों के बाद से ही शिक्षकों के खिलाफ कार्रवाई की लंबित संचिका ने गति पकड़ ली है। शुक्रवार को बांका में भी 32 शिक्षकों की नौकरी खत्म करने का फैसला कर लिया गया है। बकायदा आज की तिथि से ही उनकी नौकरी खत्म हो गई। उनका वेतन पहले से बंद कर दिया गया था। विभागीय पत्र के बाद जिला शिक्षा पदाधिकारी देवेंद्र कुमार झा और जिला कार्यक्रम पदाधिकारी स्थापना पवन कुमार ने शुक्रवार को इस संबंध में महत्वूपर्ण बैठक कर अंतिम निर्णय लिया है। जिन 32 शिक्षकों को नौकरी से हटाने का फैसला लिया गया है। वे फर्जी नहीं हैं ना ही किसी गबन के आरोपी है। इन शिक्षकों का दोष सिर्फ इतना है कि वे प्रशिक्षित नहीं हैं। यानी बीएड या डीएलईएड की डिग्री हासिल नहीं कर सके हैं। इसमें कई शिक्षक एक से डेढ़ दशक से नौकरी कर वेतन उठा रहे हैं। उनकी बहाली के समय शिक्षक बनने के लिए प्रशिक्षण की योग्यता अनिवार्य नहीं थी। लेकिन शिक्षा अधिकार कानून के तहत अप्रशिक्षित शिक्षक विद्यालयों में नहीं पढ़ा सकते हैं। विद्यालयों में तैनात अप्रशिक्षित शिक्षकों के लिए मार्च 2019 तक प्रशिक्षण हासिल करने की आखिरी तिथि निर्धारित की गई थी। लेकिन डेढ़ साल के अधिक समय से यह फाइल ठंडे बस्ते में थी। चुनाव के दौरान शिक्षकों का सरकर विरोधी रूख देख, नई सरकार की जीत के दूसरे दिन ही यह आदेश जारी हो गया। और अब शिक्षक अपनी नौकरी भी गवां बैठे। इस खबर भर से शिक्षकों में हड़कंप मच गया है।

————————
सुनैना कुमारी-प्राथमिक विद्यालय महेशपुर, रजौन
शोभा कुमारी- प्रोन्न्म मध्य विद्यालय गौराडीह, रजौन
सोनल कुमारी-मध्य विद्यालय मोरामा, रजौन
निर्मल कुमार-प्राथमिक विद्यालय महादेवपुर, रजौन
राजीव कुमार हेम्ब्रम-प्रोन्नत मध्य विद्यालय बूढ़ीघाट, कटोरिया
गेणश शंकर विद्यार्थी-प्राथमिक विद्यालय बाराकोला, कटोरिया
रंजन कुमार-प्राथमिक विद्यालय रणघट्टा, कटोरिया
देवानंद- प्राथमिक विद्यालय धर्मराय, अमरपुर
प्रशांत कुमार सिंह- मध्य विद्यालय पैर एसटी, धोरैया
मु.जहांगीर-नप्राथमिक विद्यालय चिहार, बाराहाट
पूनम कुमारी- नव प्राथमिक विद्यालय पकड़िया, शंभूगंज
राहुल कुमार सिंह-प्राथमिक विद्यालय लालमणिचक, शंभूगंज
आशुतोष कुमार-उत्क्रमित मवि खिजुरमुढिया, बौँसी
सरिता कुमारी-प्रावि पलार, बौंसी
गुड़िया कुमारी- उमवि सिरांय, बौंसी
निखहत बानो-कन्या मवि बौंसी
एजाज अहमद-प्रोमवि गौरा, चांदन
प्रतिमा भारती-नव प्राथमिक विद्यालय गोड़ा दहियार टोली, फुल्लीडुमर
परिमाला देवी- नप्रावि मुरलीवरण, फुल्लीडुमर
सत्यम कुमार सिंह-नप्रावि कारीपथार बांका
रीना कुमारी-प्रोमवि अमरपुर, बांका
तकी इमाम-प्रोमवि करहरिया, शंभूगंज
प्रवीण कुमार-प्रोमवि दुर्गापुर चांदन
जयमाला चौधरी- प्रावि सहुआ, अमरपुर
मणिमाला देवी-प्रावि काशपुर, अमरपुर
इंदुभूषण कुमार सिंह-प्रावि धर्मराही, बेलहर
पवन कुमार सिंह-मवि हथियाडाढ़ा, बेलहर
उमेश राम-प्रावि कुल्हड़िया, बौंसी
ग्रेबियल सोरेन-प्रोमवि सिकचुलिया, बौँसी
राम कुमार दास-मवि केंदुआर, फुल्लीडुमर
रामविलास रविदास-प्रावि राजूपथर पोठिया-धोरैया
विशेखा देवी-प्रावि मधाय, रजौन

Wednesday 2 December 2020

बड़ी ख़बर -प्रेमी के शादी से नाराज प्रमिका ने दुल्हन का बाल काट आंखो में डाल दिया फेविक्विक,हालत गंभीर

 बड़ी ख़बर -प्रेमी के शादी से नाराज प्रमिका ने दुल्हन का बाल काट आंखो में डाल दिया फेविक्विक,हालत गंभीर 

 बिहार के नालंदा जिले से प्रेम-प्रसंग से जुड़ी एक खबर आई है. जहां प्रेमी की शादी से नाराज एक प्रेमिका ने नई नवेली दुल्हन पर हमला कर उसकी बुरी हालत कर दी है. दरअसल, नई नवेली दुल्हन जब कमरे में सो रही थी तभी प्रेमिका घर में घुसकर नई नवेली दुल्हन का बाल काट आंखों में फेवीक्विक डाल फ़रार होने की कोशिश की. लेकिन दुल्हन के शोर मचाने पर परिजनों ने प्रेमिका को पकड़ लिया और उसकी जमकर पिटाई की.


इसके बाद प्रेमिका को पुलिस के हवाले कर दिया. यह घटना भागनबिगहा थाना क्षेत्र मोरा तालाब गांव की है. इस घटना के बाद दुल्हन को इलाज के लिए हायर सेंटर में भर्ती कराया गया है. इस घटना की जानकारी मिलते ही विधि व्यवस्था डीएसपी संजय कुमार गांव पहुंच घटना की जानकारी ली. एहतियात के तौर पर पुलिस अभी गांव में कैम्प कर रही है. बताया जाता है कि गोपाल राम की एक दिसम्बर को शेखपुरा जिले में शादी हुआ. शादी के बाद जब वह दुल्हन को विदा कर अपने घर लाया तो इस बात की भनक उसकी प्रेमिका को लगी.


जिसके बाद प्रेमिका का गुस्सा चढ़ते गया और बदला लेने की नीयत से वह प्रेमी के घर जा पहुंची. दरअसल, दूल्हे की बहन से उसकी दोस्ती थी इस कारण किसी भी परिजन को शक नहीं हुआ. इसके बाद जब दूल्हा दुल्हन के बाद घर के सभी सदस्य भी थके मंदे होने के कारण गहरी नींद में सो गए. तभी प्रेमिका मौका पाकर कमरे में घुस गयी  और बाल काटने के बाद उसके आंख में फेवीक्विक डाला दिया. जिसके बाद दुल्हन शोर मचाने लगी और शोर सुन परिजन की नींद खुल गई और प्रेमिका को पकड़ कर जमकर पिटाई कर दी. पुलिस मौके पर पहुंचकर युवती को हिरासत में लेते हुए इलाज के लिए बिहारशरीफ सदर अस्पताल में भर्ती कराया. वहीं, दुल्हन को भी इलाज के लिए अस्पताल में भर्ती कराया गया, जहां दुल्हन की हालत अभी गंभीर बनी हुई है.

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...