Wednesday 30 September 2020

ارریہ کے صحافتی منظر نامے کا ایک خوبصورت نام عارف اقبال ,مفتی محمداطہرالقاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند،ارریہ

 ارریہ کے صحافتی منظر نامے کا ایک خوبصورت نام عارف اقبال ,مفتی محمداطہرالقاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند،ارریہ

ریاست بہار کا سیمانچل اور سیمانچل کا ضلع ارریہ ترقی یافتہ ملک بھارت کے اس خطے کا نام ہے جہاں کے دیہی علاقے میں ابھی چند سال پہلے بجلی آئی ہے،کھیت کھلیان سے گذرکر گاؤں و قصبات کے رابطے ضلع ہیڈکوارٹر سے جڑے ہیں،ناخواندگی کی شرح کم ہوئی ہے اور غریب ماں باپ اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنے کم سن بچوں کو روزی کمانے کے لئے دلی،پنچاب،ہریانہ،ممبئی،بنگلور اور حیدرآباد کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے بجائے ایک حد تک تعلیم و تربیت کو اہمیت دینے لگے ہیں۔جبکہ ہنوز دلی دور است۔

یہی وہ خطہ ہے جو نیپال کی ترائی میں واقع ہے اور جس کی اکثریت کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل ہے جوہر سال تباہ کن سیلاب سے جوجھتے ہوئے کسی طرح صبح وشام کاٹتے چلے جارہے ہیں،اور اگر1987،2017 اور ابھی 27/ ستمبر 2020 جیسے سیلاب آجائیں تو گھربار اور کھیت کھلیان کو کون پوچھے، قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی ندیوں کی خطرناک طغیانی کے حوالے کرکے ہمیشہ کے لئے چین کی نیند سوجاتے ہیں۔صدیوں سے پس ماندگی کی کی اس تصویر کو دنیاکے سامنے پیش کرنے والے کرتے آرہی ہیں۔


                                محمد اطہر قاسمی

خداوندعالم بھلا کرے ای ٹی وی بھارت کا کہ اس نے اس خطے پر نظر عنایت ڈالی اور اپنے ہونہار فرزند ارجمند،صاحب جرآت و عزیمت،اصول صحافت سے آگاہ،علم دوست،صاحب قلم،ماہر فن اور انسانیت نواز نمائندے عالی جناب عارف اقبال صاحب کو اس خطے کی ترجمانی کرنے کے لئے بھیجا۔

جناب عارف اقبال نے بھی اپنی معیاری صحافتی ذمے داری سے روایتی صحافت کو آئینہ دکھاتے ہوئے اس خطے کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے ایسی جان توڑ محنت کی کہ وہ صحافت کا خوبصورت عنوان اور بیکسوں و بے بسوں کی پہچان بن گئے۔

عارف اقبال صاحب نے اس خطے کے بنیادی مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے گراؤنڈ زیرو کی اسٹوری کا خوبصورت سہارا لیا اور یکے بعد دیگرے کئی ایسے اسٹوری بناتے گئے کہ وہ یہاں کے لئے ایک تاریخی دستاویز بن گئے۔میری نظر میں صحافتی دنیا میں ان کی امتیازی شناخت یہی ہے کہ انہوں نے شہر کے بند کمروں میں بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے اور آسانی سے دستیاب ہوجانے والی خبروں کی ترسیل کے بجائے انہوں نے دور دراز کے علاقوں،زبوں حالی کے شکار گاؤں،دیہات اورقصبات کو اپنا مرکز بنایا اور اپنے چینل کے توسط سے ایک طرف دنیا کے سامنے اس علاقے کی بدحالی کی منہ بولتی تصویریں پیش کی تو دوسری طرف یہاں کی بدحالی بمقابلہ ترقی کے بجائے ذات پات کے نام پر برسوں سے سیاست کی روٹی سینکنے والے راج نیتاؤں کو بھی آئینہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔

تقریباً دو سال پر محیط ان کی دوڑ دھوپ اور لگاتار جہد مسلسل سے عبارت ان کی مخلصانہ کوششوں کو کون بھول سکتا ہے۔ابھی حال ہی میں وہ ہمارے گاؤں کے برسوں سے زیر تعمیراجگرا پل کی اسٹوری بنانے آئے تھے۔سوئے اتفاق کہ واپس جاکر کورونا پازٹیو ہوگئے۔مگروہ اپنی صحافتی ذمے داری کورنٹائن سینٹر رہ کر بھی ادا کئے اور اندرون خانہ کی بدنظمی، ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور کووڈ مریضوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کو مکتوب کی شکل میں عوام اور ضلع انتظامیہ کے سامنے پیش کیا، نتیجہ کے طور پر ریاستی حکومت کے اعلیٰ افسران نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے کووڈ سینٹر کی بدحالی دور کرتے ہوئے سارا نظم درست کیا۔دس دنوں بعد آپ صحت یاب ہوکر اپنے وطن دربھنگہ گئے اور جب تندرست ہوکر حالیہ دنوں میں ارریہ لوٹے توآزادی کے70/ سال سے ایک عدد پل کو ترس رہی جھمٹا مہساکول کی ندی کی اسٹوری بناکر دنیائے سیاست اور اربابِ اقتدار کو اپنے ستر سالہ دور کے دھندلے آئینہ سے غبار ہٹانے کی دعوت دی۔

جناب عارف اقبال صاحب سال گذشتہ کی طرح امسال دوبارہ اسی ہفتے جب بھنگیاگاؤں سے متصل رمرئی گاؤں کے تین طرف سے گذرنے والی ندی سے تباہی کے دل دوز مناظر پیش کئے تو جن آنکھوں نے کتابوں میں کالا پانی کی دردناک کہانی کو پڑھا تھا آج عارف اقبال صاحب کی عزیمت سے بھرپور صحافت نے دنیا کی نظروں کے سامنے اس جزیرہ انڈمان نکوبارکی ایسی عملی تصویر پیش کی کہ مانو سزاکے دن کاٹ رہے انسانوں سے روبرو ہوکر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

ہم کوئی خوشامد کرکے اور کسی صحافی کی بیجا تعریف کے پل باندھ کر ان سے کوئی انعام پانے کیلئے یہ مضمون تحریر نہیں کررہے ہیں،بلکہ ایک باوقار،دھن کے پکے،بلند فکر ونظر کے حامل،صداقت و دیانت کے علم بردار،متواضع اور علم دوست صحافی کی معیاری صحافتی نمائندگی سے زبوں حالی کے شکار ہمارے اس خطے کو مزید ایک طویل مدت تک وہ فعال و متحرک،احساس جواب دہی اور انسانیت کے تئیں احتسابِ روز حشر کے مخلصانہ جذبات سے لبریز ہوکر اور کام کریں؛اس لئے بطورِ احسان شناسی کے یہ چند کلمات تحریر کررہے ہیں۔

  عارف اقبال نے جس ایمان دارانہ صحافتی منظر نامہ سے ارریہ کی ترجمانی کی ہے وہ الیکٹرانک میڈیامیں کام کرنے والی نسل نو کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ ہے۔انشاء اللہ ہمارے وطن عزیز کی اس خوبصورت،مردم خیز،انسانیت نواز،گنگا جمنی تہذیب کی علم بردار اور زبان اردو سے بے لوث محبت کرنے والی سرزمین ارریہ سیمانچل کی زبوں حالی کی داستان الم ناک کو دنیا کے سامنے لانے کی عارف اقبال صاحب کی کوششوں کو تاریخ اپنے صفحات پر محفوظ رکھے گی اور یہاں کی بدحال عوام آپ اور آپ کی پوری ٹیم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے گی،انشاء اللہ!

Tuesday 29 September 2020

بہار اسمبلی انتخابات قریب دیکھ کر نمائندگی کا اٹھا سوال، مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کی مانگ

 بہار اسمبلی انتخابات قریب دیکھ کر نمائندگی کا اٹھا سوال، مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کی مانگ!

بہار میں مسلمانوں کی 17 فیصدی آبادی ہے۔ اسمبلی انتخابات قریب دیکھ کر سیاسی پارٹیوں کے لیڈر سمیت مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کی مانگ کی ہے۔ صوبہ میں اسمبلی انتخابات کو لیکر سیاست شباب پر ہے۔ اس میں مسلم نمائندگی کا مدعا کئی سیاسی پارٹیوں کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔


بہار اسمبلی انتخابات قریب دیکھ کر نمائندگی کا اٹھا سوال، مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کی مانگ۔



پٹنہ۔ بہار میں مسلمانوں کی 17 فیصدی آبادی ہے۔ اسمبلی انتخابات قریب دیکھ کر سیاسی پارٹیوں کے لیڈر سمیت مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کی مانگ کی ہے۔ صوبہ میں اسمبلی انتخابات کو لیکر سیاست شباب پر ہے۔ اس میں مسلم نمائندگی کا مدعا کئی سیاسی پارٹیوں کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

جےڈی یو کے سابق ایم ایل سی پروفیسر اسلم آزاد کے مطابق مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دینے کے معاملہ میں تمام سیاسی پارٹیاں ناانصافی کرتی رہی ہیں۔ اسلم آزاد نے جےڈی یو اور بی جے پی سے اس مسئلہ پر پہل کرنے کی اپیل کی ہے۔ وہیں آرجےڈی لیڈر عارف حسین کا کہنا ہیکہ ریاست میں سترہ فیصدی مسلم ووٹر ہیں تو ٹکٹ میں بھی مسلمانوں کو سترہ فیصدی کی حصہ داری ملنی چاہئے۔ عارف حسین نے آرجےڈی اور کانگریس سے مسلم نمائندگی کو واضح کرنے کی اپیل کی ہے۔

عارف حسین کا کہنا ہیکہ مسلم ووٹوں پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کو اس تعلق سے سنجیدہ پہل کرنی چاہئے۔ ادھر جمیعت علماء بہار کے جنرل سکریٹری حسن احمد قادری نے کہا کہ آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ نہیں دیا جانا اقلیتوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔ حسن احمد قادری نے تمام سیاسی پارٹیوں کو ٹکٹ تقسیم کے وقت مسلمانوں کی آبادی کا خیال رکھنے کی اپیل کی ہے۔ دراصل بہار میں ہونے والے تمام انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی گولبندی ذات پات سے شروع ہوتی ہے اور ذات پات پر ختم۔ کس حلقے میں کس ذات کی کتنی آبادی ہے اسی کے مطابق سیاسی پارٹیاں اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں۔ ذاتوں کے اعداد و شمار سے ہی امیدواروں کی جیت اور ہار کا فیصلہ ہوتا ہے۔



سابقہ لالو اور رابڑی حکومت نے مسلم اور یادو کا اتحاد بنایا تھا۔ وہیں موجودہ حکومت مسلم، دلت، مہادلت اور بڑی ذاتوں کا مشترکہ اتحاد بناکر اسمبلی انتخابات میں اپنی جیت کا جھنڈا گاڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں نے بھی نمائندگی کا سوال اٹھا کر سیاسی پارٹیوں کے سامنے اس بات کو واضح کیا ہیکہ مسلمان صرف ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ وہ جس پارٹی کو ووٹ دیتا ہے اس پارٹی سے سیاسی حصہ داری بھی چاہتا ہے۔ جانکاروں کے مطابق سیاسی نمائندگی کا سوال اہم ہے اور مسلمانوں پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کو اس تعلق سے ضرور غور کرنا چاہئے۔

بابری مسجد انہدام پر فیصلہ آج اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی اور دیگر کو حاضر عدالت ہونے کی ہدایت

  بابری مسجد انہدام پر  فیصلہ آج
اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی اور دیگر کو حاضر عدالت ہونے کی ہدایت


نئی دہلی : ایودھیا میں بابری مسجد انہدام کے تقریباً 28 سال بعد سی بی آئی کی خصوصی عدالت کی جانب سے کل لکھنؤ میں فیصلہ سنائے جانے کی توقع ہے۔ 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت کا کیس سی بی آئی عدالت میں زیرسماعت تھا۔ اِس کیس میں 32 ملزمین پر مقدمہ چلا۔ اِن میں سابق نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی، اترپردیش کے سابق چیف منسٹر کلیان سنگھ اور بی جے پی کے دیگر قائدین مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار اور ساکشی مہاراج کے علاوہ دیگر ملزمین شامل ہیں۔ اِن تمام کو کل 30 ستمبر بروز چہارشنبہ عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عدالت کے کمرہ نمبر 18 میں تقریباً 28 سال تک اِس کیس پر مقدمہ چلتا رہا۔ لکھنؤ کی قدیم ہائیکورٹ عمارت کے کنارے پر واقع اِس کمرۂ عدالت میں کل ججس اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ خصوصی عدالت اِس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی نے کارسیوکوں کو بابری مسجد مسمار کرنے کے لئے اُکسایا تھا یا نہیں۔ جج ایس کے یادو اِس کا فیصلہ سنائیں گے۔ یادو نے تمام 32 ملزمین کو فیصلہ سنانے کے دوران موجود رہنے کی ہدایت دی تھی۔
پھانسی پر لٹک جاؤںگی، ضمانت نہیں لوں گی: اوما بھارتی
لکھنؤ: بی جے پی لیڈر اوما بھارتی نے کہا کہ بابری مسجد انہدامی کیس میں عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد وہ پھانسی پر لٹک جائیں گی لیکن ضمانت حاصل نہیں کریں گی۔ ایودھیا تحریک میں حصہ لینے کو فخر محسوس کرتے ہوئے اوما بھارتی نے کہا کہ ضمانت حاصل کروں گی تو بابری مسجد گرانے میں ان کے رول کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی۔ کل جو بھی فیصلہ آئے گا، قبول کروں گی۔وہ فی الحال کورونا کی وجہ سے دواخانہ میں زیر علاج ہے۔

مولانا قاضی حبيب اللہ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ :ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا !

 مولانا قاضی حبيب اللہ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ :ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا !

(مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ) 

 وبائی مرض کے اس دور میں جانے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے، اہل علم تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اور اچھے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے، علماء، صلحاء،صوفیاء اور ماہرین علم و فن کا روز جنازہ اٹھ رہا ہے، لاک ڈاؤن اور وبائی مرض کے اس دور میں جنازہ کو کاندھا دینے کی سعادت بھی لوگوں کو نہیں مل  رہی ہے، یہ کیسی حرماں نصیبی ہے۔

اسی دور میں قاضی حبیب اللہ ابن عبد الرؤوف ابن کھکھن بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، ٣٠/جولائی ٢٠٢٠ء بروز جمعرات بوقت دس بجکر٢١ منٹ پر انہوں نے اپنے گھر واقع گوا پوکھر مدھوبنی میں آخری سانس لی، ان کی طبیعت ٢١/ جولائی کو خراب ہوئی تھی، کرپس ہوسپیٹل مدھوبنی کے ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے، دوا اور دعا دونوں کا سلسلہ جاری تھا؛ لیکن جب  وقت موعود آجائے تو ساری تدبیریں اور ترکیبیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، مولانا بھی ہم لوگوں سے جدا ہوگئے، جنازہ اسی دن اٹھا اور ان کے صاحبزادہ مفتی امداداللہ قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی، لاک ڈاؤن کے باوجود بڑی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے محبوب رہنما اور قاضی امارت شرعیہ کو الوداع کہا، مدرسہ اور دار القضاء کی درمیانی جگہ میں جانبِ جنوب تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں ایک صاحبزادہ اور چار صاحبزادیوں کو چھوڑا، معنوی اولاد ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جنہوں نے ان سے کسب فیض کیاجو ملک بیرونِ ملک میں دینی، علمی، ملی و سماجی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

قاضی صاحب کا انتقال ملی، مذہبی،سماجی،تعلیمی اور امارت شرعیہ کا بڑا نقصان ہے، ان کی ذات اس پورے علاقے میں عزت واکرام کا مرکز و محور تھی، ذکر الٰہی کے اثرات ان کے چہرے سے ہویدا اور خشیت الہی کے اثرات ان کے حرکات و سکنات اور اعضاء و جوارح سے ظاہر ہوتے تھے، وہ اسلاف کی سچی نشانی تھے، ان کا دل امارت شرعیہ اور ان کے اکابر کی محبت و عقیدت سے سرشار تھا، انہوں نے مدھوبنی دارالقضاء کو ہر اعتبار سے خوب سے خوب تر بنانے میں اپنی بہترین کوششیں صرف کیں۔

قاضی حبیب اللہ صاحبؒ کی ولادت ١٣/ اگست ١٩٥٧ ء؁ کو گوا پوکھر مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کا نانی ہالی محلہ لہریا گنج ہے اور سسرال گوا پوکھر مدھوبنی میں، حافظ محمد حبیب (م ٢٠٠٨ ء)ان کے خسر محترم تھے، والد صاحب کا سایہ آٹھ سال کی عمر میں ہی اٹھ گیا تھا، تعلیم کا آغاز مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر سے کیااور عربی اول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ بنارس تشریف لے گئے اور دوسال یہاں قیام فرمایا، عربی دوم،سوم کے درجات کی نصابی کتابیں یہیں پڑھیں، چہارم تا ششم کی تعلیم مدرسہ دینیہ غازی پور یوپی،ہفتم اور دورہ حدیث شریف نیز عربی ادب کی تکمیل دارلعلوم دیوبند سے کرکے ١٩٧٧ء  سند فراغت حاصل کیا، انہوں نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو، فارسی، اور عربی زبان و ادب میں فاضل کیا تھا، اور بہار یونیورسیٹی سے اردو میں ایم اے بھی تھے۔فراغت کے بعد ہی مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر کے ذمہ داروں کی طرف سے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کا تقاضہ تھا، لیکن اپنے مرشدومربی اور استاذ حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ (م٢٢ستمبر ٢٠١٢ء)کی ہدایت کے مطابق خاموشی سے مدرسہ دینیہ غازی پور میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے،قاضی صاحب کا دوران طالب علمی ہی سے ان سے بڑا خصوصی تعلق تھا، اس تعلق کی داستان حضرت مولانا اعجازاحمدصاحبؒ کے سفر نامے اور قاضی صاحب کے نام ان کے خطوط جو ”حدیث دوستاں“ میں مطبوع ہیں، دیکھی جاسکتی ہے؛ چنانچہ انہوں نے فلاح المسلمین والوں کی بات اپنے استاد مولانا اعجاز احمد صاحب کو نہیں بتائی، تین سال کے بعد حضرت مولانا اعجاز احمدشیخو پوریؒ کو کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے فلاح المسلمین گوا پوکھر جوائن کرنے کی ہدایت دی، مدرسہ دینیہ میں تنخواہ کم تھی اورمدرسہ فلاح المسلمین بورڈ کا ہونے کی وجہ سے تنخواہ کا معیاراچھا تھا،گوا پوکھر منتقل ہونے سے قاضی صاحب کو بڑی سہولت ہو گئی اور معاشی اعتبار سے بھی دھیرے دھیرے استحکام نصیب ہوا۔

اپنے استاذ کی ہدایت کا اس قدر پاس و لحاظ تو اب عنقاء ہوتا جارہاہے، فراغت کے بعد روابط بھی کمزور ہو جاتے ہیں، لیکن قاضی صاحب نے استاذ و شاگرد کے اس رشتہ کو پوری زندگی برتا، ہر کام میں ان سے مشورہ لیتے رہے، مولانا اعجازاحمد صاحبؒ خود بڑے عالم اور روحانی پیشوا تھے، ان کی تربیت سے قاضی صاحب کو بڑا فائدہ پہونچا۔١٩٨١ء میں مفتی صاحب فلاح المسلمین میں بحال ہو گئے اور آپ نے پوری توجہ اورمحنت طلبہ کی تعلیم و تربیت پر لگا دی، یہ دور مولانا ہارون رشیدؒ کا تھا، مولانا ہارون رشیدؒوہاں کے صدر مدرس تھے، لیکن قاضی صاحب کی محنت اورجد و جہد دیکھ کر ان کے مشورے کو اہمیت دیتے تھے، اس جد و جہد کے نتیجہ میں بورڈ کا مدرسہ ہوتے ہوئے بھی وہ اس ضلع کے بہت سارے آزاد مدارس پر تعلیمی و تربیتی اعتبار سے فائق رہا، یہاں جانے کے بعد یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بورڈ کا مدرسہ ہے، مدرسہ اس قدر آباد و شاداب ہے کہ دیکھ کر طبیعت مچل جاتی ہے، قاضی صاحب جب یہاں کے صدرمدرس بنے تب بھی انہوں نے بورڈ کے علائق سے اپنے کو الگ ہی رکھا، اور " دامن تر مکن ہوشیار باش‘‘کے فارمولے پر سختی سے عامل رہے، انہوں نے مدرسہ بورڈ امتحانات کے سنٹر اور کاپی جانچ کے مرکز بننے سے بھی ادارہ کو بچانے کی مسلسل کوشش کی اور موقع بموقع انہیں اس میں کامیابی بھی ملی، انہوں نے تعلیمی معیار پر اس قدر توجہ صرف کی کہ وہاں کے لڑکے دارالعلوم دیوبند کے داخلہ امتحان میں ہر سال بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے رہے،اس علاقہ کے فضلاء دارالعلوم کی ایک بڑی تعداد فلاح المسلمین گوا پوکھر کے ابناء قدیم کی ہے۔

قاضی صاحب کے علم، تقویٰ، امانت و دیانت،پر عوام و خواص کو بڑا اعتماد تھا، وہ امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے قلبی تعلق رکھتے تھے اور امارت شرعیہ کے وفود کے دورے میں بھی ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے،ان کی محنت اور توجہ سے اس علاقہ میں امارت شرعیہ کے کام اور بیت المال کو استحکام ملا کرتا تھا، امارت شرعیہ کے کسی بھی پروگرام کے لیے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے، انہوں نے کبھی کسی موقع سے پروگرام کے انعقاد سے معذرت کی راہ نہیں اپنائی، سب کام خوشدلی سے کرتے اور پوری دلجمعی سے کرتے۔ ١٩٩٦ء میں وہ مدھوبنی ضلع کے قاضی نامزد کیے گیے، قاضی القضاۃ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے ایک پروگرام میں ان کے لیے منصب قضا اور مدھوبنی کے لیے دارالقضا کا اعلان کیا،وہ پوری زندگی اس منصب پر فائز رہے، ان دنوں مدھوبنی ضلع میں تین دارالقضا ہیں؛لیکن تینوں دارالقضامیں گواپوکھر مدھوبنی دارالقضا کی حیثیت ایک مرکز کی رہی ہے، قاضی حبیب اللہ صاحبؒ دارالقضا کی سہ رکنی جائزہ کمیٹی کے رکن بھی تھے۔

قاضی حبیب اللہ صاحب اچھے خطیب تھے، علاقہ کے سارے جلسوں میں آپ کی شرکت عموماََ صدر اجلاس کی حیثیت سے ہوا کرتی تھی،امارت شرعیہ کے خدام کا بھی ان جلسوں میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا، جب بھی ملتے جہاں ملتے پورے اکرام و احترام کا معاملہ فرماتے، جلسہ کے منتظمین سے کہہ کر راحت و آرام کا خیال کراتے اور مناسب وقت پر ہم لوگوں سے تقریر کرانے پر زور دیتے، تا کہ ہم لوگوں کی واپسی دفتر کے وقت سے پہلے ہوجائے۔

آ ج مدھوبنی اور اس کے اطراف میں جو دینی رمق ہے اور تعلیم کی جو ترویج و اشاعت دیکھی جارہی ہے اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ قاضی صاحب کی محنت کاعمل و دخل رہا ہے، انہوں نے علوم سینہ کو علوم سفینہ بنانے کے بجائے علم و تربیت کو سینہ بسینہ منتقل کیا،وہ کتاب کی تصنیف سے زیادہ مردم سازی اوررجال کار کی تیاری کو اہمیت دیدتے تھے، اور پوری زندگی انہوں نے اسی کام میں کھپا دیا۔

گذشتہ سال دوروزہ پروگرام نقباء اور خواص کا مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر میں ہوا تھا، انتظام و انصرام میں جو سلیقہ مندی جھلکتی تھی وہ مفتی صاحب اور ان کے رفقاء کار کی غیر معمولی محنت کا نتیجہ تھا، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے بھی دوروزوہاں قیام فرمایا تھا اور کئی مجلسوں سے خطاب کیا تھااور پورے انشراح کے ساتھ کیا تھا۔

قاضی صاحب سے ہمارا تعلق امارت شرعیہ آنے سے بہت پہلے سے تھا، جن دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں استاذ تھااور مدرسہ بورڈ کی کاپی کی جانچ کا مرکز مدرسہ اسلامیہ راگھونگر بھوار ہ ہوا کرتا تھا، تو میرا قیام فلاح المسلمین میں ہی ہوتا تھا اس کے علاوہ جب کبھی مدھوبنی ضلع کے مدارس کے اجلاس میں شرکت ہوتی تو ناممکن تھا کہ بغیر فلاح المسلمین میں حاضری دئیے میں گزرجاؤں، اس حاضری کی بڑی وجہ قاضی صاحب اور فلاح المسلمین کے وہ اساتذہ جو دارالعلوم دیوبند میں میرے معاصر تھے ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا کرتی تھی، ان مجلسوں میں مختلف علمی، تعلیمی، ملی، اور سماجی مسائل زیر بحث آتے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت قاضی صاحب کو بھی اُسی جلسہ میں جانا ہوتاایسے میں ہم لوگ ایک دوسرے کے رفیق سفر بن جایا کرتے تھے،اس رفاقت میں قاضی صاحب کی تواضع، انکساری،اصلاح معاشرہ کے لیے ان کی بے چینی اور مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کی تڑپ دیدنی ہوتی تھی۔

قاضی حبیب اللہ صاحب کی یادوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہے، ان کی خدمات کے دائرے کو بھی لفظوں میں قید کرنا ممکن نہیں، بس اتنا کہا جاسکتا ہے۔ طَاب حیاَ و طابَ میتاَ؛ انہوں نے خوشگوار زندگی گزاری اور اچھی موت پائی رحمہ اللہ رحمۃواسعہ۔(بشکریہ نقیب)

Monday 28 September 2020

143 शिक्षकों की आपत्तियों का निस्तारण कर ट्रांसफर की प्रक्रिया शुरु!

 143 शिक्षकों की आपत्तियों का निस्तारण कर ट्रांसफर की प्रक्रिया शुरु!

बदायूं UP,भारत मे शिक्षा और शिक्षको  की समस्या आये दिन  बढते जरहे है और सरकार रोज दिन एक नया समस्या खड़ा कर रही है पढ़े-लिखे  शिक्षक जैसे बुद्धिजीवी समुदाय के लोग भी सरकार के झांसे में आकर के वह भी जात पात के शिकार हो जाते हैं जात पात के शिकार होने के वजह से आज बिहार के सारे 400000 शिक्षकों का भविष्य अंधकार में है जो कि काफी निंदनीय और सोचनीय है करोना काल के कारण अंतर्जनपदीय ट्रांसफर प्रक्रिया पर शासन ने रोक लगा दी थी, अब शासन ने दोबारा अंतर्जनपदीय ट्रांसफर प्रक्रिया को शुरू किया है। इसके तहत शिक्षकों की काउंसलिंग डाइट परिसर में शुरू हुई है। इसमें 143 शिक्षकों की आपत्तियों का निस्तारण किया गया।

अंतर्जनपदीय स्थानांतरण नीति के तहत जिले से 1476 शिक्षकों ने फरवरी में आवेदन किया था। जिसमें काउंसलिंग के दौरान 310 शिक्षकों के आवेदनों को निरस्त कर दिया गया। शेष 1166 शिक्षकों के आवेदनों को विभागीय वेबसाइट पर फॉरवर्ड कर दिया गया था। जिन शिक्षकों के आवेदनों को निरस्त कर दिया गया था। उनको आपत्तियों को दर्ज करने का समय दिया गया है। लेकिन उसी बीच कोविड-19 की वजह से सभी कुछ रुक गया।

वहीं शासन ने अब इस प्रक्रिया को दोबारा से शुरू किया है। उसके तहत बरेली से आए सहायक निदेशक बेसिक शिक्षा एसएन सिंह की अध्यक्षता में आयी 143 शिक्षकों आपत्तियों का निस्तारण किया। वही बीएसए रामपाल सिंह राजपूत ने बताया कि कुल 143 शिक्षकों ने अंतर्जनपदीय स्थानांतरण को लेकर आपत्तियां दाखिल की थी। उनकी समस्याओं को सुना गया है। और उसका निस्तारण एडी बेसिक ने किया है।



سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسیؒ کی شخصیت اسوئہ رسول کا آئینہ تھی

 سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسیؒ کی شخصیت اسوئہ رسول کا آئینہ تھی



خانقاہ بلخیہ فتوحہ میں پہلی برسی پر پیش کیا گیا خراج عقیدت


فتوحہ: 28 ستمبر (پریس ریلیز عبد الرحیم برہولیا وی)

حضرت سید شاہ حکیم علیم الدین بلخی فردوسی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت اسوئہ رسول سے عبارت تھی۔ انہوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور تادم آخر علم و عمل کی شمع روشن کرتے رہے۔ ان خیالات کا اظہار خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشیں ڈاکٹر سید شاہ مظفر الدین بلخی فردوسی نے کیا۔ وہ سید شاہ علیم الدین بلخی فروسی اور ان کی اہلیہ صادقہ خاتون کی پہلی برسی کے موقع پر ایصال ثواب کی مجلس سے خطاب فرما رہے تھے۔ مجلس ایصال ثواب کا انعقاد خانقاہ بلخیہ فردوسیہ میں کیا گیا تھا۔ مجلس کا آغاز مفتی محب اللہ مصباحی، استاد جامعہ منعمیہ کی تلاوت اور اسامہ غنی کی نعت پاک سے ہوا۔ نظامت کا فریضہ کامران غنی صبا نے انجام دیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے خانقاہ معظم بہار شریف کے مولانا حسام الدین مصباحی فردوسی نے بزرگان بلخ اور فردوسی سلسلہ کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت علیم الدین بلخی کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ انجمن فلاح ملت کے صدر سید حسنین پاشا نے علیم الدین بلخی علیہ الرحمہ سے اپنے دیرینہ مراسم پر روشنی ڈالی۔ مفتی محب اللہ مصباحی نے کہا کہ مولانا کی ہر دل عزیزی کی سب سے اہم وجہ ان کی عاجزی و انکساری تھی۔ ان کے اندر اپنے حسب و نسب اور علم و کمال کا ذرہ برابر بھی غن نہیں تھا۔ وہ چھوٹوں سے بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ سید شاہ نصر الدین بلخی فردوسی نے کہا کہ ہمارے والد محترم کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ہر طرح کے لوگوں سے اس کے معیار اور ذوق کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس جو بھی بیٹھتا اسے اپنے ذوق کی تسکین محسوس ہوتی۔ کامران غنی صبا نے کہا کہ نانا محترم نے عملی اسلام اور عملی تصوف کی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر ہم شمار کرنے بیٹھیں تو بے شمار اہل علم، اہل قلم، علما و دانشور ان ہمارے درمیان موجود ملیں گے لیکن ایسی شخصیتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں جن تک رسائی سب کے لیے آسان ہو اور جن کی مجلسوں میں بیٹھ کر بے چین دل کو قرار محسوس ہو۔ علیم الدین بلخی رحمتہ اللہ کی یہی خوبی انہیں قابل احترام بناتی ہے۔ مجلس ایصال ثواب میں خانقاہ معظم بہار شریف کے سجادہ نشیں سید شاہ سیف الدین فردوسی، خانقاہ اسلام پور کے سجادہ نشیں سید شاہ سیف الدین رازی ابدالی، خانقاہ منیر کے سجادہ نشیں سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی،خانقاہ بارگاہ عشق تکیہ شریف سے سید شاہ تمیم عشقی ابوالعلائی،خانقاہ دیوان جعفر باڑھ کے متولی، کمال احمد منعمی،سید ابصار الدین بلخی، محمد فیروز، محمد عالمگیر وارثی،محمد نثار احمد (صدر جامع مسجد خانقاہ بلخیہ فتوحہ)،محمد افضل حسین نوری(امام جامع مسجد فتوحہ)، سید نور اللہ نیاز مدنی، محمد ندیم خان، محمد شہباز خان، سید شارق احمد فردوسی، سید ذیشان بلخی عطاری، صفوان غنی، سید عزیز پاشا فردوسی،سید فیض فردوسی،سید صدف رسول،حمید خان فردوسی،شوکت وارثی، مناگریل، سرتاج خان، محمد اسلم، مطیع الرب سمیت معتقدین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

Sunday 27 September 2020

एनडीए मे रहते हुए चिराग पासवान को नीतीश कुमार का विरोध कर उन्हीं की सीटों पर अपना प्रत्याशी उतारना नीतीश कुमार को सत्ता से बेदखल करने का प्रयोग तो नहीं 143 सीटो पर ही क्यों LJP ??

 एनडीए मे रहते हुए चिराग पासवान को नीतीश कुमार का विरोध कर उन्हीं की सीटों पर अपना प्रत्याशी उतारना नीतीश कुमार को सत्ता से बेदखल करने का प्रयोग तो नहीं 143 सीटो पर ही क्यों LJP ??

बिहार बिधान  सभा चुनाव बहुत ही दिलचस्प होते दिख रहा है चिराग पासवान मानने को तैयार नही है तो सरद यादव भी चूपी साधे हुवे है अर्जित राम माझी जेड प्लस सुरक्षा लेकर के गुलछर्रे उड़ा रहे हैं तो उन्हें 4 सीटों पर हैं आराम करना पड़ रहा है तो भारतीय जनता पार्टी 100 सीटों पर अपने उम्मीदवार उतारेगी और जेडीयू 104 बाकी सीटों पर सभी छोटे छोटे पार्टियों को अपने नाम को जिंदा करने का मौका मिलेगा इसीलिए चिराग पासवान मरने को तैयार नहीं है लेकिन यह देख पाना दिलचस्प होगा क्या चिराग पासवान अपनी नैया को इस भंवर से बचा पाएंगे या डुबो देंगे या फिर बड़ी सियासत है नीतीश कुमार के साथ कि चिराग पासवान इंडिया में रहते हुए नीतीश कुमार का विरोध कर उन्हीं के सीटों पर अपने प्रत्याशी उतारने की बात कर रहे हैं तो वहीं भाजपा का हामी भी भर रहे हैं कहिए नीतीश कुमार को सत्ता से बेदखल करने का प्रयोग तो नहीं यह आने वाला समय तय करेगा बाकी मिली जानकारी के अनुसार देखिए यह रिपोर्ट 

बिहार विधानसभा चुनाव के पहले एनडीए के डीएनए में बड़ा बिखराव देखने को मिला है। नीतीश कुमार की नीतियों से अलग लाइन तय कर चुके चिराग पासवान ने आखिरकार 143 विधानसभा सीटों पर चुनाव लड़ने का फैसला ले लिया है। एलजेपी सूत्रों से मिल रही खबर के मुताबिक राष्ट्रीय अध्यक्ष चिराग पासवान ने 143 सीटों पर एलजेपी के उम्मीदवारों का नाम तय कर लिया है। पार्टी ने 100 विधानसभा सीटों को छोड़कर बाकी सभी सीटों पर अपने उम्मीदवार तय कर लिए हैं।

एलजेपी के विश्वस्त सूत्रों से मिली जानकारी के मुताबिक चिराग पासवान बिहार फर्स्ट बिहारी फर्स्ट के नारे के साथ बिहार चुनाव में उतरने को तैयार हैं।

लोक जनशक्ति पार्टी ने नीतीश कुमार के सात निश्चय पार्ट 2 को मानने से इनकार कर दिया है। आपको बता दें कि लोक जनशक्ति पार्टी के प्रवक्ता संजय सिंह ने रविवार को बयान जारी करते हुए यह कहा था कि भारतीय जनता पार्टी से सीटों के बंटवारे पर उसकी कोई बातचीत नहीं हुई है। उसके बाद ही रहता है माना जा रहा था कि अब एनडीए से चिराग पासवान अलग हो सकते हैं।

सियासी गलियारे में चर्चा है कि चिराग पासवान अपनी पार्टी के लिए जितनी सीटें जा रहे थे भारतीय जनता पार्टी उतनी सीटों पर बातचीत करने को तैयार नहीं थी। हालांकि खुद चिराग पासवान की पार्टी में कई नेता एनडीए छोड़ने के पक्ष में नहीं है लेकिन इसके बावजूद पार्टी में 143 विधानसभा सीटों पर उम्मीदवारों की लिस्ट फाइनल कर दी है। एलजेपी जल्द ही इन उम्मीदवारों की घोषणा कर देगी।





ارریہ کی صحافت کا ایک معتبرحوالہ ,صحافی عارف اقبال 9199998415

 ارریہ کی صحافت کا ایک معتبرحوالہ ,صحافی عارف اقبال  9199998415

عارف اقبال خوبصورت شکل و شباہت کے مالک، انتہا درجے کا بااصول، انقلابی فکرو نظر کے حامل، متدین،متواضع، خوش اخلاق، ملنسار، علم دوست اور اہل علم کا قدرداں زیرک نوجوان صحافی ہیں۔ علمی، دینی، ادبی،فکری،سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کی شخصیت معروف ہے۔ شعبہ صحافت کے باوقار پیشہ سے جڑے رہنے کے باوجود علمی گہرائی،فکر و شعور کی آگہی اور عصری تقاضوں سے واقفیت قابل دید ہے۔ جرنلزم سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں، گوکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ صحافتی دنیا میں قدم رکھے ابھی چند سال ہوئے لیکن گذشتہ دو سالوں سے ضلع ارریہ بہار میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کی حیثیت سے جو مقبولیت اور عوام کا اعتبار حاصل کیا ہے وہ بہت کم صحافیوں کے حصے میں آیا۔

برادرم عارف اقبال کم عمری میں ہی اپنی عوامی مقبولیت میں چار چاند لگا چکے ہیں، اپنے پیشے سے حد درجہ محبت کرنے والا متھلانچل کا یہ لعل و گوہراپنی منزل آسمان کی وسعتوں سے بھی اونچی متعین کی ہے، شاید اسلئے وہ بحر بیکراں کیطرح خاموش شور بن کر اپنی منزل کے طرف رواں دواں ہیں۔ واضح رہے کہ ضلع ارریہ سمیت خطہ سیمانچل اپنی زمینی حقیقت کے نشیب و فراز کے بہت سے ادوار دیکھے ہیں، بالخصوص گذشتہ دو سالوں میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں جس میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی صورت حال شامل ہے، ایک طرف جہاں سیاسی اعتبار سے عوام الناس بالخصوص نوجوانوں میں بیداری آئی ہے وہیں سماجی اور معاشرتی اعتبار سے سماج کا ہر طبقہ ذہنی شعور کی پختگی اور فکری ہم آہنگی کی آئینہ دار بنے ہیں، لوگوں میں علم و آگہی اور سیاسی اور سماجی طینت کے پرکھنے کا شعور جس ذرائع سے حاصل ہوئی ہے اس میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا کردار نمایا ہے، موجودہ وقت جہاں ایک طرف اس ملک میں وہ کردار بھی کم نہیں جنہوں نے خود غرضی، حرص و طمع اور مفاد پرستی کے ذریعے صحافت جیسے باوقار پیشے کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،وہیں عارف اقبال جیسے آسمان صحافت میں وہ درخشندہ ستارے بھی ہیں جو بے باک اور بے خوف صحافتی کردار کے ذریعے شب ظلمت کو ایوان سحر میں تبدیل کرنے اور طوفان کا منہ موڑنے میں ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا کی حکومتیں صداقت پسند میڈیائی طاقتوں سے خائف ہوکر ان کی آزادنہ آواز کو دبانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ دنیا بھر میں ”میڈیا“ ایک طاقت کی اکائی مانا جاتا ہے۔

عارف اقبال سے راقم الحروف کی سناشائی بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن انکی صحافتی سرگرمیوں کو ایک عرصہ دراز سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا رہا ہے، تلاش بسیار کے بعد آخر کار ایک دن موصوف سے ملاقات بھی ہوگئی اور چند ہی ملاقاتوں میں ان کے صحافتی کار کردگی کو بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کاموقع ملا، یقینا اپنے کام کے تئیں محنت، لگن،جانفشانی اور عرق ریزی کا سبق ان کی زندگی سے ہمیں ملتا ہے۔چونکہ صحافت ایک ایسا حلقہ ہے جہاں صحافیوں کو ایک ایک منٹ پکڑ کر رکھنا پڑتا ہے، زندگی میں وقت کی قدر و قیمت ایک صحافی سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا،عارف اقبال نے اپنے صحافت کی اس مختصر زندگی میں وقت کا بہترین استعمال کیا ہے، ایک طرف جہاں وہ بحیثیت صحافی پوری ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ ارریہ ضلع کے قدیم سے قدیم مسائل کو عوامی نمائندگان اور حکومت وقت کے سامنے پیش کرتے رہیں وہیں دوسری جانب صحافیانہ مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیتے رہیں۔موصوف اچھے صحافی کے ساتھ ایک بہترین اور مستند مصنف و مرتب بھی ہیں۔عارف اقبال کی زندگی سے یہ سبق صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے والے نواردوں کے لئے انتہائی اہم اور با معنی ہے۔موصوف بڑی مستعدی کیساتھ میدان عمل میں اپنی احساس ذمہ داری کو بنھانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں، انکے علاوہ اور بھی میری سناشائی ارریہ کے دیگر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے جڑے افراد سے اچھی خاصی ہے،لیکن عارف اقبال صاحب کا بلند اقبال کچھ اور ہی بیاں کرتی ہے۔ گراؤنڈ زیرو میں نہایت ہی متحرک اور فعال رہنے والا یہ شخص ہزاروں کی جم غفیر میں بھی اپنی ایک امتیازی بول بالا رکھتے ہیں، عارف اقبال نے ارریہ کی صحافتی اقدار کو اعلیٰ پہچان اور نئی طاقت عطا کی ہے جس سے سیمانچل کے نو آموز صحافی اب تک نا آشنا تھے،صحافت کے ہر محاذ پر سیاسی، سماجی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی باسبانی آپکا طرہ امتیاز ہے۔صحافتی اقدار کی بلندی اور مثبت صحافت کے فروغ کے لئے آپ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا،آپ کی انتھک کوششوں کے بدولت صحافتی اصطلاحات اور خبروں کے بیان کے تکنیکی معیار میں جو تبدیلی آئی ہے وہ حیران کن اور ناقابل یقین ہے۔ آپکی رشحات فکر و نظر نے فنی وسعتوں کو جو عروض بخشا ہے اس سے تصوراتی دریچوں کے روشن باب کھلے ہیں، مبتدی صحافی کے لئے آپ کا بے باک کردار آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے، مصلحت پسندی، مفاد پرستی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ظلم و استبداد کے خلاف اپنی پنجہ آرائی کے جو جوہر دکھائے ہیں یقینا اس سے گودی میڈیا کے حوصلوں کو گرہن لگاہے اور سچ کی آواز کو پرواز کرنے کا کھلی فضا ہموار ہوئی ہے۔عارف اقبال نے ارریہ میں بدنظمی، ناانصافی، حق تلفی اور کرپشن کے سدباب کے لئے صحافتی زاویہ سے جو اہم اقدامات کئے ہیں انہیں نظرانداز اور نہ ہی فراموش کیا جا سکتا ہے۔موصوف نے سیاسی، سماجی، معاشرتی، ادبی، لسانی، اقتصادی اور ذہنی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ بھی ایسے وقت میں جب حق وصداقت کی آواز کو حکومتی اداروں کے ذریعے بندشوں میں جکڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

صحافی عارف اقبال خبروں کے تئیں بیحد سنجیدگی و متانت کا مظاہرہ کرتے ہیں،خبروں کی جستجو اور حقائق کی چھان بین کے لئے پر خطر راستوں کو عبور کرنے کی جسارت و جرات انکی صحافتی جوانمردی اور جفاکشی کا غماز ہے، انہیں مثبت رویوں کی وجہ سے اب تک ارریہ کی تاریخ میں اس سے زیادہ روشن دماغ، مخلص بے لاگ اور اپنے صحافتی ذمہ داری کے تئیں بے لوث جرنلسٹ ناچیز کو نہیں ملا۔ہمیشہ حق و صداقت کی وادی کی تلاش میں خاردار جھاڑی کی طرف جانے والے راستے کا انتخاب کیا اور اصحاب اقتدار ملک اور سماج کی خستہ حالی،بے بسی اور بے چارگی کی سچی تصویر دکھانے کے لئے جس طرح کے مشکل اورکانٹوں بھرا راستوں کو عبور کرکے رپورٹنگ کی ہے یقینا ایسے نظارے صحافت کے زریں ادوار کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ادھر چند سالوں میں صحافت اور صحافیوں کی کارگردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا آج کی صحافت چمکتے اسٹوڈیو اور چنندہ جگہوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ثقافتی پروگرام، سمینار، جلسہ جلوس،احتجاج و مظاہرہ، تھانہ عدلیہ یا کالج ہسپتال کے ارد گرد ہی صحافی کی نظر مرکوز ہو گئی ہے۔بہت کم ایسے صحافی ہیں جن کی نظر ان کے علاوہ گاؤں صدور کے مسائل کی طرف جاتی ہے۔ اس معاملے میں عارف اقبال اسم بامسمٰی ہیں، انہوں نے اپنی صحافت میں گاؤں دیہات کی زندگی بڑے قرینے سے نہ صرف پیش کی ہے بلکہ دیہی علاقوں کے ان مسائل کو بھی ابھارا ہے جس سے خود اہل ارریہ ناآشنا تھے۔ مجھے آج بھی ان کی وہ تاریخی رپورٹنگ اچھی طرح یاد ہے جو انہوں نے اب سے دو سال قبل کلہیا سماج کی بد حالی اور تعلیمی پس ماندگی اور گذشتہ ستر سالوں سے کلیہا برادری کے لوگوں کا سماجی، سیاسی استحصال کی پوری کہانی بڑی ہی بے باکی سے ملک اور سماج کے سامنے لانے کی جرات کی تھی۔ پہلی بار مجھے بھی ان کی رپورٹنگ سے معلوم ہوا کہ کلہیا سماج سے جڑے افراد کی تعداد خطہ سیمانچل میں تیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے، حالانکہ ناچیز کا تعلق خود کلیہا برادری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کلیہا برادری پر ان کی یہ رپورٹنگ ایک دستاویزی تھی جو ارریہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی میڈیا گروپ یا ان کے اہلکار ملک اور سماج کے سامنے لانے کی جرات نہیں کر سکے۔ عارف اقبال کا ای ٹی وی بھارت کے لئے ارریہ کی سینکڑوں ایسی رپورٹنگ ہے جو تاریخی اور دستاویزی ہے۔ جس میں آزادی کے 73سال بعد بھی جھمٹا گاؤں میں ایک عدد پل کا نہ ہونا،بہار کے دل میں بستا پاکستان، رمڑئی گاؤں کی ناخواندگی اور پس ماندگی،در در کی ٹھوکریں کھاتابنجارہ سماج،ڈجیٹل انڈیا کا ایک ایسا گاؤں جو ایک عدد پل کو ترس رہا ہے،ارریہ کی کہانی گردش زمانہ کی زبانی،ارریہ کا ایک گاؤں جہاں بانس کے بلے ہیں جنازہ کے سہارا،ارریہ کالج جہاں سات ہزار طلباء پر ہیں محض سات اساتذہ،ارریہ کادارالقضاء جہاں مسلمانوں کے سماجی اور شرعی مسائل حل کئے جاتے ہیں،آزاد اکیڈمی کے احاطے میں واقع گرلز اقلیتی ہاسٹل جو بن گیا نشہ کا اڈہ،طلاق ثلاثہ بل پر ارریہ کی خواتین کا جرات مندانہ رد عمل وغیرہ قابل ذکر اسٹوری ہے۔ عارف اقبال کی یہ ایسی رپورٹنگ تھی جس میں سماج اور معاشرے کا درد، غریبوں اور بے سہاروں کا کرب و چبھن اور دیہی علاقوں کی پسماندگی کے احوال و کوائف کو بہت ہی واضح منفرد انداز میں عکاسی کی گئی ہے اور ارباب اقتدار کی بے حسی اور مردہ ضمیری پر ماتم کیا گیا ہے۔ان علاقوں کی گراؤنڈ رپورٹنگ کے لئے کبھی آپ نے بھینس کی سواری، بیل گاڑی، ندی کے بھنور میں ناؤں کاسہارالیاتو کبھی گرمی کی سخت دھوپ اور اڑتی دھول کی پرواہ کئے بغیر میلوپاؤں پیدل سفر طے کیا۔ علاوہ ازیں بدحال سینکڑوں گاؤں کی تصویر مرکزی اور ریاستی حکومتوں تک پہونچانے کا بے باکانہ قدم اورجرات و حوصلہ مندی کی طاقتور مثال ہے اور انکی یہ فکری ہم آہنگی ارریہ سمیت سیمانچل کے صحافت کا بڑا معتبر حوالہ بھی ہیں۔

اب عوام سمیت اہل علم و دانش کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس گوہر نایاب اور نعمت بے بہا کو اپنے دامن احساس میں سمیٹے رکھیں تاکہ مستقبل میں ان کی صحافتی شعاؤں سے ہماری نسل نو مستفیض ہوسکے۔

سیمانچل میں اسدالدین اویسی کا سیاسی وجود کیوں ضروری ہے

 سیمانچل میں اسدالدین اویسی کا سیاسی وجود کیوں ضروری ہے 

عارف حسین طیبی  رابطہ نمبر 9199998415 


مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی ہندوستان کے سب سے پاور فل مسلم سیاسی رہنما کے طور پر اپنی ایک منفرد اور امتیازی شناخت رکھتے ہیں  انکا سیاسی قد اتنا بلندوبالا ہے کہ انکے قریب دور دورتک کوئی مسلم سیاسی رہنما خال خال نظر نہیں آتے مسلم سیاسی قیادت کا سب سے پر اعتماد  چہرہ جو صاف ستھری اور بے داغ سیاسی امیج بے باک اور بے خوف قائدانہ صلاحیت کے لئے ہندوستان بھر میں ہر طبقے میں یکساں مقبول و معروف ہیں ہندوستان کے ہر قومی اور ملی مسائل پر مدلل اور مکمل بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے سے نہیں چونکتے اگر یہ کہا جائے کہ حق گوئی اور صداقت بیانی کرنے والے عظیم کردار کے مالک  اعلی سیاسی بصیرت رکھنے والے نابغہ روزگار شخصیتوں  میں سے ایک  بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں تو غلط نہ ہوگا اسوقت ملک و قوم کے حق میں اسدالدین اویسی کا سیاسی وجود جزء لاینفک کیطرح ہے جس کے بغیر  ملک کی زہریلی ماحول میں فسطائی اور فاشزم طاقتوں سے مقابلہ کرنا ناگریز ہے کیوں کہ یہ ایسے بے باک سیاسی قائد ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور انکا سیاسی وجود ملک اور قوم کے لئے باعث صد افتخار ہی نہیں بلکہ ملی اقدار کی پاسبانی بھی ہے سیمانچل کو بد عنوانی اور کرپشن سے پاک بنانے اور ترقی کی راہ گامزن کرنے کے لئے اسدالدین اویسی کا سیاسی عزم مصصم بہت ہی واضح ہے 



اویسی صاجب ملک و ملت کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہیں

سیاست کے میدان میں ایک ایسا شہسوار اور ایسا چمکتا ہوا ستارہ جس نے حق کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دیانت داری کو اپنا سلوگن اور پہچان بنائی ہے  جنکی قدر وقیمت قوم و ملت کی بہتری ، سچی قیادت ، بے باک آواز ، بے لاگ تبصرے ، قومی یکجہتی ، اور آپسی آہم آہنگی کے لئے ناگریز ہے وہ ایک ایسے مستحکم اور منظم کردار ہیں جسکو نظرانداز کرنا قوم و ملت کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا انکی سیاسی بقا ملک وملت کے لئے نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے اگر ملک میں قومی اور مذہبی تشخص کی بقا کی لڑائی لڑنی ہے تو انکی سیاسی زمین کو وسیع و عریض کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے انکا بے داغ سیاسی کیرئر ہمیں اس بات کی طرف مدعو کرتا ہے کہ پورے بہار میں مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کو جڑ سے مٹانے کے لئے انکی تائید و حمایت میں بلا تفریق مذاہب و ملل  یکجہتی اور ہم آہنگی کی ثبوت دیتے ہوئے  انکے ہاتھوں کو  مضبوط کریں  

 ویسے تو مجلس اتحاد المسلمین کا ہیڈ کواٹر ریاست تلنگانہ کے حیدرآباد  میں واقع ہے جہاں وہ سیاسی طور پر سب زیادہ مضبوط ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے بیرسٹر اویسی کی سیادت میں  ترقی کی راہ پر گامزن ہے  موجودہ وقت میں مجلس تلنگانہ سے نکل کر مہاراشٹر ، اترپردیس اور بہار کے سیمانچل میں اپنی سیاسی زمین کو بہت حد تک ہموار کرنے کی کوشش میں لگی ہے اور اس قسمت آزمائی میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے اور عوام میں جوش و خروش کا ماحول دیکھنے مل رہا  ہے مجلس اتحادالمسلمین ایک بہتر اور پر اعتماد سیاسی متبادل کے طور پر لوگوں کی پہلی پسند بنتی جارہی ہے  

اس طرح کی خوش آئند پہلو سے ملکی سطح پر مسلم سیاسی قیادت کے بحران کو ختم کرنے کے لئے  اچھا قدم بھی مانا جاسکتا ہے  

مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ سمیت مہاراشٹر  میں اپنی  سیاسی کامیابی کے پرچم کو لہرا کر  ملک بھر کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچادی ہے اور ایک صاف پیغام دینے کی کوشش کی ہے  کہ بہت جلد ہی مجلس دیگر جگہوں پر اپنے کامیابی کے جھنڈے لہرانے میں کامیاب ہوجائیں گےآگر ہم بات کریں بہار کے سیمانچل کی تو یہاں انہیں تھوڑی نا امیدی ضرور ہاتھ لگی تھی لیکن ضمنی الیکشن میں ایم آئی ایم کے امیدوار قمرالہدا صاحب کی شاندار جیت ناامیدی میں پیغام مسرت لیکر آئی ہے مجلس سے جڑے افراد جوش وخروش کے ساتھ زمینی سطح پر ہمیشہ عوامی خدمات کرتے نظر آتے ہیں  


 بہار کے بے باک قائد مجلس کے ریاستی صدر اختر الایمان صاحب گرچہ بہت کم فرق سے گذشتہ لوک سبھا انتخاب ہار گئے تھے لیکن لوگوں میں مجلس لئے  پیار و محبت اسدالدین اویسی کے تئیں دیوانگی 

  اس بات کا  غماز ہے  کہ مستقبل قریب میں سیمانچل سمیت پورے بہار میں عوام انہیں مایوس نہیں کرے گی وہ ہر حال میں کامیاب کے پرچم لہرا کے رہیں گے ایک رپورٹ  کے مطابق بیرسٹر اسدالدین کا سیاسی مستقبل  سیمانچل سمیت بہار کے دیگر علاقوں  میں کسی بھی دیگر چھوٹی پارٹیوں کے بہ نسبت سب سے زیادہ تابناک اور روشن ہے

اور وہ اسلئے بھی کہ گذشتہ 72 سالوں سے سیمانچل کے چار اضلاع ( کٹیہار ، پورنیہ ، ارریہ ، کشن گنج  ) کے لوگوں کا جو سیاسی استحصال ہوا ہے اقتصادی پچھڑے پن اور تعلیمی اور سماجی پسماندگی کی قعر عمیق میں جس طرح عوام  کو ڈھکیلا گیا ہے جس بے دردی سے یہاں کی سماجی اور معاشرتی زندگیوں کو کچلا گیا ہے یقینا باعث تشویش ہے سیمانچل میں آج  بھی %95 عوام  مٹی اور پھونس کے بنے گھروں میں نہایت ہی کسمپرسی کے عالم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آج بھی یہاں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد سب زیادہ ہے    

  ہر سال یہاں بھیانک سیلاب کیوجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اربوں کھربوں کی فصل کھیتوں بر باد ہوجاتی ہے غریب اور لاچار کسان قرض کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انکے معصوم بچے  پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر روزی روٹی کی تلاش میں دیگر ریاستوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں 

شاید  انہیں مظلوم و مقہور ، بے سہارہ ، و بے بس لوگوں کی ایک مضبوط آواز بنکر بیرسٹر اویسی نے سیمانچل کے دروازے پر دستک دی ہے عزم مصصم کے ساتھ کھلے لفظوں میں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر سیمانچل کے عوام متحد ہوکر انکا  ساتھ دیں تو آرٹیکل 371 کی نفاذ کرکے سیمانچل کی دھندلی تصویر اور یہاں کی اقتصادی بحران کو بہت کم وقت میں ترقیات اور ڈیولیپمینٹ کی راہ  پر لاکر یہاں کے عوام کو روشن مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے مسٹر اویسی جانتے ہیں کہ مرکزی اور ریاستی سرکاروں سے حقوق کیسے حاصل کئے جاتے ہیں  کسطرح سیاسی طور پر انہیں جھکایا جاسکتا ہے ریاستی سرکار کو کس طرح علاقے کی ترقی کے لئے  مجبور کیا جاسکتا ہے بیرسٹر اسدالدین اویسی آنے والے  

2020 کے ودھان سبھا الیکشن میں سیمانچل سمیت پورے بہار میں اپنا امیدوار کھڑے کرنے کی بات کہہ کر بہار کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے اب تک پچاس سیٹوں پر اپنی دعویداری کا اعلان کرچکے ہیں مستقبل قریب میں مزید سیٹوں کا اعلان متوقع ہے 

اگر ایسا ہو ا تو سیکولرزم کے ڈھنگیوں کی دکانیں  بند ہوتے دیر نہیں لگے گی کیوں کہ جس طرح اویسی صاحب کے چاہنے والوں کی  تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد ہی بہار کی سیاست میں کنگ میکر کی حیثیت سے اپنا ایک سیاسی مقام حاصل کر لیں گے  

اور ہونا بھی چاہئے کیوں کہ یہی پارٹی اسوقت مسلم قوم کی سب بڑی ضرورت ہے اور یہ بات تجرباتی نظریے سے دیکھی جاسکتی ہے موجودہ وقت میں ہندوستان میں  آج جہاں بھی مسلم سیاسی قیادت کام کررہی ہے وہاں مسلمان خوشحال ہیں اسکی مثال کیرلہ ، تلنگانہ ، اور مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں صاف نظر آتا ہے لیکن ہماری قوم میں وہ کردار بھی کم نہیں جو اپنی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو آزادی کے بعد سے اب تک مسلسل بہتر سالوں سے گمراہ کرتے آرہے ہیں وہ اور اپنی سیاسی زمین کو بچانے کے لئے ہر بار الگ الگ نعروں کے ساتھ میدان سیاست میں اتر کر عوام کو رجھانے کا کام کرتے ہیں 

 لیکن کانٹھ کی ہانڈی باربار نہیں چڑھتی

لوگ اب جھوٹے وعدوں سے گمراہ نہیں ہوسکتے  مجلس اتحاد المسلمین کی پہچان ہمیشہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کیجاتی رہی ہے اور ہمیشہ  ان سے جڑے افراد کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ زمینی سطح پر عوام کو فائدہ پہونچایا جائے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں  

 اور وہ دن دور نہیں جب عوام کو یہ بات سمجھ میں آجائیگی کہ ملک کو آج بے باک اور نڈر قیادت کی کتنی ضرورت ہے 

آج ہر شخص ملک میں مسلم اعلی سیاسی قیادت کی بات کرتا ہے  لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے آج پورے ہندوستان میں اسدالدین اویسی جیسے جمہوری اقدارو افکار کے حامل  عوامی حقوق و مفادات کے لئے بے لوث خدمت خلق کرنے والے بے باک قائد جب پارلمینٹ میں گرجتا ہے تو حزب مخالف بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ہم سب کی بد نصیبی ہے کہ آج بھی ہم مسلمان اپنا سیاسی رہنما ملائم سنگھ ، لالوپرساد ، مایاوتی ، اور راہل گاندھی کو مانتے ہیں

لیکن ہر ظلم و استبداد کے خلاف اسدالدین اویسی ہی ہر محاذ میں نظر آتے ہیں موجودہ وقت ایوان بالا میں کوئی اپوزیشن کا رول ایمانداری سے کرتے نظر نہیں آتے ایسے میں اویسی صاحب کی حیثیت اپوزیشن لیڈر کی ہوگئی ہے جو ہر بحث میں اپنی نمایا کارکردگی سے صاحب اقتدار کو آئینہ دکھاتے رہتے ہیں 

 لیکن افسوس کہ آج بھی یہ مرد مجاہد اپنوں کے درمیان اجنبیت اور بیگانے پن کے شکار ہیں آج پورے بہار بالخصوص سیمانچل میں شہری انفراٹیکچر سمیت دہی علاقوں سے گزرنے وال سڑکوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے سرکاری اسکولوں  کی عمارتیں  انتظامیہ کی بے التفاتی کی وجہ اپنی وجود بچانے کی جنگ لڑرہا ہے ایسے میں بیرسٹر اویسی کا سیمانچل میں انقلابی تبدیلی بات کرنا کسی تمغہ فخر وامتیاز سے کم نہیں ایک عہد قدیم سے نام و نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کی  ذہنی اور شخصی غلامی نے ہمیں اتنا پریشان اور بد حال کردیا ہے کہ اب ہم سب بھولنےلگے ہیں کہ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں شاید اسی کے پیش نظر 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج نے ایک نئی روایت کو جنم دی ہے اور سربراہان سیاست کو پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کا استحصال کرنا  بند کیجئے 

 اب ملک میں ووٹ پولورائزیشن کی روایت ختم ہوگئی ہے اب سیکولرزم کے ڈھونگی بے بقاب ہوچکے ہیں اور ہندو ووٹوں کے متحد ہونے کا ڈر بھی سرے سے ختم ہوگیا ہے اب اگر کوئی اس بات کا الزام لگاتا ہے کہ اویسی جیسے دیگر پارٹیوں کی وجہ ہم ہار  گئے تو ایسے شخص کے احمقانہ بیان پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے 

آج ملک نے بہت صاف شفاف پیغام دیا ہے اور اپنی رائے دہی کا استعمال اس طرح سے کیا ہے کہ اس پر شک کی گنجائش رکھنا بھی ووٹروں کی توہین ہوگی آج ہر ذات اور برداری کے لوگ ہندتوا کے نام پر بی جے پی میں شفٹ ہوگئے ہیں اسکی سب سے بڑی مثال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بہار کا جو نتائج منظر عام پر آیا تھا یقینا چونکانے والی تھی  پورے بہار سے گھٹبندھن کے کھاتے صرف ایک سیٹ جو اس بات کیجانب اشارہ کر رہا تھا کہ  مسلمانوں کے علاوہ ان سیکولرزم کے ڈھونگیوں کو کسی نے بھی چارہ نہیں ڈالا اور انکے ذات برادری والوں نے ہی انکو ایسا سبق سکھایا کہ وہ 2019  کی اس سیاسی پاری کو کبھی نہیں بھول پائنگے اگر دلت اور یادو کا ووٹ گھٹبندھن کے کھاتے میں جاتی تو نتائج کچھ اور نکل کر سامنے آتے اور  کٹیہار سے طارق انور ارریہ سے سرفراز عالم دربھنگہ سے عبدالباری صدیقی بیگو سائے سے ڈاکٹر تنویر حسن جیسے قداآور سیاسی رہنماؤں کو ہار کا سامنا نہ کرنا پڑتا ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں آزادی بعد سے پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے سب زیادہ ساٹھ فیصد ووٹ نام و نہاد سیکولر پارٹیوں کو دیا ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے اس کے باوجود بھی درجنوں ریاستوں میں کانگریس جیسی بڑی پارٹیاں اپنا کھاتہ تک نہیں کھو پائی آخر ہم مسلمان کس کی راہ دیکھ رہے ہیں  آخر کب تک مسلمان ہی صرف سیکولرزم کے بوجھ ڈھوتے رہیں گے 

کب تک مسلمان ایک خاص راج نیتی پارٹی کی غلامی کرتے رہیں گے آخر کب تک مسلمان ڈھونگی سیکولر واد کے چکر میں اپنا اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی خسارے کا بوجھ اپنے آنی والی نسلوں کے کاندھے پر منتقل کرتے رہیں آخر کیوں نا  مسلمان خود کفیل بنیں کسی سیاسی پارٹی کے دست نگر بننے سے بہتر ہے کہ اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنے کی فکر کیجائے  

ساری قومیں اپنی ترقیاتی کاموں کے لئے وقت کے حساب سے اپنی سیاسی قیادت کو بدلنے میں عافیت سمجھی  اسلئے وہ آج ملک میں سب سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں  اور ہم لوگ بہتر سالوں سے کانگریس کے چوکھٹ پر سر جھکاتے ہوئے غلامی کی زنجیروں سے جکڑ دئیے گئے یہی وجہ رہی کہ ہم لوگ ناکامی اور ذلت و خواری کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور وہ مسلسل مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے کھیلتے رہے اسکے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں  موجودہ وقت میں مسلمان ہندوستان سب بے بس لاچار تعلیمی پسماندگی کا شکار قوم ہے  کانگریس نے ہم سے ووٹ تو لیا لیکن ہماری ترقی کے لئے انکے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا اب تو مسلمانوں کے تئیں کانگریس کی سیاسی شعبدہ بازی کا مطلع بھی بہت صاف ہوچکا ہے نوے دہائی کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ کا وہ بیان جس کو اسی کے ایک کابینہ وزیر نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ کانگریس مانتی ہے کہ مسلمانوں کے ترقی کی ذمہ داری اسکی نہیں ہے اگر مسلمان گٹر میں پڑے رہنا چاہتے ہیں  تو رہنے دو مسلمانوں کے تئیں اسطرح کے رکیک اور تذلیل و تحقیر سے لبریز یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ یقینا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو  ذلت وخواری کی دلدل میں ڈھکیلا گیا ہے      

لیکن اب وقت آگیا ہے ملک کے مسلمانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے ہونا کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی واضح شناخت وضع کرنی ہو گی اب مسلمانوں کو بھی اپنا تابناک مستقبل کے بارے سوچنا ہوگا اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کو پیغام دینا ہوگا کہ ہم مظلوم ضرور ہیں پر مجبور نہیں اور متحد ہوکر  اپنی اقتصادی سماجی تعلیمی ترقی کے لئے بہتر حکمت عملی کو لائحہ عمل میں لانا ہوگا

اسلئے اسوقت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ یکجہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمیں کے ہاتھوں کو مضبوط کریں اور پوری شدومد کے ساتھ جمہوریت کے راستے اپنے حقوق طلبی کا راستے کو یقینی بنانے کے جانب قدم بڑھائیں  

کچھ لوگ ہیں جو  لوگوں کو گمراہ کرنے کا ٹھیکا لے رکھے ہیں اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر عوام کو غیر ضروری نعروں میں الجھا کر اصل قیادت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں میری گذارش ہے کہ ایسے بیمار ذہن لوگوں سے اپنے آپکو بچائے رکھئے اور ایک اچھی اور سچی قیادت کے سائے تلے آکر ملک کی جمہوریت کو مضبوط کیجئے اور 

ایسے سیاسی رہنماؤں کو موقع فراہم کیجئے  جو عوامی  خدمت و ترقی کے تئیں سنجیدہ ہوں جو بے آوازوں کی آواز بنکر اصحاب اقتدار کو آئینہ دکھانے کی ہمت رکھتا ہو  جب ایسے لوگ ہمارے ملک اور سماج کے لئے اپنی ذمہ داری نبھائنگے تو یقینا ملک کی جمہوری نظام پر ہر ایک کا بلا تفریق مذاہب و ملل اعتماد بحال ہوگا جس سے ملک کی جمہوریت کو تقویت ملے گی

کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں  مثبت سوچ کو لائحہ عمل میں لائیے ان شاءاللہ منظر نامہ کو  تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی ایک مرتبہ سچی اور اچھی قیادت کو تسلیم کیجئے برسوں سے ہم لوگوں نے بڑے بڑے تیس مار خان کو موقع فراہم کرتے آئے ہیں ایک بار  کچھ نیا کر کے دیکھتے ہیں اگر تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو پھر الٹے قدم نشان راہ پر اپنی پرانی قلعہ میں لوٹ آئینگے لیکن قبل ازوقت کچھ لوگ ورغلاہٹ اور گھبراہٹ کا ماحول پیدا کرکے سارے لوگوں کو ایک رسی میں باندھنے کوشش کر رہے  ہیں ایسے سیاسی آقاؤں کے غلاموں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے

آہ! میری محبوبہ جاں بلب

          آہ! میری محبوبہ جاں بلب۔۔۔۔۔۔                    ۔




                              محمد نظرالہدیٰ قاسمیؔ

نوراردولائبریری حسن پور گنگھٹی ، مہوا ،بکساما،ویشالی

8229870156

9135703017


میری زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ جس سے میں ٹوٹ کر محبت کرتا ہوں، اس کی جدائی میرے لئے سوہان روح سے کم نہیں ہے، وہ میرے خواب کا ایک حصہ ہے، وہ میری ضرورت ہے، میرا شب و روز،نشیب و فراز سب اس سے منسلک ہیں۔ میں اسے بے انتہا چاہتا ہوں اس کے بغیر میں اپنے آپ کو تنہا اور بے جان سمجھتا ہوں،وہ مجھے ہر منفی و مثبت خبر سے بر وقت آگاہ کرتی ہے، وہ اپنی خبر سے مجھے کبھی خوب رلاتی ہے اورکبھی ہنساتی ہے، وہ اپنی سریلی آواز سے دل و دماغ کو جلا بخش کر ایک قسم کا سرور پیدا کرتی ہے ،کبھی منفی خبر سناکر فرحاں و شاداں دل و دماغ کو اذیت بھی دیتی ہے، اس کے انداز البیلے ہیں، اس کو سن اور دیکھ کر لوگ راہ یاب بھی ہوتے ہیں اور اس کی محبت کا غلط استعمال کرکے اپنے لئے جہنم کی تاریکی کو اپنے نام کرلیتے ہیں، اچھائی اور برائی دونوں صفتیں اس کے رگ و ریشہ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں،پل بھر کے لئے بھی اس سے جدا ہونا گوارا نہیں ہوتا، سوتے وقت جب تک آنکھ بند نہ ہو نگاہیں اس کی طرف ٹکی ہوئی ہوتی ہیں اور انگلی اس کے لب و رخسار پر بوسہ لے رہی ہوتی ہے، میری محبوبہ کا انداز ہی ایسا ہے کہ اس کے ساتھ عشق و مستی کی کہانی دہراتے رہنا میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہوگیا ہے، سوکر اٹھنے کے بعد اگر اس کی زیارت فوری نہ ہوتو پورا وجود بیقرار ہوجاتا ہے اور جب تک اس کو دیکھ نہ لوں دلِ بیقرار کو قرار نہیں آتا، اس انوکھی محبوبہ کے سامنے تو تمام رشتہ دار، متعلقین، محبین، متوسلین، اعزہ و اقارب کی محبت ہیچ ہے، جہاں مہمان داری میں جاتا ہوںتو میزبان سے محو ِگفتگو ہونے میں دل نہیں لگتااور دل اندر سے ملامت کر رہا ہوتاہے۔ جب گفتگو سے خلاصی ملتی ہے تو پھر دل سے لگے اس محبوبہ کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اپنی انگلیوں سے بوسہ دینے لگتاہوں۔بسا اوقات میزبان کو ہماری ملاقات سے بوریت محسوس ہونے لگتی ہےاور ا سے اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ اپنی محبوبہ سے ایک پل بھی جدا ہونا گوارا نہیں کرسکتا ہے، اس محبوبہ کی محبت کے سامنے بڑے چھوٹے کا اکرام،ادب و شائستگی سب پھیکی ہے، بسا اوقات چاہ کربھی بڑوں کا ادب ملحوظ نہیں رکھ پاتا،دل چاہتا بھی ہے کہ بڑوں کے سامنے بے ادبی سے پیش نہ آئوں اور اپنی محبوبہ سے رابطہ نہ رکھوں؛ مگر افسوس کہ دل مانتا ہی نہیں، محبت بھی عجیب شئے ہے، چھپانے سے چھپتی نہیں،لوگ کہتے ہیں کہ محبت چھپنے کی چیز نہیں ہے ،یہ ایسی شئے ہے جس کی چنگاری تو دل میں ہوتی ہے لیکن شعلے اعضاء و جوارح کے ظاہری نشو و نما سے عیاں ہوتے ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں ایک مرتبہ میں بھانپ لیتی ہیں کہ یہ شخص کسی نہ کسی کی محبت میں گرفتارہے اور اسے اس نے مکمل دِل دے رکھا ہے، گاؤں گرام کے لوگ طنزیہ انداز میں چہ میگوئیاں کرتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص ہر وقت اپنی انگلی کو لمس کئے پھرتا رہتا ہے، مسجد کے نمازی انگشتِ بدنداں ہیں کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات تو کرتا ہے؛ لیکن بے اعتنائی اور بے توجہی کے ساتھ،وہ نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس کی کیفیت "واحد حاضر جمع غائب"کی ہوتی ہے (یعنی جسمانی طور پر حاضر ہوتا ہے اور روحانی ذہنی طور پر یہ خواہش ظاہر کررہا ہوتا ہے کہ کب فرصت ملے کہ پھر ان سے ملاقات کروں)گھر کے لوگ طعنہ دیتے ہیں اس کو بیوی کی کیا ضرورت اس کے لئے تو وہی محبوبہ کافی ہے،کھانے پینے ،گفت و شنید کے وقت جب ساتھ میں ہوتی ہے تو والدہ ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں کہ جب دیکھو اسی میں لگا رہتا ہے کبھی تو اس سے جدا رہو،لیکن محبت کا خمار ایسا رچ بس گیا ہے کہ چاہ کربھی اس عشق کے بھوت کو اپنے سے جدا نہیں کرپاتا؛گویا کہ عشق و محبت کے اس راہی کو ہروقت اور ہر آن کسی نہ کسی شخص کے تلخ لہجے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن محبت میں گرفتار عاشق کوئی نیا نہیں ہے کہ گھبرا جائے اور اس کی پیشانی پر شکن آجائے ،اسی محبوبہ نے ۲۰۱۷ء "میں ایک انجان شخص سے میری دوستی کرائی ،جسے میں غائبانہ طور پر خوب چاہتا تھااور اس کے نقل و حرکت کا دل میں ہمہ وقت تصور کرتا تھا اور اب تو پوچھنا ہی نہیں میری چاہت کی انتہا عروج پر ہے، اس کی ایک آواز میرے لئے رات کی تاریکی اور دن کا اجالا،گرمی ،برسات کسی بھی طرح کا کوئی موسم مانع نہیں ہوتا،میری دیرینہ خواہش تھی کہ اس محبت کی خوشبو کو ایسے ہی چھپا کر رکھا جاتا جیسا کہ مشک ہرن کی ناف میں چھپاہوتاہے، لیکن کچھ دن قبل اس نے اس راز کو راز نہ رہنے دیا"(اللہ تعالیٰ میرے اس دوست کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھے)آج میری محبوبہ جاں بلب ہے، اس کی سانسیں رک رک کر چل رہی ہیں، بسااوقات مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ مجھے داغ مفارقت نہ دے بیٹھے،اس سے ہماری بہت ساری یادیں وابستہ ہیں،میری بہت ساری چیزیں اس کے دل میں دفن ہیں،اسی کی توسط سے غائبانہ طور پر،ماں کی ممتا،باپ کی شفقت و محبت،بیوی بچوں کا پیار،استاذ کی دعا ،متعلقین کی خبر گیری کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن آج وہ کشمکش کی زندگی گذار رہی ہے،وہ موت و حیات کی راہ دیکھ رہی ہے،جب اس کی سانس بحال ہوجاتی ہے تو اِس بے سکون دل کو سکون ہوجاتا ہے؛ لیکن اندیشہ ہمہ وقت لاحق رہتا ہے کہ وہ مجھ سے کب جدا ہوجائے وہ ان دنوں وینٹیلیٹر پر ہے ،بجلی کی تیز رفتار کرنٹ سے اس کو خوراک فراہم کی جاتی ہے ،جب میری محبوبہ مکمل آسودہ ہوجاتی ہے تو پھر اس کو وینٹیلیٹر پر سے اتار کر اس سے محبت کا اظہار کیاجاتا ہے؛لیکن اس کا قُویٰ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کو زیادہ دیر تک اپنے اندر نہیں رکھ پاتی اور ہاضمہ کمزور ہونے کی وجہ سے اس کے اندر ہضم کی صلاحیت مکمل مفقود ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اندر کی طاقت و قوت میں تیزی سے گراوٹ اآجاتی ہے ؛چنانچہ اس کی ظاہری اور باطنی کیفیت کو دیکھ کر پھر آناََ فا ناََ وینٹیلیٹر کا سہارا لیناپڑتا ہے ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ایک ہی محبوبہ رکھنے کی دوسری رکھ لیجئے،میرا دل اس بات پر آمادہ نہیں ہے کہ ایک ایسی محبوبہ جسے میں نے چار سال سے سنبھال کرسفر و حضر، رات و دن اپنے دل کے قریب یا سوتے وقت بغل میں رکھا، اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اور باپردہ رکھا ، جس کے جسم پر ادنی سی ادنی خراش بھی دل کو مغموم کرنے کا ذریعہ ہوتا تھا،اس کو مضبوط پیرہن عطا کیا تاکہ اگر غیر دانستہ طور پر ہاتھ سے جدا ہوکر گرجائے تو اس کے جسم پر ہلکی خراش بھی نہ پڑے، ایسی محبوبہ کو لوگ جدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں،لیکن میں تو باوفا ہوں ،میرا ضمیر باوفا ہے ،میں اس کے مرنے تک اس کا متبادل تو درکنار سوچنا بھی گناہ عظیم سمجھتا ہوں،آپ تجسس میں ہوں گے کہ وہ کون سی ایسی محبوبہ ہے جس کی مدح میں آسمان وزمین کی قلابیں باندھی گئیں تو بتاتا چلوں کہ وہ بیقرار دل کو قرار عطا کرنے والی محبوبہ کا نام ام ، آئی ، نوٹ ،فور (Redmi Note 4) موبائل ہے،آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ آپ ان کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں اور اگر صحت اس کی قسمت میں نہ ہوتو اللہ تعالیٰ متبادل کی کوئی شکل عطا فرمائے۔

نوٹ: اس عشق کے حمام میں سب لوگ جزوی یا کلی طور پر ننگے ہیں،موبائل مذکر ہے لیکن لفظ (محبوبہ)کی مناسبت سے ہر جگہ مؤنث کا استعمال کیا ہے۔

ایودھیا کے بعد متھیرا تنازعہ کو طول دینے کی کوشش۔‌ عدالت میں شاہی عید گاہ ہٹانے کی عرضی

    ایودھیا کے بعد متھرا تنازعہ کو طول دینے کی کوشش۔‌ عدالت میں شاہی عید گاہ ہٹانے کی عرضی

    گزشتہ سال بابری مسجد ملکیت اراضی مقدمہ میں فیصلہ ہندو فریق کے حق میں آنے کے بعد اس طرح کے تنازعات کو ہوا دینے والوں کے حوصلے بلند ہیں۔متھرا-کاشی تنازعہ سے ملک کو جھلسانے کی تیاری چل رہی ہے۔اسی ضمن میں اب متھرا کی ایک عدالت میں سول مقدمہ دائر کر کے کرشن جنم بھومی کے لیے ١٣.٣٧ ایکڑ زمین  پر قبضہ کرنے اور شاہی عیدگاہ مسجد ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ ایودھیا کے رامللا کے براجمان کے طرز پر شری کرشن براجمان کی طرف سے وکیل رنجنا اگنی ہوتری (نیکسٹ فرینڈ) سر پرست کے طور پر داءر کیا ہے۔عرضی میں کشن کے چھے بھکتوں کے نام بھی مدعی کے طور پر شامل ہیں۔اور یہ مقدمہ"بھگوان شری کشن براجمان" واقعہ کٹرا کیسہ دیو کھیوٹ،متھرا کے نام پر داءر کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ پالیسیز آف ورشپ ایکٹ ١٩٩١ کی منظوری کے بعد بابری مسجد کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہبی مقام کے حوالہ سے مالکانہ حقوق کا مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا اس قانون کے مطابق بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ میں مالکانہ حقوق کے مقدمہ کو استثنی رکھا گیا تھا۔جبکہ متھرا اور کاشی سمیت اس طرح کے تمام تنازعات پر مقدمہ بازی پر روک لگا دی گئیں تھیں۔

     اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ١٥اگست ١٩٤٧ کے بعد جو مذہبی مقامات جس فرقہ سے وابستہ ہیں۔ وہ آج اور مستقبل میں بھی اسی فرقہ کے رہیںگے۔ گزشتہ ٩ , نومبر ٢٠١٩ کو ایودھیا پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بینچ نے کاشی متھرا سمیت ایسے تمام معاملات پر مقدمہ بازی کے لیے راستہ بند کر دیا تھا۔ اس معاملے میں وکیل وشنو شنکر جین کے متوسط سے ہندو فریق نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں قانون کی موزونیت کو چیلینج کیا تھا۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے کہا تھاکہ تاریخ کی غلطیوں کی اصلاح عدالتیں نہیں کر سکتیں۔

       از قلم ایم۔ کے۔ حق۔ ندوی

बिहार के बाद अब उत्तर प्रदेश के प्राइमरी शिक्षकों की फिर से टूटी आस!

बिहार के बाद अब उत्तर प्रदेश के प्राइमरी शिक्षकों की फिर से टूटी आस!



नई शिक्षा नीति 2020 को लागू करने के लिए अत्यधिक मात्रा में शिक्षकों की बहाली करने की आवश्यकता है जिसमें देश में सबसे ज्यादा बिहार में शिक्षकों की भर्ती की आवश्यकता है वही आए दिन शिक्षकों पर अत्यचार  हो रहे हैं बिहार के  शिक्षक सुप्रीम कोर्ट में जीते जीते हारे 

 वहीउतर प्रदेश में शिक्षकों के दिन प्रतिदिन आस टूटते जा रहे हैं

वही कुछ दिन पहले राजस्थान में शिक्षकों ने एनएच 28 जाम करके जबरदस्त विरोध प्रदर्शन किया था जिसके बाद पुलिस ने उनके उनके ऊपर दंडात्मक कार्रवाई की थी

 इस विषय में अत्यधिक विचार करने की आवश्यकता है की पद को रिक्त रहते हुए सरकार को बाहर नहीं कर रही है आखिरकार सरकार बगैर शिक्षक के स्कूल को कैसे चलाएं हमारे के दौरान एक तरफ तो बड़े यादव के बच्चे ऑनलाइन पढ़ाई कर रहे हैं वही गरीब हिंदुस्तानियों के बच्चे पांच 5 किलो चावल और गेहूं भीष्म लेने पर मजबूर है जब तक भारत में शिक्षा की करण लागू नहीं होगा तब तक कुछ कहना जल्दबाजी होगा

उत्तर प्रदेश में राष्ट्रीय शिक्षा नीति 2020 लागू करने की तैयारी हो रही है। इसके तहत बेसिक शिक्षा विभाग ने जो प्रावधान किए हैं उसमें पूर्व प्राथमिक शिक्षा से कक्षा 12 तक के शिक्षकों के चयन के लिए टीईटी अनिवार्य किया जाना है। इसी प्रावधान ने प्रदेश के 1.30 लाख शिक्षामित्रों की पूर्व प्राथमिक स्कूलों में समायोजन की आखिरी उम्मीद भी तोड़ दी है। दो दशक तक यूपी में प्राथमिक शिक्षा संभालने वाले शिक्षामित्रों की पक्की नौकरी का सपना अब पूरा होता नहीं दिख रहा है।

27 जुलाई 2017 को सुप्रीम कोर्ट से बगैर टीईटी सहायक अध्यापक पद पर समायोजन निरस्त होने के बाद 1.37 लाख शिक्षामित्रों के सामने बड़ा संकट पैदा हो गया था। प्रदेश सरकार ने पिछले साल अक्तूबर में 1.89 लाख आंगनबाड़ी केंद्रों को प्री-प्राइमरी स्कूल बनाने का निर्णय लिया था। नई नीति में 3 से 6 वर्ष की आयु वर्ग के बच्चों के लिए प्री-प्राइमरी स्कूल में शिक्षा देना अनिवार्य है।

इससे शिक्षामित्रों को उम्मीद जगी थी कि पूर्व प्राथमिक स्कूलों में परिवर्तित हो रहे आंगनबाड़ी में उनका समायोजन हो जाएगा।
तकरीबन सात हजार शिक्षामित्रों को 68,500 भर्ती में नौकरी मिल गई लेकिन शेष 1.30 लाख वर्तमान में संघर्ष कर रहे हैं। टीईटी नहीं करने के कारण ही उनका समायोजन निरस्त हुआ था। इसलिए पूर्व प्राथमिक की भर्ती में टीईटी की अनिवार्यता उनके लिए किसी बुरे सपने से कम नहीं है। महानिदेशक स्कूली शिक्षा विजय किरन आनंद ने एक सितंबर को सभी जिलाधिकारियों को पत्र लिखकर पंचायती राज संस्थाओं के माध्यम से राष्ट्रीय शिक्षा नीति लागू करने के उद्देश्य से किए गए प्रावधान और कार्ययोजना के प्रचार-प्रसार और विस्तृत चर्चा के निर्देश दिए हैं। उसी पत्र में पूर्व प्राथमिक से कक्षा 12 तक टीईटी अनिवार्य करने की भी बात है।

1.70 लाख शिक्षामित्रों में से 1.37 लाख हुए थे समायोजित
प्रदेश के प्राथमिक स्कूलों में 2001 से विभिन्न चरणों में प्रदेश में 1.70 लाख शिक्षामित्र नियुक्त हुए थे। इनमें से 1.37 लाख का समायोजन हो सका था जो बाद में निरस्त हो गया। शेष 33 हजार शिक्षामित्र पूर्व की स्थिति में हैं।

इनका कहना है
शिक्षामित्रों की नियुक्ति कक्षा एक एवं दो के बच्चों को पढ़ाने के लिए की गई थी जिसका उन्हें लगभग 20 वर्ष का अनुभव है। ऐसे में राज्य सरकार को चाहिए कि प्री-प्राइमरी में शिक्षामित्रों को समायोजित कर उनका भविष्य सुरक्षित करे। टीईटी नए अभ्यर्थियों पर लागू हो शिक्षामित्रों पर नहीं।
कौशल कुमार सिंह, प्रदेश मंत्री, उत्तर प्रदेश प्राथमिक शिक्षामित्र संघ

Saturday 26 September 2020

पूर्व रक्षा मंत्री जसवंत सिंह 82 साल मे निधन अटल बिहारी वाजपेई के शासनकाल अहम अहम मंत्रालय संभाल चुके थे

 पूर्व रक्षा मंत्री जसवंत सिंह 82 साल मे  निधन अटल बिहारी वाजपेई के शासनकाल अहम अहम मंत्रालय संभाल चुके थे

New Dilli देश के पूर्व रक्षामंत्री जसवंत सिंह  का निधन हो गया है. जसवंत सिंह 82 साल के थे. प्रधानमंत्री मोदी  ने ट्वीट कर इस बारे में जानकारी दी. उन्होंने लिखा, "जसवंत सिंह जी ने पहले एक सैनिक, फिर राजनीति में सक्रियता के जरिए हमारे देश की खूब लगन से सेवा की. अटल जी की सरकार में उन्होंने कई अहम मंत्रालय संभाले और वित्त, रक्षा व विदेश क्षेत्र में अपनी गहरी छाप छोड़ी. उनके निधन से दुखी हूं."

बता दें जसवंत सिंह पिछले 6 साल से कोमा में चल रहे थे. हाल में उनकी तबीयत बिगड़ने के बाद जसवंत सिंह को दिल्ली के आर्मी हॉस्पिटल में भर्ती करवाया गया था.

राजनीति में जसवंत

जसवंत सिंह का जन्म 3 जनवरी 1938 को राजस्थान के बाड़मेर जिले के जसोल गांव में हुआ था.

1957 से लेकर 1966 तक जसवंत सिंह भारतीय सेना में रहे. बाद में वे राजनीति में आ गए. हालांकि शुरुआत में उन्हें ज्यादा सफलता नहीं मिली. पर बाद में वे जनसंघ के जरिए काफी सक्रिय हो गए. 80 के दशक में उन्हें राज्यसभा में जगह मिली. बाद में भी वे राज्यसभा से चुने जाते रहे.

वाजपेयी सरकार में उन्होंने विदेश, रक्षा और वित्त जैसे बड़े मंत्रालयों की कमान संभाली. लेकिन हाल में उनका बीजेपी नेतृत्व से विवाद हो गया था. 2014 में उन्हें बाड़मेर से टिकट नहीं दी गई. जिसके बाद उन्होंने निर्दलीय लड़ने का फैसला किया. इसके चलते बीजेपी ने उन्हें पार्टी से भी निकाल दिया था.

जसवंत सिंह के बेटे मानवेंद्र सिंह भी राजनीति में सक्रिय हैं. पिता को बीजेपी से निकालने के 4 साल बाद मानवेंद्र कांग्रेस में शामिल हो गए थे. 2013 से 2018 के बीच मानवेंद्र शिव विधानसभा सीट से विधायक भी रहे हैं. इससेbपहले 2004 से 2009 के बीच मानवेंद्र बाड़मेर से लोकसभा सांसद भी थे.


चुनाव के तारीखों के ऐलान होते ही मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने अगले 5 साल के योजना का किया ऐलान जिसमें शिक्षा और शिक्षक हैं बाहर

 
चुनाव के तारीखों के ऐलान होते ही मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने अगले 5 साल के योजना का किया ऐलान जिसमें शिक्षा और शिक्षक हैं बाहर!

पटनाः पिछले चुनाव में मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने सात निश्चय के साथ चुनाव का शुरूआत किया था जिसमें से बहुत सारे कार्य आज बाकी पड़े हुए हैं तो बाकी सारे कार्य आधा अधूरा हुए हैं इस चुनाव का घोषणा होते ही नितीश सरकार ने फिर से 7 योजना का ऐलान किया है जिसमें शिक्षा और शिक्षक बाहर  जो कि  दुख दायक है किसी भी देश को मजबूत होने के लिए शिक्षा और शिक्षक आवश्यक होते हैं जिसके सरकार ने अगले 5 साल वाले मिशन से बाहर रखा चुनाव की तारीख़ों के ऐलान के बाद देर शाम बिहार के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार मीडिया से मुख़ातिब हुए और उन्होंने अगली सरकार की योजनाओं का खाका रख दिया. नीतीश कुमार ने अगली सरकार में 'सक्षम बिहार-स्वावलंबी बिहार' का नारा देते हुए सात निश्चय योजना के पार्ट-2 की घोषणा की यानि अगले सरकार में योजनाओं का लक्ष्य रखते हुए काम करेगी सरकार.


पार्टी कार्यालय में प्रेस कॉन्फ़्रेन्स कर उन्होंने कहा कि हमने जनता से जो वादा किया और जिन योजनाओं को शुरू किया, उसको पूरा करने का काम किया है. मुख्यमंत्री ने कहा कि सात निश्चय-1, जो अब लगभग पूरा हो चुका है.


जनता अगर दोबारा मौका देती है तो अगली बार हम सात योजना के पार्ट-2 को लेकर उसे पूरा करने का काम करेंगे.


नीतीश कुमार की सात योजना के पार्ट-2 की बड़ी बातें


1. युवा शक्ति बिहार की प्रगति: हर जिले में मेगा स्किल सेंटर बनाएंगे.


2.सशक्त महिला सक्षम महिला: इसके तहत इंटर पास करने वाली लड़की को 25 हजार और ग्रेजुएशन करने वाली लड़की को ₹50000 राज्य सरकार देगी.


3. हर खेत तक पहुंचेगा सिंचाई का पानी.


4. स्वस्थ गांव समृद्ध गांव: इसमें हर गांव में स्ट्रीट लाइट लगाया जाएगा और गांव को गंदगी मुक्त किया जाएगा, पशु पालकों की मदद की जाएगी.


5. आश्रय स्थल का निर्माण: हर शहर में वृद्धजनों के लिए आश्रय स्थल बनाए जाएंगे, शहरी गरीबों के लिए बहुमंजिला आवास बनाए जाएंगे। हर शहर में विद्युत शव गृह दाह बनाया जाएगा.


6. सुलभ संपर्क पथ: नई सड़क बनाए जाएंगे, जहां जरूरत पड़ेगी वहां फ्लाईओवर का निर्माण कराया जाएगा.


7. सबके लिए अतिरिक्त स्वास्थ्य सुविधा: बिहार के लोगों के साथ साथ बिहार में पशुओं के भी स्वास्थ्य की सुविधा की व्यवस्था बिहार के हर जगह पर उपलब्ध कराई जाएगी.


Friday 25 September 2020

مقامِ صحابہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم

                          مقامِ صحابہ

   مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارتشرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ


 اللہ رب العزت نے اس کائنات میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، تمام دنوں میں جمعہ سید الایام ہے، تمام راتوں میں شب قدر، تمام مہینوں میں رمضان المبارک، تمام رسولوں میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم، تمام لوگوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تمام صحابہ میں مہاجرین وانصار میں سے وہ جو پہلے ایمان لائے، پھر بیعت رضوان میں شریک ہونے والے، اصحاب بدر، عشرہ مبشرہ، خلفاء راشدین اور ان سب میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خاص فضیلت حاصل ہے، پھر تمام امتوں میں امت محمد یہ کو فضیلت عطا کی گئی، اسے خیر امت اور وسط امت کہا گیا اور اسے لوگوں پر شاہد بنانے کی بات قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اس فضیلت کے سلسلے میں قرآن واحادیث کے نصوص موجود ہیں، جس کی وجہ سے عظمت، اہمیت اور فضیلت کا کسی درجہ میں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، مجموعی طور پر صحابہ کرام کی جو فضیلت عام انسانوں پر اور عظمت تمام بنی نوع انسان پر ہے، اس کا مقابلہ کوئی دوسرا انسان کر ہی نہیں سکتا، اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو گرداڑی ہے، اس کے مقابل کوئی بڑا سے بڑا عالم اور بزرگ نہیں ہو سکتا،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیداری کی حالت میں ایمان کے ساتھ روئے انور کے دیدار کی سعادت پائی اور ایمان پر ان کا خاتمہ ہوا۔ حضرت امام شافعی ؒحضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی میرا اور میرے اصحاب کا انتخاب کیا، پھر انہیں میرا قرابت دار اور مددگار بنادیا، مسند بزاز میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی ایک روایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کے علاوہ ساری دنیا والوں پر میرے اصحاب کو اپنے انتخاب سے فضیلت بخشی، میرے اصحاب میں بھی چار حضرات یعنی حضرت ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کو میرے ساتھ خصوصیت عطا کی اور فرمایا کہ تمام صحابہ میرے منبع خیر وبرکت ہیں، ابو داؤدطیایسی نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ کے دلوں کو تمام بندوں کے دلوں سے زیادہ بہتر دیکھا تو انہیں آپ کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت کے لیے منتخب کیا، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکی ایک روایت امام احمد ؒ نے ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اقتداکرنی ہو تو وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرے، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی استواری کے لیے منتخب کیا تھا۔

 قرآن واحادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض وجوہ سے بعض کو بعض پر فضیلت کے باوجود تمام صحابہ کرام تین چیزوں میں برابر ہیں، اول یہ کہ وہ سب کے سب عادل ہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جن کی اقتدا کروگے، ہدایت پالوگے، یہی وجہ ہے کہ محدثین جب اسماء رجال پر بحث کرتے ہیں تو ان کے بارے میں صحابی، عدول، صدوق وغیرہ کہہ کر گذر جاتے ہیں، حالاں کہ دوسرے لوگوں کے بارے میں وہ بہت سخت کلام کرتے ہیں، ان کی زندگی اور کردار کو واضح طور پر بیا ن کرتے ہیں، لیکن صحابہ کرام کے سلسلے میں ان کا طریق کار بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے۔

 دوسری بات جس میں سارے صحابہ کرام شریک ہیں وہ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کا مژدہئ الٰہی ہے، جس میں صحابہ کرام کے علاوہ کوئی دوسرا ان کا شریک وسہیم نہیں ہے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی رہنے والے تھے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ لوگ جو ابتداء ا ً سبقت کرنے والے ہیں، یعنی مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جنہوں نے اچھے طریقے پر ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

 تیسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی رفاقت کے لیے منتخب کیا تھا، وہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ روئے زمین پر رسول کے بعد منتخب ترین افراد تھے،اس سلسلہ کی کئی روایتیں اوپر مذکور ہوئیں، انہیں خصوصیات کی وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے سے سختی سے منع کیا، بخاری ومسلم کی روایت حضرت ابو سعید خدریؓ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، تم میں سے اگر کوئی شخص جبل احد کے برابر بھی سونا صدقہ کرے تو بھی وہ میرے صحابہ کرام کے ایک مٹھی دانے کے صدقہ کا اجر تو کیا آدھا ثواب بھی نہیں پا سکتا۔ (بخاری: ٣٦٧٣، مسلم شریف ٢٥٤١) حضرت انس بن مالکؓ سے ایک دوسری روایت ہے کہ جس نے میرے صحابہ کو برا بھلا کہا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

علامہ ایوب سختیانی کا قول ہے کہ جس نے صحابہ کرام کی مدح وثنا کی وہ نفاق سے بری ہو گیا اور جس نے کسی بھی صحابی کی تنقیص کی یا ان سے بغض رکھا وہ بدعتی ہے، سنت اور سلف صالحین کا مخالف ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام کو برا کہنا فحش محرمات میں سے ہے، خواہ معاملہ ان صحابہ کا ہی کیوں نہ ہو جن سے بعض مسائل کی تفہیم کی ضرورت یا بعض حکمتوں کی وجہ سے لغزشیں ہوئیں اور جنہوں نے ایسی توبہ کی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے شہر کے گنہ گاروں پر تقسیم کرنے پر سب کی مغفرت کی بات فرمائی یا وہ اصحاب ہوں جن کی باہم لڑائی ہوئی، کیونکہ یہ ان کا اجتہاد تھا، امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ جو صحابہ سے بغض رکھے اور ان کے لیے نا مناسب الفاظ استعمال کرے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں، امام ابو زراعہ رازیؒ کی رائے ہے کہ جب کسی آدمی کو دیکھیں کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ زندیق ہے، محمد بن حسین ؒکی رائے ہے کہ جس نے صحابہ کرام پر سب وشتم کیا وہ گھاٹے میں رہا کیوں کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اس پر اللہ، رسول، ملائکہ اور تمام مؤمنین کی لعنت ہے۔

ان آیات واحادیث کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں نے دین اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائین تھے، مشکل اور پریشانی کے وقت میں سینہ سپر ہوجانے والے تھے،ا ن کو اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کر نا سعادت کی بات سمجھتے تھے، ان کو یہ مقام ومرتبہ ان کی اس قربانیوں کے طفیل ملا، دین ہم تک ان کے ذریعہ پہونچا، ان کی صداقت، ثقاہت اور عدالت پر شکوک وشبہات کھڑا کرنے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ دین کے سارے ذخیرے کو مشکوک قرار دیا جائے، دشمنان اسلام نے اسی نقطہئ نظر سے ہر دور میں صحابہ کرام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور نعرہ لگایا کہ تنقید سے کوئی بالا تر نہیں، لیکن امت نے اس موقف کو نہیں مانا، ماہرین اسماء رجال نے ان کی صحابیت کی عظمت کو سمجھا اور ان لوگوں کے باطل خیالات کی تردید کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنایا اور پوری امت اس پر متفق رہی کہ صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہنا بدبختی، شقاوت اور دین سے دوری کی دلیل ہے۔

 ایسا جو لوگ کرتے ہیں اس کی داخلی وخارجی وجوہات ہوا کرتی ہیں، کبھی تو اپنی ہمہ دانی کے زعم میں ایسی جہالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور کبھی کسی فرقہ کی طرف سے داد ودہش اس قسم کے ہفوات پر اکساتا ہے، وجہ چاہے جو بھی ہو، جو لوگ صحابہ کرام پر طعن وتشنیع اور ان کے مقام ومرتبہ کو فروتر کرنے میں لگتے ہیں وہ اپنی ذلت ورسوائی کا سامان کرتے ہیں، یہ ذلت ورسوائی دنیا میں بھی انہیں ملتی ہے اور آخرت کا عذاب ذلت ورسوائی کے اعتبار سے دنیا کے معالات سے کہیں بڑھ کر ہے، آدمی زندگی کے کسی موڑ پر بھی شیطان کے بہکاوے میں آسکتا ہے، اس لیے اس قسم کے معاملات میں اللہ کے سامنے اپنی براء ت کا بھی اظہار کرنا چاہیے او ردعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ ہر قسم کی آزمائش سے محفوظ رکھے۔(بشکریہ نقیب)

बिहार विधानसभा चुनाव: 28 अक्टूबर, 3 नवंबर और 7 नवंबर को मतदान, 10 नवंबर को घोषित परिणाम

 बिहार विधानसभा चुनाव: 28 अक्टूबर, 3 नवंबर और 7 नवंबर को मतदान, 10 नवंबर को घोषित परिणाम




 पहले दौर का मतदान - 28 अक्टूबर


 मतदान का दूसरा चरण - 3 नवंबर


 तीसरे दौर का मतदान - 7 नवंबर


 परिणाम घोषित - 10 नवंबर


 कोरोना, चुनाव आयोग के एहतियाती उपायों के साथ तीन चरणों में मतदान होगा


 मुख्य चुनाव आयुक्त ने एक प्रेस कॉन्फ्रेंस के दौरान बिहार विधानसभा चुनाव की तारीखों की घोषणा की है।  राज्य का मतदान तीन चरणों में आयोजित किया जाएगा।  पहले चरण में 16 जिलों की 71 सीटों पर, दूसरे चरण में 17 जिलों में 94 सीटों पर और तीसरे चरण में 15 जिलों में 78 सीटों पर मतदान होगा।


 सभी तीन चरणों


 पहले चरण में 71 सीटों पर मतदान, 31 हजार मतदान केंद्र


 दूसरे चरण में, 94 सीटों, 42,000 मतदान केंद्रों पर मतदान


 तीसरे चरण में, 78 सीटों पर मतदान, 33.5 हजार मतदान केंद्र


 कोरोना पीड़ित भी मतदान करेंगे, नामांकन पत्र ऑनलाइन दर्ज किया जाएगा, ईसी


 इस बार मतदान के लिए एक घंटे का अतिरिक्त समय दिया जाएगा, मतदान सुबह 7 बजे से शाम 6 बजे तक होगा।  डोर-टू-डोर अभियान के लिए केवल पांच लोग ही जा सकेंगे।  इस बार भी नामांकन पत्र और शपथ पत्र;

بہار اسمبلی انتخابات: 28 اکتوبر، 3 نومبر اور 7 نومبر کو پولنگ، 10 نومبر کو نتائج کا اعلان

 بہار اسمبلی انتخابات: 28 اکتوبر، 3 نومبر اور 7 نومبر کو پولنگ، 10 نومبر کو نتائج کا اعلان

پہلے مرحلہ کی پولنگ - 28 اکتوبر

دوسرے مرحلہ کی پولنگ- 3 نومبر

تیسرے مرحلہ کی پولنگ- 7 نومبر

نتائج کا اعلان - 10 نومبر

کورونا کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ تین مراحل میں ہوگی پولنگ، الیکشن کمیشن

چیف الیکشن کمشنر نے پریس کانفرنس کے دوران بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ریاست کے پولنگ تین مراحل میں کرائے جائیں گے۔ پہلے مراحلہ میں 16 اضلاع کی 71 سیٹوں، دوسرے مرحلہ میں 17 اضلاع کی 94 سیٹوں اور تیسرے مرحلہ میں 15 اضلاع کی 78 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔

تینوں مراحل

پہلے مرحلہ میں 71 سیٹوں پر پولنگ، 31 ہزار پولنگ اسٹیشن

دوسرے مرحلہ میں 94 سیٹوں پر پولنگ، 42 ہزار پولنگ اسٹیشن

تیسرے مرحلہ میں 78 سیٹوں پر پولنگ، 33.5 ہزار پولنگ اسٹیشن

کورونا متاثرین بھی ووٹنگ کرینگے، کاغذات نامزدگی آن لائن داخل ہونگے، ای سی

اس بار ووٹنگ کے لئے ایک گھنٹہ اضافی وقت دیا جائے گا، ووٹنگ صبح سات سے شام چھ بجے تک ہوگی۔ صرف پانچ افراد ڈور ٹو ڈور کیمپین کے لئے جا سکیں گے۔ اس بار کاغذات نامزدگی اور حلف نامہ بھی آن لائن طریقہ سے داخل کئے جائیں گے، ضمانت کی رقم بھی آن لائن جمع کی جا سکے گی۔ نامزدگی کے وقت صرف دو افراد امیدوار کے ساتھ موجود ہوں گے۔ انتخابی مہم کے دوران کسی کو بھی مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ووٹنگ کے آخری وقت پر کورونا متاثرین اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں گے، جس کے لئے علیحدہ انتظامات کیے جائیں گے۔ انتخابی مہم بنیادی طور پر ورچوئل ہوگی، چھوٹی ریلی کی جگہ اور وقت ڈی ایم طے کریں گے۔ ہر پولنگ بوتھ پر صابن، سینیٹائزر اور دیگر چیزیں مہیا کی جائیں گی۔

ہر بوتھ پر صرف ایک ہزار ووٹر ہی ووٹ ڈالیں گے، ای سی

چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے پریس کانفرنس کے دران کہا، بہار میں کل 243 سیٹوں پر پولنگ ہوگی اور اس بار پولنگ اسٹیشن کی تعداد اور مین پاور میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بہار میں 2020 کے چناؤ میں ساتھ کروڑ سے زیادہ ووٹر ووٹنگ کریں گے۔ اس مرتبہ ایک بوتھ پر ایک ہزار ہی ووٹر ہوں گے۔

انتخابات میں 6 لاکھ پی پی ای کٹ ریاستی الیشن کمیشن کو دی جائیں گی، 46 لاکھ ماسک کا بھی استعمال ہوگا۔ سات لاکھ ہینڈ سینیٹائز کا استعمال کیا جائے گا، علاوہ ازیں 6 لاکھ فیس شیلڈ فراہم کی جائیں گی۔

تاریخوں کے اعلان کے لئے الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس شروع

بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے لئے الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ سنیل اروڑا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کورونا بحران کی وجہ سے دنیا کے 70 ممالک میں انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بہار اور ضمنی انتخابات کے حوالہ سے مسلسل غور و خوض کیا گیا۔ بہار ملک کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اور یہ انتخابات کورونا کے دور کے سب سے بڑے انتخابات ہیں۔

بہار اسمبلی انتخابات: الیکشن کمیشن کچھ دیر میں کرے گا تاریخوں کا اعلان

بہار میں اسمبلی انتخابات کا اعلان آج ہونے جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دوپہر 12.30 پر پریس کانفرنس طلب کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولنگ تین مراحل میں ہو سکتی ہے، جبکہ گزشتہ انتخابات میں پولنگ پانچ مراحل میں ہوئی تھی۔ اس مرتبہ دیوالی سے قبل اسمبلی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ْ

وبا کی وجہ سے متعدد حزب اختلاف کی جماعتیں انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ بہار میں نتیش کمار کی سربراہی والی این ڈی اے کی حکومت نے جولائی میں الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔ پارٹی نے کہا تھا کہ کورونا کے انفیکشن کے خوف کے سبب بڑے پیمانے پر انتخابات کرانا خطرناک ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 243 ارکان پر مشتمل بہار اسمبلی کی میعاد کار 29 نومبر کو ختم ہونے جا رہی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اکتوبر کے وسط میں انتخابات ہوں گے۔ وہیں، یہ امکان بھی موجود ہے کہ انتخابات کئی مراحل میں ہوں گے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے چار ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ اس نے بہار اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ 65 زیر التواء ضمنی انتخابات کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ضمنی انتخابات کی تاریخوں کا بھی آج اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔

اس سے پہلے بہار میں انتخابات کرانے کا معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچا ہے۔ تاہم، عدالت عظمیٰ نے اس معاملہ میں دائر عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ 'کورونا کی بنیاد پر انتخابات کو روکا نہیں جا سکتا ہے اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی ہے'۔ سماعت کرنے والے بینچ نے کہا تھا کہ 'کوڈ کی بنیاد پر انتخابات ملتوی نہیں کیے جاسکتے، خاص طور پر جب الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہو۔ یہ عدالت الیکشن کمشنر کو یہ نہیں بتا سکتی کہ انہیں کیا کرنا ہے، وہ خود ان معاملات پر غور کریں گے۔''

मनीष सिसोदिया की हालत गंभीर कोरोनावायरस डेंगू की चपेट में

मनीष सिसोदिया की हालत गंभीर कोरोनावायरस  के साथ डेंगू की चपेट में 


 नई दिल्ली. दिल्ली के डिप्टी सीएम मनीष सिसोदिया भी कोरोना संक्रमण से डेंगू की चपेट में आ गए हैं। उनकी गंभीर हालत को देखते हुए उन्हें एलएनजेपी अस्पताल से मैक्स अस्पताल में भर्ती कराया गया है। गुरुवार शाम को तबीयत बिगड़ने के बाद जल्दबाजी में सिसोदिया को दक्षिण दिल्ली के मैक्स अस्पताल में भर्ती कराया गया था।

मीडिया रिपार्ट्स के अनुसार, एलएनजेपी अस्पताल के वरिष्ठ डॉक्टर का कहना है कि मनीष सिसोदिया को भी कोरोना संक्रमण से डेंगू है। अचानक ब्लड प्लेटलेट्स काउंट कम हो रहा है और बुखार भी कम नहीं हो रहा है। इसके साथ, उनके ऑक्सीजन का स्तर भी कम हो गया है। वह गुरुवार को लगभग 8:45 बजे मैक्स अस्पताल में भर्ती हैं।

कोरोना वायरस के संक्रमण की पुष्टि होने के बाद से मनीष सिसोदिया होम क्वारेंटाइन में रह रहे थे।

बुधवार को सांस लेने की समस्या और कम ऑक्सीजन के स्तर के साथ तेज बुखार के कारण उन्हें एलएनजेपी में भर्ती कराया गया था। मनीष सिसोदिया द्वारा जारी एक संदेश में, उन्होंने कहा कि कोरोना होने पर घर को संगरोध में रहना चाहिए, अगर जरूरत हो तो एलएनजेपी अस्पताल इसके लिए पूरी तरह से तैयार है। यहां स्वीकार करने से, मुझे अच्छी तरह पता चला है कि दिल्ली उनके हाथों में सुरक्षित है।


سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...