Monday 26 April 2021

खुदा बख्श ओरिएंटल पब्लिक लाइब्रेरी को ध्वस्त करने का फैसला वापस ले सरकार: कमर मिसबाही

 खुदा बख्श ओरिएंटल पब्लिक लाइब्रेरी को ध्वस्त करने का फैसला वापस ले सरकार: कमर मिसबाही

(सीतामढी/प्रतिनिधि)

बिहार स्टेट उर्दू टिचर्स एसोसिएशन के आह्वान पर सुफफा  सेन्ट्रल पबिलक स्कूल   मेहसौल सीतामढ़ी सहित राज्यभर में आज "फोटो विद पोस्टर" के माध्यम से खुदा बख्श ओरिएंटल पब्लिक लाइब्रेरी के एक हिस्से को ध्वस्त करने के सरकार के फैसले के खिलाफ विरोध दर्ज किया गया।  विरोध प्रदर्शन का नेतृत्व करते हुए, एसोसिएशन के प्रदेश अध्यक्ष क़मर मिसबाही ने पत्रकारों से बात करते हुए कहा कि बिहार सरकार पटना में 130 साल पुरानी खुदा बख्श ओरिएंटल पब्लिक लाइब्रेरी के एक बड़े हिस्से को ध्वस्त करने का फैसला किया है, जो एक पुरातत्व स्थल है।इस गैरजिम्मेदाराना फैसले के खिलाफ जि कई लेखकों, बुद्धिजीवियों और पुस्तक प्रेमियों,विद्यार्थी संगठनों , सहित कई प्रमुख संगठनों ने विरोध दर्ज किया है।  एक पूर्व IPS अधिकारी ने अपना पदक  लौटाकर विरोध दर्ज कराया।  इसके बावजूद, नितीश सरकार पर इसका अभी तक कोई प्रभाव नजर नहीं आया है। कमर मिसबाही 

ने कहा कि खुदा बख्श लाइब्रेरी को एक अंतरराष्ट्रीय दर्जा प्राप्त है।  इसे  यूनेस्को द्वारा अंतर्राष्ट्रीय विरासत स्थल घोषित किया गया है। इसकी स्थापना 1891 में बिहार के एक जमींदार मौलवी खुदा बख्श ने अपनी जमीन पर की थी।

  उन्होंने आगे कहा कि यह पुस्तकालय सभी धर्मों के अनुयायियों के लिए समान महत्व रखता है बावजूद इसके  बिहार सरकार इसे ध्वस्त करने पर तूली  है जो किसी भी दृष्टिकोण से सही नहीं है।  इस पुस्तकालय की सुंदरता इस तथ्य से स्पष्ट है कि सभी धर्मों, जातियों और समुदायों के लोगों ने न केवल ज्ञान की प्यास बुझाई है, बल्कि सर्वोच्च पदों पर आसीन होकर  राष्ट्र की सेवा कर रहे हैं।  उन्होंने सरकार से बिहार की इस ऐतिहासिक धरोहर को बचाने के लिए अपने फैसले को पलटने की मांग की वरना जब तक फैसला पलटा नहीं जाता तब तक हमारा आंदोलन जारी रहेगा। इस वरचूअल आंदोलन में कोविड 19 का पालन करते हुए सिर्फ मोहम्मद असगर अली, मोहम्मद कौसर यजदानी  मौजुद थे !

Sunday 18 April 2021

ہم ایک بڑے ادیب اور اچھے انسان سے محروم ہو گئے: کامران غنی صبا

 ہم ایک بڑے ادیب اور اچھے انسان سے محروم ہو گئے: کامران غنی صبا

پٹنہ 17 اپریل

معروف ادیب اور دو سو سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے انتقال پر کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کو اپنا ذاتی نقصان قرار دیا ہے. انہوں نے کہا کہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنف، شاعر، افسانہ نگار اور ناقد تھے لیکن ان کی طبیعت میں منکسرالمزاجی بھری ہوئی تھی. وہ جس سے ملتے خندہ پیشانی سے ملتے. چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا طرہ امتیاز تھا. کامران غنی صبا نے کہا کہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ان کے لیے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے. ان میں غرور و تکبر کا شائبہ تک نہیں تھا. بڑے ہونے کے باوجود اکثر خود ہی فون کرتے. خیریت دریافت کرتے. مفید مشوروں سے نوازتے. کامران غنی صبا نے بتایا کہ پروفیسر ہرگانوی نے انہیں اپنی کئی کتابیں بھیجوائیں. وہ جب بھی اپنی کوئی نئی کتاب بھیجواتے یہ ضرور کہتے کہ اگر موقع ملے تو کچھ لکھ دیجیے گا. افسوس کہ میں ان کے نعتیہ مجموعہ "ہر سانس محمد پڑھتی ہے" کے سوا ان کی کسی کتاب پر نہیں لکھ سکا. پروفیسر مناظر صاحب نے کبھی کوئی شکایت تک نہیں کی. اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے.

مولانا سید شاہ حسن مانی ندوی کا انتقال بڑا ملی علمی اور روحانی خسارہ

 مولانا سید شاہ حسن مانی ندوی کا انتقال بڑا ملی علمی اور روحانی خسارہ 

 - مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

مولانا سید شاہ حسن مانی ندوی نےبھی دنیا کو الوداع کہدیا وہ خانقاہ پیر دمڑیا خلیفہ باغ بھاگل پور کے سجادہ نشیں تھے. انکی شخصیت ملی علمی اور روحانی تھی. ایک زمانے میں جمیعت شباب اسلام کے جلسوں میں انکی شرکت کثرت سے ہوا کرتی تھی. وہ معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی بھی کئ بار تشریف لا چکے تھے. وہ انتہائی سادہ لفظوں میں اپنی بات کہ جاتے تھے. ان کے انتقال سے اس علاقے میں بڑا ملی علمی و روحانی خلا پیدا ہو گیا ہے. ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کیا ہے. انہوں نے فرمایا کہ ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنے بڑے صاحبزادے کی سجادگی کا اعلان کیا تھا اور اہل علم اور سجادگان کی موجودگی میں انکی دستاربندی کرائی تھی. مفتی صاحب نے اپنے تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس خانوادہ سے میرا تعلق قدیم ہے. جس زمانہ میں میں پیر دمڑیا کی حاجی پور شاخ پر کام کر رہا تھا تو میرا آنا جانا پیر دمڑیا کتب خانے کے مخطوطات دیکھنے کیلئے ہوا کرتا تھا. اور مجھے مولانا شاہ شرف عالم ندوی رحمہ اللہ جناب منظر حسین اور شاہ حسن مانی ندوی رحمہ اللہ کی محبتیں اور شفقتیں ملا کرتی تھیں. مفتی محمدثناءالہدی قاسمی نے اس حادثہ پر اہل خاندان سے تعزیت کی او رشاہ صاحب کی مغفرت، بلندی درجات اور پس ماندگان کے لیے صبرو ثبات کی دعا فرمائی

مدارس اسلامیہ پرکورونا کے اثرات

 مدارس اسلامیہ پرکورونا کے اثرات

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آج جبکہ پوری دنیا میں تعلیم نے صنعت و تجارت کی حیثیت حاصل کرلی ہے، مدارس اسلامیہ متوسط اور غریب خاندانوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں،یہاں لیا نہیں؛بلکہ سب کچھ دیا جاتا ہے، تعلیم بھی، تربیت بھی، کتابیں بھی، خوراک بھی، رہائش بھی، کپڑے بھی، سب کچھ مفت۔ مدرسوں میں کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا، یہاں کا بجٹ آمدنی کے بعد نہیں بنتا؛ بلکہ اللہ کے فضل اور اہل خیر کے ذریعہ دی جانے والی رقم کی موہوم امید اور توقعات پر بنا کرتا ہے، یہاں کے اساتذہ معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے،دنیاوی اجرت کا تصور نہیں رکھتے ؛ بلکہ اجر خداوندی کی امید پر کام کرتے ہیں،ان کی امیدیں اللہ سے لگی ہوتی ہیں، ان کے مقاصد جلیل اور آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں، رمضان المبارک اور دوسرے موقع سے یہ اہل خیر سے رابطہ کرتے ہیں، چھوٹی بڑی رقمیں وصول کرلاتے ہیں،جس سے مدارس اسلامیہ کا یہ سارا نظام چلا کرتا ہے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایاکرتے تھے کہ اپنے تعلیمی نظام کو خیرات زکوٰۃ پر منحصر نہیں کرنا چاہئیے، اپنی اصل آمدنی میں سے بھی کچھ اس کام کے لئے نکالنا چاہیے؛لیکن واقعہ یہی ہے کہ عطیات کی مختصر رقم کو چھوڑ کر اب تک مدارس اسلامیہ کا ساراتعلیمی نظام مسلمانوں کے خیرات زکوٰۃ پر ہی منحصر ہے۔

امسال کورونا وائرس کے دوسرے دور کی دہشت،متوقع لاک ڈاؤن کی وحشت، آمدورفت کے وسائل کے ممکنہ طور پر مسدوداور گھر وں سے نکلنے پر خطرات کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں اور محصلین کا رابطہ اہل خیر حضرات سے نہیں ہوپا رہا ہے،مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نے آن لائن رقومات بھیجنے کی اپیل کی ہے، اخبارات میں اشتہارات دئیے ہیں؛ لیکن کتنے لوگ اس اپیل کا نوٹس لیتے ہیں، ہر آدمی جانتا اور سمجھتا ہے،جو لوگ اپنے سارے کام’’کیش لیس سسٹم‘‘ سے کیا کرتے ہیں،ان کے لئے تو یہ دشوار بھی نہیں ہے،پے ٹی ام، اور کریڈٹ کارڈ سے بجلی بل اور دوسرے سرکاری ٹیکس ادا کئے جاتے رہے ہیں؛لیکن اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کم ہوا کرتی ہے،بڑے اداروں کی طرف کچھ توجہ ہوبھی جاتی ہے؛لیکن گاؤں اوردیہات میں واقع چھوٹے چھوٹے مدارس کی طرف توجہ بالکل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے اساتذہ کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں اور وصولی صفر ہے،ایسے میں یہ ادارے انتہائی پریشان کن دور سے گذر رہے ہیں،چھوٹے مدارس کی اہمیت کم نہیں ہے، یہ مسلم سماج میں اسلامی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے ’’لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، مسلم سماج کے جسم و جان میں اسلامی حمیت و غیرت اور دینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کرتا ہے،وہ سب انہیں مدارس اسلامیہ کی دین ہے، بنیادی دینی تعلیم جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کی تکمیل ان اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔

  یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اکابر علماء نے اس کی ضرورت و اہمیت بیان کرکے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کر ائی ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے فوق(بڑھ کر)متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں‘‘(حقوق العلم: ۱۵) حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی رائے ہے کہ ’’یہی کہفی مدارس تھے،جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی اور اخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے،‘‘ (الفرقان،افادات گیلانی)

علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں: ’’یہ مدارس جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں،ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی‘‘

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا:  ’’مدرسہ سب سے بڑی کار گاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کا وہ بجلی گھر(پاورہاؤس)ہے جہاں سے اسلامی آبادی؛بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے، جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے ‘‘(پاجا سراغ زندگی: ۰۹)

ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کا ارشاد ہے:’’مدرسہ آپ کے دین و ایمان کی جگہ ہے،یہ آپ کی دنیا و آخرت ہے، مدارس اسلامیہ کو تقویت پہونچائی جائے،دین اسلام کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کے استحکام سے ہے، علماء اور مدرسوں پر غلط تبصرہ کرنے سے گریز کریں،(مدرسہ رحمانیہ سپول کے اجلاس سے خطاب) آپ نے مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں اکابر کے ارشادات و افادات کا مطالعہ کرلیا ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ان اداروں کی فکر کریں اور موجودہ پریشان کن حالات سے نکالنے میں ان کی مدد کریں۔

 اہل خیر حضرات کو عطیات کی رقم سے اپنے اپنے علاقوں میں علماء، ائمہ مساجد،مؤذنین اور مدارس کے اساتذہ کے لئے بھی دست تعاون دراز کرنا چاہیے، ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچے، اس کے لئے یہ بھی کرسکتے ہیں کہ یہ رقومات مدارس اورمساجد کے ذمہ داروں کو بمد تنخواہ دے دی جائیں،اور ذمہ داران، اساتذہ، ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہیں ادا کریں، اس طرح ان کا بھی کام چل جائے گا اور ادارے اساتذہ کے مقروض نہیں رہیں گے۔

اس موقع سے یہ بدگمانی بالکل نہ پھیلائی جائے کہ مہتمم صاحبان رکھ لیں گے،سوشل میڈیا پر اس قسم کے بیانات لوگ دیتے رہتے ہیں، یقینا کچھ مہتمم اور متولی صاحبان ایسا کرتے ہوں گے؛لیکن عمومی احوال ایسے نہیں ہیں، ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم اکادکا واقعات کو کلیہ بنا کر پیش کرتے ہیں،علمی اصطلاح میں کہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ قیاس استثنایئ کو قیاس استقرائی کا درجہ دینا ہماری فطرت بن گئی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ پوری دیگ کے چاول کے پکنے کا اندازہ دوچار دانوں کو مسل کر لگایا جاسکتا ہے ؛لیکن روٹی میں یہ فارمولہ نہیں چلے گا،تمام روٹی کے کچی اور پکی ہونے کی بات ایک روٹی کو دیکھ کر نہیں کہی جاسکتی۔

دوسرا بڑا مسئلہ دارالاقامہ میں مقیم طلبہ کے نان و نفقہ اور کھانے پینے کا ہے، امراء اور صاحب استطاعت لوگوں کی خیرات زکوٰ ۃ کی رقم سے یہ اخراجات پورے کئے جاتے رہے ہیں؛لیکن اس بارکورونا کی وحشت کی وجہ سے یہ کام نہیں ہو رہا ہے اہل خیر حضرات مدارس کی ضرورتوں کو سمجھیں ہمارا احساس ہے کہ یہ امت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے،اس لئے بدگمانی چھوڑیئے،مدارس کو ان پریشان کن حالات؛ بلکہ’’عالم نزع‘‘ سے نکالنے کے لئے آگے آیئے، اس لئے کہ اگر یہ مدارس نہیں رہے تو کیا ہوگا،وہ علامہ اقبال سے سنئے، فرماتے ہیں:

’’اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش ہی نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘ (اوراق گم گشتہ از رحیم بخش شاہین)

Tuesday 13 April 2021

رمضان المبارک کا پیغام ۔

 رمضان المبارک کا پیغام



                   شمشیر عالم مظاہری۔ دربھنگوی۔

امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کا استقبال کیسے کیا جائے۔ فی الوقت ہمارے پیش نظر رمضان المبارک ہے جس کی رحمتیں و برکتیں امت مسلمہ نیز ان تمام لوگوں پر سایہ فگن ہو چکی ہیں جو خیر و اصلاح کا مہینہ سمجھتے ہیں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غم گساری، محبت وخیرخواہی، جذبہ خدمت خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت، اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہذا اس کے شایانِ شان اس کا استقبال بھی ہونا چاہئے ساتھ ہی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ تمام صفات سے ہم مزین ہو جائیں جو اس مہینہ کی پہچان ہے ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا،روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شب قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی۔ ساتھ ہی اس ماہ مبارک میں زکوٰۃ،انفاق،اورفطرے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہ رمضان کی عبادات کو خصوصی درجہ حاصل ہوا۔ 

رمضان المبارک کا مہینہ اللہ جل شانہ کی بڑی عظیم نعمت ہے ہم اس مبارک مہینے کی حقیقت اور اس کی قدر کیسے جان سکتے ہیں کیونکہ ہم لوگ دن رات اپنے دنیاوی کاروبار میں الجھے ہوئے ہیں اور صبح سے شام تک دنیا ہی کی دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیں اور مادیت کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں ہم کیا جانیں رمضان کیا چیز ہے؟ اللہ جل شانہٗ جن کو اپنے فضل سے نوازتے ہیں اور اس مبارک مہینے میں اللہ جل شانہ کی طرف سے انواروبرکات کا جو سیلاب آتا ہے اس کو پہچانتے ہیں ایسے حضرات کو اس مہینے کی قدر ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ تجارت کرتے ہیں ان کے کاروباری سیزن آیا کرتے ہیں جس شخص کا سیزن آجائے وہ اپنی محنت بہت زیادہ کر دیتا ہے وہ اپنی مصروفیات ترک کر دیتا ہے وہ دوسروں سے معذرت کرلیتا ہے کہ میرا سیزن ہے اس لئے میں زیادہ وقت فارغ نہیں کر سکتا بلکہ وہ انسان اپنے کھانے پینے کی پرواہ نہیں کرتا رات کو اسے سونے کی فکر نہیں ہوتی اس کو ہر وقت یہ غم ہوتا ہے کہ میں کس طرح اس سیزن میں کمالوں سیزن سے جتنا نفع  اٹھا سکتا ہوں میں اٹھا لوں تاکہ مجھے زیادہ فائدہ ہو وہ سوچتا ہے کہ یہ تھوڑے دن کی جستجو ہے یہ تھوڑے دن کی مشقت ہے اس کے بعد پھر آرام کرلیں گے۔ اسی طرح رمضان المبارک نیکیاں کمانے کا سیزن ہے جو لوگ اپنے گناہوں کو معاف کروانا چاہتے ہیں اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی معیت کے حصول کے لیے بیقرار رہنے والے ہیں ان کے لیے یہ مہینہ ایک سیزن کی مانند ہے انہیں چاہیے کہ جب وہ روزہ رکھیں تو ان کا روزہ محض کھانے پینے سے رکنے تک محدود نہ ہو بلکہ روزہ دار کی آنکھیں بھی روزہ دار ہوں،زبان بھی روزہ دار ہو،کان بھی روزہ دار ہوں،  شرم گاہ بھی روزہ دار ہو،  دل و دماغ بھی روزہ دار ہوں، جب اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں گے تو افطار کے وقت جب دامن پھیلائیں گے اللہ رب العزت ہماری دعاؤں کو قبول فرمائیں گے ۔جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے اس کے دل میں رمضان المبارک کا ایک احترام اور اس کا تقدس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ کی عبادت کچھ زیادہ کرے اور کچھ نوافل زیادہ پڑھے جو لوگ عام دنوں میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں وہ لوگ بھی تراویح جیسی لمبی نماز میں بھی روزانہ شریک ہوتے ہیں یہ سب الحمدللہ اس ماہ کی برکت ہے کہ لوگ عبادت میں، نماز میں، ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں لیکن ان سب نفلی نمازوں نفلی عبادات نفلی ذکر و اذکار اور نفلی تلاوت قرآن کریم سے زیادہ مقدم ایک اور چیز ہے جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینہ کو گناہوں سے پاک کرکے گزارنا کہ اس ماہ میں ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو اس مبارک مہینے میں آنکھ نہ بہکے، نظر غلط جگہ پر نہ پڑے، کان غلط چیز نہ سنیں،  زبان سے کوئی غلط کلمہ نہ نکلے اور اللہ تعالی کی معصیت سے مکمل اجتناب ہو یہ مبارک مہینہ اس طرح گزار لیں پھر چاہے ایک نفلی رکعت نہ پڑھی ہو اور تلاوت زیادہ نہ کی ہو اور نہ ذکر و اذکار کیا ہو لیکن گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچتے ہوئے یہ مہینہ گزار دیا تو آپ قابلِ مبارک باد ہیں اور یہ مہینہ آپ کے لئے مبارک ہے گیارہ مہینے تک ہر قسم کے کام میں مبتلا رہتے ہیں اور یہ اللہ تعالی کا ایک مہینہ آرہا ہے کم از کم اس کو تو گناہوں سے پاک کر لیں اس میں تو اللہ کی نافرمانی نہ کریں اس میں تو کم از کم جھوٹ نہ بولیں اس میں تو غیبت نہ کریں اس میں تو بد نگاہی کے اندر مبتلا نہ ہوں اس مبارک مہینے میں تو کانوں کو غلط جگہ پر استعمال نہ کریں اس میں تو رشوت نہ کھائیں اس میں سود نہ کھائیں کم از کم یہ ایک مہینہ اس طرح گزار لیں ۔ اس لیے کہ روزے تو ماشاء اللہ بڑے ذوق و شوق سے رکھ رہے ہیں لیکن روزے کے کیا معنی ہیں؟ روزے کے معنی یہ ہیں کہ کھانے سے اجتناب کرنا پینے سے اجتناب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے اجتناب کرنا روزے میں ان تینوں چیزوں سے اجتناب ضروری ہے ۔ اب یہ دیکھیں کہ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو فی نفسہ حلال ہیں کھانا حلال پینا حلال اور جائز طریقے سے زوجین کا نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا حلال اب روزے کے دوران ان حلال چیزوں سے پرہیز کر رہے ہیں نہ کھا رہے ہیں اور نہ پی رہے ہیں لیکن جو چیزیں پہلے سے حرام تھیں مثلاً جھوٹ بولنا غیبت کرنا بدنگاہی کرنا جو ہر حال میں حرام تھیں روزے میں یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں اب روزہ رکھا ہوا ہے اور جھوٹ بول رہے ہیں روزہ رکھا ہوا ہے اور غیبت کر رہے ہیں روزہ رکھا ہوا ہے اور بد نگاہی کر رہے ہیں اور روزہ رکھا ہوا ہے لیکن وقت پاس کرنے کے لئے گندی گندی  فلمیں دیکھ رہے ہیں یہ کیا روزہ ہوا کہ حلال چیز تو چھوڑ دی اور حرام چیز نہیں چھوڑی اس لیے حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑ ے تو مجھے اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں اس لئے کہ جب جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا جو پہلے سے حرام تھا تو کھانا چھوڑ کر اس نے کونسا بڑا عمل کیا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں بجائے ابواب جنت کے ابواب رحمت کا لفظ ہے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے (حجۃاللہ البالغہ)  میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ  اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح وتہجد اور دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہوکر عوام مومنین کے قلوب بھی رمضان المبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالی کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں (یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئیے جانے) تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان المبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں۔  باقی رہے وہ کفار اور خدا نا شناس اور وہ خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اورن اس کے احکام و برکات سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے اور اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کرلیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لئے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ 

رمضان کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ

 عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا اس میں آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اے لوگو تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے اس مہینہ کی ایک رات ( شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نمازِ تراویح پڑھنے)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت ( یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کی ستر فرضوں کے برابر ہے یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے یہ ہمدردی اورغمخواری کامہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو ( اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے) افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ!ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ( تو کیاغرباء اس عظیم ثواب سے محروم  رہیں گے؟)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی  روزہ دار کا روزہ افطار کرادے (رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایاکہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالی میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا ( اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)  اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا  اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا (شعب الایمان للبیہقی)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے روزے اور اس کے پورے اعمال ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے تاکہ ہم بھی ان بشارات کے مستحق ہو سکیں جو  روزے داروں کے لئے مخصوص کی گئی ہیں آمین ۔

آمد ِرمضان

 آمد ِرمضان 

-------------   


                                                                مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ*

-----------------------------------------------------------------                                                        رمضان المبارک آگیا ، شیاطین پابند سلاسل ہوگئے ، جنت کا دروازہ کھل گیا ، اور نیکیوں کی فصل لہلہانے لگی ، اب یہ ہماری ہمت او رتوفیق پر منحصر ہے کہ اس ماہ کے فضائل وبرکات سے کس قدر ہم اپنا دامن بھرتے ہیں اور کس طرح اپنے مولی ٰ کو راضی کر پاتے ہیں، صادق الامین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور اپنی بخشش نہ کروالے۔

 اس لیے کمر بستہ ہوجائیے ، سال بھر تو بے فکری رہی، مسجد یں بھر نہیں سکیں ، ( اس بار بھی مسجدیں عام لوگوں کے لیے بند کر دی گئ ہیں) تلاوت قرآن کی توفیق نہیں ہوئی، خیر کی طرف دل مائل نہ ہوا، شر نے اپنے پنجے جمائے رکھے، نامہ اعمال میں کوتاہیاں ہی کوتاہیاں درج ہوئیں، اور ہم شیاطین کی کارستانیوں کا ذکر کرکے مطمئن ہوتے رہے ، لیکن اس ماہ میں تو شیاطین بھی بند ہوجاتے ہیں، خیر کی طرف متوجہ ہونے کی آواز لگائی جاتی ہے ، شرور سے بچنے کی تلقین ہوتی ہے ، پھر بھی روزہ ، نماز، تلاوت ، نوافل اور صدقہ وخیرات میں کوتاہی ہو رہی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ دل ہی مردہ ہو گیا ہے ، معصیت اور منکرات نے لوحِ دل کو اس قدر سیاہ کر دیا ہے کہ نامۂ اعمال کو سفید کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی ہے ، دل کی زمین کو اس قدر بنجر کر دیا ہے کہ اعمال صالحہ کی فصل ہی اس پر اگ نہیں پا رہی ہے ۔

 اگر نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے تو تو بہ و استغفار کی کثرت کی جائے، خالق کائنات کے سامنے گڑگڑایا جائے ، ندامت کے آنسو بہائے جائیں، اہل اللہ کی صحبت اختیار کی جائے، آخری عشرہ کا اعتکاف کیا جائے، صدقہ وخیرات کی کثرت کی جائے اور محرومین کو نوازا جائے، یہ سارے اعمال دل ودماغ کو صیقل کرتے ہیں، اور جب یہ دونوں اعضاء رئیسہ سے سیاہی دور ہوجاتی ہے تو انسان مرضی مولیٰ کے مطابق زندگی گذارنے لگتا ہے ۔

 اس لیے اس ماہ کی عظمت کو پہچانئے ، قرآن کریم سے اس مہینہ کو خاص نسبت ہے ، خود بھی تلاوت کا اہتمام کیجئے اور تراویح میں بھی ایک ختم سننے کا التزام کر ڈالیے، کسی بھی کام میں رہیے زبان کو ذکر اللہ سے تر وتازہ رکھیے ، اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں، اس کا ذکر بھی بے شمار کیجئے، ہر وقت ، ہر پل اور ہر آن کیجئے، اپنی عبادتوں پر نازاں نہ ہوجائیے، کیوں کہ یہ سب اللہ کی توفیق سے ہی ہو رہا ہے ، اور اللہ کی توفیق مل رہی ہے ، اس پر بھی شکر گذار ہو ئیے، یہ شکر گذاری مسلسل ہو تی رہے؛ تاکہ مزید توفیق ملے، اور ہم سب دنیاوی سکون اور آخرت کی جنت کے مستحق قرار پائیں۔

Monday 12 April 2021

सुप्रीम कोर्ट ने कुरान से 26 आयतें हटाने से जुड़ी जनहित याचिका खारिज कर याचिका कर्ता पर 50000रु का जुर्माना आयद

सुप्रीम कोर्ट  ने कुरान से 26 आयतें हटाने से जुड़ी जनहित याचिका खारिज कर याचिका कर्ता पर 50000रु का जुर्माना आयद,

Breaking news, Dilli  सुप्रीम कोर्ट  ने कुरान से 26 आयतें हटाने से जुड़ी एक जनहित याचिका खारिज कर दी है. इसके साथ ही याचिकाकर्ता पर 50 हजार रुपये का जुर्माना भी लगाया है. शिया वक्‍फ बोर्ड के पूर्व अध्‍यक्ष वसीम रिजवी ने जनहित याचिका (PIL) दायर कर सुप्रीम कोर्ट से मांग की थी क‍ि कुरान शरीफ की 26 आयतों को हटाया जाए. रिजवी के मुताबिक, ये खास आयतें मनुष्‍य को हिंसक बना रही हैं और आतंकवाद सिखा रही हैं. 

जस्टिस फली नरीमन, जस्टिस बीआर गवई और जस्टिस हृषिकेश रॉय की बेंच ने मामले की सुनवाई की. कोर्ट ने याचिका खारिज करते हुए कहा कि वास्तव में तुच्छ याचिका है. याचिकाकर्ता ने कुरान की उन 26 आयतों को देश की अखंडता के लिए खतरा बताया था और तर्क दिया था कि मदरसों में इसकी तालीम देकर आतंकी बनाए जा रहे हैं.

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

 اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا


کامران غنی صبا

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور 


میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرے اس ذہنی انتشار سے آپ کے ذہنی انتشار کا تار ضرور ملتا ہوگا. بات دراصل یہ ہے کہ کورونا ایک "معماتی وائرس" بن کر میرے دماغ میں داخل ہو چکا ہے. واللہ شعور سنبھالنے کے بعد سے آج تک میں نے ایسی معمہ نما شئے نہیں دیکھی. اب جبکہ پھر سے کورونا کی دوسری لہر چل پڑی ہے یا چلائی گئی ہے تو میں پھر سے بہت کنفیوز ہو گیا ہوں. خدا کورونا کی سات نسلوں کو غارت کرے کہ اس" کمینی قوم" نے قوم کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں داخل ہونے کے بعد یہ وائرس بھی "وائرس زدہ" ہو گیا. اور اس خطرناک وائرس کو اس سے بھی خطرناک وائرس "فرقہ پرستی" کے وائرس نے اپنی "آغوش" میں لے لیا. پھر کیا تھا کسی کو یہ وائرس صرف مسجدوں میں نظر آنے لگا تو کچھ کو صرف مندروں میں. تبلیغی جماعت والوں کو جتنی کامیابی اپنے سال قیام سے اب تک نہیں ملی ہوگی اس سے کہیں بڑی کامیابی آن واحد میں یوں ملی کہ کورونا اپنی پوری قوم سمیت مشرف بہ اسلام ہو گیا. ہاں کچھ "روشن خیالوں" نے مسجد مندر سمیت تمام مذہبی مقامات پر "کورونا" کے ثبوت حاصل کرنے میں "کامیابی حاصل" کر لی.

دنیا میں کوئی معمولی سا بھی ہنگامی حادثہ یا واقعہ ہو اور اس کے تار ہم جیسے "اسلام پسند" یہودیوں" سے نہ جوڑیں یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے. کورونا کے تار بھی خود ساختہ دلائل کے ساتھ یہودیوں سے جوڑنے کی بڑی کامیاب کوششیں کی گئیں.

کورونا کے تعلق سے سب سے زیادہ کنفیوژڈ حکومت کی گایڈ لائن نے کیا یے. الحمد للہ یہ سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہو چکا ہے. اگر میری یہ کنفیوژن کوئی دور کر دے تو بخدا ایسے شخص کی نسلوں کے لیے دل سے دعا کروں گا. اب آپ ہی بتاییے صاحب کہ دن بھر بازار کھلے رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں اور شام کے سات بجتے ہی کورونا اپنے بال بچوں سمیت سڑکوں اور گلیوں پر گشت لگانا شروع کر دے یہ کہاں کی منطق ہے...... ہمارے معزز (کچھ لوگوں کی زبان میں لعنتی... معاف کیجیے گا یہ گستاخی میں نہیں کر سکتا) نیتا حضرات الیکشن ریلی میں لاکھوں لوگوں کا سامنا کریں تو کورونا ان کی ہیبت سے خوف کھا کر بھاگ جائے اور ہم عوام کسی مقام پر دو چار کی تعداد میں بھی جمع ہوں تو ہم کورونا کی زد میں آ جائیں. یعنی یہ کورونا بھی ہم انسانوں کی طرح بڑا شاطر ہے اور آدمی اور جماعت دیکھ کر معاملہ کرتا ہے. ہم جیسے کمزور مل جائیں تو چڑھ دوڑے، نیتا جی اور ان کے معتقدین کو چھونے کی اس میں ہمت نہیں....

کورونا کے تعلق سے میری سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ اس کمبخت کو تعلیم اور تعلیمی اداروں سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہے؟ بھئی بازار میں، سنیما گھروں میں، انتخابی ریلیوں میں، بسوں میں، ٹرینوں میں... جب ہر جگہ "اجتماعات" ہو سکتے ہیں تو اسکول کالج میں آخر ایسی کون سی قوت کشش ہے کہ کورونا کھنچا کھنچایا وہاں پہنچنے کو بے تاب ہو جاتا ہے. ہو نہ ہو اس کے پیچھے ہم جیسے سست اور کام چور اساتذہ کی سازش کارفرما ہو گی.

ہاں صاحب.... چلتے چلتے ایک بات یاد آئی کہ رمضان آتے ہی کورونا نے پھر سے اپنی دہشت پھیلانا شروع کر دی ہے. حکومت کی طرف سے گایڈ لائن ائی ہے کہ مذہبی مقامات مکمل طور پر بند رہیں گے لیکن سنیما ہال کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے. تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ اپنے محلہ میں ایک "اسلامی سنیما" ہال کھلوایا جائے. جہاں "ارطغل" جیسے ڈرامے اور "مذہبی فلمیں" دکھائی جائیں. فلموں کے بیچ میں جب نماز کا وقت ہو تو وہاں باضابطہ باجماعت نماز کا اہتمام کیا جائے. اگر تراویح کے لیے کچھ حفاظ تیار ہو گئے تو اس کا بھی نظم کیا جائے. اب سوال یہ ہے کہ اجتماعی طور پر فلم دیکھنے کی جب اجازت ہے تو یقینی سی بات ہے کہ فلم دیکھنے سے تو کورونا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوگا لیکن کہیں نماز باجماعت شروع کرتے ہی کورونا نے فرقہ پرستی شروع کر دی تو........؟

Sunday 11 April 2021

کورونا اور مدارس اسلامیہ۔۔۔۔۔!

 کورونا اور مدارس اسلامیہ۔۔۔۔۔!

نازش ہما قاسمی

کورونا وائرس کی تباہ کاریاں پوری دنیا میں جاری ہیں،  ۲۰۲۰ میں سات آٹھ ماہ کے بعد کچھ امید ہو چلی تھی کہ اب اس وبا سے چھٹکارہ مل جائے گا؛ کیونکہ اس مہلک وبائی مرض کی ویکسن بھی آگئی تھی؛ لیکن پھر کورونا کو ایک سال ہوتے ہوتے اس کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو دوبارہ اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے اور سال گزشتہ کی طرح ایک مرتبہ پھر پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن جیسی صورتحال ہے۔ کورونا مہاماری  ایک طرف جہاں انسانوں پر موت کی بجلی بن کر سامنے آئی ہے، وہیں  اس نے دنیا کی معیشت کو  مکمل طور پر برباد کردینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ دینے والا ہاتھ اب  لینے والا ہاتھ بن آگیا ہے۔ سال گزشتہ پہلی بار اس کا سامنا ہوا تھا؛ اسی لئے بڑی تعداد میں مخیرین  حضرات نے بڑھ چڑھ کر غریب اور متوسط طبقوں کی خدمت کی؛ لیکن ایک سال سے ان کی معیشت مکمل ٹھپ پڑ چکی ہے اور اب دوسری لہر کا سامنا ہے۔ کورونا وبا کی زَد میں ہم مسلمانوں کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھنے والے مدارس اسلامیہ بھی آئے ہیں، یہ مدارس ہمارے عقائد کی حفاظت کا مستحکم قلعہ ہیں؛ لیکن  مدارس کی جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے، اسکول و کالج بھی کرونا کی زد پر تو آئے؛ لیکن انہوں نے مختلف راستوں سے اپنی انکم کا ذریعے بنائے رکھا، آن لائن تعلیم دے کر اپنے طلبہ سے مکمل فیس وصول کی، جن طلبہ نے فیس ادا نہیں کی ان کو یا تو  واٹس اپ گروپوں سے نکال دیا گیا یا امتحانات دینے کی اجازت نہیں دی گئی اور پورا سال پڑھنے کے باوجود بھی ان غریب طلبہ کا سال ضائع اور برباد کردیا گیا جو فیس دینے کی اہل نہیں تھے؛ لیکن مدارس اسلامیہ ہمارے غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کو  مفت تعلیم دیتے ہیں، یہ فیس کے نام پر اسکول و کالج والے کی طرح بے غیرتی نہیں کرسکتے اور نہ ہی فیس کی وجہ سے طلبہ کا سال برباد کرسکتے ہیں، ان کے پاس عوامی تعاون کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے، کرونا آفت کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کو سال گزشتہ بھی مکمل نظرانداز کیا گیا اور ممکن ہے کہ اس بار بھی بالکل نظر انداز کردیا جائے۔ سال گزشتہ اصحابِ خیر یہ کہہ کر مدارس کو نظر انداز کر رہے تھے کہ ہم نے اپنی زکوٰۃ غریبوں کو کھانا کھلانے کے مصرف میں دیدی ہے یا ہم خود اپنی زکوٰۃ کے پیسوں سے لنگر چلا رہے ہیں، فی الحال انسانی جان کا بچانا بہت ضروری ہے، جب مدارس کھلیں گے تب ہم ان کا بھی تعاون کردینگے، سر دست ہمارے سامنے بھوکے پیاسے غریب انسان ہیں جن کی جان بچانا ضروری ہے، بات سمجھ میں آنے والی تھی اور مدارس کے ذمہ داروں نے سمجھداری کا مظاہرہ بھی کیا، درمیانی سال میں بھی مدارس کو کچھ نہیں ملا، اساتذۂ کرام کی تنخواہیں بھی مدارس نہیں دے پائے، جس کی وجہ سے اساتذۂ کرام نے  دلبر داشتہ ہوکر مدارس کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا، کوئی سبزی بیچنے لگا تو کسی نے کوئی اور ذریعۂ معاش اختیار کرلیا، اگر اس سال بھی یہی صورت حال رہی تو مدارس اپنے تجرکار اور محنتی اساتذہ کو کھو دینگے اور آئندہ بھی کوئی عالم مدارس میں ملازمت کرنا پسند نہیں کرے گا، یہ ہمارے اسلامی قلعوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا؛ اس لیے قوم کے مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان اسلامی پاور ہاؤسز پر توجہ فرمائیں اور مدارس کی دامے، درمے، قدمے سخنے تعاون فرمائیں؛ ورنہ ہمارے مدارس بند ہوجائیں گے اور یہ ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوگا جس کی تلافی صدیوں میں بھی نہیں ہوپائے گی۔

میری اس تحریر کا مقصد مسلمانوں کے ذہن کو اس جانب مبذول کرانا ہے، ایک طرف آپ جہاں بڑھ چڑھ کر کار خیر میں حصہ لے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف دین  اسلام کے ان عظیم اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لئے انہیں مضبوط بنائیں، سال گزشتہ کا رمضان گیا، بقرعید گئی اور اب پھر رمضان آگیا، مدارس اسلامیہ کے لیے صورتحال یکساں ہی رہی، بہت سارے مدارس میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے مدرسین و ملازمین کو تنخواہیں بھی میسر نہ ہوئیں۔ بہت سارے علماء اور حفاظ نے مدارس چھوڑ کر معاشی خوشحالی کے لئے  دوسرے میدان میں قدم رکھا اور کسی طرح اپنے اہل و عیال کی کفالت کررہے ہیں۔ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ ایک مولوی اگر مدرسے میں ملازم ہے تو ساتھ ہی خالی اوقات میں تجارت بھی کرے؛ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے اولاً اس سلسلے میں مدارس کو اپنے گھر کی باندی سمجھنے والے مہتمم انہیں مدارس سے باہر کسی سرگرمی کی اجازت ہی نہیں دیتے اور اگر کچھ لوگ دیتے بھی ہیں تو اتنی شرائط کے ساتھ کہ اس اجازت پر عمل کرنا دشوار ترین ہوتا ہے، پھر بے چارہ مدرس اسی قلیل آمدنی میں عزت سے مہتمم کے ہاتھوں ذلیل ہوتا رہتا ہے، نہ کہیں جا سکتا ہے اور نہ ہی کچھ کرسکتا ہے  بس مہتمم کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتا ہے۔ خیر بات چل رہی تھی کورونا بحران میں مدارس اسلامیہ کے امداد کی تو اس جانب مسلمانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہم اس بحران پر قابو پالیں  اور دنیا اپنے معمول پر آجائے، اس وقت ہم اپنے دینی قلعے کی طرف دیکھیں تو وہ اس قابل نہ ہوں کہ دوبارہ ہمارے عقائد کی حفاظت کرسکیں۔ اپنی نسلوں کے دین  و ایمان کی فکر ہے تو ان مدارس اسلامیہ کی بھرپور مدد کریں، مسلم تنظیمیں بھی عوام الناس میں بیداری پیدا کریں اور مخیر مسلمانوں کو اس جانب متوجہ کریں کہ صدقات و زکوٰۃ کے مصارف میں سے  بہترین مصرف یتیم و نادار اور غریب طلبہ کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے والے مدارس بھی ہیں، جہاں غریب اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کی کفالت بھی اہم ہے؛ اس لئے ان کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کریں۔ فرقہ پرست حکومتوں کا مقصد کورونا کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے دین، مذہب اور اسلامی مدارس و مکاتب اور مساجد سے دور کرنا بھی ہے  ہمیں ان کی چالوں اور سازشوں کو سمجھتے ہوئے اپنے دفاع میں اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ اللہ مدارس و اہل مدارس کا حامی و ناصر ہو۔

इंतजार खत्म: बिहार के नियोजित शिक्षकों का जल्द होगा ट्रांसफर,

 इंतजार खत्म: बिहार के नियोजित शिक्षकों का जल्द होगा ट्रांसफर, 



 बिहार में राज्य के साढ़े 3 लाख नियोजित शिक्षकों को ऐच्छिक स्थानांतरण के लिए अब ज्यादा इंतजार नहीं करना पड़ेगा क्योंकि शिक्षा विभाग ने एनआईसी के सहयोग से ट्रांसफर प्रक्रिया के लिए सॉफ्टवेयर तैयार कर लिया है. शिक्षा मंत्री विजय कुमार चौधरी ने खुद स्थानांतरण पर लगे विराम पर ट्वीट के जरिये चुप्पी तोड़ी है और कहा है कि जल्द शिक्षकों का स्थानांतरण और पदस्थापन हो सकेगा, हांलाकि स्थानांतरण में महिला और दिव्यांग शिक्षकों को ही पहले प्राथमिकता दी जाएगी ताकि बिना किसी दुविधा के वे अपनी सेवाएं दे सकेंगे.

शिक्षा विभाग की घोषणा के बाद भी पिछले एक साल से स्थानांतरण प्रक्रिया पर विराम लगी थी. विभाग के अधिकारी सॉफ्टवेयर डेवलप करने की बात कह रहे थे. नई सेवाशर्त नियमावली के तहत महिलाओं और दिव्यांगों को अपने सेवाकाल में एक बार अंतर जिला और अंतर नियोजन इकाई ट्रांसफर किया जाएगा. नियमावली में पुरुष शिक्षकों को म्युचुअल ट्रांसफर देने की बात कही गई है, हालांकि इस फैसले बाद प्राथमिक शिक्षक संघ ने काफी विरोध भी जताया था और म्युचुअल ट्रान्सफर के बदले समान नियम लागू करने की मांग की थी लेकिन विभाग अपने फैसले पर कायम रहा.


प्राथमिक शिक्षा निदेशक डॉ रणजीत कुमार सिंह की माने तो इसी माह 22 अप्रैल के बाद स्थानांतरण को लेकर शिक्षकों से ऑनलाइन आवेदन लिए जाएंगे और पूरी प्रक्रिया जून माह तक पूरी कर ली जाएगी. उन्होंने भरोसा दिलाते हुए कहा है कि पूरी प्रक्रिया पारदर्शी तरीके से शुरू होगी और कहीं से कोई गड़बड़ी सामने नहीं आएगी. इसको लेकर सभी अधिकारी खुद बारीकी से मॉनिटरिंग करेंगे.पिछले 15 साल से बिहार के नियोजित शिक्षक स्थानांतरण के इंतजार में हैं, खासकर महिलाएं जो कि मायके में रहकर वर्षों से नौकरी कर रही हैं उन्हें सीधा ऐच्छिक स्थानांतरण का लाभ मिलेगा. शिक्षक नेता आनंद कौशल सिंह, मार्कण्डेय पाठक, अश्विनी पांडेय और आनंद मिश्रा अब भी सरकार के इस फैसले से संतुष्ट नहीं हैं और म्युचुअल स्थानांतरण को हटाकर सभी पुरुष शिक्षकों के लिए समान प्रकिया लागू करने की मांग कर रहे हैं, ऐसे में देखना होगा कि आखिर आवेदन लेने की प्रक्रिया कब तक शुरू हो पाती है और शिक्षकों की मुरादें कब पूरी होती है.

Monday 5 April 2021

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

 وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

امیر شریعت حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی خطبات کے آئینے میں

بہار میں خانوادۂ رحمانی کا یہ امتیاز رہاہے کہ علم و معرفت ، تصوف و سلوک ، شریعت و طریقت ، تصنیف و تالیف ، تقریر و خطابت ، قیاد ت و رہبری کے وہ اوصاف جو دوسری جگہوں پر الگ الگ پائے جاتے ہیں اس خاندان میں ایک ساتھ جمع نظر آتے ہیں۔حضرت امیر شریعت مفکراسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب مدظلہ العالی کے جد امجد عارف باللہ حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے جہاں فتنہ ارتداد کے خلاف مؤثر تحریک چلائی وہیں تصنیف و تالیف کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور چھوٹی بڑی تین سو کتابیں علمی یادگار کے طور پر چھوڑیں ۔ ایک طرف انہوں نے خانقاہ رحمانی قائم کیا اور رشد وہدایت کا چراغ روشن رکھا، تو دوسری طرف جامعہ رحمانی کی بنیاد رکھی اور تعلیم و تربیت کا چشمہ جاری کیا۔ آپ کے جانشیں امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مر قدۂ کی شخصیت بھی انہیں اوصاف و خصوصیات کا آئینہ دار تھی ۔تصوف و معرفت ، علم و عمل ، خطابت و تقریر ، تصنیف و تالیف جرأت وبے باکی اور رہبری وقیادت میں اپنی مثال آپ تھی ۔ اسی خانوادہ کے گل سر سبدمفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی امیر شریعت ، بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ تھے،جو اپنے دادا اور والد کے فیض یافتہ اور سچے جانشیں ہیں۔ خدائے تعالیٰ نے انہیں علم و عمل ، زہدوتقویٰ، فہم و فراست ، احسان و سلوک، جرأت و حوصلہ مندی ، تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت اور قائدانہ صلاحیت کا حسین امتزاج بنایا تھا،بے شک مولانا ہشت پہل شخصیت کے مالک تھے ، انہوں نے اپنے اندر بہت ساری خصوصیات اور کمالات کو جمع کر لیاتھا ،مگر اس وقت ہمارا موضوع مولانا کی خطابت و تقریر ہے۔

سماجی اور عوامی زندگی کے ہر شعبہ میں خطابت و تقریر کی اہمیت وضرورت تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ خواہ وہ شعبہ دعوت و تبلیغ کا ہو یا قیادت و رہبری کا ،معاشرہ کی اصلاح کا ہو یا ملک و ملت کی تعمیرو ترقی کا ۔ جس شخص کے اندر خطابت کی استعداد و صلاحیت زیادہ ہوگی وہ اسی قدر عوامی زندگی اور جمہور کی رہنمائی میں کامیاب و سرافراز ہوگا۔مولانا جن متنوع اوصاف و خصوصیات کا مجموعہ تھے ان میں ایک خاص صفت یہ ہے کہ ان کے اندر زورتحریر کے ساتھ قوت تقریر و خطابت کا خداداد ملکہ تھا۔ خطابت کا یہ جو ہر مولانا کی طبیعت کا حصہ تھا ،امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے باکمال عالم دین اور شیخ طریقت تھے، ان کے مریدین اور عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا، اور حضرت امیر شریعت کا شمار ایک بہترین خطیب اور مقرر کی حیثیت سے بھی تھا ، مریدین کو خطاب کرنا اور جلسہ میں تقریر کرنا عام بات تھی، خطابت کا یہ جوہر مولانا محمد ولی رحمانی کی شخصیت میں بھی رچ بس گیا تھا، اور کم عمری سے ہی جلسوں کو خطاب کرنا شروع کردیا تھا ۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ تقریر و خطابت اور زوربیاں کے لیے جس قدر اوصاف ولوازم ضروری ہیں وہ سب ان میں بدرجہ اتم موجود تھے۔

حضرت امیر شریعت کو بارہا ہزاروں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرنا پڑتا تھا ،اگر ان خطبات کو جو انہوں نے اب تک مختلف مواقع پر د یئے ہیں،جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ بحمد اللہ احقر نے اس پر کام شروع کر دیا ہے اور ’’خطبات ولی ‘‘کی پہل جلد 2017 میں دیدہ زیب اور عمدہ طباعت کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہے۔

آپ اسی موضوع کا انتخاب کرتے جس کو خود محسوس کرتے ، اور ملک و ملت کے لیے ضروری سمجھتے ،یہی وجہ ہے کہ حضرت والا کی بیشتر تقریریں ان کے طبعی احساس اور ملک و قوم کی عام ضرورت اور حالات کے لحاظ سے مختلف نوعیت کی ہیں۔ کہیں پھول کے شبنم تو کہیں آگ کا شعلہ ، کہیں دریا کی روانی تو کہیں سمندر کی گہرائی، کہیں صور اسرافیل تو کہیں کلام نرم ونازک ۔ آپ کی تقریریں دلوں کو گرما تی ہیں،دماغوں کے دریچے کھولتی ہیں، فکر و عمل میں توانائی بخشتی ہیں اورملک و ملت کے حالات و مسائل سے باخبر کرتی ہیں۔ آپ کی تقریر یں دشمن واغیار کے خرمن پر بجلی بن کر گرتی ہیں۔تصوف و سلوک کا موضوع ہو یا علم و ادب کا ، سیاست و صحافت کا پہلو ہو یا تاریخی وقانونی نوعیت کا، معاشرتی و اصلاحی تقریر ہو یا فن حدیث و تفسیر ہر موضوع پر حضرت والاکی تقریر حسن بیان اور زور خطابت کا عمدہ نمونہ پیش کرتی ۔ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکے خطبات کے امتیازات و اوصاف کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

*معلومات:-*

  خطاب خواہ کسی بھی موضوع پر ہو ،مواد اور علمیت سے بھرپور ہونی چاہئے ، اگر تقریر علم و حکمت سے خالی ہوگی تو بے اثر ہو جائے گی۔ حضرت مولاناکی تقریر یں معلومات کا خزانہ ہے،بات معلومات اور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں،چونکہ علوم د ینیہ کے ساتھ ساتھ تاریخ اور سماجی علوم پر بھی ان کو دستگاہ حاصل ہے ،اس لیے ان کی باتوں میں ثا بت قدمی اور اولعزمی کی کیفیت نمایاں رہتی ہے، بے یقینی کی کیفیت نہیں پائی جاتی ہے، وہ جس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں پورے یقین،عزم اور ٹھوس علمی و تجرباتی بنیاد پر ۔

’’یاد رکھئے،اجتماع جیسا بھی ہو فرد کے حوصلے اور طاقت کو بڑھاتا ہے،دس ملتے ہیں تو ہر کوئی کچھ زیادہ ہی اپنے کو طاقتور پانے لگتا ہے،یہ عام مزاج ہے،اور یہی انسان کی نفسیات ہے،ایثار پسندوں کی جماعت،وفاشعاروں کا قافلہ،علم دین کے مسافر کا کارواں یہاں جمع ہے،یہ اجتماع ایثارو وفا اور دین کی راہ میں نئے نقوش ابھار سکتا ہے،پرانے کاموں کو عزم تازہ،اور پرانی قدروں کو نئی زندگی دے سکتا ہے،آپ کا یہ اجتماع منظم اور مربوط شکل لے سکے،تو یقین کیجئے ،صحیح سمت میں مضبوط اجتماعی طاقت تیار ہو سکتی ہے،اور بکھرے ہوئے موتی سے ایسی تسبیح تیار ہو سکتی ہے جو اپنی تاثیر اور فائدہ پہونچانے کے لحاظ سے ماضی کی روایتوں کی امین ہوگی،اور پرانی قدروں کو نئی تازگی دے سکے گی۔‘‘

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

                                                                (خطبات ولی،جلد اول:ص:106

حضرت مولانا کی نظر گہری اور فکر بلند ہے، عالمی منظر نامہ سے واقف ،ملکی وقومی سیاست کے نشیب و فراز سے باخبر اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور اغیار کی کارستانیوں سے ہوشیار ،آپ ملت کی کشتی کو  بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں،ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور سوتیلا رویہ کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہتے ہیں۔ ہندوستان کی مٹتی ہوئی گنگا جمنی تہذیب، دم توڑتی ہندو مسلم اتحاد ویگانگت ، جمہوری اقدار کی پامالی اور سیکولر روایت کی بے حرمتی سے آپ سخت نالاں ہیں، اس کی بقا و حفاظت کے لئے آپ نے ہمیشہ قوم کو جگایا ، عوام الناس اور صاحب اختیار و اقتدار کو متنبہ کیا ،کہ اس سے ہندوستان کی ساخت کمزور ہوگی ، ملک کی عظمت ملیا میٹ ہو جائے گی ، ایسے مواقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ ایک خطیب ، ایک مصلح ، ایک قائد کی حیثیت سے بہت اونچے مقام پر فائز نظر آتے ہیں،جمہوریت آپ کی نظر میں خدا کی نعمت ہے ،اورجمہوری ملک میں حقوق کی بازیابی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے اور جمہوری طرز پر احتجاج کے بھی آپ قائل ہیں۔ اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوط و مستحکم ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور سیاسی وزن وقار بڑھانے کے لیے اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے ہیں۔ 2015 کے عام انتخاب میں بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، بی جے پی اپنی حکمت اور منظم پلاننگ کے تحت مسلمانوں کو منتشر کرکے ان کے ووٹ کی قیمت اور طاقت کو بے وزن کر دیا ۔ انتخاب کے بعد ملک کا اقلیتی طبقے خاص طور پر مسلمانوں میں خوف وسراسیمگی کا ماحول تھا ، آپ نے ان حالات میں مسلمانوں کو خطاب کیا، اور ڈروخوف کی سیاست سے باہر نکلنے کا حوصلہ بخشا، ساتھ ہی مسلمانوں کو سیاسی وزن بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’’جس ملک میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں، وہاں سیاسی وزن کے بغیر ملت کی پر وقار زندگی اورمضبوط معاشرہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، ابھی جو سیاسی عمل جاری ہے، اور صوبوں اور مرکز کی حکومت کے بننے اور بگڑنے کا جو بھی سلسلہ ہے، اس میں مسلمان بحیثیت ملت اپنا وجود اور اپنا وزن محسوس نہیں کرا سکے، حکومت بن رہی ہے ، ٹوٹ رہی ہے ، مگر ہم آپ بحیثیت ملت کہیں نہیں ہیں ۔ اگر ہم میں اقتدار کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو ہم اسلامی معاشرہ کی حفاظت نہیں کر سکتے ، اور دینی اور اجتماعی تشخص بھی برقرار نہیں رکھ سکتے ، عددی اکثریت کا کھیل اپنے اندر بڑی طاقت رکھتا ہے، ہمیں اسے سمجھنا ہوگا۔

دیکھ لیجئے ! آج اقلیتوں کے نام پر پورا ڈرامہ رچا جا رہا ہے، مگر انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا ہے ، نہ وہ پوچھوانے کی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں، اور جب وہ اس الٹ پھیر میں باوزن نہیں ہیں حکومت میں بھی با وزن نہیں ہو سکتے ، اور نہ اپنے حقوق کو اس الٹ پھیر کے بیچ سے حاصل کر سکتے ہیں، اس لئے اپنے وجود کے لئے آئینی  سماجی ، دینی ، سیاسی اور اجتماعی حقوق کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کی طرف ملت کے قدم بڑھیں۔‘‘

(خطبات ولی، جلد اول۔ ص: 166 )

*جرأت و حوصلہ مندی:*  

حضرت امیرشریعت کے خطبات کاایک اہم و صف صاف گوئی اور بے باکی ہے، وہ با ت جو عام قائدین دبی زبان یا اشارے کنایے میں کرتے ہیں بلکہ بسااوقات بند کمروں میں بھی کرنا پسند نہیں کرتے وہی بات آپ بر سرعام کرتے ہیں، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں ، کسی سے مرعوب ہونا آپ نہیں جانتے تھے ،ڈر اور خوف آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرتا، دل کی بات دل والوں کے سامنے بلا کسی خوف و تردید کے کہ دیتے ، معاملہ خواہ اہل اقتدار واختیار کا ہو یا اہل ثروت و قوت کا آپ کی زبان وہی بولتی جسے آپ سچ جانتے ۔ اس معاملہ میں آپ کا مسلک یہ رہاہے :

ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندوں کا طریق

آزاد ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ بی جے پی اقتدار میں آئی تھی اس وقت مرکزی وزاراتی گروپ کی ایک رپورٹ سامنے آئی۔ جس میں دہشت گردی کا تار مدارس اسلامیہ سے جوڑا گیاتھا اور مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتلا یا گیاتھا ، آپ نے ان ماحول میں مدارس کے ناموس کی حفاظت کے لئے ۳ فروری ۲۰۰۲ کو شہر مونگیر میں ’’ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن ‘‘منعقد کیا ،جس میں ملک بھر سے سیکڑوں علماء و ذمہ داران مدارس اور مندوبین نے شرکت کی۔ اس موقع پر آپ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا جس کے بعد مدارس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا لہجہ بدلااور مدارس کے خلاف چلنے والی دھار کند ہوئی۔ ملاحظہ ہو آپ کے خطاب کا وہ اقتباس:

’’وہ لوگ جو نفرت اور تشدد کی آبیاری کرتے رہے ہیں ، جنہوں نے فرقوں اور طبقوں کی خلیج کو گہراکرکے اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی مشق کی ہے ، وہ سیاسی مفاد کی خاطر مدرسوں پر الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کے پاس کوئی دلیل کوئی ثبوت نہیں ہے ، مگر کیا کہا جائے ، جنہوں نے ذاتی آرام کی خاطر آزادی وطن کے کارواں میں شریک ہونا گوارہ نہیں کیا ، اور معافی نامہ داخل کرکے برٹش حکومت کی گرفت سے دور رہے، جنہوں نے دہشت گردی تحریک کی آبیاری کی ، جو آزاد ہندوستان میں دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے کیس میں ماخوذ ہوئے اور جیل گئے، وہ افراد اور وہ ذہنیت ان مدرسوں اور ان کے علماء کو مجرم ثابت کرنا چاہتی ہے، جن مدرسوں اور علماء نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں سرفروشانہ حصہ لیا اور جنہوں نے آزاد ہندوستان میں نئی نسل کی تعمیر ، تعلیم اور تہذیب کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے۔‘‘(خطبات ولی، جلد اول ص:(39-40)

۳ اپریل ۲۰۰۲ کو دارالعلوم دیوبند میں مدارس اسلامیہ کے نمائندوں کا کل ہند اجلاس ہوا، آپ نے اس اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

’’ جناب والا ، آپ کے ہاتھ پاؤں تو بڑے لانبے ہیں، ہندوستان میں ہزاروں مدارس قائم ہیں، آپ صرف ایک مثال دے دیجئے ،کسی مدرسے کے مدرس کی تو بڑی بات ہے ، کسی مدرسے کے طالب علم کی ، جس نے ملک کا کوئی راز اس پار سے اس پار پہونچایا ہو، اور آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذرگیا، اگر مدرسے کا ماحول اور مزاج دہشت گردی کا ہوتا ، رائفل ، پستول اور بندوق والا ہوتا تو پچاس ساٹھ سال کے عرصہ میں کم از کم پچاس کیس بھی تو 307 اور 302 کے مدرسے والوں پر چلے ہوتے ، آپ مجھے پچاس سال کی پچاس نہیں پچیس ہی مثال دکھلا دیجئے، مدرسے میں بھی نوجوان رہتے ہیں ، ہمت والے رہتے ہیں، ان کے جسم میں بھی خون ہوتا ہے ، وہ بھی گرماتا ہے ، اس کے بر عکس کوئی یونیورسیٹی اس ملک میں ایسی نہیں ہے جہاں قتل نہ ہوتا ہواور کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں 302 اور 307 کے کیسز نہ چلتے ہوں ۔‘‘(ایضاََ،ص:29,30 )

*دردمندی و فکر مندی:*

خطابت خواہ کتنی ہی زوردار اور لچک دار کیوں نہ ہو،اگر دردمندی ، فکرمندی اور دل سوزی سے خالی اور عاری ہوگی تو سامعین کے دل پر گہرا نقش قائم نہیں کر سکتی اور نہ دلوں کو موم بنا سکتی ہے۔ حضرت والا کی تقریریں دل دردمنداور فکر ارجمند کی غماز ہوا کرتی تھیں، دل سوزی و جگر سوزی ان کی تقریروں میں اس قدر ہوتی ہے کہ وہ دل کے تاروں کو مر تعش کرتی ہیں، ملک و ملت کی فکرمندی ہمیشہ آپ کو دامن گیر رہی ہے اور اس کے لئے ہمیشہ بے چین و مضطرب رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس درد دل کا اظہار آپ کی تقریروں کے ذریعہ ہوتا رہا ہے، معاملہ خواہ مدارس اسلامیہ کو دہشت گرد ی سے جوڑنے اور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر ہراساں کرنے کا ہو، یا بنگلہ دیشی شہر یت کا ، یکساں سول کوڈ کی بات ہو یا مسلم پرسنل لا میں دخل اندازی کی ، تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہو یا اصلاح معاشرہ کا ، سیاست کا ذکر ہو یا معیشت کا ، آپ کی زبان و قلم درد وسوز سے لبریز ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آپ کی تقریر و خطابت میں جو دردو سوز اور حرارت و برودت پائی جاتی ہے وہ نالہ نیم شبی ، آہ سحرگاہی اور تصوف و معرفت کے راستہ سے آپ کی زندگی اور فکر وفن میں اثر انداز ہوئے ہیں ۔ بقول کلیم احمد عاجز:

اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے

کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے

اصلاح معاشرہ آپ کی زندگی کا عنوان ہے ، عملی زندگی کا ایک بڑا حصہ معاشرہ کی اصلاح اور ملک و ملت کی فلاح و بہبودی میں صرف ہوا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اصلاح معاشرہ کا کل ہند کنوینر منتخب کیااور امیر شریعت مولانا سیدنظام الدین صاحب، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے انتقال کے بعد آپ کو بورڈ کاجنرل سکریٹری بنایا گیا۔،آپ نے مسلم پرسنل لاء اوراصلاح معاشرہ کی تحریک کو تیزسے تیز تر کیا ،اسے مضبوط سمت دی، معاشرہ کی اصلاح کے لیے قصبات اور شہروں کا دورہ کیا اور اپنی خطابت و تقریر کے جوہر بکھیرے، جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ۔اصلاح معاشرہ کے موضوع پر آپ نے ہزاروں گاؤں اور شہروں کا دورہ کیا اور ہزاروں تقریریں کیں ، یے تقریریں موقع و محل اور حالات کے پیش نظر اور پس منظر کے لحاظ سے نہایت وقیع اور پر اثر ہیں ۔ معجزہ خطابت کی سحر انگیزی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اقتباس دیکھئے :

’’ غلط روی، غلط روش ، حرام خوری ، بدکرداری نسلوں کو برباد کرتی ہے، تجربہ کی روشنی میں کہتا ہوں جن شادیوں میں لڑکی والوں کو پریشان کرکے روپیہ حاصل کیا جاتا ہے، ان گھروں میں عیب دار ، کمزور اخلاق اور کمزور کردار کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نے چند سکوں کے عوض آنے والی نسلوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔‘‘

(خطبات ولی ، جلد اول: ص: (114)

’’نئی نسل آپ کے سامنے کھڑی ہے ، وہ آپ کے لئے قدرت کا بہترین تحفہ ہے ۔ اس تحفہ کی قیمت سمجھئے۔ اس کے لئے بہتر تعلیم و تربیت کی فکر کیجئے، یہ نہ سمجھئے کہ یہ ہمارا بیٹا نہیں ہے ، پوتا نہیں ہے، دوسروں کی اولاد ہے۔ یاد رکھیئے بچوں کے سلسلے میں پورا سماج جواب دہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اپنی رعایا (ماتحت) کے بارے میں قیامت میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (ایضاً ص: (148)

*ادبیت:*

حضرت والا کی نشونما میں کلاسیکی ادب کا گہرا اثر اور رچاؤ پایا جاتا ہے، اردو فارسی اور عربی شعرو ادب کے گہرے مطالعہ نے تقریر و تحریر پر اس کا اچھااثر ڈالا ہے ،حضرت کے جملے ادب کے شہہ پارے معلوم ہوتے ہیں، اتنا سلیس ، رواں، شستہ اور برجستہ جیسے معلوم پڑتا ہے کہ آبشار سے ڈھل رہے ہیں۔ دوران خطابت کبھی فارسی اور زیادہ تر اردو کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں، جن سے تقریر کا زور بڑھ جاتا ہے اور حسن دوبالا ہوجاتا ہے، الفاظ کے دروبست پر زبردست قابو اور زبان پر گرفت ایسی کہ جو لفظ اور جملہ جہاں استعمال کر دیا وہیں موزوں ہوگیا۔

’’حضرات محترم!ماضی کی روایتوں سے آباد شہر مونگیرمیں آپ کا استقبال میرے لیے پرمسرت فریضہ ہے،مونگیر کی اپنی قدیم اور عظیم تاریخ ہے،جس میں عظمت وتقدس ،اخلاص وروحانیت،شاہی اور فقیری،وطن سے محبت اور وطن کے لیے مر مٹنے کی طلب اور تڑپ شامل ہے،مونگیر میں اترا واہنی گنگا کا وجود،کشٹ ہرنی گھاٹ اور سیتا کنڈ کے ٹھنڈے اور گرم پانی کے چشمے ماضی کی روایات کی زندہ یادگاریں ہیں،راجہ کرن کے محلوں کے کھنڈر ایک دانی کے روپ میں مونگیر کی تاریخ کو پیش کرتے ہیں ،اسی شہر میں میر قاسم کے قلعہ کی مضبوط فصیلیں پکار پکار کر کہ رہی ہیں کہ ہندوستان آزاد ہوا اس کی بنیاد یہاں ہے،ڈکر اپل کی ٹوٹی پھوٹی اینٹیں آج بھی گواہی دے رہی ہیں کہ میر قاسم کے نہ جانے کتنے جیالوں نے اپنے گرم گرم خون پر وطن کی آزادی کی بنیاد رکھی تھی،اور یہی شہر مونگیر سید شاہ زبیر ،بابو شری کرشن سنکھ اور امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا مسکن رہا ہے،‘‘

  (خطبات ولی،جلد اول:ص :38,39)

*ایجازواختصار:*

ایجاز و اختصاربھی آپ کی تقریر کا اہم وصف ہے ،آپ کی تقریریں عموماً مختصر ہوتی ہیں ،زیادہ طویل نہیں۔کم الفاظ میں زیادہ بات کہنا آپ کی تقریر کا طرہ امتیاز ہے، جملے چھوٹے چھوٹے زبان سادہ اور عام فہم ، مگر مختصر جملے اور سادہ زبان میں بڑی سی بڑی بات کہہ جانے کا ہنر آپ کی خطابت میں پایا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سامعین لمبی تقریر سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں اور بہت سی ضروری باتیں بھی ذہن سے نکل جایا کرتی ہیں۔ حضرت والا کی تقریر اس عیب سے پاک ہوتی ہے، زبان وبیان اور اختصار و ایجاز کی خوبی کی وجہ کر سامعین کے لیے آپ کی تقریروں کا جملہ بھی یاد رکھنا آسان ہو جاتاہے ۔ ایک نمونہ دیکھئے، کم جملوں اور سادہ زبان میں کتنی اہم بات کتنی خوش اسلوبی کے ساتھ کہی گئی ہے۔

’’ حکومتوں کا ایک خاص مزاج بن گیا ہے، وہ سلیقہ کی باتوں کو بد سلیقگی سے سننا پسند کرتی ہے، وہ جائز مطالبات کو بھی اس وقت تک قابل توجہ نہیں سمجھتی جب تک کہ توجہ مبذول کرانے کے لیے ناجائز  حرکتیں نہ کی جائیں،اخلاق و شرافت کے لہجے انہیں متاثر نہیں کرتے، بد اخلاقی اور بد تمیزی کے مظاہرے ہی ان کی سمجھ میں آتے ہیں۔ میں یہ مشورہ نہیں دیتا کہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے کوئی خود سوزی کرے، کوئی آمرن ان شن کرے، کوئی توڑ پھوڑ کی جائے ، یہ جان خدا کی دی ہوئی قیمتی نعمت ہے، اور توڑ پھوڑ میں نقصان ہونے والا سرمایہ وطن عزیز کا ہے، ہمیں جان اور سامان دونوں کا احترام کرنا ہے، مگر ایسی راہیں بہر حال تلاش کرنا ہوگی، جن کے ذریعہ فرش نشیں تخت نشینوں کو متوجہ کر سکے۔

اس مقصد کے لیے ضرورت ہے ، مسائل و ضروریات کو سمجھنے کی، ان کے صحیح ادراک اور اہمیت کے احساس کی ، سیاسی پارٹیوں سے اوپر اٹھ کر مشترکہ جدوجہد کی ، ہم مختلف پارٹیوں میں رہتے ہوئے مختلف قسم کی وفاداریوں کو نبھاتے ہوئے بھی اقلیتوں کے وفاداری کے پرچم کے علمبردار ہوسکتے ہیں۔‘‘

                                                  (خطبات ولی، جلد اول: ص:  162 ،161)

*انداز خطابت:*

حضرت مولانا سیدولی رحمانیؒ کے خطابت کا سب سے بڑا امتیاز اور وصف انداز خطابت اور اسلوب خطابت ہے ۔ آپ کا انداز خطابت بڑا نرالا اور جداگانہ ہے، تقریر اول سے آخیر تک یکساں حالت پر قائم رہتی ہے، آواز گھن گرج سے پاک ، معتدل مگر زوردار اور اثر دار۔ ضرورت کے تحت ہاتھ اور انگلیوں سے اشارہ کرتے، چہرہ کے نقوش اور اتارچڑھاؤبہت کچھ بیاں کرتے ، انداز بیاں بہت پر کشش اور زبان بہت آسان تھی، جب بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ موتی رولتے ہیں ہیں ۔ ایک ایک جملہ بالکل صاف اور واضح ۔ ثقیل ، پے چیدہ اور مبہم الفاظ سے مبرا ،مشکل تعبیرات واستعارات سے اجتناب ، چھوٹے اور خوبصورت جملے ، دماغوں کو اپیل کرنے والا اور دلوں کو گھر کر جانے والا، بقول کلیم عاجز:

یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا

جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

حضرت کے خطابت کا اسلوب اتنا دلکش ہے کہ سامعین دم بخود ہو جائے، انگشت بدنداں ہوجائے، زبان کی شیرینی ، لطافت اور جمال وجلال تقریر کی معنویت اور اس کی اثر پذیری اور سحر انگیزی کو دو آتشہ بنا دیتی ہے ، اسلوب میں رجائیت پائی جاتی ہے ،قنوطیت ،مایوسیت اور ناامیدیت کی چادر اوڑھانا آپ کا شیوہ نہیں تھا، یہ آپ کی طبیعت کی موزونیت ، ثابت قدمی اور مزاج کے استقلال کی دلیل ہے۔ البتہ اسلوب میں کہیں کہیں نخوت کا رنگ بھی جھلکتا ہے، مگر موقع و محل کے اعتبار سے یہ رنگ بھی آپ پر بڑا جچتا تھا اور یہ رنگ تقریر کے حسن کو کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیتا ۔ کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرتے جا بجا انشا کے پھول کھلاتے اور ادب کے موتی رولتے، انشاء کی گل کاریاں ہر جگہ نظر آتیں ۔ تصوف اور قانون جیسے سنجیدہ، پے چیدہ اور خشک موضوع پر بھی جب اظہار خیال کرتے تو زبان کی لطافت ، الفاظ کی ترتیب، پیشکش کی سلیقہ مندی سے نئی جان اور روح ڈال دیتے اور سامعین دل گرفتہ ہو جاتے ۔ خطیبانہ اسلوب کا ایسا بہترین نمونہ دوسری جگہ مشکل سے نظر آئے گا۔ خطابت کا رنگ اور حسن ملاحظہ ہو:

’’انسان کھوکر پاتا ہے، انسان جب اپنی یاد ، دنیاوالوں کی یاد، نعمتوں کی یاد ، راحتوں اور کلفتوں کی یاد، ساری یادوں کو دل سے نکالتا ہے اور خدا کی یاد سے دل آباد کرتا ہے، تو یقین کیجئے دنیا اس کے قدموں میں ہوتی ہے اور وہ خدا کے در پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔‘‘

(مجموعہ رسائل رحمانی ۔ص: 24 )

3؍اپریل 2021ء کو ڈھائی بجے دن حضرت امیرشریعت مولانا سیدمحمدولی رحمانی کے انتقال کی خبرجیسے ہی عام ہوئی لوگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ہر شخص دم بخود ہوگیا۔ حضرت کی جدائیگی کے صدمے کو ملت کے ہر فرد نے محسوس کیا اور ایسا لگا کہ ملک و ملت ایک عظیم محسن اور رہنماء سے محروم ہوگیا۔ بلاشبہ ان کا انتقال ملک و ملت کا عظیم خسارہ ہے، ان کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، ملت اسلامیہ ایک بے باک قائد سے محروم ہوگئی۔ آپ کا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملت اسلامیہ نازک ترین دور سے گذر رہی ہے اور ملت کو ان کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی ملک و ملت کے لئے وقف کردی ۔انہوں نے تعلیم، سماج، سیاست، صحافت ،صحت، تصوف کے شعبے میں گراں قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ان کا وجود ملت کے لئے ایک نعمت تھی۔ اللہ تعالیٰ ملک و ملت کو ان نعم البدل عطا فرمائے اور ملت کی دستگیری فرمائے۔(آمین ثم آمین!)

صدق و صفا کا مہر درخشاں نہیں رہا

افسوس اب وہ نیرتاباں نہیں رہا

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...