Monday 31 August 2020

डॉ कफील खान को अभी-अभी मिली जमानत

 डॉ कफील खान को अभी-अभी मिली जमानत



इलाहाबाद हाईकोर्ट ने डॉ. कफील खान को तुरंत रिहा करने के आदेश दिए हैं. गोरखपुर के BRD मेडिकल कॉलेज के प्रवक्ता और बालरोग विशेषज्ञ डॉक्टर कफील खान को CAA, NRC और NPA के विरोध के दौरान अलीगढ़ विश्वविद्यालय में गत वर्ष 13 दिसम्बर को कथित रूप से भड़काऊ भाषण देने के आरोप में यूपी पुलिस ने गिरफ्तार किया था. कोर्ट ने डॉक्टर कफील को NSA के तहत हिरासत में लिए जाने को गैरकानूनी करार दिया है.

हमें उम्मीद है कि चार जजों की प्रेस कॉन्फ्रेंस पहली व आखिरी थी : सुप्रीम कोर्ट

 

हमें उम्मीद है कि चार जजों की प्रेस कॉन्फ्रेंस पहली व आखिरी थी : सुप्रीम कोर्ट




सुप्रीम कोर्ट ने अवमानना के दोषी प्रशांत भूषण की उस दलील को खारिज कर दिया जिसमें उन्होंने पूर्व और मौजूदा जजों के खिलाफ की गई आपत्तिजनक टिप्पणी को सही ठहराने के लिए 12 जनवरी 2018 को चार वरिष्ठतम जजों की प्रेस कॉन्फ्रेंस का हवाला दिया था।

जस्टिस अरुण मिश्रा की अध्यक्षता वाली तीन सदस्यीय पीठ ने अपने फैसले में कहा है कि हमें उम्मीद है कि जनवरी 2018 की प्रेस कॉन्फ्रेंस पहली और आखिरी थी।
उस प्रेस कॉन्फ्रेंस में जजों के निशाने पर जस्टिस मिश्रा भी थे क्योंकि चारों जजों ने महत्वपूर्ण व संवेदनशील मामलों को किसी खास पीठ के पास सूचीबद्ध करने को लेकर भी सवाल उठाए थे।

जस्टिस रंजन गोगोई ने मुंबई के जज बीएच लोया के मामले को जस्टिस अरुण मिश्रा के पास भेजे जाने का भी जिक्र किया था।
    हालांकि बाद में जस्टिस मिश्रा ने खुद को इस मामले से अलग कर लिया था

भूषण को एक रुपये का जुर्माना करने के अपने फैसले में पीठ ने कहा कि सच्चाई न्यायाधीशों के लिए भी रक्षा हो सकती है, लेकिन वे अपने न्यायिक मानदंडों, नैतिकता और आचार संहिता से बंधे हैं। इसी तरह वकीलों पर भी आचार संहिता समान रूप से लागू होती है, क्योंकि वे भी इस सिस्टम का हिस्सा है।

पीठ ने कहा है कि न्यायाधीशों को अपने निर्णयों द्वारा अपनी राय व्यक्त करनी होती है। वे सार्वजनिक बहस में हिस्सा नहीं ले सकते हैं और न ही प्रेस के पास जा सकते हैं। उन पर कोई भी आरोप लगाना बहुत आसान है। न्यायाधीशों को इस तरह के आरोपों पर चुप्पी साधनी पड़ती है। वे आरोप पर सार्वजनिक प्लेटफॉर्मों, समाचार पत्रों या मीडिया में जवाब नहीं दे सकते।

पीठ ने कहा है कि अगर न्यायाधीशों पर तीखा हमला किया जाता है, तो उनके लिए निडर होकर और मुद्दों पर सही दृष्टिकोण रखते हुए निष्पक्षता के साथ काम करना मुश्किल हो जाएगा। फैसले की आलोचना की जा सकती है लेकिन न्यायाधीशों की मंशा पर सवाल नहीं उठाया जाना चाहिए।

उसी तरह, सेवानिवृत्त न्यायाधीशों को भी गरिमा के साथ जीने का अधिकार है और उनसे यह उम्मीद नहीं की जानी चाहिए कि वे प्रत्येक आरोपों का जवाब दें और सार्वजनिक बहस में शामिल हों।

اردو کے سلسلے میں بنائی گئی پالیسی پر سابق وزیر خزانہ عبدالباری صدیقی کا سخت ردعمل ،

        

بہار:اردو کے سلسلے میں بنائی گئی پالیسی پر سابق وزیر خزانہ عبدالباری صدیقی کا سخت ردعمل ، 

واضح ہوکہ بہار کے محکمہ تعلیم کی جانب سے اردو کے سلسلے میں بنائی گئی پالیسی پر سخت ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ اپوزیشن نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی انتخاب سے قبل حکومت کو اردو کے متعلق کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔اپوزیشن کے مطابق حکومت اردو نوازی کی دعویٰ تو کرتی ہے لیکن عملی اعتبار سے اردو کی جڑ کاٹنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔آرجےڈی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر عبدالباری صدیقی نے کہا کہ اردو کے ٹیچروں کی بحالی کے معاملہ میں 40 طلباء کی قید اردو کو ختم کرنے کی ایک سازش ہے۔ وہیں جمیعۃ علماء بہار نے اس موضوع پر تحریک چھیڑنے کی دھمکی دی ہے۔ جمیعۃ کا کہنا ہے کہ اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے اور حکومت کا محکمہ تعلیم اردو کے متعلق دوہری پالیسی پر کام کررہی ہے
بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن کے ذریعے اس مہم کی، کی گئ ہےشروعات، 
 جوکہ اب تاریخی شکل اختیار کرچکی ہےآپ کو بتا دیں کہ اسوسی ایشن نے جب سے حکومت بہار نے نوٹیفیکیشن جاری کیا اسی وقت اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کے ذریعہ عوام کو بیدار کرنے کے لئےپوری جدوجہد جاری ہے اسوسی ایشن نے ۲۵اگست کو یک روزہ احتجاج ومظارہ کا انعقاد کیا جس میں صوبہ بہار کے ہزاروں لوگ شامل رہے اسوسی کے بڑھتے احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت بہار نے ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کر یقین دلانے کی ناکام  کوشش کی کہ اردو محفوظ ہے، لیکن
اسوسی ایشن نےاسکو بھی ماننے صاف انکار کرتے ہوئے ۳۱ اگست کوپھر سے ریاست گیر احتجاج ومظاہرہ کے ساتھ۔ساتھ ٹوئٹر ٹرینڈ چلانے کا جنرل سیکریٹری نےکیا اعلان!
 پھر سے ہزاروں لوگ ہوے شامل اور ساتھ ہی ساتھ کئی صوبئہ بہار کےاردو کے دیگر کئی تنظیموں نےکیا حمایت اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد شفیق نےسب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے عہدے کے لازمیت تک جاری رہیگی لڑائی، 


ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

ایک چراغ اور بجھااوربڑھی تاریکی،

    اناللہ وانا الیہ راجعون 




شمالی بہار کے ممتاز عالم مولانا قاسم مظفرپوری بھی راہی ملک عدم ہوگئے:

 

   حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ کی نماز انشاءاللہ تبارک وتعالی آج مورخہ 1 ستمبر بروز منگل بعد نماز ظہر زکریا کالونی مظفرپور میں پڑھی جائیگی,اور تدفین بھی وہیں عمل میں آئیگی,تمام احباب سے حضرت نانا جان  کی ترقی درجات کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے 

تقی احمد

8051 753527

مظفرپور(عبدالخالق قاسمی)آج مورخہ 1 ستمبر بروز منگل مولانا تقی احمد القاسمی نے یہ الم ناک خبر دی کہ  مقبول عالم دین، فقیہ العصر مولانا قاسم مظفرپوری قاضی شریعت دارالقضا امارت شرعیہ،بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ 3 بجے  اپنے مالک حقیقی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون, حضرت ایک عرصہ سے قلب کے عارضہ میں مبتلا تھے,ابھی کچھ دن پہلے حضرت پر فالج کا بھی حملہ ہوا تھا جس کے بعد سے حضرت کافی کمزور اور لاغر ہوگئے تھے,ادھر چند روز سے طبیعت کافی علیل چل رہی تھی, حضرت کی تشویشناک حالت کو دیکھتے ہوئے ان کے متعلقین نے سب سے پہلے بہتر علاج و معالجہ کے لئے اوشا ہسپتال،جورن چھپرہ، مظفرپور کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا تھا,مگر وہاں بھی حضرت کی صحت میں خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا, متعلقین نے باہمی مشورے کے بعد مظفرپور ہی کے ایک پرائیویٹ نرسینگ ہوم گلیکسی اسپتال میں داخل کرایا تھا.جہاں ڈاکٹروں کی کڑی نگرانی میں حضرت کا علاج و معالجہ چل رہا تھا,جہاں خاطر خواہ فائدہ ہوا صحت میں بڑی تیزی سے بہتری بھی آئی رو بہ صحت ہونے کے بعد اسپتال سے ڈسچارج بھی کر دئے گئے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا, آج ا ستمبر بروز منگل 12 محرم الحرام بوقت 3 بجے مظفرپور  زکریا کالونی اپنی رہائش گاہ میں حضرت علیہ الرحمہ نے آخری سانس لی اور ہزاروں کی تعداد میں محبین,متعلقین و متوسلین کو بے سہارا یتیم چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوگئے, اللہ غریق رحمت کرے اور اعلی علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی عظیم دولت سے نوازے آمین,یارب العمین, مولانا کا نام پورے ملک میں خصوصا شمالی بہار کے علماے کبار میں آتا ہے،انھوں نے ایک لمبے عرصے تک درس و تدریس کی خدمت انجام دی،شیخ الحدیث رہے،امارت شرعیہ کے قاضی رہے اور کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی۔آپ کی شخصیت علم و عمل کے اعتبار سے امتیازی حیثیت کی تھی,آپ حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے رفیق کار تھے,اور امارت شرعیہ کے حقیقی ترجمان بھی تھے,آپ نے اپنی تقریر میں  اختلافی بات کو کبھی بھی موضوع بحث نہیں بنایا,کبھی بھی آپ کی زبان سے غیر معیاری الفاظ نہیں نکلا,برے سے برے حالات میں صبر تحمل سے کام لینا آپ کی فطرت ثانیہ تھی,مدارس اسلامیہ میں پڑھنے والے طلبہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے,عام طور پر جب آپ طالبعلموں کے درمیان خطاب کرتے تو انہیں عمل باالعلم کی تلقین کرتے اور کہتے کے علم وہی باقی رہتا ہے جس پر عمل کیا جائے,آپ کی شخصیت پورے بہار خصوصا شمالی بہار میں ممتاز تھی ہر چھوٹی بڑی مجلس کے میر مجلس ہوتے,آپ کا حسن و اخلاق اس قدر اعلی تھا کہ غیر مسلم بھی آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر آداب بجا لاتا تھا, حق تعالی سبحانہ آپ کی مغفرت فرمائے اور جو علمی میراث چھوڑ کر گئے ہیں اس کی حفاظت فرمائے,اور آپ کا فیض تا قیامت جاری و ساری رہے, 


عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ہو چکا ہے

اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے

اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟

قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زباں کا زور بیاں گیا ہے

اترگئے منزلوں کے چہرے،امیر کیا ؟ کارواں گیا ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے

جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے

تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

عبدالخالق قاسمی

مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور مظفرپور بہار


اردو کے ساتھ نا انصافی نا قابل برداشت،

اردو کے ساتھ نا انصافی نا قابل برداشت،



آج مورخہ 31 اگست کو بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام ریاست بھر کے اردو اساتذہ و محبان اردو نے حکومت بہار کے خلاف احتجاج 'پوسٹر وِد سیلفی' کیا۔جس میں مغربی مغربی چمپارن سے بڑی تعداد میں اساتذہ و محبانِ اردو شامل ہوئے۔اور حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔




واضح رہے کہ ریاست کے ہائی اسکولوں میں اردو کو اختیاری کئے جانے کے بعد سے محبان اردو میں بے حد غم اور غصہ ہے۔انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو ریاست سے اردو کو ختم کرنے کی سازش قرار دیا۔واضح رہے کہ حکومت نے حال ہی سکنڈری و ہائیر سکنڈری اساتذہ تقرری ضابطہ میں ترمیم کرتے ہوئے اردو کو حاشئے میں رکھ دیا ہے۔محکمہ تعلیم کی نوٹیفیکیشن نمبر 799 مورخہ۔       کے مطابق اب سکنڈری و ہائیر سکنڈری اسکولوں میں 6 اساتذہ ، ہندی ، انگریزی، حساب،سائنس،سوشل سائنس اور دوسری زبان کے لئے بحال کئے جائیں گے۔دوسری زبان میں اردو کے ساتھ کئی علاقائی زبانیں شامل ہیں۔جس سے واضح ہو رہا ہے کہ اردو اساتذہ کی تقرری اب لازمی نہیں ہے۔اردو کو ثانوی زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود حکومت کا اردو کے ساتھ یہ سلوک نہ صرگ حیران کن ہے،بلکہ پریشان کن بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو آبادی حکومت کے اس قدم سے سخت ناراض ہے۔ایسوسی ایشن کے صوبائی سکریٹری محمد فیروز عالم نے کہا کہ جب تک حکومت حکومت اس مسئلے کا حل کرتے ہوئے اردو لازمیت کو بحال نہیں کرے گی،ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔ 



 خوشی کی بات یہ  ہیکہ محبان اردو کےلئے بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س اسوسی ایشن صوبہ بہار کا واحد ایک اردو کاپلیٹ فارم ہے جو کہ اردو تحفظ و بقا کیلئے  کے لئے فعال و متحرک ہے اسوسی ایشن اس سے قبل بھی  اردوکے کئی بڑے ۔بڑے لڑائیاں لڑ چکا ہے جس میں نمایاں کامیابی بھی ملی ہے


 

محمد  حبیب اللہ ۔کلیم الحق  طارق انور رفیع الکریم ندیم ندوی فیروز عالم بگہا محمد نعیم جنت سنجیدہ شاہین ۔نشاط فیروز انصاف فیروز ۔مداخل میاں  سراجل میاں محمد شاکر محمد شمشاد انوارالحق سونو مظہر عالم   

مصطفے کے علاوہ درجنوں افراد شامل رہے 





 

Sunday 30 August 2020

बेसिक शिक्षक नियोजन 2020 का मेधा सूची का प्रकाशन दो दिनों में

  
बेसिक शिक्षक नियोजन 2020 का मेधा सूची का प्रकाशन दो दिनों में



 जिले की 387 नियोजन इकाई दो दिन में कक्षा एक से पांच तक की बहाली की औपबंधिक मेधा सूची जारी करेगी। इसका पालन नहीं करने वाली नियोजन इकाई की सूची दो सितंबर को मांगी गई है। इस संबंध में प्राथमिक शिक्षा निदेशक के निर्देश पर डीईओ ने सभी नियोजन इकाई को आदेश जारी किया है।

सामान्य और उर्दू अभ्यर्थियों की वेबसाइट पर अलग-अलग सूची डालनी है। बीडीओ व बीईओ को इसे पूरा कराने की जवाबदेही मिली है। छठे चरण के नियोजन के तहत कक्षा एक से पांच तक की बहाली का मामला कोर्ट में जाने के कारण तत्काल स्थगित है। अभ्यर्थियों की मांग पर निदेशक ने निर्देश दिया है कि बहाली से संबंधित सभी प्रक्रिया पूरी कर रखी जाए। डीईओ अब्दुसलाम अंसारी ने कहा कि शिक्षक नियोजन 19-20 के तहत वर्ग एक से पांच के नियोजन के लिए आए आवेदनों के आधार पर विषयवार औपबंधिक मेधा सूची बनानी है।

इसे एक्सेल शीट में बनाकर हार्ड व सॉफ्ट कॉपी हर हाल में एक सितंबर तक कार्यालय में जमा कर देनी है।

ऑनलाइन आपत्ति डाल सकेंगे अभ्यर्थी

डीईओ ने कहा कि इसे वेबसाइट पर डालना है। इससे अभ्यर्थी देख सकेंगे कि उनके आवेदन में दी गई जानकारी सही है या नहीं। एनआईसी के पोर्टल पर लिंक भी उपलब्ध कराया गया है, जिसपर ऑनलाइन आपत्ति अभ्यर्थी डाल सकते हैं। सभी बीडीओ और बीईओ की जवाबदेही है कि वे इसे निर्धारित समय में पूरा कराएं।


بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام دوسرا ریاست گیر احتجاج و مظاہرہ آج احتجاج کو تاریخی بنانے کا اعلان

             

          بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام دوسرا  ریاست گیر احتجاج و مظاہرہ آج،

دیگر کئی تنظیموں نے بھی کیا حمایت کااعلان!


    جنرل سیکریٹری نے احتجاج کو تاریخی بنانے کےلئے کیا اپیل!

اردو کی حق ملنے تک جاری رہیگی لڑائی !

پٹنہ:30 اگست  ریاست کے ہائی اسکولوں میں اردو کے عہدے کو اختیاری کئے جانے کے خلاف بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن لگاتار احتجاج کر رہا ہے۔گزشتہ احتجاج کے بعد حکومت نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے مورخہ 28 اگست 2020 کو وضاحتی ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔جس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ایسوسی کے جنرل سکریٹری محمد شفیق نے مورخہ 31 اگست کو دوبارہ احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔محمد شفیق نے کہا کہ انہیں امید تھی کہ حکومت اس مسئلے کا حل نکالے گی۔مگر مورخہ 28 اگست 2020 کو جاری جدید نوٹیفکیشن نے انہیں بہت مایوس کیا ہے۔

جنرل سکرٹری بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی نے اپنی سخت نارضگی ظاہر کر احتجاج کو مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ نوٹیفیکیشن اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ حکومت دانستہ طور پر اردو کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے اور وہ حالیہ نوٹیفکیشن سے ہمیں گمراہ کرنا چاہتی ہے، حکومت اس سازش کو کبھی کامیاب نہیں ہو نے دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انتخاب سے پہلے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو بعد میں مزید بہت مشکل ہو جائے گا۔بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن نے اعلان کیا کہ جب تک حکومت مسئلے کا حل نہیں نکالے گی تب تک وہ حکومت کے خلاف علمِ احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔محمد شفیق نے تمام محبان ِ اردو سے اس احتجاج کو کامیاب بنانے کی پر زور اپیل کی۔ 


Corona महामारी की वजह से NPR का पहला चरण स्थगित

  Corona महामारी की वजह से NPR का पहला चरण स्थगित! 



 नई दिल्ली। कोरोना महामारी के कारण इस साल राष्ट्रीय जनसंख्या रजिस्टर (एनपीआर) को अपडेट करने और जनगणना-2021 के पहले चरण की कवायद को स्थगित कर दिया गया है और इसमें एक साल की देरी हो सकती है। यह इसलिए क्योंकि देशभर में कोरोना के मामले लगातार बढ़ रहे हैं।

बता दें कि भारतीय जनगणना दुनिया के सबसे बड़े प्रशासनिक और सांख्यिकीय अभ्यासों में से एक है। जनगणना में 30 लाख से अधिक अधिकारी प्रत्येक देश के अलग अलग गांवों में प्रत्येक घर का दौरा करते हैं।

मीडिया रिपोर्ट्स के अनुसार, मामले को लेकर एक वरिष्ठ अधिकारी ने बताया, 'जनगणना को अभी कराना उतना आवश्यक नहीं है। इसमें भले ही एक साल की देरी हो, इससे कोई नुकसान नहीं होगा।'

وزیراعلی اشوک گہلوت نے محرم کے موقع پر امام حسین کو یاد کیا اور کہا کہ ان کی شہادت حق کے لئے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے

      

     وزیراعلی اشوک گہلوت نے محرم کے موقع پر امام حسین کو یاد کیا، اور کہا کہ ان کی شہادت حق کے لئے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے! 

     جے پور: راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے محرم کے موقع پر حضرت امام حسین کی قربانی کو یاد کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین کی شہادت ہمیں حق کی راہ پر چلتے ہوئے کوئی بھی قربانی دینے کی ترغیب دیتی ہے۔

وزیر اعلیٰ راجستھان اشوک گہلوت نے کہا کہ محرم کے اس مبارک مہینے میں ہمیں اپنے ملک کے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے، بے خوف ہوکر سچائی کی حمایت کرنے اور باطل کی مخالفت کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حق اور انصاف کو برقرار رکھنے کے لئے حضرت امام حسین کی زندگی ایک ترغیب ہے۔

اس موقع پر اسمبلی اسپیکر ڈاکٹر سی پی جوشی نے شہدائے کربلا اور حضرت امام حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ محرم اور معرکہ کربلا انصاف کے لیے جدوجہد کی تحریک ہے۔ دریں اثناء، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی نائب صدر اور سابق وزیر اعلی وسندھرا راجے نے بھی حضرت امام حسین کو یہ کہتے ہوئے یاد کیا کہ حضرت امام حسین نے حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔

سابق نائب وزیر اعلی اور کانگریس لیڈر سچن پائلٹ نے بھی انہیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین کی شہادت ہمیں انصاف، قربانی اور ایثار کا پیغام دیتی ہے۔

Saturday 29 August 2020

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا قانون ختم کر دیا

   

  

     متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا قانون ختم کر دیا

متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے ایک وفاقی حکم نامے کے ذریعے سنہ 1972 میں اسرائیل کے بائیکاٹ کے قانون کا خاتمہ کر دیا ہے۔

یہ اقدام رواں ماہ کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے اور متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایمریٹس نیوز ایجنسی کے مطابق اس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات مضبوط کرنا ہے۔

سرکاری حکم نامے کے تحت اماراتی باشندے اور کمپنیاں اسرائیلی باشندوں اور کمپنیوں کے ساتھ مالی لین دین، روابط اور معاہدے قائم کر سکیں گی۔

اس کے ذریعے تمام اسرائیلی ساز و سامان اور مصنوعات کی متحدہ عرب امارت میں داخلے، ملکیت اور تبادلے کی اجازت ہو گی۔

یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی سرکاری ایئرلائن اسرائیلی اور امریکی وفد کو تل ابیب سے ابوظہبی پہنچانے کے لیے پہلی براہ راست پرواز چلانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک امریکی اہلکار کے مطابق یہ خصوصی پرواز 31 اگست کو چلے گی جس میں اسرائیلی حکام اور جیرڈ کشنر سمیت دیگر امریکہ حکام بھی شامل ہوں گے۔

یاد رہے کہ 13 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے اپنے سفارتی تعلقات کو معمول پر اتفاق کیا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔

آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی اور اس سلسلہ میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، نظامِ صحت، ثقافت اور ماحولیات جیسے امور پر باہمی معاہدے ہونے کی امید ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین پر سفارت خانے بھی کھولیں گے۔

ابھی تک اس حوالے سے وضاحت سامنے نہیں آئی کہ اسرائیلی ایئر لائنز پرواز کا دورانیہ کم کرنے کے لیے سعودی عرب کی فضائی حدود میں پرواز کر پائے گی یا نہیں کیونکہ دونوں ممالک کے سرکاری سطح پر روابط نہیں ہیں۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ زراعت ایلون سکسٹر نے جمعہ کو تل ابیب میں ایک ریڈیو سٹیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ منصوبوں کے لیے کوشاں ہے جس کے ذریعے تیل کے ذخائر سے مالا مال متحدہ عرب امارات میں غذائی تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا اور کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے اور صحرا میں فصلیں لگانے جیسے منصوبوں پر کام کیا جا سکے گا۔

'ان کی دولت اور ہمارے تجربے کے ذریعے ہم بہت آگے جا سکتے ہیں۔'

واضح رہے کہ رواں برس مئی کے مہینے میں اتحاد ایئرویز کا جہاز کورونا وائرس سے متاثرہ فلسطینیوں کے لیے امداد لیے ابوظہبی سے تل ابیب پہنچا تھا۔ یہ اسرائیل کے لیے پہلی اماراتی پرواز تھی۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جمعرات کو ہونے والے معاہدے کو مختلف حلقوں کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

source: BBC 

بابری پر جسٹس گگوئی کا پہلا رد عمل سامنے آیا

   بابری پر جسٹس گگوئی کا پہلا رد عمل سامنے آیا!

رام مندر کے' حق میں' فیصلہ سنانے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا پہلا رد عمل

''ایودھیا معاملہ ملک کی قانونی تاریخ میں میں لڑے جانے والے کیسزمیں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھے گا''

نئی دہلی: دہائیوں قدیم ایودھیا تنازعہ پر فیصلہ سنانے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے پہلی مرتبہ اس کیس کی سماعت کے تعلق سے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اپنے بیان میں ایودھیا معاملہ میں سماعت کرنے والی 5 ججوں کی بنچ کے صدر اور اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے 40 دن تک چلی سماعت اور معاملے میں آخری نتیجہ تک پہنچنے کے عمل کو انتہائی چیلنجنگ قرار دیا۔دراصل صحافی مالا دیکشت کی کتاب 'ایودھیا سے عدالت تک بھگوان شری رام' کا اجراء ہوا ہے۔ اس موقع پر رنجن گوگوئی نے ایک تحریری پیغام بھیجا تھا جس میں ایودھیا کیس کے تعلق سے اپنے تجربات انھوں نے بیان کیے ہیں۔ پروگرام میں پڑھے گئے ان کے پیغام میں کہا گیا کہ "آخری فیصلہ تک پہنچنا کافی چیلنجنگ تھا۔ 40 دن کی سماعت میں وکیلوں نے بنچ کو قابل قدر تعاون پیش کیا۔جسٹس گوگوئی نے صحافی مالا دکشت کی کتاب ' اجودھیا سے عدالت تک بھگوان شری رام (سپریم کورٹ میں چالیس دن سنوائی کی ان چھوئے پہلوؤں کی آنکھوں دیکھی داستان )پر ورچوئل بات چیت میں بھیجے گئے اپنے پیغام میں یہ کہا۔جسٹس گوگوئی نے اپنے پیغام میں کہا کہ اجودھیا معاملہ ملک کی قانونی تاریخ میں میں لڑے جانے والے کیسزمیں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھے گا۔ اس معاملے سے جڑے مختلف زبانی اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اس معاملے کو حتمی فیصلے کے لئے لایا گیا تھا۔ یہ ریکارڈ مختلف زبانوں سے ترجمہ کرائے گئے تھے۔جسٹس گوگوئی نے کہا کہ حتمی فیصلے تک پہنچنا کئی وجوہات سے ایک چیلنجنگ کام تھا۔ چالیس دن تک مسلسل سماعت میں مشہور وکیلوں کی بنچ کو دیا گیا تعاون غیرمعمولی تھا۔ کتاب میں تمام واقعات کو ایک نقطہ نظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والوں کو یہ دلچسپ لگیں گے۔واضح رہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی رام مندر تعمیر کے لئے راہ ہموار ہوئی تھی لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر لوگوں کے مختلف تبصرے بھی سامنے آئے تھے۔ فیصلہ میں جہاں بابری مسجد کی انہدام کو غلط مانا گیا

اور کہا گیا کہ مندر ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں وہیں اس جگہ مندر کے حامی فریق کو دے دی گئی۔ اس فیصلہ کے چند ماہ بعد جب سابق چیف جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی تو ایک مرتبہ پھر اس فیصلہ پر نکتہ چینی ہونے لگی۔ رنجن گوگوئی کی صدارت والی سپریم کورٹ کی بینچ نے اپنے فیصلہ میں مسجد کے لئے بھی زمین دینے کا فیصلہ کیا تھا۔واضح رہے کہ طویل عرصے سے تفصیلی سماعت کے انتظار میں رکے رام جنم بھومی معاملہ نے بطور چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی مدت کار میں رفتار پکڑی تھی۔ انھوں نے سماعت کے لیے 55 ججوں کی بنچ تشکیل دی تھی اور لگاتار سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد ازاں 40 دنوں تک لگاتار سماعت چلی۔ آخر کار گزشتہ سال 9 نومبر کو فیصلہ سنایا گیا اور پانچوں ججوں کے مشترکہ فیصلہ کو جسٹس رنجن گوگوئی نے ہی پڑھا تھا۔ فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا گیا تھا اور بابری مسجد کے بدلے ایودھیا سے باہر 5 ایکڑ زمین سنی سنٹرل وقف بورڈ کو دینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ اس فیصلے پر کچھ لوگوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا تھا، لیکن ایک طرف رام مندر تعمیر کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب بھی مکمل ہو چکی ہے اور دھنّی پور میں مسجد تعمیر کے لیے سرگرمیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔

سویڈن میں قرآن کے نسخے نذر آتش ۔ تشدد میں درجنوں زخمی

      سویڈن میں قرآن کے نسخے نذر آتش ۔ تشدد میں درجنوں زخمی



   مخالف مسلم سیاستداں کو مذہبی نسخوں کیخلاف مہم میں شرکت سے روکنے پر ہنگامہ ، احتجاجیوں کا پولیس پر بھی پتھراؤ

نئی دہلی / اسٹاکہوم : اسلام اور اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے خلاف وقفہ وقفہ سے دنیا میں نت نئے سازشیں ابھرتی رہتی ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی حرکتیں بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ چاہے یورپ ہو ، امریکہ ہو ، ایشیا ہو یا کوئی اور ارضی خطہ ، ہر جگہ سے اسلام کے خلاف شیطانی حرکتیں دیکھنے میں آتی رہتی ہیں ۔ تازہ معاملہ یورپ کے ایسے ملک کا جو اس معاملے میں پہلے کبھی نمایاں نہیں رہا ۔ سویڈن کے جنوبی حصہ میں جمعہ کی رات عجیب تماشہ ، ہنگامہ اور تشدد دیکھنے میں آیا جب اسلام کے مخالف عناصر نے مقدس کتاب قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کرنے کی ریالی نکالی ۔ اس میں شرکت سے جب ایک مخالف مسلم لیڈر کو روکا گیا تو تشدد پھوٹ پڑا ۔ پولیس نے ہفتہ کو بتایا کہ احتجاجیوں نے علاقہ مالمو کی سڑکوں پر پولیس کو سنگباری کا نشانہ بنایا اور بڑی تعداد میں ٹائر جلائے ، رات دیر گئے تک تشدد چلتا رہا جس میں ہفتہ کو صبح کمی آئی ۔ اسلام کی مقدس کتاب کی اس طرح بے حرمتی کے خلاف تقریباً 300 افراد نے زبردست مظاہرہ کیا ۔ اینٹی ایمیگریشن پارٹی ' ہارڈ لائن ' سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے لیڈر راسموس پالودن بھی نہایت قابل اعتراض ایونٹ میں شرکت کے لیے مالمو کا سفر کرنے والا تھا اسے اس سے باز رکھا گیا ۔ جس پر راسموس کے حامی مشتعل ہوگئے ۔ آخر کار مالمو کے قریب راسموس کو گرفتار کرنا پڑا ۔ قوی اندیشہ تھا کہ راسموس کی مخالف اسلام ریالی میں شرکت اور اشتعال انگیز تقریر پر معاملہ بے قابو ہوجاتا اس لیے حکام نے اسے گرفتار کرلیا ۔ تاہم اس کے حامی ریالی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ جس کے نتیجہ میں مزید 6 گرفتاریاں ہوئیں ۔ راسموس کا تعلق ڈنمارک سے ہے اور اسے وقتاً فوقتاً مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف وارننگ دی جاتی رہی ہے ۔ راسموس نے 2017 میں سیاسی پارٹی تشکیل دی جس نے 2019 میں 1.8 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔۔

MHA ने अनलॉक 4 की गाइडलाइन जारी की

  MHA ने अनलॉक 4 की गाइडलाइन जारी की


न्यू दिल्ली गृह मंत्रालय (एमएचए) ने कंटेनर जोन के बाहर के क्षेत्रों में अधिक गतिविधियों को खोलने के लिए आज नए दिशानिर्देश जारी किए हैं। 1 सितंबर 2020 से लागू होने वाले अनलॉक 4 में, गतिविधियों के फिर से खोलने की प्रक्रिया को आगे बढ़ाया गया है। आज जारी किए गए नए दिशानिर्देश, राज्यों और केंद्रशासित प्रदेशों से प्राप्त फीडबैक और संबंधित केंद्रीय मंत्रालयों और विभागों के साथ व्यापक विचार-विमर्श पर आधारित हैं।

अनलॉक -4 की खास बातें

– 30 सितंबर तक बंद रहेंगे स्कूल और कॉलेज

– 7 सितंबर से मेट्रो सेवा शुरू करने की इजाज़त

– 100 लोगों की राजनीतिक, सामाजिक, धार्मिक, खेलकूद और मनोरंजक सभाएं करने की अनुमति

– ओपन एयर थियेटर यानी सर्कस आदि शुरू हो सकेंगे

– 21 सितंबर से 9वीं से 12 कक्षा के बच्चे चाहें तो अध्यापक से दिशानिर्देश लेने के लिए स्कूल जा सकेंगे

– मास्टर डिग्री और पीएचडी के छात्र प्रयोगशालाओं में जा सकेंगे

 21 सितंबर से शादी और अंतिम संस्कार में 100 लोग शामिल हो सकेंगे

सिनेमा हॉल, स्विमिंग पूल, एंटरटेनमेंट पार्क आदि बंद रहेंगे

– राज्य सरकारें अपनी तरफ से किसी तरह का लॉकडाउन नहीं घोषित कर पाएंगी। केंद्र सरकार की अनुमति जरूरी होगी।

किसी राज्य के अंदर या दूसरे राज्य से आने जाने पर कोई पाबंदी नहीं होगी।

नए दिशानिर्देशों की मुख्य विशेषताएं

MHA के परामर्श से, आवास और शहरी मामलों के मंत्रालय (MOHUA) / रेल मंत्रालय (MOR) द्वारा श्रेणीबद्ध तरीके से 7 सितंबर 2020 से मेट्रो रेल को संचालित करने की अनुमति दी जाएगी। इस संबंध में, MOHUA द्वारा मानक संचालन प्रक्रिया (SOP) जारी की जाएगी।

सामाजिक / शैक्षणिक / खेल / मनोरंजन / सांस्कृतिक / धार्मिक / राजनीतिक कार्यों और अन्य सभाओं में 21 सितंबर 2020 से 100 व्यक्तियों की छत के साथ अनुमति दी जाएगी। हालांकि, इस तरह के सीमित समारोहों को अनिवार्य रूप से फेस मास्क पहनने के साथ आयोजित किया जा सकता है, सामाजिक गड़बड़ी, थर्मल स्कैनिंग और हाथ धोने या सैनिटाइज़र के लिए प्रावधान।

21 सितंबर 2020 से ओपन एयर थिएटरों को खोलने की अनुमति होगी।

राज्यों और केंद्रशासित प्रदेशों के साथ व्यापक परामर्श के बाद, यह निर्णय लिया गया है कि 30 सितंबर 2020 तक छात्रों और नियमित कक्षा गतिविधि के लिए स्कूल, कॉलेज, शैक्षिक और कोचिंग संस्थान बंद रहेंगे। ऑनलाइन / दूरस्थ शिक्षा की अनुमति दी जाएगी और जारी रहेगी प्रोत्साहित रहो। हालाँकि, निम्नलिखित अनुमति दी जाएगी केवल २१ सितंबर २०२० से प्रभावी होने पर, कंटेनर जोन के बाहर के क्षेत्रों में, जिसके लिए SOP स्वास्थ्य और परिवार कल्याण मंत्रालय (MoHFW) द्वारा जारी किया जाएगा:

राज्यों / केंद्रशासित प्रदेशों में 50% तक शिक्षण और गैर-शिक्षण स्टाफ को ऑनलाइन शिक्षण / टेली काउंसलिंग और संबंधित कार्य के लिए एक समय में स्कूलों में बुलाया जा सकता है!

कक्षा 9 से 12 तक के छात्रों को अपने शिक्षकों से मार्गदर्शन लेने के लिए, स्वैच्छिक आधार पर, केवल कंटेनर जोन से बाहर के क्षेत्रों में अपने स्कूलों का दौरा करने की अनुमति दी जा सकती है। यह उनके माता-पिता / अभिभावकों की लिखित सहमति के अधीन होगा।

राष्ट्रीय कौशल प्रशिक्षण संस्थानों, औद्योगिक प्रशिक्षण संस्थानों (आईटीआई), राष्ट्रीय कौशल विकास निगम या राज्य कौशल विकास मिशनों या भारत सरकार या राज्य सरकारों के अन्य मंत्रालयों के साथ पंजीकृत लघु प्रशिक्षण केंद्रों में कौशल या उद्यमिता प्रशिक्षण की अनुमति दी जाएगी।

राष्ट्रीय उद्यमिता और लघु व्यवसाय विकास संस्थान (NIESBUD), भारतीय उद्यमिता संस्थान (IIE) और उनके प्रशिक्षण प्रदाताओं को भी अनुमति दी जाएगी।

उच्च शिक्षा संस्थानों में केवल अनुसंधान विद्वानों (पीएचडी) और तकनीकी और व्यावसायिक कार्यक्रमों के स्नातकोत्तर छात्रों के लिए प्रयोगशाला / प्रायोगिक कार्यों की आवश्यकता होती है। उच्च शिक्षा विभाग (डीएचई) द्वारा एमएचए के परामर्श से, स्थिति के आकलन के आधार पर, और राज्यों / केंद्रशासित प्रदेशों में सीओवीआईडी ​​-19 की घटनाओं को ध्यान में रखते हुए अनुमति दी जाएगी।

*निम्नलिखित गतिविधियों को छोड़कर, सभी गतिविधियों को नियंत्रण क्षेत्र के बाहर अनुमति दी जाएगी:

(i) सिनेमा हॉल, स्विमिंग पूल, मनोरंजन पार्क, थिएटर (ओपन एयर थिएटर को छोड़कर) और इसी तरह के स्थान।

(ii) MHA द्वारा अनुमति के अलावा यात्रियों की अंतर्राष्ट्रीय हवाई यात्रा।

30 सितंबर, 2020 तक कंटेनर जोन में लॉकडाउन को सख्ती से लागू किया जाएगा।


ट्रांसमिशन जोन की श्रृंखला को प्रभावी ढंग से तोड़ने के उद्देश्य से MoHFW के दिशानिर्देशों को ध्यान में रखने के बाद जिला स्तर पर सूक्ष्म स्तर पर कंटेनर जोन का सीमांकन किया जाएगा। इन रोकथाम क्षेत्रों में सख्त रोकथाम उपायों को लागू किया जाएगा और केवल आवश्यक गतिविधियों की अनुमति दी जाएगी।

नियंत्रण क्षेत्र के भीतर, सख्त परिधि नियंत्रण बनाए रखा जाएगा और केवल आवश्यक गतिविधियों की अनुमति दी जाएगी।


ये कंटेनर ज़ोन संबंधित जिला कलेक्टरों की वेबसाइट पर और राज्यों / केंद्रशासित प्रदेशों द्वारा अधिसूचित किए जाएंगे और जानकारी भी MOHFW के साथ साझा की जाएगी।


राज्यों को कंटेनर ज़ोन के बाहर किसी भी स्थानीय लॉकडाउन को लागू करने के लिए नहीं

राज्य / केन्द्र शासित प्रदेश सरकारें केंद्र सरकार के पूर्व परामर्श के बिना, किसी भी स्थानीय लॉकडाउन (राज्य / जिला / उप-विभाग / शहर / गाँव स्तर) को, ज़ोन के बाहर नहीं लगाएंगी।

 

अंतर-राज्य और अंतर-राज्य आंदोलन पर कोई प्रतिबंध नहीं


व्यक्तियों और वस्तुओं के अंतर-राज्य और अंतर-राज्य आंदोलन पर कोई प्रतिबंध नहीं होगा। इस तरह के आंदोलनों के लिए अलग से अनुमति / अनुमोदन / ई-परमिट की आवश्यकता नहीं होगी।

10ریاستوں کو چھوڑ کر ہر ریاست میں کورونا کے فعال معاملات میں اضافہ


 10ریاستوں کو چھوڑ کر ہر ریاست میں کورونا کے فعال معاملات میں اضافہ



 نی دہلی،ملک میں 10 ریاستوں کو چھوڑ کر تمام ریاستوں اور مرکزکے زیر انتظام علاقوں میں عالمی وبا کورونا وائرس (کوویڈ ۔19) کے فعال معاملوں میں اضافہ ہوا ہے ، جس کے بعد ملک میں سرگرم معاملوں کی کل تعداد تیزی سے بڑھ کر 725،424 ہوگئی ہے۔

صرف انڈمان نیکوبار جزیرے ، دادر نگر حویلی اور دمن دیو ، لداخ ، راجستھان ، پنجاب ، ناگالینڈ ، بہار ، ہماچل پردیش ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں ہی ملک میں کورونا کے فعال معاملوں میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ باقی 25 ریاست اور علاقوں کے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے-

बिहार में विधानसभा चुनाव से पहले शिक्षकों को नीतीश सरकार का बड़ा तोहफा, सैलरी में हुई 15 फीसदी की वृद्धि सहित अन्य कई सुविधाएं दी गई

 
बिहार में विधानसभा चुनाव से पहले शिक्षकों को नीतीश सरकार का तोहफा, सैलरी में हुई 15 फीसदी की वृद्धि सहित अन्य कई सुविधाएं दी गई,



1 सभी जिला शिक्षा पदाधिकारियों के द्वारा शिक्षक संगठनों से सुझाव भी मांगे जा रहे हैं

बिहार में पंचायती राज संस्थाओं और नगर निकायों के शिक्षकों के मूल वेतन में 15 प्रतिशत की वृद्धि की गई है, जिसका लाभ एक अप्रैल, 2021 से मिलेगा। शिक्षा विभाग ने इस संबंध में शनिवार को आदेश जारी कर दिया है।
बता दें कि कुछ दिन पहले ही पंचायती राज संस्थाओं और नगर निकायों के शिक्षकों की नई सेवाशर्त नियमावली को राज्य कैबिनेट की मंजूरी मिल गई थी। इसके अनुसार साढ़े तीन लाख से अधिक शिक्षकों को कर्मचारी भविष्य निधि (ईपीएफ) का लाभ सितंबर, 2020 से ही दिया जाएगा। वहीं इन शिक्षकों के मूल वेतन में 15 प्रतिशत की वृद्धि की गई है, जिसका लाभ एक अप्रैल, 2021 से मिलेगा।
शिक्षकों के वेतन को 1560 करोड़ स्वीकृत
समग्र शिक्षा अभियान के तहत कार्यरत शिक्षकों के जुलाई और अगस्त के वेतन के लिए 1560 करोड़ जारी होंगे।
कैबिनेट ने राशि जारी करने की स्वीकृति दे दी है। वहीं राज्य के प्रस्वीकृति प्राप्त 47 संस्कृति विद्यालयों में स्वीकृत पदों के विरुद्ध 15 फरवरी 2011 के पूर्व विधिवत रूप से नियुक्त शिक्षकों और शिक्षकेत्तर कर्मियों को छठे एवं सातवें वेतन संरचना के अनुरूप पुनरीक्षत दर से अनुदान देने की मंजूरी कैबिनेट ने दी है। वहीं पुनर्बहाल स्वीकृति प्राप्त संस्कृत विद्यालयों में 15 फरवरी 2011 के बाद स्वीकृत पद के विरुद्ध नियुक्त शिक्षक व शिक्षकेत्तर कर्मियों को पांच मार्च 2019 के प्रभाव से नवीन वेतन संरचना में नए दर से वेतन की स्वीकृति दी गई।
ऐच्छिक स्तानांतरण का लाभ
महिला और दिव्यांग शिक्षकों तथा पुस्तकालयाध्यक्षों को अपने नियोजन इकाई तथा अपने जिले से बाहर एक बार ऐच्छिक स्थानांतरण का लाभ मिलेगा। वहीं पुरुष शिक्षकों तथा पुस्तकालयाध्यक्षों को इसका लाभ आपसी सहमति (पारस्परिक) से मिलेगा। आरके महाजन ने कहा कि कई महिला शिक्षक थी, जो शादी से पहले से नियुक्त थी, पर बाद में उन्हें दिक्कत होने लगी। इस फैसले से ऐसी महिला शिक्षकों को भी काफी लाभ होगा।
प्रोन्नति का लाभ
प्राथमिक से मध्य विद्यालय तथा माध्यमिक विद्यालय से उच्च माध्यमिक विद्यालय में योग्य शिक्षकों की प्रोन्नति होगी। मध्य और उच्चतर माध्यमिक विद्यालय में 50 प्रतिशत पद प्रोन्नति से ही भरे जाएंगे। वे प्रचार्य भी बन सकेंगे।

मोहर्रम की शुरुआत क्यों कैसे हुई मोहर्रम का खास महत्व क्या है क्यों मनाया जाता है मोहर्रम



मोहर्रम का खास महत्व क्या है क्यों मनाया जाता है मोहर्रम

 नई दिल्ली। इस्लामिक कैलेंडर में दो महीनों, रमजान और मोहर्रम का खास महत्व है। मोहर्रम इस्लामिक कैलेंडर का पहला महीना है और आज (29 अगस्त) मोहर्रम की दसवीं तारीख है। मोहर्रम की दसवीं तारीख इस्लामिक इतिहास में खास जगह रखती है। इस्लामिक इतिहास के मुताबिक, मोहर्रम की दसवीं तारीख को पैगंबर मोहम्मद के नवासे हुसैन को शहीद कर दिया गया था। इस दिन को रोज-ए-अशुरा कहते हैं। आशुरा का अर्थ दसवें है। आशूरा को दुनियाभर में मुसलमान गम और मातम का इजहार करते हैं। खासतौर से शिया मुसलमान मुहर्रम को ज्यादा महत्व देते हैं।

मुहर्रम के जुलूस की इजाजत पर सुप्रीम कोर्ट ने कहा- फिर लोग एक समुदाय पर कोरोना फैलाने का आरोप लगा देंगे


अशुरा पर नहीं पहने जाते नए कपड़े, कोई सेलीब्रेशन नहीं होता

मोहर्रम में शिया समुदाय महीने की पहली से नौ तारीख तक रोजा रखते हैं, वहीं सुन्नी समुदाय के लोग 9वें और 10वें दिन रोजा रखते हैं।

दोनों समुदाय में मोहर्रम मनाने के तरीकों में थोड़ा फर्क हैं। शिया समुदाय के लोग मोहर्रम में ना ही कोई खुशी मनाते हैं और ना ही किसी की खुशी में शामिल होते हैं। किसी भी तरह के सेलीब्रेशन इस महीने में नहीं होते। मुहर्रम में शियाओं में शादियां भी नहीं होतीं। सुन्नियों में भी महीने में मातम का इजहार किया जाता है लेकिन शरीर पर जंजीरों से वार कर खून निकालना और सड़कों पर ताजिया निकालने का रिवाज सुन्नियों में नहीं है।



Muharram 2020: जानिए मुहर्रम में मातम क्यों मनाते हैं शिया, क्या है इसका इतिहास? | वनइंडिया हिंदी


क्या है हुसैन और उनके परिवार का इतिहास

हुसैन पैंगबर मोहम्मद की बेटी फातिमा और चौथे खलीफा हजरत अली के दूसरे बेटे थे। हुसैन के बड़े भाई हसन थे। हुसैन को शिया मुस्लिम अपना तीसरा इमाम मानते हैं। पैगंबर मोहम्मद के दुनिया से चले जाने के बाद उनके परिवार को कई तरही की लड़ाइयों का सामना करना पड़ा। हुसैन कम ही उम्र के थे जब उनके माता-पिता और फिर उनके बड़े भाई को भी कत्ल कर दिया गया। हसन की मौत के बाद यजीद निया से चले जाने के बाद दुश्मन हुसैन पर दबाव बनाने लगा कि वह उस वक़्त के जबरन खलीफा बने यजीद ने उन पर जुल्म शुरू कर दिए। माना जाता है कि 680 ई. में इमाम हुसैन ने मदीना छोड़ दिया और वहां से निकल गए लेकिन यजीद उनको जिंदा नहीं छोड़ना चाहता था।

करबला में बेदर्दी से कत्ल किए गए हुसैन

हुसैन मदीना छोड़ अपने कुछ साथियों के साथ इराक के शहर करबला में पहुंच गए। इस्लामी कैलेंडर के मुताबिक मोहर्रम की दो तारीख को कर्बला पहुंचे थे। मोहर्रम की सातवीं तारीख को उनका यजीद ने उनके काफिले का पानी बंद कर दिया और सिर झुकाकर उसे खलीफा मान लेने को कहा। जब हुसैन ने देखा कि यजीद से उनका सामना होना है, तो उन्होंने अपने साथियों से उन्हें छोड़कर चले जाने को कहा क्योंकि यजीद की फौज के सामने जीतना नामुमकिन था। कोई उन्हे छोड़कर नहीं गया, मुहर्रम की दसवीं तारीख को यजीद ने हमला किया और हुसैन के काफिले के 72 लोगों को मार डाला। इसके बाद से दुनियाभर के मुसलमान इस तारीख को रोज-ए-आशूरा के तौर पर मनाते हैं।




सरकारी शिक्षक अब करेंगे शराबियों की गिनती राज्य सरकार ने जरि किया निर्देश,सुर्यवाला ने कहा अंधेर नगरी चौपट राजा


 

सरकारी शिक्षक अब करेंगे शराबियों की गिनती राज्य सरकार ने जरि किया निर्देश,सुरजेवाला ने कहा अंधेर नगरी चौपट राजा 


  कांग्रेस के राष्ट्रीय प्रवक्ता रणदीप सिंह सुरजेवाला ने शराब नीति को लेकर हरियाणा सरकार पर हमला बोला है. सुरजेवाला ने एक ट्वीट में लिखा है कि हरियाणा में अब स्कूल मास्टर ही शराबियों की गिनती करेंगे. सुरजेवाला ने सरकार से पूछा है कि जब स्कूल मास्टरों को यह काम दिया जाएगा तो वे बच्चों को कब पढ़ाएंगे?

रणदीप सुरजेवाला ने एक ट्वीट में लिखा, अंधेर नगरी - चौपट राजा, यही है.....भाजपा-जजपा का बैंड बाजा. अब स्कूल मास्टर 40 शराबियों की गिनती करेंगे, मास्टर ही शराबियों व नशेड़ियों की सूची बनाएंगे, तो फिर बच्चों को कब पढ़ाएंगे और सिखाएंगे?

रणदीप सुरजेवाला ने अपने ट्वीट में करनाल जिले में जारी एक सरकारी पत्र का हवाला दिया है जो जिला शिक्षा अधिकारियों के नाम है.

इसमें कहा गया है कि शिक्षा अधिकारी एक हफ्ते के अंदर एक रिपोर्ट दें और बताएं कि हर ब्लॉक में कितने लोग, छात्र या स्टाफ मेंबर ड्रग एडिक्ट हैं या शराबी हैं. इनकी गिनती के लिए स्कूल प्रिंसिपल या हेडमास्टर से मदद लेने का निर्देश दिया गया है.

रणदीप सुरजेवाला ने इस निर्देश पर हरियाणा सरकार को निशाने पर लेते हुए पूछा है कि जब स्कूल मास्टर शराबियों की गिनती करेंगे तो वे बच्चों को कब पढ़ाएंगे. इससे पहले शराब घोटाले की जांच के लिए बनाई गई एसआईटी की रिपोर्ट को लेकर भी सुरजेवाला ने हरियाणा सरकार पर हमला बोला था. कांग्रेस नेता ने कहा कि कोरोना महामारी के दौरान हरियाणा में खुलेआम शराब घोटाला हुआ और औने-पौने दामों पर बेहिसाब शराब की बिक्री की गई. सुरजेवाला ने इसके लिए भाजपा और जजपा की गठबंधन सरकार को जिम्मेदार ठहराया.


سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری

         سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری




        سرکاری ملازمتیں اور اقلیتی طبقےکی بیروزگاری

       از قلم۔کلیم الحق ندوی مغربی چمپارن بہار   

                          
حال ہی میں مرکزی حکومت نے اپنی کابینہ سے سرکاری اداروں میں گریڈ بی اور سی ملازمین کی بحالی کے لئے ایک نئی ایجنسی تشکیل دی ہے اور اس کا نام قومی بحالی ایجنسی یعنی( National Recruitment Agency )تشکیل دی ہے اور قومی سطح پر ریلوے، بینکنگ اور دیگر مرکزی دفاتر میں گریڈ بی اور سی ملازمین کے لئے اجتماعی اہلیتی جانچ یعنی Common Eligibility Testکی شرط رکھی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے بیروزگاروں کو مختلف طرح کی پریشانیوں سے نجات ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ مالی خسارے سے بھی عافیت ملے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں تقریباً بیس ایجنسیوں کے ذریعہ ملک کے مختلف سرکاری اداروں کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات منعقد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً اسٹاف سلکشن کمیشن سب سے بڑا ادارہ ہے جو قومی سطح پر سرکاری ملازمتوں کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کا انعقاد کرتا ہے اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ کروڑ بے روزگار نوجوان اس امتحان میں شامل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ریلوے ، بینکنگ کے لئے بھی الگ الگ مقابلہ جاتی امتحانات منعقد ہوتے ہیں اور بیروزگار اس میں شامل ہو کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں ۔ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں دن بہ دن سرکاری ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ بیشتر سرکاری ادارے نجی کمپنیوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ ریلوے جیسے بڑے محکموں کو بھی نجی ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری چل رہی ہے اور جزوی طورپر کئی اسٹیشنوں اور ٹرینوں کے نظم ونسق کی ذمہ داری پرائیوٹ کمپنیوں کو دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی کی شرح میں دنوں دن اضافہ ہو رہا ہے اور تعلیم کے تئیں بیداری بھی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بھی خوش آئند اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے بیشتر نوجوان گریجویشن کے بعد فوری طورپر سرکاری ملازمت چاہتے ہیں جب کہ اس سچائی سے وہ بھی واقف ہیں کہ سرکاری محکموں میں ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ بالخصوص حالیہ دس برسوں میں تو بیروزگاروں کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔حال ہی میں چوتھے درجے کی ملازمت کے لئے تین لاکھ سے زائد گریجویٹ، ایم اے اور پی ایچ ڈی سند یافتہ لوگوں نے درخواستیں دی تھیں جب کہ چوتھے درجے کے کاموں کی تفصیل میں یہ درج تھا کہ ملازم کو میٹرک پاس ہونا چاہئے اور اسے سائیکل چلانی آنی چاہئے ۔ کیوں کہ اس کا کام محکمے کے خطوط کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کا ہوگا۔ لیکن اس تفصیل کی وضاحت کے باوجود ایم اے اور پی ایچ ڈی سند یافتہ نے درخواستیں دیں اور آخر میں اس محکمے نے اس اسامی کو ہی رد کردیا ۔ اسی طرح اسٹاف سلکشن ، ریلوے بھرتی بورڈ، بینکنگ سروس وغیرہ بی اور سی گریڈ کی ملازمت کے لئے اسامیاں نکالتی رہتی ہیں لیکن امتحان کے جو طریقہ کار ہیں اس میں کافی وقت لگتا ہے اور بیروزگار نوجوان مایوسی کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس نئی پالیسی سے شاید تھوڑی سی راحت ان بیروزگاروں کو ملے گی کہ وہ مختلف طرح کی ملازمتوں کے لئے سالوں بھر الگ الگ فارم بھرتے تھے اور امتحانات میں شامل ہونے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں بھٹکتے رہتے تھے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اب قومی بحالی ایجنسی کے ذریعہ ہی امتحان منعقد ہوگا اور اسی ایک ایجنسی کے ذریعہ مختلف اداروں اور بورڈوں میں بحالیاں ہوں گی۔ اس میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ ایک امیدوار اگر اس قومی سطح کے امتحان میں یعنی سی ای ٹی میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کی مدت تین سال تک رہے گی اور اس درمیان میں اسے دوبارہ کوئی امتحان نہیں دینا ہوگا۔ اگر تین کے عرصے میں ملازمت مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ اسے پھر امتحان دینا ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ امتحان کی سطح پر تو بیروزگاروں کو تھوڑی سی راحت ملے گی لیکن ہندوستان جیسے کثیر الآبادی والے ملک میں ایک ایجنسی کے ذمہ تمام سرکاری محکموں کے لئے بی اور سی گریڈ کے ملازموں کا انتخاب آسان نہیں ہوگا اور پھر شخصی اجارہ داری کو بھی فروغ ملے گا۔اس وقت مختلف بورڈوں کے الگ الگ چیئر مین اور ممبران ہیں جن میں مختلف علاقے کے لوگ شامل رہتے ہیں ۔ اب جب کہ قومی سطح پر ایک ہی بورڈ ہوگا تو ممکن ہے کہ حکومت ملک کے جغرافیائی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھے لیکن اس کے باوجود بھی علاقائی حق تلفی کا اندیشہ ہے۔ مثلاً محکمہ ریلوے کاالگ الگ زون میں بحالیوں کے لئے بورڈ کام کر رہا ہے جس میں اس علاقے کے بیروزگاروں کو آسانی بھی ہو رہی ہے۔ اب جب کہ ایک ہی ایجنسی ہوگی تو ممکن ہے کہ وہ محرومی کا شکار بھی ہوں۔
بہر کیف! جب بھی کوئی نئی پالیسی بنتی ہے تو اس کے دونوں پہلو ہوتے ہیں ۔ اگر کچھ آسانیاں ہوتی ہیں تو کچھ پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے کابینہ سے اس نئی پالیسی کو منظوری دے دی ہے اب اس کا عملی نفاذ ہونا باقی ہے ۔ لیکن حکومت کی طرف سے اسے ایک انقلابی قدم قرار دیا جا رہاہے۔یہ ذکر پہلے ہی آچکا ہے کہ سرکاری ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اس لئے بیروزگاروں کو دیگر روزگار کے جو مواقع ہیں اس کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ بالخصوص اقلیت مسلم طبقے کے بیروزگاروں کو خود انحصاریت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ مثلاً ایک بڑا روزگار مویشی پروری اور ماہی پروری ہے ۔لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان دونوں روزگار کی جانب اقلیت طبقے کے بیروزگار نوجوان متوجہ نہیں ہیں۔ جب کہ یہ دونوں روزگار خود انحصاریت کا ایک نسخۂ کیمیا ہے۔اگر انفرادی طورپر نہیں تو اجتماعی طورپر بھی مویشی پروری اور ماہی پروری کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ حال ہی میں ہمارے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ گذشتہ پانچ سالوں سے مویشی پروری اور پولٹری فارم چلا رہے ہیں اور اس سے نہ صرف وہ خود خوشحال ہیں بلکہ ایک درجن سے زائد مزدوروں کو بھی روزگار مل رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ دودھ کی قلت ہمیشہ رہے گی اور مویشی پروری سے نقد آمدنی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اسی طرح پالٹری فارم سے بھی یومیہ آمدنی یقینی ہے۔ انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ اگر کسی دیہی علاقے میں پانچ دس نوجوانوں کا گروپ مویشی پروری سے لگ جائیں تو انہیں سرکاری ملازمت کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ دوسروں کو بھی روزگار دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں واقعی بیروزگاری دور کرنے کا یہ ایک کار آمد نسخہ ہے مگر مسلم معاشرے میں اس کے تئیں دلچسپی نہیں دیکھی جا رہی ہے جب کہ اقتصادی پستی کو دور کرنے کے لئے اسی طرح کے روزگار کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ملازمتوں کی راہیں بہت دشوار ہیں اور صرف اسی پر تکیہ کرکے ہم اپنی مشکلوں سے نجات نہیں پا سکتے۔اس لئے مسلم معاشرے میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے گھریلوں صنعتوں اور خصوصی طورپر مویشی پروری، ماہی پروری اور مرغ پروری کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ اس سے بیروزگار ی دور ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی استحکام بھی حاصل ہوگا۔میرے پاس اکثر مسلم بیروزگار نوجوان آتے رہتے ہیں اوراپنی بیروزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ ان کے سامنے جب کبھی اس طرح کے روزگار کو اپنانے کی گذارش کرتا ہوں تو وہ ذہنی طورپر تیار نظر نہیں آتے ساتھ ہی ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں بھی برادرِ وطن کے مقابلے وہ سنجیدہ نہیں ہیں ۔ایسی صورت میں آخر ہمارے معاشرے کی تصویر کیسے بدلے گی ؟ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سرکاری ملازمتیں سبھوں کو نہیں مل سکتیں ۔ اکثریت طبقے کے نوجوانوں سے بھی ہمیں سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح مختلف طرح کے روزگاروں کے ذریعہ اپنی اقتصادی حالت کو مستحکم کر رہے ہیں ۔اب سرکاری طورپر بھی مختلف طرح کے قرض کی سہولت فراہم ہے ۔ بالخصوص اقلیت طبقے کے لئے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے ذریعہ بھی قرض مہیا کرائے جاتے ہیں لیکن ایسا دیکھا جا رہاہے کہ قرض لے کر ہم روزگار کو بڑھانے کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوتے ۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ بیروزگاری کے ساتھ ساتھ مقروض بھی ہو جاتے ہیں اور سال دوسال کے بعد قرض وصولی کے لئے حکومت کو قانونی کاروائی کرنی پڑتی ہے ۔جب کہ اکثریت طبقے کے نوجوان سرکاری قرض کی بدولت اپنی تجارت کو فروغ دے کر خود مختار ہو رہے ہیں ۔ اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے حالات دنو ں دن تبدیل ہو رہے ہیں ۔ بالخصوص کورونا کے بعد تو ملک کی اقتصادی حالت خستہ حال ہے اور سرکاری ملازمت کے امکانات دوردور تک مسدود ہیں۔
ایم۔کے۔حق ندوی

Friday 28 August 2020

دہلی ہائیکورٹ نے نفرت انگیزی پر مشتمل سدرشن ٹی۔وی کی پروگرام نشر کرنے پر لگائی پابندی!!

     



  دہلی ہائیکورٹ نے نفرت انگیزی پر مشتمل سدرشن ٹی۔وی کی پروگرام نشر کرنے پر لگائی پابندی!!



واضح ہوکہ نیوز رپورٹ ست ملی اطلاع کے مطابق نفرت انگیز پروگرام چلانے والے سدرشن ٹی وی کے پروگرام ” بند اس بول پر “ جمعہ کو روک لگادی ہے جس کے حال ہی میں جاری پرومو میں دعوی کیا گیا تھا کہ چینل سرکاری خدمات میں مسلمانوں کی در اندازی کی بڑی سازش کا پردہ فاش کرنے کیلۓ ایک پروگرام نشر کرنے کے لۓ پوری طرح سے تیار ہے جسٹس نوین چاولہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابقہ اور موجودہ طلبہ کی جانب سے داٸر درخواست پر مرکزی حکومت یونین پبلک سروس کمیشن سدرشن ٹی وی اور اس کے ایڈیٹران چیف سریش چوہانکے کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے اس سلسلے میں ہاٸ کورٹ نے معاملے کی سماعت 7 ستمبر کو درج کی ہے واضح رہے کہ جمعرات کو چوہانکے نے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ملک میں مسلم نوکرشاہوں کو جامعہ ملیہ کا جہادی قرار دیا تھا

ڈاکٹر کفیل کی رہائی پر ہائ کورٹ کا فیصلہ محفوظ!

         


ڈاکٹر کفیل کی رہائی پر ہائ کورٹ کا فیصلہ محفوظ!

  ڈاکٹر کفیل

خان:اترپردیش کا وہ مسلمان ڈاکٹر جو بار بار۔جیل جاتا رہا ہے

     الہ آباد یوپی۔نیوز ڈیسک ۲۸۔۸۔۲۰۲۰۔جمعہ   

  واضح ہوکہ مذہبی منافرت اور فساد بھڑکانے کے الزام میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل احمد خان کی ضمانت عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ دو دنوں تک چلی طویل بحث کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس ایس ڈی سنگھ کی بنچ نے  ڈاکٹر کفیل کی رہائی پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ ڈاکٹر کفیل کی والدہ نزہت پروین کی طرف سے داخل عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنی سماعت مکمل کر لی ہے ۔ عرضی میں ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگائے جانے اور ان کو جیل میں بند کئے جانے کے یو پی حکومت کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے  

(CAA,NRC)सीएए विरोधी प्रदर्शनों पर साथी की टिप्पणी से सहमत नहीं बॉम्बे हाईकोर्ट के जज सेवलिकर

 (CAA,NRC)सीएए विरोधी प्रदर्शनों पर साथी की टिप्पणी से सहमत नहीं बॉम्बे हाईकोर्ट के जज सेवलिकर



बॉम्बे हाईकोर्ट के न्यायाधीश एमजी सेवलिकर ने शुक्रवार को कहा कि वह संशोधित नागरिकता कानून के विरोध को लेकर अपने एक साथी जज की टिप्पणी से इत्तेफाक नहीं रखते हैं। जस्टिस सेवलिकर उस पीठ के सदस्य थे जिसने दिल्ली में हुए तब्लीगी जमात कार्यक्रम में भाग लेने वाले विदेशी नागरिकों के खिलाफ मामलों को रद्द कर दिया था।

सेवलिकर ने शुक्रवार को चार पन्नों का आदेश जारी कर कहा कि वह सीएए और एनआरसी के संबंध में न्यायमूर्ति नलावडे की टिप्पणी से सहमत नहीं हैं। उन्होंने कहा, 'मैं (सीएए और एनआरसी पर) टिप्पणियों से एकमत नहीं हूं क्योंकि इस संबंध में याचिकाओं में आरोप नहीं लगाए गए हैं और न ही इस संदर्भ में कोई साक्ष्य हैं।'
उन्होंने कहा, 'इसलिये, मेरी राय में यह टिप्पणियां याचिका के दायरे से बाहर हैं।' न्यायमूर्ति नलावडे ने अपने आदेश में कहा था कि सीएए और एनआरसी के खिलाफ देश भर में मुस्लिम समुदाय द्वारा बड़े पैमाने पर प्रदर्शन किए गए क्योंकि उनका मानना था कि मुस्लिम शरणार्थियों और प्रवासियों को नागरिकता नहीं दी जाएगी। उच्च न्यायालय की औरंगाबाद पीठ के न्यायमूर्ति नलावडे और न्यायमूर्ति सेवलिकर की एक खंडपीठ ने इस साल मार्च में तब्लीगी जमात के कार्यक्रम में शामिल होने वाले 29 विदेशी नागरिकों के खिलाफ दर्ज प्राथमिकी को 21 अगस्त को रद्द करने का आदेश दिया था।

इन लोगों के खिलाफ कथित तौर पर वीजा शर्तों का उल्लंघन करने के आरोप में प्राथमिकी दर्ज की गई थी। पीठ ने कहा कि आरोपियों को 'बलि का बकरा' बनाया गया। उन पर निराधार आरोप लगाए गए कि वे देश में कोरोना वायरस संक्रमण के प्रसार के लिए जिम्मेदार हैं।

ایک بافیض بزرگ : ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ محمد سرفراز عالم قاسمی اسسٹنٹ پروفيسر، ایم۔ٹی۔ٹی۔کالج، مدھے پور، مدھوبنی

 ایک بافیض بزرگ : ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ

ازقلم۔محمد سرفراز عالم قاسمی اسسٹنٹ پروفيسر،
ایم۔ٹی۔ٹی۔کالج، مدھے پور، بہار 

”حدیث دوستاں“، مشہور عالم دین اور معروف صاحب قلم حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ کے خطوط کا مجموعہ ہے، جسے آپ کے فاضل شاگرد مولاناضیاءالحق خیرآبادی مدظلہ نے مرتب کیاہے اور مکتبہ ضیاءالکتب خیرآباد، مؤ، سے 2010 میں شائع ہوٸ، 730 صفحہ اور پانچ ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے آغاز میں مرتب کے قلم سے ”تعارف“، مصنف کا ”پیش لفظ“، دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی ”تقریظ“، جامعہ اسلامیہ بستی کے صدر المدرسین مولانا نثار احمد صاحب مدظلہ کے ”تاثرات“ اور مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، دربھنگہ کے ناظم، صاحب طرز انشا پرداز اور شاعر و ادیب، قاری شبیر احمد صاحب مدظلہ کے تفصیلی ”مقدمہ“ سے یہ کتاب آراستہ و مزین ہے، پہلا باب ”بزرگوں کے نام“ کے عنوان سے ہے اور اس عنوان کے تحت سب سے پہلے دس خطوط حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ کے نام ہیں، آغاز کتاب میں مکتوب الیہ کا تعارف مرتب کتاب کے قلم سےہے، ملاحظہ فرماٸیے۔


”ناظرین کرام !


درج ذیل مکاتیب استاد محترم مدظلہ کے، اور ہم سب کے مخدوم و بزرگ حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم کے نام ہیں، حضرت مدھوبنی ضلع کے ایک گاؤں ”کھورمدنپور“ کے رہنے والے ہیں، مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا، ضلع دربھنگہ کے ناظم اور ذمہ دار ہیں۔


بزرگوں  کے نام کے ساتھ ”ماسٹر“ کا لاحقہ کا عجیب سا لگتا ہے، مگر حضرت اقدس اسی لاحقہ کے ساتھ معروف ہیں، واقعی ایک اسکول میں پڑھا تے تھے، اب ریٹائر ہو چکے ہیں،


حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کےایک برگزیدہ خلیفہ حضرت مولانا شاہ سراج احمد صاحب امروہوی نوراللہ مرقدہ کےنہایت بافیض اورصاحب کرامت مجاز بیعت ہیں، بےنفسی و تواضع کے پیکر جمیل، خلوص و للہیت کے ایک دلکش مرقع، صورت دیکھے تو اللہ یاد آئے، مجلس میں بیٹھۓ تو سکون و طمانینت نچھاور ہو، دربھنگہ کے رہنے والے، بہار کے  مسلم بزرگ ! بہت ہی مستجاب الدعا بزرگ !


ہمارے استاذ محترم کو ان سے دیرینہ  تعلق ہے، باہمی مراسلت کا ایک طویل سلسلہ ہے، دونوں طرف کے خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہاں ہم استاذ محترم کے خطوط کاجو حضرت اقدس ماسٹر صاحب مدظلہ کے نام لکھے گئے ہیں، ایک مختصر سا انتخاب پیش کرتے ہیں“۔


اس مختصر سے تعارف کے بعد دس خطوط درج ہیں۔ مگر چونکہ مولانا اعظمی رحمہ اللہ کا حضرت ماسٹر صاحب مدظلہ سے دیرینہ تعلق کوٸ پینتس، چاليس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے اور اس قدر گہری ہے، کہ جب ان کی پہلی کتاب اور حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ایک جلیل القدر خلیفہ، عارف باللہ، مصلح الامت، حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب قدس سرہ کی سوانح حیات بنام ”حیات مصلح الامت“ شاٸع ہوکر منظرعام پر آٸ، تو اس کے مطالعہ کے بعد حضرت ماسٹر صاحب مدظلہ نے اپنے شیخ ومرشد مولانا سراج احمد امروھوی کی سوانح کی ترتيب کے لۓ آپ کا ہی انتخاب فرمایا اور مولانا اعظمی نے اسے سعادت سمجھ کر 1411ھج کے ماہ ربیع الاول میں، ایک ہفتہ مدرسہ اشرفیہ عربیہ میں قیام فرما کر اس سوانح کو مرتب فرمایا جو ”حیات سراج الامت“ کے نام سے شاٸع ہوٸ۔ یہ کتاب بھی بہت دلچسپ ہے، اس کے دو جزو ہیں، پہلا حصہ سیرت وسوانح پر مشتمل ہے، جو مولانا اعظمی رحمہ اللہ کا تحریر کردہ ہے اور دوسرا حصہ حضرت سراج الامت کے سفرنامہ و ملفوظات کا ہے جو ان ہی ایک خلیفہ، اور مدرسہ اشرفیہ عربیہ کے بانی، حضرت مولانا حکیم عبدالمنان صدیقی ہرسنگھ پوری رحمہ اللہ کا ترتیب دیاہوا ہے اور اس پر نظر ثانی حضرت مفتی نسیم احمد امروہوی قدس سرہ نے کی ہے۔ اس کتاب میں بھی ضمنا متعدد جگہ حضرت ماسٹر صاحب کا ذکر جمیل ہے۔


بہرکیف ! بات چل رہی تھی دیرینہ تعلق کی، یقینا اس دیرینہ تعلق میں باہمی مراسلت کا سلسلہ کس قدر طویل ہوگا؟ اس کی تفصیل آپ خود ”پیش لفظ“ میں لکھتے ہیں:


”میں نے بعض اپنے بزرگوں کے نام متعدد خطوط لکھے ہیں۔ خاص طور سے حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پڑتاب گڑھی قدس سرہ، حضرت مولانا قاری حبیب احمد صاحب الہ بادی نوراللہ مرقدہ اور حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ کے نام بکثرت خطوط لکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگریہ سب محفوظ ہوتے، توآج انہیں شاٸع کرتے ہوۓ مجھے مسرت ہوتی، لیکن جو کچھ ملا، صرف حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ کے نام خطوط کا مجموعہ ملا، حضرت موصوف کے بھی بہت سے خطوط میرے پاس محفوظ ہیں“۔


ظاہر سی بات ہے باہمی مراسلت کے اس طویل سلسلے میں جہاں بہت سے خطوط محفوظ ہوں ایک مختصر سا انتخاب ہی پیش کیا جاسکتا ہے جو کہ مرتب نے صرف دس خطوط کے انتخاب سے کیا۔


مگر حضرت ماسٹر صاحب مدظلہ کے اگر تمام خطوط شاٸع ہو جاۓ تو ایک روحانی امانت محفوظ ہوجاٸے گی۔ اس لۓ کہ دیگر بہت سے اکابرین کے خطوط آپ کے نام اور آپ کے خطوط ان اکابرین کے نام ہے۔ چونکہ آپ سراج الامت کے خلیفہ اور صاحب تقوی ہونے کی وجہ سے بزرگوں کے معتمد رہے ہیں، جیسا کہ جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاد مولانا ڈاکٹر محمد اویس عالم قاسمی رحمہ اللہ، تذکرہ مولانا محمد عثمان میں لکھتے ہیں کہ :


جناب الحاج ماسٹر محمد قاسم صاحب جو صاحب صلاح و تقوی ہیں اور علوم عصریہ سے وابستگی کے باوجود بزرگوں کے معتمد ہیں، اس کے (مدرسہ اشرفیہ عربیہ) ناظم ہیں، ماسٹر موصوف ایک عرصے تک مدرسہ رحمانیہ سپول (دربھنگہ) میں مدرس بھی رہے، اور حضرت مولانا الحاج سراج احمد صاحب امروہی کے مجاز بھی ہیں“۔


ان ”متعمد بزرگوں“ میں خانوادہ عارفی و ہرسنگھ پوری، مدرسہ رحمانیہ سپول، جامعہ رحمانی مونگیر، امارت شرعیہ اور سلسلہ حکیم الامت کے دیگر بزرگوں، اکابر اور مشاہیر کی ایک طویل فہرست ممکن ہے۔


ان سب کی جمع و تدوین اور ترتیب وتہذیب کی سنجیدہ کوشش جاری ہے اور ایک سعادت مند عالم، مدرسہ سراج العلوم ککوڑھا، دربھنگہ کے بانی و مہتمم مفتی اختر رشید قاسمی مدظلہ کے بحسن وخوبی اسے انجام دے رہے ہیں،


حضرت مفتی صاحب ایک اچھے اہل قلم اور تصنیف و تالیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں، آپ کے پاس اب تک پانچ سو کے قریب خطوط اکٹھا ہو چکے ہیں، جن میں اکثر خطوط اپنے شیخ و مرشد سراج الامت نوراللہ مرقدہ کے نام ہیں، اور کچھ مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ و دیگر مشاہیر و اکابر علما وبزرگوں کے نام ہے۔


یہ زیر ترتیب کام کا اکثر حصہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اس عظیم کام کے بعد حضرت ماسٹر صاحب مدظلہ باطنی و روحانی فیض سے ایک عالم مستفیض ہوسکے گا اور بہت سے فضلاۓ مدارس کے لۓ نشان عبرت بھی، کہ کیسے ایک عصری تعلیم یافتہ شخص نے اپنی صلاح وتقوی سے ایک عالم کو سیراب کیا ہے اور آپ کی سوانح حیات پر کام کرنا بھی آسان ہوجاۓگا، اس کے بعد جو آپ کی دینی خدمات جلیلہ اصل محور ہے وہ مدرسہ اشرفیہ عربیہ، جسے آپ نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور آپ کے لۓ عظیم توشہ آخرت ہے، اس کی 66 سالہ تاریخ کی ترتيب بھی آپ کے لۓ بہترین خراج تحسين اور آپ کے محبین و متوسلین عظیم تحفہ ہوگا۔حق جسے توفیق بخشے، اللہ تعالی آپ کا سایہ تادیر قاٸم فرمائے اور آپ کا فیضان جاری رکھے ۔ آمین ثم آمین۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد سرفراز عالم قاسمی

اسسٹنٹ پروفيسر،

ایم۔ٹی۔ٹی۔کالج، مدھے پور، مدھوبنی۔

mdsarfarazalam66@gmail.com

محرم الحرام:اسلامی نقطۂ نظر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


                 محرم الحرام:اسلامی نقطۂ نظر
   مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


دیکھتے دیکھتے ۱۴۴۱ھ گذر گیا اور ہم لوگ ۱۴۴۲ھ میں داخل ہوگئے، یعنی سال گذر گیااور نئے سال کے سورج نے ہماری زندگی کے مہ وسال سے ایک سال کم کر دیا، اس کا مطلب ہے کہ ہم موت سے اور قریب ہو گیے، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی ”رب مانی“ گذرے گی، ”من مانی“ ہم نہیں کریں گے، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں، وہ رب کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔

 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں،بھلا،بڑے پیر، ترتیزی، شب برأت، خالی، عید، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر، ربیع الاول، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ، جمادی الآخر، رجب، شعبان، رمضان، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں  ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔

 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح،عام الفیل، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مجلسِ  شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔

 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے خاص حرمت کے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے، پھر حضرت ابو ذر غِفاری ؓ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔ 

 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینیؒ کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا، نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے۔ 

یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین ؓ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں صراحت ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے، ہمیں تومُردوں پر بھی ماتم کرنے، گریباں چاک کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔

اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہیں یاعلی، یا حسین ؓ یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے، حضرت علی کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد ِرسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے اس طرح لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں،اڑائی جاتی ہیں اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔

جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر،بھالے، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔امسال لاک ڈاؤن اور سرکاری پابندیوں کی وجہ سے جلوس نکالنا شاید ممکن بھی نہ ہو، لیکن یہ روک اضطراری ہے، ہمیں اختیاری طور پر ایسے تمام اعمال سے گریز کرنا چاہیے جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں ہیں۔  (بشکریہ نقیب)

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...