Thursday 29 October 2020

سیرت پاک میں علم وحلم کا مقام،مفتی محمد ثناءالھدی قاسمی نائب ناظم امارت شریعہ

سیرت پاک میں علم وحلم کا مقام،مفتی محمد ثناءالھدی قاسمی نائب ناظم امارت شریعہ   


اللہ رب العزت نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لئے رسول بنا کر بھیجا, اور آپ کی رحمت کو اس قدر عام کر دیا کہ آپ رحمۃ للعالمین قرار پائے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تمام انس وجن کے لیے نمونہ عمل بنا دیا, چونکہ نبی اور رسول کے اعمال وعقائد, معاملات وتعلقات کی نگہبانی منجانب اللہ کی جاتی ہے, اس لیے وہ پیدائشی طور پر معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں, اسی وجہ سے ان سے اعلان نبوت ورسالت سے پہلے بھی کوئی ایسا کام نہیں ہوتا جو عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کے خلاف ہو, اس بنیاد پر نبی ورسول کی زندگی اسوہ قرار پاتی ہے اور اعلان نبوت سے پہلے کی زندگی بھی مثالی ہوتی ہے, اور اس طرح پاک وصاف ہوتی ہے کہ اس کی پیروی کی جا سکتی ہے।

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا تھا جب آدم علیہ السلام تخلیق کے مرحلے سے گذر رہے تھے, پھر آپ کی ولادت با سعادت ہوئی, جو انسانوں پر اللہ کا بڑا فضل تھا, سن شعور تک پہونچنے کے بعد آپ نے ذکر وفکر اور یاد الہی کے لیے غار حرا کا رخ کیا, جہاں خلوت تھی, تنہائی تھی, رب کائنات کی نوازش تھی, انعامات تھے, ان دنوں اللہ رب العزت کی جانب سے آپ کی ذہنی اور جسمانی نشوو نما, وحی الہی کے بوجھ کو بر داشت کرنے کے لیے کی گئی, اس کے باوجود جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور خوف نے آپ کے دل ودماغ کو ہلا کر رکھ دیا, زملونی, زملونی کی صدا سے یہی سمجھ میں آتا ہے , اور یا ایھا المزمل, یا ایھا المدثر کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس خوف وہراس کے ماحول سے نکال کرآپ کو کار نبوت کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا, اور آپ ایک داعی کی حیثیت سے سر گرم عمل گو گیے گ

یوں تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لیے قیمتی ہے، لیکن جب غار حرا میں آپ پر نزول قرآن کا آغاز ہوا، اور آپ وہاں سے نکل کر باہر آئے تو امت کے لیے اقراء کا پیغام لے کر آئے، علم کا وہ تصور جو اللہ رب العزت کی معرفت عطا کرے اور زندگی کے کسی حصے میں انسان کا رشتہ رب سے نہ ٹوٹے، یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ جہالت کی تاریکیاں دور ہوں گی اور علم کے نور سے دنیا منور ہوگی، اللہ رب العزت نے آپ کو اُمی بنایا کرسارے علوم وتحقیقات کے دروازے آپ پر کھول دیئے، خاندان، پڑوس، سماج اور ملک کے تئیں جو ذمہ داریاں اور حقوق ہیں، ان تمام سے نہ صرف واقف کرایا؛ بلکہ عمل کرکے دکھایا، علم وعمل کا ایسا حسین سنگم کسی اور کی زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتا، اللہ رب العزت نے بکریاں چرانے، مزدوری کرنے، صلح صفائی کرانے، جہاں داری اور جہانبانی کرنے کے علوم وفنون سے آپ کو آراستہ کر دیا، کام بہت سارے تھے، اوصاف بھی بہت تھے،لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تعارف معلم کی حیثیت سے کرایا، اور یہ بھی واضح کر دیا کہ میں کتابوں کے جامد حروف والفاظ پڑھانے والا معلم نہیں ہوں، بلکہ ان الفاظ کے پیچھے چھپے معانی  وحقائق کو عملی زندگی میں اس طرح رائج کرنے والا ہوں کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج واشاعت ہو اورانسان آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے، قرآن کریم نے علم والوں کے فضائل بیان کیے اور واضح کر دیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے، جس طرح اندھیرا اور اجالا برابر نہیں ہے، دن، رات برابر نہیں ہیں، اعلان یہ بھی کیا گیا کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں، ان کے اندر معرفت رب ہوتا ہے جو ان کو خودشناشی اور خدا شناشی پر آمادہ کرتا ہے، یہ معرفت خدا وندی انسانی زندگی کو ایسے معتدل اور متوازن راہ پر ڈالتی ہے کہ ہر دو جہاں میں فوز وفلاح کے دروازے کھلتے ہیں، اس طرح دیکھیں تو غار حرا کاپہلا سبق اور امت کے لیے پہلا تحفہ تعلیم ہے، اور یہ امت تعلیم کے نام پر ہی اٹھائی گئی ہے، اس پہلے تحفہ سے مسلم سماج کی بے اعتنائی سے ہم سب واقف ہیں، آج صورت حال یہ ہے کہ جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے، وہاں تعلیم کا گراف خطرے کے نشان سے بہت اونچا ہو گیا ہے، مسلم بچے، بچیاں زری کے کارخانوں میں لگے ہوئے ہیں، ہوٹل میں بیرے کا کام کر رہے ہیں اور کچڑے کے ڈھیر سے ردی چننے میں لگے ہیں، ان کا لڑکپن اس طرح تباہ ہو رہا ہے؛ بلکہ تباہ کیا جارہا ہے، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کی بھیڑ کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ملت پڑھ رہی ہے، یہ بہت معمولی تعداد ہے جو مدارس کی چٹائی اور اسکول کے بینچ پر آپ کو نظر آرہی ہے، جب تک ہم بھینس کی پیٹھ سے بچوں کو اتار کر تعلیم گاہوں میں نہیں لاتے، بیرے کے کام کو چھڑوا کر پڑھنے میں نہیں لگاتے، بال مزدوری سے انہیں نہیں بچاتے،ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملت پڑھ رہی ہے، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اثرات اپنے وسائل، اپنی طاقت وتوانائی علم کے فروغ میں لگائیں اور اس راہ کی دشواریاں دور کرنے کے لیے جد وجہد کریں یہ ہمارا اسلامی اور ایمانی تقاضہ بھی ہے اور مذہبی فریضہ بھی۔

دوسری چیز جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات مبارکہ میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اور جس کے ذریعہ آپ نے مشکل حالات، مصائب وپریشانیوں کا مقابلہ کیا وہ آپ کی قوت برداشت، عفو ودر گذر، صبر وطمانیت ہے، زندگی کا ہر لمحہ صفت حِلم سے متصف اور مزین ہے، ہمیں سیرت کا مطالعہ اس نہج سے کرنا چاہیے اور آج کے دور میں جب کہ برداشت کا مزاج ختم ہو تا جا رہا ہے، پہلے سے کہیں زیادہ اس حوالہ سے سوچنے، سمجھنے پڑھنے اور بتانے کی ضرورت ہے۔ 

یاد کیجئے،جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار کوہ صفا سے آواز لگائی تو ابو لہب نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا، طائف کی گلیوں میں جن مراحل سے آپ کو گذرنا پڑا، کعبۃ اللہ میں نماز پڑھتے وقت جس طرح گلے میں پھندا ڈالا گیا، راستوں میں کانٹے بچھائے گیے اور جسم اطہر پر اوجھ اور غلاظت ڈالی گئی، عرب کی روایت کے خلاف عمرہ کی ادائیگی کے بغیر حدیبیہ سے آپ کی واپسی ہوئی، کفار مکہ کی شرطوں پر صلح حدیبیہ انجام پذیر ہوا، لیکن آپ نے حلم وبردباری کا دامن کہیں اور کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، خدائی مدد کے باوجود آپ نے ان کے لیے بد دعائیں نہیں کیں، زبان مبارک سے جاری ہونے والے کلمے آج بھی رکارڈ ہیں، اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے نہیں جانتے اور امید بھرے یہ جملے بھی کہ ابھی یہ ایمان نہیں لائے، شاید ان کی نسلوں میں کوئی ایمان لے آئے، اس تحمل اور برداشت نے تپ تپا کر وہ ماحول بنا دیا کہ اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا وہ لوگ جو اسلام کے ماننے والے کو باپ دادا کے دین سے منحرف سمجھتے تھے، اسلام کی عظمت کو سمجھنے لگے اور اسلام ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔

خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تحمل اور برداشت بزدلی نہیں ہے، یہ کام کی حکمت عملی ہے، اس کے ساتھ اللہ کی نصرت اور مدد آتی ہے، اللہ رب العزت نے خود ہی اعلان کر رکھا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، واقعہ یہ ہے کہ تحمل اور برداشت کمزورلوگوں کا کام نہیں ہے، اس کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے، آج سماج میں اس کی کمی ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا خاندان ہمارا پڑوس اور سماج سب ہم سے پریشان ہے، بات بات پر بھڑک جانا، ہماری عادت بن گئی ہے، نئی نسلوں میں یہ بیماری زیادہ عام ہو گئی ہے، اس لیے بڑے بوڑھے بھی ان سے ایک فاصلہ بنائے رکھتے ہیں، پتہ نہیں کب وہ بھڑک جائیں، ان کی مثال پٹرول کی ٹنکی کی طرح ہو گئی جو جلد آگ پکڑ لپٹی ہے اور سب کچھ جلا کرچھوڑ تی ہے اسی لیے پٹرول ٹنکی پر (Keep Distence)فاصلہ بنائے رکھیے، لکھا ہوتا ہے۔ ربیع الاول کے اس مہینے میں ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ”حلم“ (برداشت) اور محنت کے خصوصی میدان ”علم“ کی ترویج واشاعت پر خصوصی توجہ دی جائے؛ تاکہ امت مسلمہ کی ترقی سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں ہو سکے۔

(بشکریہ نقیب)

Wednesday 28 October 2020

मतदान में मातम ,बिहार विधानसभा पहली चरण के दो अलग-अलग जिलों में दो व्यक्तियों की मौत

 

बिहार विधानसभा पहली चरण के  दो अलग-अलग जिलों में दो व्यक्तियों की मौत



नवादा.  वैश्विक महामारी पूर्णा  तो पूरे विश्व में तबाही मचा रहा है इसी के बीच बिहार विधान सभा  भी चल रहा है इसी बीच आज  नवादा और होता जिला के  पहले चरण के चुनाव में दो अलग-अलग व्यक्तियों का मृत्यु हो गया!खबर  बिहार के नवादा और रोहतास से आ रही है जहां वोटिंग (Bihar Election Voting) के दौरान एक पोलिंग एजेंट और मतदाता की मौत हो गई है. पहली घटना नवादा (Nawada) जिले के हिसुआ के फुलमा बूथ की है, जहां मतदान के दौरान ही पोलिंग एजेंट ने दम तोड़ दिया.

वही जानकारी के मुताबिक कृष्णा सिंह नाम के एजेंट को मतदान के दौरान ही हार्ट अटैक आया जिसके बाद उनको इलाज के लिए सदर अस्पताल में भर्ती कराया गया लेकिन इलाज के दौरान ही कृष्णा सिंह की मौत हो गई. सीने में अचानक हुए दर्द से जब उन्हें सदर अस्पताल में भर्ती कराया गया तो डॉक्टरों ने उन्हें मृत घोषित कर दिया. इस घटना के बाद पूरे परिवार में मातम छा गया है वहीं शव को सदर अस्पताल ले जाया गया है.

मौत की घटना रोहतास की है जहां वोट देने आए एक वोटर की मौत हो गई. मृतक की पहचान 65 वर्ष के हीरा महतो के तौर पर हुई है. घटना जिले के संझौली के मध्य विद्यालय उदयपुर की है जहां हीरा मतदान केंद्र संख्या 151 पर वोट देने आये था और उनकी मौत हो गई. बताया जाता है कि जब वो मतदान के लिए कतार में थे उसी दौरान बेहोश होकर गिर गए. जब तक लोगों को कुछ समझ में आता हीरा लाल की मौत हो चुकी थी. हीरालाल 65 वर्ष के थे और किसान थे. पुलिस ने इस घटना के बाद शव को अपने कब्जे में लेकर पोस्टमार्टम के लिए सदर अस्पताल भेज दिया है.

बिहार में पहले फेज की वोटिंग के लिए 16 जिलों की 71 सीटों पर वोट डाले जा रहे हैं. सुबह 9 बजे तक मतदान की रफ्तार काफी धीमी है और लोग धीरे-धीरे अपनी सुविधा और कोरोनावायरस के खतरे का ख्याल रखते हुए बूथों तक अपना मत डालने के लिए जा रहे हैं.

Tuesday 27 October 2020

الیکشن کا پہلا چرن

      الیکشن کا پہلا چرن





آج 28/ اکتوبر ھے ،آج 28/ اکتوبر کو بہار میں

 پہلا الیکشن ھوگا،پھر  3/ نومبر کو دوسرا اور 7/ نومبر کو تیسرا ۔ اس لئے آج بہار کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ پیش ھے ۔بہار کی موجودہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کے موقع پر  چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا جو نیا اتحاد بنا ھے،بہار کی عوام  ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے نہ کام سے واقف ہیں اور نہ نام سے۔ یہ پارٹیاں صرف فیلڈ بنانے کے لئے بہار کے الیکشن میں آگئی ھیں،جبکہ  دانشوروں کے مطابق یہ نازک وقت اس کام کے لئے مناسب نہیں ھے ، اس کی وجہ سے بی جے پی کے لئے راستہ ھموار ھوتا صاف نظر آرہا ھے ،بی جے پی کا اپنا کیڈر ووٹ ھے ،وہ بہت مضبوط ہے،وہ منتشر نہیں ھوگا، البتہ برادران وطن کا وہ ووٹ منتشر ھورہا ھے، جو ووٹ بی جے پی کو نہیں جا تا ھے ،اور مسلم سماج کا ووٹ منتشر ھورہا ھے،  اس طرح سیکولر برادران وطن اور مسلمانوں کا ووٹ بری طرح تقسیم ھورہا ھے، اس کا فائدہ بی جے پی کو ھورہا ھے، اس لئے ضرورت اس بات کی ھے کہ مسلم اور سیکولر برادران وطن کے ووٹ کو تقسیم ھونے سے بچایا جائے، ورنہ بہار کو یوپی جیسا اسٹیٹ بنانے میں کسی نہ کسی طرح  ھم بھی حصہ دار سمجھے جائینگے،خدا نخواستہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار حاصل ھوگیا تو بہار کا امن و سکون بھی ختم ھو جائے گا، یہ فرقہ پرست لوگ ابھی سے اعلان کر رھے ھیں کہ پورے ملک میں جلد  سی اے اے نافذ کیا جائے گا، مدارس ملحقہ کو اسکول میں تبدیل کیا جائے گا،پھر کہیں گے کسی مدرسہ میں دینی تعلیم نہیں ھوگی،دین و شریعت کے خلاف زہر افشانی کرینگے،ملک کے دستور کو تبدیل کرینگے،ان خطرات سے بچنے کے لئے ووٹ کو تقسیم ھونے سے بچانا ھماری بھی ذمہ داری ھے ،بہار کے اضلاع کے سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کا  یہی تجزیہ ھے کہ بہار الیکشن میں سیدھا مقابلہ بی بے پی اور مہا گٹھبںدھن کے درمیان ھے،دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی وجہ سے ووٹ تقسیم ھورہا ھے،اس لئے ھماری حکمت عملی یہ ھو کہ ھم ووٹ کو تقسیم ھونے سے بچائیں،اور سیکولر پارٹیوں کے جیتنے والے امیدوار کو ووٹ دے کر جیت دلائیں، ووٹ آپ کا دستوری حق ھے ،اس کا استعمال ضرور کریں،اس کا استعمال صحیح امیدوار کے انتخاب کے لیے کریں،صحیح پارٹی اور امیدوار کا انتخاب کرکے اپنی حفاظت کریں اور ملک کے دستور کی حفاظت کریں،

Sunday 25 October 2020

وزیر اعظم نے کی ملک میں بھائی چارے کی اپیل، پروگرام'' من کی بات سے'

   وزیر اعظم نے کی ملک میں بھائی چارے کی اپیل، پروگرام'' من کی بات سے''



نئی دہلی: وزیراعظم نریندر مودی نے آج ملک کے عوام سے کہا کہ منفی حالات میں بھی جوش اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے سبھی کو 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے خوبصورت رنگوں سے ملک کے اتحاد کو مضبوط بنانا ہے

 ۔مسٹر مودی نے آج یہاں اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام من کی بات میں ملک کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا ملک 31 اکتوبر کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش کو قومی یوم اتحاد کے طورپر منائے گا۔ سردار پٹیل کا شمار ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جن میں ایک ساتھ متعدد خوبیاں موجود تھیں،

جیسے خیالات کی گہرائی ، اخلاقی ہمت،سیاسی سمجھ بوجھ ،زرعی شعبہ کی گہری سمجھ اور قومی اتحاد کے تئیں ان کا جذبہ قربانی۔ سردار صاحب کی ایک اور خوبی تھی کہ وہ منفی حالات میں بھی ہمت اور حوصلے سے بھرے رہتے تھے ۔ انہوں نے کہا،''ذرا اس فولادی شخص کی شبیہ تصور کیجئے جو شاہی خاندانوں سے بات کررہے تھے ،عزت مآب باپو کی عوامی تحریک کا انتظام کررہے تھے ،ساتھ ہی ،انگریزوں سے لڑائی بھی لڑرہے تھے اور ان سب کے درمیان بھی،ان کی سمجھ پوری آب وتاب میں ہوتی تھی۔ اس میں ہمارے لئے بھی ایک سیکھ ہے ،حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں،اپنی سمجھ بوجھ کو زندہ رکھئے ،یہ ہمیں پرسکون تو رکھے گی ہی ،ہم اپنے مسئلوں کا حل بھی نکال پائیں گے ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے صدیوں سے مسلسل یہی کوششیں کی ہیں'' ۔

BJP के विधायकों को, मोतिहारी मुजफ्फरपुर नौतन के के ग्रामीण जनता ने खदेड़ा और कई तीखे सवाल किए

BJP के विधायकों को, मोतिहारी मुजफ्फरपुर नौतन के  के ग्रामीण जनता ने खदेड़ा और कई तीखे सवाल किए

बिहार में चुनावी दौर अपनी पूरी जवानी पर है वही भारतीय जनता पार्टी और जेडीयू के विधायक को काफी मशक्कत करनी पड़ रही है 

मुजफ्फरपुर जिला के गुढनी प्रखंड में भारतीय जनता पार्टी के विधायक को लोगों ने खदेड़ा तो एक महिला ने उन्हें बुरा भला भी कह डाला 

 कुछ दिन पहले भारतीय जनता पार्टी के  बिधायक  मोतिहारी में वोट मांगने गए थे तो युवा शक्ति के नाम से जर्सी  पहने लोगों ने उन्हें खदेड़ा और बहुत बुरा भला कहा

 और नाली जैसी स्थिति वाली रोड में गाड़ी चलाने को कहा लेकिन विधायक जी वहां से भागने में ही भलाई समझें

 वही नौतन विधानसभा क्षेत्र के नारायण सा को भी क्षेत्र भ्रमण के दौरान लोगों ने गो बैक के नारे लगाते हुए कई सारे तीखे सवाल किए


 देखने वाली बात है कि आगामी चुनाव में यह विरोध भारतीय जनता पार्टी के लिए मील का पत्थर साबित होगा या फिर एनडीए सरकार में लौट जाएगी लेकिन एक बात तो तय है कि बिहार में अभी बदलाव की बयार बह रही है और राष्ट्रीय जनता दल काफी भीड़ जुटाने में सफल हो रही है लेकिन क्या यह भिड़ को वोट  में तब्दील करना इतना आसान होगा  या आने वाला समय बताएगा वही मीडिया के तंत्र ने एनडीए सरकार को बहुमत दिलाने के लिए ओपिनियन पोल का पिटारा खोल दिया है

बिहार चुनाव के लिए समर्थन मांगने पहुंच रहे कई जनप्रतिनिधियों को जनता के गुस्से का सामना भी करना पड़ रहा है। ऐसा ही एक मामला मुजफ्फरपुर के कुढ़नी इलाके के एक गांव का सामने आया है। जहां भाजपा विधायक केदार प्रसाद गुप्ता की प्रचार गाड़ी पहुंची, तो गांव के लोग खासकर महिलाएं भड़क गए और उन्होंने गाली-गलौज कर प्रचार गाड़ी को वापस लौटने पर मजबूर कर दिया। इस घटना का वीडियो भी सामने आया है।

दरअसल भाजपा विधायक केदार प्रसाद गुप्ता की प्रचार गाड़ी गांव में पहुंची थी। जैसे ही गाड़ी गांव में दाखिल होने लगी तो गांव के लोग गाड़ी के सामने आ गए और गालियां देकर उसे वापस जाने को कह दिया। कई महिलाएं गाड़ी के पास पहुंचकर भाजपा विधायक के खिलाफ भला-बुरा कहने लगीं।


महिलाओं का कहना था कि पांच साल में अब वोट मांगने के समय उन्हें फिर से हमारी याद आयी है, लेकिन अब तक हमारी कोई सुध नहीं ली।

लोगों का गुस्सा देखकर ड्राइवर ने गाड़ी घुमा ली और वापस जाने लगा तो लोगों की भीड़ ने गुस्से में गाड़ी पर लगे पोस्टर फाड़ डाले। बता दें कि यह बिहार चुनाव में यह पहली घटना नहीं है, जब किसी जनप्रतिनिध को जनता के गुस्से का सामना करना पड़ा है। इससे पहले बीते हफ्ते ही जहानाबाद विधानसभा सीट से राजद उम्मीदवार सुदय यादव को भी जनता के गुस्से से दो चार होना पड़ा था।

दरअसल राजद विधायक सुदय यादव जहानाबाद के रतनी प्रखंड के मुरहारा गांव में प्रचार के लिए पहुंचे थे। लेकिन वहां गांव के लोगों ने विधायक के खिलाफ नारेबाजी करनी शुरू कर दी और विधायक और उनके समर्थकों को गांव से खदेड़ दिया। दरअसल स्थानीय लोग गांव की सड़क ना बनाए जाने से नाराज थे, जिसका वादा कथित तौर पर विधायक द्वारा किया गया था।

इसी तरह जदयू विधायक सत्यदेव कुशवाहा को भी जनता ने इसी तरह नाराजगी में गांव से लौटा दिया था। दरअसल सत्येदव कुशवाहा अरवल जिले के कुर्था विधानसभा सीट से प्रत्याशी हैं। जब वह इलाके के एक गांव में प्रचार के लिए पहुंचे तो वहां के लोगों ने विधायक को घेर लिया और उन्हें इलाके में कोई विकास कार्य ना कराने पर आड़े हाथों ले लिया। लोगों के गुस्से को देखते हुए विधायक सत्यदेव कुशवाहा वहां से चुपचाप निकल गए।


Saturday 24 October 2020

بہار الیکشن:”مہیشی“سیٹ کا انتخابی منظرنامہ ۔۔

  بہار الیکشن:”مہیشی“سیٹ   کا انتخابی منظرنامہ ۔۔

                                             محمد سرفراز عالم قاسمی

اسسٹنٹ پروفيسر، ایم ٹی ٹی کالج مدھے پور، مدھوبنی۔۔




ضلع سہرسہ کی مہیشی حلقہ اسمبلی ایم واٸ سمی کرن کی وجہ سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ 1977 سے 2008 تک اس حلقے شامل علاقوں کی ہیٸت دیگر تھی، مگر 2008 کے اسمبلی حلقوں کی تشکیل جدید کے بعد اس کا دائرہ کار میں بھی قدرے تبدیلی آٸ، فی الحال اس اسمبلی سیٹ میں مہیشی، نوہٹہ، اور ستر کٹیہ بلاک کے 40 سے زائد گرام پنچایت کے 2 لاکھ 72 ہزار سے زیادہ ووٹرس ہے۔ جن میں 51.53 فیصد مرد جبکہ 48.47 فیصد خواتین شامل ہیں۔


یہاں تیسرے مرحلے میں 7 نومبرکو ووٹنگ ہوگی، جب کہ نتائج 10 نومبر کو آویزاں کۓ جاٸنگے۔


 اس حلقے سے گزشتہ بیس سالوں سے راشٹریہ جنتا دل کے بانیوں اور معماروں میں سے ایک، قدآور قاٸد اور سابق وزیر، ڈاکٹر عبدالغفور صاحب ممبر اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ جنوری 2020 میں ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد یہ سیٹ خالی ہوگٸ تھی، یہاں کے لوگوں کو یہ امید تھی کہ ان کے صاحبزادے محمد عبدالرزاق کو یہاں سے ٹکٹ ملے گا، مگر ایک بار پھر برق گری صرف اس علاقے کے بے چارے مسلمانوں پر، اور ایسا نہیں ہوا، اور اس سیٹ کی سودے بازی اور خرید و فروخت کی بازگشت اور قصے کہانیوں کے بیچ ضلع سھرسہ کے نوہٹہ بلاک ‏کے بلاک ڈپلوپمینٹ آفیسر (BDO) ڈاکٹر گوتم کرشنا کو عظیم اتحاد سے راشٹریہ جنتادل کا کا ٹکٹ مل گیا، اور مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی حمایت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے محمد عبدالرزاق نے لوک جن شکتی پارٹی (LJP) جوائن لی، یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہاں  ایم واٸ سمی کرن کا منظر بگڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔


ڈاکٹر عبدالغفور اور مہیشی سیٹ۔


ڈاکٹر عبدالغفور صاحب گزشتہ بیس سالوں تک اس سیٹ کی نماٸندگی کرتے رہے ہیں اور بالترتیب  1995، 2000، 2010 اور 2015 میں اس علاقے سے منتخب ہوتے رہے ہیں، ڈاکٹر صاحب کوسی اور بلواہا ندی کے بیچ میں واقع ضلع سہرسہ کے مہیشی بلاک کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”بھلاہی“ میں 5 مٸی 1959 کو ایک کسان گھرانے میں، محمد جمال اور بی بی فاطمہ کے گھر پیدا ہوئے، 1974 میں اسلامیہ ہائی اسکول سمری بختیار پور، سہرسہ سے میٹرک اور 1976 میں سینئر سیکنڈری پاس کی اور 1979 میں سہرسہ کالج سے بی اے پاس کیا اور اس کے بعد پٹنہ چلے گئے اور پٹنہ یونیورسٹی سے 1981 میں ایم۔اے، (اردو) اور اس کے بعد پی۔ایچ۔ڈی، (اردو) کی ڈگری حاصل کی اور پی ایس کالج مدھے پورہ میں 1982 سے بحیثیت اردو لکچرر بحال ہوۓ،


 پہلا اسمبلی الیکشن 1995 میں جنتا دل (JD) کے ٹکٹ پر جیتے جب کہ اس کے بعد دوسرا 2000، تیسرا 2010 اور چوتھا 2015 میں راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے ٹکٹ پر فتح سے ہمکنار ہوۓ، اور 20 نومبر 2015 سے 26 جولائی 2017 تک آرجے ڈی، جے ڈی یو اور گانگریس کے مہاگٹھ بندھن کی نتیش کمار سرکار میں وزیر اقلیتی امور بھی رہے۔ 28 جنوری 2020 کو 60 سال کی عمر میں نٸ دہلی میں انتقال کرگئے۔ 29 جنوری کو اپنے آبائی وطن ”بھلائی“ میں کثیر مجمع کے ساتھ نماز جنازہ کے بعد سرکاری اعزاز و اکرام کے ساتھ مدفون ہوۓ۔


2015 کے اسمبلی انتخاب میں ڈاکٹر صاحب نے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (RLSP) کے چندن کمار ساہ کو 26 ہزار تین سو ایک ووٹوں سے شکست دی تھی، جب کہ 2010 کے اسمبلی الیکشن میں ڈاکٹر صاحب نے جنتا دل یونائیٹڈ (JDU) کے راج کمار ساہ کو بہت ہی قریبی مقابلے میں ایک ہزار چار سو سترہ ووٹوں  سے ہرایا تھا.


فروری 2005 کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب، آزاد امیدوار سریندر یادو سے 14 ہزار 927 ووٹوں سے ہار گئے تھے، اور 25 ہزار 489 کل (25.2) فیصد ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے تھے، مگر کسی کی بھی پارٹی کی سرکار نہیں بن سکی اور صدرراج نافذ ہوگیا پھر چھ مہینے کے بعد دوبارہ اکتوبر 2005 میں الیکشن ہوا،  مگر اس بار راشٹریہ جنتا دل (RJD) نے اپنے امیدوار تبدیل کر دئیے اور ڈاکٹر صاحب کے بجائے بحیثت آزاد امیدوار فتح یاب سریندر یادو کو ٹکٹ دیا، مگر وہ بھی جنتادل یوناٸیٹیڈ (JDU) کے گنجیشور یادو سےتقریبا 7 ہزار ووٹوں سے ہار گیۓ۔


2000 کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب نے جنتا دل یونائیٹڈ (JDU) کے سریندر یادو کو 17 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا تھا، جبکہ 1995 میں کانگریس کے لہٹن چوھدری کو تقریبا 15 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔


اس مرتبہ 2020 کے الیکشن میں مہا گٹھ بندھن سے راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے ٹکٹ پر ڈاکٹر گوتم کرشنا میدان میں ہیں، ڈاکٹر کرشنا، ضلع سہرسا کے نوہٹہ بلاک کے بلاک ڈپلومینٹ آفیسر تھے، استعفی دیکر سیاست میں آۓ ہیں۔ 2015 میں جن ادھیکار پارٹی لوک تانترک (JAPL) کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزما کر، 19 ہزار 958 کل (13.71) فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔


وہیں دوسرے امیدوار، بی جے پی کے اتحاد سے جنتا دل یو نائیٹڈ (JDU) کے ٹکٹ پر گنجیشور ساہ میدان میں ہیں، اور تیسرے، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (RLSP) سے جیشو سنگھ ہیں۔  جب کہ چوتھے ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے محمد عبدالرزاق لوک جن شکتی پارٹی (LJP) سے اپنی قسمت آزمارہے ہیں، یہاں ایم وائ سمی کرن جیت میں بہت اہم معنی رکھتا، مگر ابھی تک مسلم ووٹ، عبدالرزاق کے حق میں اور یادوں ووٹ گوتم کرشنا کے لیے تقسیم ہوتا دیکھ رہا ہے، ایسی صورت میں این ڈی اے کا یہاں سے سیٹ نکنا کوٸ بعید نہیں ہے، امید ہے کہ یہاں کے مسلمان حکمت عملی سے کام لیں گے اور عبدالرزاق کے بجاۓ مہا کٹھ بندھن کے حق میں یک طرفہ ووٹ کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

दरोगा इंतेशाजार अली की दाढ़ी कटवाने के बाद फिर से वापसी

 दरोगा इंतेशाजार अली की दाढ़ी कटवाने के बाद फिर से वापसी

UP, उत्तर प्रदेश के बागपत जिले के रमाला थाने में तैनात रहे दारोगा इंतसार अली ने शनिवार को अपनी दाढ़ी कटवा ली और एसपी के सामने पेश हुए. इस दौरान उन्होंने विभाग के नियमों का पालन करने की बात कही, जिसके बाद एसपी ने दारोगा का निलंबन बहाल कर दिया.


की गई थी निलंबन की कार्रवाई

एसपी बागपत ने विभाग की अनुमति के बगैर दाढ़ी रखने पर दारोगा इंतसार अली को 20 अक्टूबर को निलंबित कर दिया गया था. चूंकि वो तीन बार हिदायत देने के बावजूद भी अपनी दाढ़ी नहीं कटवा रहे थे. यानी उनके निर्देशों का पालन नहीं कर रहे थे इसलिए उनके खिलाफ निलंबन की कार्रवाई की गई थी.



एसपी ने बहाल किया निलंबन

उधर, दारोगा का कहना था कि वो तीन बार एसपी और आइजी के सामने दाढ़ी कटवाने के लिए अनुमति का पत्र लेकर पहुंचे, लेकिन एक साल तक उस पत्र पर किसी ने ध्यान नहीं दिया था. शनिवार को दारोगा इंतसार अली ने अपनी दाढ़ी कटवा ली, जिसके बाद वो एसपी कार्यालय पहुंचे और एसपी के सामने पेश होकर अपना पक्ष रखा. विभाग के नियमों का पालन करने की बात कही, जिसके 



लंबित वेतन भुगतान की गुहार लगाने गई शिक्षिका से बेतिया डीईओ ने किया बदतमीजी!

 

लंबित वेतन भुगतान की गुहार लगाने गई शिक्षिका से बेतिया डीआईओ ने किया बदतमीजी!


अप्रैल महीने से ही शिक्षिका का वेतन है बंद!


फर्जी प्रमाण पत्र होने के लगाए गए हैं आरोप
बीपीएससी, से हुई थी बहाली लगभग  21 साल से कर रही है नौकरी



बेतिया पश्चिम चंपारण, शिक्षिका द्वारा बताया गया है कि बिहार विद्यालय शिक्षा समिति द्वारा उनके प्रमाण पत्र की जांच कर जिला शिक्षा पदाधिकारी  को बहुत पहले ही रजिस्ट्री द्वारा भेजा जा चुका है  लेकिन जिला शिक्षा पदाधिकारी मानने से कर रहे हैं इनकार
 शिक्षिका सीमू कुमारी ने टेलिफोन  से बात करते हुए यह भी बताया कि पदाधिकारी द्वारा सभी शिक्षाओं को साथ अभद्र टिप्पणि किया गया है जिसको  बताने मे भी शर्म  आ रही है!  और फूट-फूटकर रोने लगी
महिला शिक्षिका ने जिला शिक्षा पदाधिकारी पर दुर्व्यवहार का आरोप लगाते हुए जिला पदाधिकारी से कार्रवाई की मांग की है जिला पदाधिकारी को दिए गए आवेदन मध्य विद्यालय लाल बाजार बेतिया की प्रधानाध्यापिका सिमू कुमारी ने कहा है कि वह गुरुवार को अपने वेतन भुगतान वेतन के। संबंध में जिला शिक्षा पदाधिकारी से अनुरोध करने गइ थी इसी दौरान जिला शिक्षा पदाधिकारी विनोद कुमार विमल ने उनकी बातों को सुने बिना उनके साथ दुर्व्यवहार कर कार्यालय से बाहर कर दिया शिक्षिका सिमू कुमारी ने बताया कि डीआईओ के इस व्यवहार से हम काफी आहत मे हैं।
इस घटना के बारे  जिला प्राथमिक  शिक्षक संघ और बिहार स्टेट उर्दू  टीचर्स एसोसिएशन सहित कई और शिक्षक संगठनों ने कड़ी  शब्दों में निंदा की है
इधर डीआईओ ने कहा है कि शिक्षिका की ओर से उन पर लगाए गए आरोप बेबुनियाद है वेतन संबंधी समस्या को विभागीय कार्रवाई की जा रही है।

Friday 23 October 2020

रेलवे की बड़ी घोषणा, दिल्ली से चलेंगी 17 जोड़ी विशेष ट्रेन, देखें लिस्ट,

 रेलवे की बड़ी घोषणा, दिल्ली से चलेंगी 17 जोड़ी विशेष ट्रेनें , देखें लिस्ट,

स्पेशल ट्रेनों के नाम पर सरकार गरीब मजदूर देशवासियों से पैसे लूटने की तरकीब बना रखी है सोचने की बात है कि क्या स्पेशल ट्रेन चला देने से कोरोनावायरस नही होगा, वहीं पर जिन जिन राज्यों में चुनाव है वहां पर धड़ल्ले से बड़ी रैलियां की जा रही है उनके लिए किसी भी तरह की कोई पाबंदी नहीं है लेकिन फिर भी स्कूलों कालेजो मंदिरों मस्जिदों गिरजाओ पर पूरी तरह से अभी भी  पाबंदी है   सरकार इस तरह से गरीबों को और शोषण कर रही है  फिलहाल रेलवे ने 17 जोड़ी और स्पेशल ट्रेन चलाने की योजना बनाई है जिसकी की सूची निम्न है



गाड़ी संख्या 22805/22806 भुवनेश्वर-आनंद विहार टर्मिनल साप्ताहिक सुपरफास्ट एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 20503/20504 डिब्रूगढ़-नई दिल्ली राजधानी एक्सप्रेस (समस्तीपुर से)

गाड़ी संख्या 22439/22440 वंदे भारत एक्सप्रेस (नई दिल्ली - श्री माता वैष्णो देवी कटरा)

गाड़ी संख्या 20505/20506 डिब्रूगढ़-नई दिल्ली राजधानी एक्सप्रेस (बरौनी से)

गाड़ी संख्या 12247/12248 युवा एक्सप्रेस (बांद्रा टर्मिनस-हज़रत निज़ामुद्दीन)

गाड़ी संख्या 12001/12002 शताब्दी एक्सप्रेस (हबीबगंज-नई दिल्ली)

गाड़ी संख्या 12493/12494 दर्शन एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 22411/22412 अरुणाचल एसी सुपरफास्ट एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 22461/22462 श्री शक्ति एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 12263/12264 हज़रत निज़ामुद्दीन दुरंतो एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 12953/12954 अगस्त क्रांति राजधानी एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 12011/12012 कालका शताब्दी एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 12017/12018 देहरादून शताब्दी एक्सप्रेस

गाड़ी संख्या 12029/12030 स्वर्ण शताब्दी एक्सप्रेस (नई दिल्ली-अमृतसर)

गाड़ी संख्या 12985/12986 डबल डेकर एक्सप्रेस (जयपुर-दिल्ली)

गाड़ी संख्या 12281/12282 दुरंतो एक्‍सप्रेस (भुवनेश्वर-नई दिल्ली)

गाड़ी संख्या 12269/12270 दुरंतो एक्सप्रेस (चेन्नई-दिल्ली)

शिक्षकों के रिकॉर्ड की जांच एसटीएफ से कराने की तैयारी,

 

शिक्षकों के रिकॉर्ड की जांच एसटीएफ से कराने की तैयारी,

शिक्षकों को लेकर योगी सरकार सख्त कई बार निर्देश के बावजूद नहीं करा सके डाटा अपलोड अब करवाई की तैयारी, 

UP,संपदा पोर्टल पर सर्विस रिकार्ड की जानकारी अपलोड करने से आनाकानी करने वाले 248 शिक्षकों की जांच एसटीएफ करेगी। बेसिक शिक्षा विभाग ने इन शिक्षकों को चिंहित कर लिया है। साथ ही आखिरी बार 10 नवंबर तक रिकार्ड अपलोड करने का अल्टीमेटम दिया है।
तय समय तक जानकारी न देने वाले शिक्षकों को संदिग्ध माना जाएगा। साथ ही उनकी सूची बनाकर एसटीएफ को जांच के लिए भेजी जाएगी। शासन स्तर से इसे लेकर जारी आदेश गोरखपुर के बेसिक शिक्षा विभाग में भी पहुंच गया है।
जिले में 248 शिक्षकों ने अभी तक पोर्टल पर विवरण अपलोड नहीं कराया है। बेसिक शिक्षा विभाग में शिक्षकों के नौकरी से संबंधित विवरण को मानव संपदा पोर्टल पर अपलोड किया जाना है।
विभाग के मुताबिक पोर्टल पर विवरण अपलोड होने के बाद विभाग में फर्जी शिक्षकों की पहचान हो सकेगी। पोर्टल पर शिक्षकों, शिक्षामित्रों, अनुदेशकों व कर्मचारियों का विवरण अपलोड किया जाना है। पोर्टल पर विवरण अपलोड करने के लिए विभाग ने कई बार समय बढ़ाया। इसके बावजूद विवरण अपलोड करने को लेकर शिक्षक लापरवाही बरतते रहे। अब शासन ने इनसे सख्ती से निपटने का फैसला किया है।

Saturday 17 October 2020

عصر حاضر میں تعلیمات نبوی کی معنویت مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت

     عصر حاضر میں تعلیمات نبوی کی معنویت 
مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ 

اللہ  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث کیا ، بلکہ جب اس دنیا میں کوئی انسان نہیں تھا صرف آد م علیہ السلام تھے ، اس ایک انسان کو نبی بنایا ، دنیا آباد ہوتی گئی ، آبادیاں بڑھتی رہیں ، کائنات کا نظام وسیع ہوتا رہا اور اس وسعت کے حساب سے انبیاء ورسل بھیجے جاتے رہے ، تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب مختلف علاقوں کے لئے الگ الگ رسول بھیجے گئے ؛تاکہ وہ احکام الہی کو لوگوں تک پہونچائیں ،خود کرکے دکھائیں ، اور وہ لوگوں کے لیے آئیڈیل ہوں ، یہ احکام الہی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بھی رہیں ، اس لئے آسمانی کتابیں اور صحیفے بھیجے گئے ، ضرورت کے اعتبار سے یک بارگی یاقسطوں میں پھر ایک دور وہ آیا جب خالق کائنات نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر معبوث کیا ، کتاب اللہ کی شکل میں قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے دستور حیات بنا کر نازل کیااور عالم الغیب اور علیم بذات الصدور نے اس پورے نظام کی تکمیل کا اعلان کردیا ، اور نعمت باری کے اتمام کا مژدہ سنادیا ، رعایت قیامت تک آنے والے لوگوں کی ملحوظ رکھی گئی اور قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے تحریف وتبدیلی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا ۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو جامع کمالات اور صفات  کے ساتھ جوامع الکلم بنایا گیا اور ملفوظات نبوی بھی دین کا حصہ قرار پائے ، زبان نبوت سے یہ اعلان بھی کروادیا گیاکہ زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات وملفوظات  بھی وحی الہی سے ہی صادر ہوتے ہیں اور معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کی قرآن کریم کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی ۔اب یہ ساری تعلیمات قرآن و احادیث میں مذکور اور محفوظ ہیں ان تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اوراس نے ہر دور میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔جب جب ان تعلیمات سے انسانوں نے دوری اختیارکی ، انسانیت کراہنے اور سسکنے لگی، انسانوں کے خود ساختہ دستور ، قوانین اور نظام زندگی نے بنی نوع انسان کو سکون ، راحت و آرام پہونچانے کے بجائے اسے نت نئے مسائل اور پریشانیوں سے دوچار کیا ، موجودہ دور اس کی منہ بولتی تصویر اور عصر حاضر کے مسائل ومشکلات اس کی واضح مثالیں ہیں، ہرطرف افراتفری اور افراط وتفریط کی گرم بازاری ہمیں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہا ہے ، یہی ایک صورت ہے جس میں پریشان دنیا کا مداوا ہے ۔ہم نے ایک کے سامنے سر کو جھکانا چھوڑ دیا تو پتہ نہیں کتنی جگہوں پر جبیں سائی کرنی پڑرہی ہے ۔ہمیں’’ یک درگیر ومحکم گیر ،،کا حکم دیا گیا تھا، ہم نے بہت سارے دروازوں سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں، نتیجہ میں ہمیں ہلاکت وبربادی ، افلاس وپسماندگی ملی ، ہمیں غصہ پر قابو پانے کا حکم دیا گیا تھا اور جو اسے پچھاڑ دے اس کے قوی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، ہم اس معاملہ میں اتنے کمزور ثابت ہورہے ہیں کہ ہماری شبیہ جذباتی اور جوشیلی بن گئی ہے، تحمل اور برداشت کا مادہ ہم میں باقی نہیں ہے ، جس کے مضر اثرات کھلی آنکھوں ہم دیکھ سکتے ہیں ، ہمیں غیبت ، چغل خوری ، تجسس ، ذات برادری کی لعنت سے دوررہنے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سماج بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی ، لیکن ہم اس پوری لعنت کو ترقی اور رفع درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے ، اس کے لئے تنظیمیں بنائی جانے لگیں ، اور ہم آپس میں دست وگریباں ہونے لگے، دھوکہ دہی مسلمانوں کے شایان شان نہیں تھا، لیکن مادی منفعت کے حصول کی ہوس میں یہ شان بھی جاتی رہی ، اب پھٹے کپڑے اور خراب مال کواچھا کہہ کر اچھی قیمت پر فروخت کردینے والا ہی اچھا سیلس مین ہے ، گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹ کے سفوف ملانے کے واقعات بھی حیرت انگیز نہیں ہیں، لوگوں پر رحم کرنے والے پر اللہ کی رحمت کے نزول کی بشارت دی گئی تھی ، لیکن ظلم و جورہمارا شیوہ بن گیا ، علم ہماری شناخت کا ذریعہ تھا ،ہم جہالت میں ممتاز ہوکررہ گئے ، اللہ کا خوف باقی نہیں ہے ہمیں امت وسط اورخیرامت بنا کر لوگوں کو صحیح راستے پرلانے کا کام سپرد کیا گیا تھا ،ہم خود گم کردہ راہ ہوگئے ، سود کی لعنت سے پاک تجارت اور معاشی نظام ہماری پہچان تھی ؛ لیکن ہمیں سودی کاروبار کرنے تک میں عار نہیں ہے، کوششیں اس کی بھی ہوتی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ہندستان میں سود کو جائزقرار دیدیا جائے، ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں ’’اف‘‘ تک کہنے سے روکا گیا تھا ، ان کے لئے اپنے کاندھے جھکا دینے کا حکم دیا گیاتھا اور ہم ان کے لئے اولڈایج ہوم کی تجویز لارہے ہیں؛ تاکہ ہماری بے لگام زندگی میں وہ کہیں پر رکاوٹ نہ بنیں ، ہمیں اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ،عورتوں کو بے پردہ نکلنے اور بنائو سنگھار کرکے غیروں کے سامنے آنے سے منع کیا گیا تھا،ہم نے ان حدود وقیود کو اس طرح توڑا کہ رشتوں کا احترام باقی نہیں رہا ، ہمیں ام الخبائث شراب کی حرمت بتائی گئی تھی کہ اس میں گناہ بڑا ہے، ہم نے اس کو شیر مادر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا ، جوئے ، قمار سے ہمیں روکا گیا تھا ، لیکن ہم نے اسے جلدمالدار ہونے کا نسخہ سمجھ لیا ، اب جوئے خانے کے لائسنس دیئے جاتے ہیں اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے میں کھلے عام جوا کھیلا جاتا ہے ، ہمیں اسراف و فضول خرچی سے منع کیا گیا تھا اور فضول خرچی کرنے والے کوشیطان کا بھائی قرار دیا گیا تھا ، ہم مختلف تقریبات میں ہزاروں روپے کے پٹاخے پھوڑرہے ہیں ، دو دو سو روپے کے شادی کارڈ چھپوا رہے ہیں ، اور کئی کئی سو بلکہ ہزاردوہزار روپے کی پلیٹوں پردعوت ولیمہ کررہے ہیں ، بینڈ باجے ، رقص وسرور ، ڈکوریشن اور استقبالیہ کے نام پر جو تماشے ہم کررہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں،انسانی اعضا کی تجارت کو حرام قرار دیاگیا تھا ہم پورے کے پورے سالم جوان لڑکے کو تجارت کا مال سمجھ بیٹھے ہیں ،لڑکی والوں پرشادی میں کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا، ہم تلک و جہیز کے ساتھ کھانے تک کے مینو طے کرنے میی لگے ہیں، ہمیں مہر دینے کا حکم دیا گیا تھا ،ہم نے اسے دین مہر بنادیا ، ہم نے اسلامی تعلیم کو چھوڑ اتو خاندان ٹوٹنے لگا۔ ہمیں پورے خاندان کا نگراں بنایا گیا تھااور اس حوالے سے ہماری باز پرس بھی ہونی ہے ، لیکن ہمیں کلبوں ، تفریح گاہوں، سنیما گھروں اور دوستوں کی مجلسوں سے فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے گھرخاندان اور بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکیں ، پاکیزہ زندگی گزارنا ہمارا طرۂ امتیاز تھا ، آج اس کا خیال تک قصۂ پارنیہ ہے ، اس لئے عصرحاضر میں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے اس لیے کہ ہم اس سے بہت دور ہوگئے ہیں ، اور ہم کامطلب صرف مسلمان نہیں ہیں، تمام انسان ہیں؛ اس لئے کہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے رسول بنا کربھیجے گئے ، اللہ تمام جہان کا رب ، رسول تمام جہان کے رسول اور قرآن کریم تمام جہان کی ہدایت کے لئے ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ جس نے اس دعوت کو قبول کرلیاہے، اس پر سارے احکام لاگو ہوتے ہیں اورجو ابھی ایما ن نہیں لائے، ان پر پہلے ایمان لانا اور پھر تمام احکام پرعمل کرنا ضروری ہے، جو لوگ بغیر ایمان لائے بھی تعلیمات نبوی کے دوسرے حصوں کو اپنی زندگی کا محور بنائیں گے وہ بھی دنیا میں اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اس قسم کی آواز لگاتے رہتے ہیں کہ حکومت کرنی ہے تو اس کا طریقہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمرؓ سے سیکھواور انسانی ہمدردی اور اکرام انسانیت کا درس اسلام سے حاصل کرو۔آیئے! ہم پھر تعلیمات نبوی کی طرف لوٹ چلیں ، اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گذاریں ، اور نفس کے شر سے بچ کرخود اور اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور جن پر مامور فرشتے صرف اللہ کی مانتے ہیں ، ان کی نافرمانی نہیں کرتے ،اور جو حکم ہوتا ہے کر گذرتے ہیں ۔ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَااَمَرَ ھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤمَرُوْن

महागठबंधन का संकल्प पत्र जारी, 10 लाख नौकरी और शिक्षा मित्रों को स्थायी करने का वादा, समान काम के लिए समान वेतन के साथ घोषणापत्र का 10 अहम बिंदू

महागठबंधन का संकल्प पत्र जारी, 10 लाख नौकरी और शिक्षा मित्रों को स्थायी करने का वादा, समान काम के लिए समान वेतन के साथ घोषणापत्र का 10 अहम बिंदू 

तेजस्वी यादव ने मुख्यमंत्री नीतीश कुमार से पूछा क्या हुआ विशेष राज्य का दर्जा?

बिहार विधानसभा चुनाव के मद्देनजर महागठबंधन में शामिल दलों ने शनिवार को संयुक्त घोषणापत्र जारी किया। इसको लेकर आयोजित प्रेस कॉन्फ्रेंस में नेता प्रतिपक्ष और राजद नेता तेजस्वी यादव ने 'प्रण हमारा संकल्प बदलाव का' टैग लाइन के साथ घोषणापत्र जारी किया। इसे मुख्य रूप से युवाओं पर केंद्रित किया गया है और उन्हें रोजगार देने का वादा किया गया है। 

बिहार में परिवर्तन की बयार बह रही है

तेजस्वी यादव ने कहा, हमने भी अपने घर में कलश की स्थापना की है और संकल्प लिया है। 'प्रण हमारा संकल्प बदलाव का' ये सच होने वाला है। हमने संकल्प लिया है कि हमारी सरकार बनते ही पहली कैबिनेट में युवाओं को 10 लाख रोजगार देने पर मुहर लगेगी। इस दौरान कांग्रेस प्रवक्ता रणदीप सिंह सुरजेवाला समेत गठबंधन के प्रमुख नेता मौजूद रहे। 


तेजस्वी यादव ने कहा, बिहार में डबल इंजन की सरकार है। नीतीश कुमार पिछले 15 वर्षों से राज्य में शासन कर रहे हैं लेकिन इसे विशेष श्रेणी का दर्जा नहीं दिया गया है। उन्होंने तंज भरे अंदाज में कहा कि डोनाल्ड ट्रंप तो अमेरिका से आकर बिहार को विशेष राज्य का दर्जा नहीं दे देंगे। 


राजद नेता ने कहा, आज बहुत ही खास दिन है। आज नवरात्रि का पहला दिन है। इस शुभ अवसर पर हमने अपना संकल्प पत्र जारी किया है। हम 10

महागठबंधन द्वारा क्या वादे किए गए हैं:-


नौकरी के लिए साक्षात्कार में जाने वाले अभ्यार्थियों के लिए किराया


कर्पूरी श्रम केंद्र खोला जाएगा


नियोजित शिक्षकों को समान काम समान वेतन देंगे


शिक्षा मित्रों को स्थायी करने का वादा


पुल-पुलिया को दुरुस्त किया जाएगा


बिहटा में हवाई अड्डे का निर्माण


बिजली उत्पादन पर जोर


किसानों की कर्ज माफी


जीविका दीदी की नियमित वेतन और राशि बढ़ाई जाएगी


बंद चीनी मिलों को फिर से खोला जाएगा


बेरोजगारी दूर करने पर विशेष जोर


10 लाख युवाओं को रोजगार


बिहार को विशेष राज्य का दर्जा दिलवाने के लिए संघर्ष

Wednesday 14 October 2020

*معاصر دینی تعلیم اور عصر حاضر کے تقاضے* *مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ*

 *معاصر دینی تعلیم اور عصر حاضر کے تقاضے*
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ*


--------------------------------------------------------------------
اسلام نے تعلیم وتعلم ، درس وتدریس اور علوم و معرفت کے سلسلے میں جو احکامات دیے اور اس کی وجہ سے پڑھنے پڑھانے کا جو چلن اور رواج ہوا ، اس نے دنیا کوجہالت کی تاریکیوں سے نکالا ، قرآن کریم کے نزول کے ساتھ دور جہالت کا خاتمہ ہوا ، مسلمان جہاں کہیں گئے علم کا چراغ روشن کیا ، اور وہاں کی ضرورت کے اعتبار سے ایجادات وانکشافات میں ایسا حصہ لیا کہ بہت سارے علوم کے وہ بانی مبانی ہوگئے، یہ وہ دور تھا جب علم شاخ در شاخ نہیں ہواتھا اور ایک فرد کے لیے ممکن تھا کہ وہ جامع معقول ومنقول کی حیثیت سے سامنے آئے اور لوگ علوم وفنون میں اس کی گہرائی اور گیرائی سے بھر پور فائدہ اٹھاسکیں ، اس زمانہ میں آج کی طرح علم دین ودنیا کی تقسیم نہیں تھی، اور ساری توجہ علم نافع کے حصول پر صرف کی جاتی تھی اور غیر نفع بخش علوم سے اللہ کی پناہ چاہی جاتی تھی، نفع بخش علوم کی حیثیت صدقۂ جاریہ کی تھی اور مخرب اخلاق علوم کی طرف کوئی جانا پسندنہیں کرتاتھا۔
پھر زمانہ کی قدریں بدلنے لگیں ، علوم میں تنوع پیدا ہوا ، اور اس کا دائرہ بڑھتا چلا گیا ، ایسے میں کسی ایک شخص کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام علوم پر یکساں دسترس رکھے ، اسی طرح اداروں کے لیے بھی سارے علوم اور ان کی شاخوں کو پڑھنا پڑھانا دشوار تر ہو گیا ، اس صورت حال کی وجہ سے عملی طور پر مختلف علوم وفنون کے لیے الگ الگ ادارے وجود میں آنے لگے ، تاکہ ہرادارہ اپنے موضوع پر پوری توجہ صرف کر سکے اور اس کے حاملین میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو سکے ، اس سوچ نے تخصصات کے اداروں کو وجود بخشا اورہندوستان میں مدرسہ اور اسکول کا مفہوم الگ الگ ہو گیا ، علماء اور دانشور کی اصطلاح وجود میں آئی اور دونوں الگ الگ علوم کے نمائندہ سمجھے جانے لگے ۔ 
یہی وہ زمانہ ہے جب دینی تعلیم کے لئے کثرت سے ادارے وجود میں آئے اور ان میں خالص مذہبی علوم کی تدریس ہونے لگی، یہاں کے فارغین نے دینی بنیادوں پر سماج میںکام شروع کیا ، خدا بیزار ماحول میں خدا شناسی کی ترغیب دی ، انہوں نے’’ اجرت‘‘ کے بجائے’’ اجر‘‘ کی نیت سے کام کیا اور سماج ومعاشرہ میں صالح قدروں کے فروغ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ، مسلمانوں نے اس کی اہمیت کو کم اور غیروںنے زیادہ سمجھا وہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی منظم جد وجہد میںلگ گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ایک بڑا طبقہ دوسرے راستے سے مدارس کو بدنام کرنے پر تُل گیا اور انہوںنے معاصر دینی تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا نعرہ لگا یا اور اس زور وشور سے لگا یا کہ یہ عنوان بھی اہل علم ودانش کے لئے مرکز توجہ بن گیا ، اس مضمون میں ہم اس حقیقت کا مختصراً جائزہ لیں گے کہ آج کے دور میں جو دینی تعلیم دی جا رہی ہے ، اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے کس حد تک ہم آہنگ کر سکتے ہیں اور اس میں کتنی گنجائش ہے ؟ 
معاصردینی تعلیم کو ہم تین مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں ، ایک بنیادی دینی تعلیم ، دوسرے ثانوی اور تیسرے اعلیٰ دینی تعلیم، تینوں مراحل میں عصر حاضر کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ سب سے پہلے ہم بنیادی دینی تعلیم کو لیتے ہیں ، اس مرحلہ میں بچوں کو بنیادی دینی تعلیم   عموما مکاتب اسلامیہ کے ذریعہ فراہم کرائی جاتی ہے ، یہ مکاتب مساجد کے تحت بھی چلتے ہیں اور کسی ادارے اور تنظیم کے جزوی یاکلی تعاون سے بھی ، ان کے اوقات کہیں صباحی اور کہیں مسائی ہوتے ہیں ، ان کے علاوہ بنیادی دینی تعلیم کے درجات بھی تقریبا سبھی مدارس میں قائم ہیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ یہی مکاتب دور دراز کے دیہاتوں میں دینی شعور کی بقا اور قرآن ونماز سمجھنے سمجھانے میں کلیدی رول ادا کر رہے ہیں ، ہمارا دانشور طبقہ ان کے طریقۂ تدریس ، مواد تدریس اور آلات تدریس کے حوالے سے سوالات اٹھاتا رہا ہے ،واقعہ یہ ہے کہ  ان تعلیمی اداروں میں انفرا اکسٹکچرکی کمی ہے ، پرانا طریقۂ تدریس رائج ہے ، اور بچوں کو آج بھی جسمانی تعذیب کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ، ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی قابل قدر خدمات کے اعتراف کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر جگہوں پر قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا رواج کم ہے، نورانی قاعدہ پرہو رہی محنت اور مختلف اداروں کی طرف سے تدریب المعلمین کے کیمپ کے ذریعہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ، ان اداروں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے معیار تدریس کو بڑھا یا جائے،طریقۂ تعلیم کو پر کشش بنا یا جائے ، لیکن ہمہ گیر تعلیمی مہم کے پروگراموں کی طرح گا بجا کر نہیں ، بلکہ درس وتدریس کی سنجیدگی کو بحال رکھتے ہوئے ، ایسے اقدام کیے جائیں ، جس سے طلبہ کھیل سے زیادہ تعلیم پر توجہ دینے لگیں ، اس کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں اور اساتذہ ایسے رکھے جائیں جن کی اخلاقیات سے طلبہ کسب فیض کر سکیں، طلبہ کے عادات واطوار کو صحیح رخ اور صحیح سمت دینے کے لیے یہ بہت اہم زمانہ ہے ، اس عمر میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی خاص ضرورت ہے ، قرآن کریم میں بار بار تلاوت کتاب کے ساتھ تزکیہ کا ذکر کرکے یہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے ، اس لئے اس مرحلہ میں بچہ کو قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جائے، کلمہ ، نماز اور دین کی بنیادی تعلیم پر پوری توجہ مرکوز کی جائے اور اس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، کذب بیانی، چغل خوری ، لعن طعن ، گالی گلوج ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا مزاج اسی عمر میں بنتا ہے ، تھوڑی سی توجہ سے طلبہ کے اندر اخلاق کریمانہ کا مزاج پیدا کیا جاسکتا ہے، اس مرحلہ میں ضرورت کے مطابق ٹیچنگ ایڈ وغیرہ کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے ، صلاحیت کے ساتھ صالحیت پر بھی نظر رکھی جائے اور انہیں بقدر کفاف وضرورت وظیفہ یا تنخواہ دیا جائے ، تاکہ وہ ذہنی سکون کے ساتھ اپنی اس اہم ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو سکیں ، عمومادیکھا یہ جا رہا ہے کہ دیہاتوں میں امام ومؤذن اس شخص کو بنا دیا جاتا ہے ، جو کسب معاش  کے دوسرے ذریعوں پر قادر نہیں ہوتا، مؤذن نہ تو اذان صحیح سے دے پاتا ہے اور نہ امام ،نماز سے متعلق مسائل سے کلی طور پر واقف ہوتا ہے ، انہیں حضرات کے ذمہ تعلیم وتعلم کا کام بھی سپرد کر دیا جاتا ہے ، اس لئے بچوں میں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کا مزاج نہیں بنتا اور ان کے اخلاق وعادات بھی اساتذہ کی بے عملی سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ 
بعض کنونٹ اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں دینیات کے نام پر ایک گھنٹی ہوتی ہے ، اس ایک گھنٹی میں خلوص کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت کچھ ممکن ہے ، لیکن عموما یہ گھنٹیاں نام کی ہوتی ہیں ، ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ گارجین جو بنیادی دینی تعلیم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہیں ، اس حوالہ سے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جا سکے اور ان کے بچے بھی ادارہ کو مل سکیں ، اس تاجرانہ ذہنیت کے باوجود اگر اساتذہ اس گھنٹی میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں تو ان اداروں میں بھی قرآن کریم اور کلمہ نیز ضروری ادعیۂ ماثورہ یاد کرائے جا سکتے ہیں اور تربیت کے لئے بھی فضا ساز گار بنائی جا سکتی ہے ۔ 
دوسرا مرحلہ ثانویہ کا ہے ، اسکول کا نونٹ وغیرہ میں اس مرحلہ میں دینیات کا تصور نہیں ہے ، اس مرحلہ میں معاصر دینی تعلیم کا سارا نظام مدارس اسلامیہ میں سمٹ جاتا ہے ،نظامیہ مدارس میں یہ مرحلہ عربی اول سے شروع ہوتا ہے اور عربی پنجم ، ششم تک چلتا ہے،اس مرحلہ میں ہمارے یہاں عربی قواعد کی تدریس پر خاصی توجہ صرف کی جاتی ہے نحو وصرف کی بنیادی کتابیں اور شروحات تک زیر تدریس آتی ہیں ، فقہ وغیرہ کی بھی کچھ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اس مرحلہ میں طریقۂ تدریس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ،ہو یہ رہا ہے کہ طلبہ میں کتاب فہمی سے زیادہ رٹنے رٹانے پر توجہ دی جاتی ہے ، کہنا چاہئے کہ تدریس کا انداز ،فن کی تدریس کا نہیں ، کتاب کی تدریس کاہوتا ہے، یہی حال دینیات سے متعلق دوسری کتابوں کا ہوتا ہے ، کتابوں میں جو مثالیں دیدی گئیں اور جو جزئیات ذکر کردی گئیں، وہی طلبہ کو یا د ہوتی ہیں ، اس طرزپر دوسری مثالوں اور دوسری جزئیات کے تلاش کی صلاحیت طلبہ میں پیدا نہیں ہوتی یا بہت کم پیدا ہوتی ہے ، اس مرحلہ میں ضرورت ہے کہ فن کی تدریس کا مزاج بنایا جائے اور طلبہ میں ایسی صلاحیتیں پیدا کر دی جائیں کہ ان میں دقت نظر بھی ہو اور وسعت نظر بھی ۔ 
اس مرحلہ میں عصری تقاضے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں عصری علوم کی تعلیم دی جائے ، عصری علوم کے بعض مبادیات کا پڑھانا مفید معلوم ہوتا ہے ، لیکن ہمیں یہاں یہ تفریق ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ہمارا مقصد عصری علوم کی تدریس نہیں ، علوم دینیہ کی تدریس ہے ، یہ مدارس اسی کام کے لئے ہیں ، ان کا تعلیمی مزاج ، منہج اور مقصد متعین ہے ، عصری علوم کو اس مرحلہ میں وسائل کے طور پر تو داخل کیا جاسکتا ہے ، مقاصد کے طور پر نہیں ، مثلا پہلے ہم کا نڈے کے قلم سے لکھتے تھے ، پھر روشنائی والا قلم آیا ، پھر مارکیٹ میں لیڈ پین استعمال ہونے لگا اور اب ان کے ساتھ کمپیوٹر بھی لکھنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ، یقینا ہمیں اس کو سیکھنا چاہئے ، بچوں کو سکھا نا چاہئے ، فقہ کے جن ابواب ومباحث کو سمجھنے کے لئے آج کی جدید اصطلاحوں کے سمجھنے کی ضرورت ہے اور جن کے بغیر عصر حاضر کے مسائل کی تفہیم، تشریح وتطبیق ممکن نہیں ہے ، ان کو ضرور پڑھا دینا چاہئے؛ لیکن بقدر ضرورت ہی ، اس سے آگے نہیں، اس سے آگے بڑھنے پر بات مقصد تک پہونچ جائے گی۔
مدارس کی کثرت اور بہتات کے چرچے کے باوجود راجند سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ یہ بتلاتی ہے کہ مسلم سماج کے پڑھنے والے بچوں میں صرف چار فی صدہی مدارس کا رخ کرتے ہیں ، ان چار فی صد بچوں کو دینی علوم میں تخصص اور اسپسلائزیشن کےلئے مختص کرنا چاہئے ؛تاکہ سماج کی دینی اور مذہبی ضرورتیں ان فارغیں کے ذریعہ پوری ہو سکےں ، ان طلبہ کو بھی دوسرے علوم پڑھانے میں لگا دیئے گئے تو یہ طلبہ نہ دینیات کے رہیں گے اور نہ عصری علوم کے ، جس کا تجربہ مدرسہ عالیہ ، بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ اور عربک پرشین بورڈ الہ آباد  کے فارغین کے ذریعہ ہمارے سامنے آیا ہے اور آتا رہتا ہے ، ہمارے تجربات نے عصری علوم کے ساتھ مدارس کی تعلیم کے غیر مفید اور غیر مؤثر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ، یقینا تجربات با ر بار کیے جاسکتے ہیں ، لیکن جب ہم میڈیکل کالج سے انجینئر اور انجینئرنگ کالج سے ڈاکٹر پیدا کرنے کی کسی تجویز کو پاگل پن اور ذہنی دیوالیہ پن سے تعبیر کرتے ہیں تو مدارس سے ہی یہ کیوں چاہا جا رہا ہے کہ وہ عصری تقاضوں کے نام پر اپنے تعلیمی اداروں کے مزاج اور مواد کا گلہ گھونٹ دیں ، اور مدارس سے نکلنے والے لوگ دوسرے علوم میں بھی کامل ہو کر نکلیں ۔ 
اس موقع پر تاریخ کے حوالے سے مسلم سائنس دانوں اور دوسرے علوم کے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، عصری اور دینی تعلیم کی تفریق سے ملت کے دونیم ہونے کی بات کہی جاتی ہے ، ہندوستا ن میں مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت کا جائزہ لے کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ علم کی دوئی کو مٹانا چاہئے ، یہ سب بجا ہے؛ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جس زمانے کی بات کرتے ہیں ، اس زمانہ میں علم کی اتنی شاخیں نہیں پھوٹی تھیں ، اب تو ایک موضوع سے پچاسوں ایسی شاخیں نکل آتی ہیں ، جن میں اسپسلائیزیشن (specialisation)کیا جاتاہے ، اور کسی ایک شخص کے لئے ایک ہی موضوع کی مختلف شاخوں میں مہارت پیدا کرنا ، نا ممکن سا ہو رہا ہے ۔ 
مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے زور دار دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس طرح ان کا معاشی نظام مضبوط ہوگا اور سماج میںان کا مقام ومرتبہ فزوں تر ہوگا ، واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں محض بہلاوے کی ہیں، جن لوگوں نے مذہبی علوم میں دستگاہ پیدا کی ان کی معاش بھی مضبوط ہے اور بغیر عصری علوم کے پڑھے ہوئے ان کا مقام ومرتبہ جو سماج میں ہے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، جولوگ کمزور رہتے ہیں ، ان کی معاش کہیں سے پڑھنے کے باوجود کمزور ہی رہتی ہے ، بلکہ اگر سروے کرایا جائے تو عصری علوم کے حاملین میں بے روزگاروں کا تناسب مدارس کے فارغین سے کئی گنا زیادہ نظر آئے گا۔ 
اس لئے اس مرحلہ میں معاصر دینی تعلیم میں زیادہ سے زیادہ عصرحاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہو ، تو زبان کی حد تک ہندی انگریزی اور کمپیوٹر کی تدریس کو داخل کر لینا چاہئے، جو پہلے ہی سے بہت سارے اداروں میں داخل ہیں ، دار العلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء اور دیگر اداروں میں اس کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے ، اس سے زیادہ کسی چیز کا داخل کرنا عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح کے لئے تو ٹھیک ہے، اس سے زیادہ کرنے سے معاصر دینی تعلیم کا رخ اور قبلہ ہی بدل جائے گا ، ظاہر ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے ۔ 
تیسرا مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا ہے، اس مرحلہ میں کہنا چاہئے کہ دینی علوم کی اعلیٰ ترین کتابیں پڑھا ئی جاتی ہیں ، ان کے طریقۂ تدریس میں تو عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھا جا سکتا ہے ، فقہ ، تفسیر حدیث اور عقائد کے درس میں آج کے معاملات آج کے حالات، دین پر کھڑے کئے جانے والے نت نئے سوالات اور اعتراضات پر سیر حاصل بحث کی جانی چاہئے تاکہ طلبہ آج کے لب ولہجہ میںان اعتراضات کا دفاع اور سوالات کے جوابات پر قادر ہو جائیں ، اس مرحلہ میں علم کلام کی جو قدیم کلامی بحثیں ہیں اور جن فرق ضالہ منحرفہ کا ذکر بار بار آتا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ، آج ہمیں جن لوگوں کا سامنا ہے ، اور جس قسم کے سوالات دین ومذہب پر اٹھائے جا رہے ہیں، لادینیت کے فروغ اور خدا بیزار سماج کے لیے جو جد وجہد سرکاری ،غیر سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں ہمیں طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہئے ، اور ان کتابوں کا انتخاب کرنا چاہئے جو اس سلسلے میںممد ومعاون ہوں اور طلبہ کو اس کام کے لئے تیار کر سکیں۔
اس مرحلہ کی تعلیم یونیورسیٹیوں میں بھی ہوتی ہے اور بعض میں مستقل شعبے دینیات اور اسلامک اسٹڈیز کے کھلے ہوے ہیں ، ان میں بھی انہیں امور کو ملحوظ رکھنا چاہئے ،جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ، خلاصہ ان ساری بحثوں کا یہ ہے کہ معاصر دینی تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے لیکن ایسی ہم آہنگی نہیں جو مدارس اسلامیہ کے کردار اورمزاج کو بدل کر رکھ دے۔

नियोजित शिक्षकों के बारे में तेजस्वी यादव का घोषणा सिर्फ एक चुनावी जुमला और सच्चाई से कोसों दूर

 

नियोजित शिक्षकों के बारे में तेजस्वी यादव का घोषणा सिर्फ एक चुनावी जुमला और सच्चाई से कोसों दूर



अगर नियोजित शिक्षक को का भला करना है तो मेनिफेस्टो में शामिल क्यों नहीं? 
मोo फिरोज आलम

PATNA : विधानसभा चुनाव को लेकर सभी पार्टियां प्रचार प्रसार में जुटी हुई हैं. वैशाली जिले के राघोपुर विधानसभा सीट से नामांकन करने के बाद तेजस्वी यादव ने शिक्षकों को लेकर एक बड़ा एलान किया के बिहार के साडे चार लाख नियोजित शिक्षकों को समान काम के बदले समान वेतन राज्य कर्मी का दर्जा पुराना पेंशन बहाल हो जाएगा या तेजस्वी कुमार ने भी शिक्षकों के साथ छलावा करने का एक सुंदर सा रास्ता ढूंढा है अगर आरजेडी प्रमुख  तेजस्वी यादव शिक्षकों से इतना ही लगाव था तो श्री यादव ने अपने मेनिफेस्टो में समान काम के बदले समान वेतन नियमितीकरण को क्यों नहीं साझा किया यह विचारणीय विषय है 


शिक्षक वर्षों से छलावा के शिकार होते आ रहे हैं मौजूदा सरकार ने शिक्षकों के साथ भी बहुत बड़ा धोखा किया है तो कभी विपक्ष पर है सुशील कुमार मोदी ने भी शिक्षकों का मजाक उड़ाया और कहा कि भगवान भी उतर कर आ जाएंगे तो ₹1 का बृधी नहीं होगा लेकिन शिक्षक अभी उसे  नहीं भूले थे जब तक नीतीश कुमार ने फिर से उनके साथ मिलकर के सरकार बना लिया कुछ नही मिला फिर सूमो जब विपक्ष में गए तो बोले हमारी सरकार आते ही नियोजित शिक्षकों का नियमितीकरण समान काम समान बदले कर दिया जाएगा लेकिन मिला क्या बाबा जी का ठुल्लू  वह भी एक चुनावी जुमला साबित हुआ


 फिर बिहार के साढ़े चर लाख नियोजित शिक्षकों ने रोड से लेकर कोर्ट तक लडा और मिला क्या लाठी, सुप्रीम कोर्ट में भी उन्हें सुनवाई के दौरान यह लग रहा था कि नियोजित शिक्षकों को इंसाफ मिल जाएगा लेकिन कोर्ट ने भी वही किया  जिसकी शिक्षकों की दूर-दूर तक उम्मीद नहीं थी जजमेंट आने के बाद पता चला कि निजी शिक्षकों का दशा और दिशा दोनों ख़राब हो चुके हैं उसके बाद फिर ननियोजित शिक्षकों ने आंदोलन का रास्ता अपनया 37 दिन के महाहड़ताल  होने के बावजूद तानाशाह सरकार ने नियोजित शिक्षकों के ऊपर जरा सा भी ध्यान नहीं दिया जिसके वजह से लग भग सकडो  से शिक्षकों ने पैसों के अभाव में अपनी जान गवा दी! उसके बावजूद सरकार के कानों पर जूं तक नहीं रेंगी 

वहीं आरजेडी जब के सत्ता से बाहर है सत्ता में आने के लिए नियोजित शिक्षकों को प्रलोभन देने की प्रयास कर रही है 

तो नेता प्रतिपक्ष तेजस्वी यादव द्वारा किए गए इस बड़े घोषणा का स्वागत करने से पहले मैं मो0 फिरोज आलम राज्य सचिव सह जिला अध्यक्ष बिहार स्टेट उर्दू  टीचर्स एसोसिएशन  तेजस्वी तेजस्वी यादव से  अपील करना चाहूंगा  कि वह  सबसे पहले अपने मेनिफेस्टो में शामिल करें  क्योंकि अब नेता लोगों पर भरोसा नहीं रहा 

  इससे पहले भी कई बड़े-बड़े राजनेताओं ने दो डो करोड़  नौकरियां देने का भी वादा भी देख चुके है

  इसलिए फिर से एक बार बिहार स्टेट उर्दू टीचर्स एसोसिएशन  मांग करता हैं की अगर आप नियोजित शिक्षकों का हितैषी हैं तो अपने मेनिफेस्टो में शामिल करें 

आन्यथा शिक्षकों को गुमराह करने का प्रयास नहीं करें 

नहीं तो सिर्फ यही समझा जाएगा कि तेजस्वी ने एक बड़े वोट बैंक पर निशाना लगाया है.  शिक्षकों के लिए बड़ा चुनावी जुमला दिया है

तेजस्वी यादव ने ट्वीट कर लिखा है कि "हमारी सरकार आने पर बिहार में कार्यरत नियोजित शिक्षकों को भी नियमित शिक्षकों की तरह समान सेवा शर्त और समान काम के लिए समान वेतन दिया जाएगा। नियोजित शिक्षकों को नीतीश सरकार ने हमेशा धोखा दिया है।

शिक्षकों की सभी समस्याओं का निदान किया जाएगा।"

आपको बता दें कि नीतीश सरकार ने नियोजित के लिए सेवा शर्त नियमावली में बदलाव किया है लेकिन इसके बावजूद भी नियोजित शिक्षकों में असंतोष की स्थिति है. उनका कहना है कि सरकार से उनकी लड़ाई परमानेंट पर्ने को लेकर है. दरअसल नियोजित शिक्षक सामान काम के बदले सामान वेतन की मांहग करते आ रहे हैं और आज भी वह अपनी मांग पर अड़े हुए हैं. जिसको लेकर तेजस्वी ने यह बड़ा एलान किया है.


राघोपुर विधानसभा सीट से नामांकन करने के बाद तेजस्वी ने ट्वीट कर लिखा कि "मैंने सौगंध ली है कि बिहार के हित में सदा कार्य करता रहूँगा। हर बिहारवासी को जब तक उनका हर अधिकार नहीं दिला देता, चैन से बैठने वाला नहीं हूँ। इस सौगंध को पूरा करने के क्रम में आज नामांकन करने जा रहा हूँ। परिवर्तन के इस शंखनाद में आपके स्नेह, समर्थन और आशीर्वाद का आकांक्षी हूँ।"


Monday 12 October 2020

सारण शिक्षक निर्वाचन क्षेत्र से डॉ० रणजीत कुमार का जितना तय।

  सारण  शिक्षक  निर्वाचन क्षेत्र से डॉ० रणजीत कुमार का जितना तय

सारण स्नातक निर्वाचन में डॉ रंजीत कुमार का जितना तै!

बिहार में स्नातक निर्वाचन का बिगुल बज चुका है सारण स्नातक निर्वाचन में 12 कैंडिडेट हैं जिसमें सबसे सबसे बेहतर समाजसेवी जुझारू मंदार ईमानदार छवि के डॉ रंजीत कुमार के साथ  दिख रहे हैं 

डॉ रंजीत कुमार के साथ तन मन धन से लगे हुए हैं बता दें कि इससे पहले केदारनाथ पांडे 18 वर्षों से इस पद पर बने रहे हैं लेकिन शिक्षकों में उनके प्रति काफी गुस्सा देखने को मिल रही है बहुत बार उनके ऊपर सरकार से मिलीभगत होने का भी आरोप लगाता रहा है

तो कितने बार शिक्षकों को का आंदोलन तोड़ने का भी आरोप लगा है

जिनकी आयु अब 80 के आसपास बताए जा रहे हैं इस अवस्था में उनसे किसी भी कार्य को उम्मीद रखना हास्यास्पद है क्योंकि 40 वर्ष में नौकरी पाने वाले कर्मचारी 50 वर्ष के बाद काम करने के योग्य नहीं रहते तो फिर 80 प्लस के एमएलसी काम करने योग्य कैसे रहेंगे!




सरकार के खिलाफ शिक्षकों शिक्षकों ने तकरीबन ढाई महीनों का धरना प्रदर्शन किया लेकिन दमनकारी और तानाशाही सरकार ने उस पर संज्ञान तक नहीं लिया और  बाबा मुख्य दर्शक बने जिसको लेकर के शिक्षकों में काफी रोष है यही वजह है कि सारण निर्वाचन में बदलाव की बयार बह रही है 

सारण निर्वाचन निर्वाचन क्षेत्र एक एक शिक्षक व्यक्तिगत रूप से डॉ रंजीत कुमार से जुड़े हुए दिख रहे 

हैं 


जगह-जगह खुद शिक्षक एक दूसरे को जागरुक कर रहे है सबसे बड़े दिलचस्प बात यह है कि इससे पहले इतने भारी संख्या में कभी भी शिक्षक खुलकर के सामने नहीं आते दिखे हैं लेकिन इस मर्तबा चुनाव का कुछ अलग ही रंग रूप देखने को मिल रहा है मोतिहारी बेतिया गोपालगंज छपरा सिवान मे अलग अलग तरीके से लोग रंजीत बाबू का इस्तकबाल कर रहे हैं अब देखने वाली बात है क्या रंजीत बाबू इस भारी संख्या को वोट में पनघट पर पाएंगे या नहीं


मोदी सरकार ने सरकारी कर्मचारियों को दिया तोहफा, 10,000 रुपये फेस्टिवल एडवांस के तौर पर दिये जाएंगे।

 मोदी सरकार ने सरकारी कर्मचारियों को दिया तोहफा,
10,000 रुपये फेस्टिवल एडवांस के तौर पर दिये जाएंगे। 


नई दिल्ली। दिवाली-दशहरे से पहले मोदी सरकार ने सरकारी कर्मचारियों को तोहफा दिया है। वित्तमंत्री निर्मला सीतारमण ने बाजार में उपभोक्ताओं के पैसे डालने के लिए कैश वाउचर स्कीम और स्पेशल फेस्टिवल एडवांस स्कीम वगैरह की घोषणा की है।


वित्त मंत्री निर्मला सीतारमण ने संवाददाता सम्मेलन में कहा कि महामारी से अर्थव्यवस्था प्रभावित हुई है। अर्थव्यवस्था में मांग बढ़ाने के लिए दो प्रस्ताव पेश किए हैं। ज्ञात हो कि लॉक डाउन की वजह से भारतीय अर्थव्यवस्था को भारी नुकसान हुआ है जिसकी वजह से बाजारों में डिमांड कम हो गया है जिससे अर्थव्यवस्था और हैं डैमेज होते जा रहा है उसी को सुधार के लिए इस स्कीम को बनाया गया है चार के डिमांड बड़े जिससे अर्थव्यवस्था में काफी सुधार होने की संभावना व्यक्त की गई है

 पहला 'एलटीसी कैश वाउचर स्कीम' और दूसरा 'स्पेशल फेस्टिवल एडवांस स्कीम' है।

 स्पेशल फेस्टिवल एडवांस स्कीम के तहत सरकारी कर्मचारियों को 10,000 रुपये फेस्टिवल एडवांस देगी।

साथ ही कर्मचारियों को एलटीसी में टिकट किराये का भुगतान नकद में किया जाएगा

वित्त मंत्री ने कहा कि एलटीसी नकद वाउचर योजना और विशेष त्योहार अग्रिम योजना शुरू की जाएगी। मांग को प्रोत्साहन के लिए एलटीए खर्च के लिए अग्रिम में राशि दी जाएगी। एलटीसी के लिए नकद पर सरकार का खर्च 5,675 करोड़ रुपये बैठेगा। सार्वजनिक उपक्रमों और बैंकों को 1,900 करोड़ रुपये दिए जाएंगे। साथ ही सरकारी कर्मचारियों को 10,000 रुपये फेस्टिवल एडवांस के तौर पर दिये जाएंगे। ताकि त्योहारों के समय सरकारी कर्मचारियों के पास खरीदारी के लिए पैसा हो।

सीतारमण ने कहा कि मांग को बढ़ाने की दिशा में खर्च के लिए अग्रिम में राशि दी जाएगी। उन्होंने कहा कि एलटीसी कैश वाउचर योजना और स्पेशल फेस्टिवल एडवांस योजना शुरू की जाएगी। एलटीसी व त्योहारों के लिए एडवांस से 36,000 करोड़ रुपये की अतिरिक्त उपभोक्ता मांग पैदा!


کورونا سے ہلاک ہونے والی لاشوں کی تدفین کرنے والے بہادروں کو جمعیۃ علماء نے اعزاز سے سرفراز کیا

 کورونا سے ہلاک ہونے والی لاشوں کی تدفین کرنے والے بہادروں کو جمعیۃ علماء نے اعزاز سے سرفراز کیا


کورونا کی خطرناک بیماری کے دوران اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بنگلورو کے مسلم نوجوانوں نے جمعیت علماء ہند کی سرپرستی میں انسانیت کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ تقریبا 125 نوجوانوں نے شہر کے مختلف قبرستانوں میں کورونا کی لاشوں کی تدفین کا کام پورے ادب و احترام کے ساتھ انجام دیا ہے۔

کورونا سے ہلاک ہونے والی لاشوں کی تدفین کرنے والے بہادروں کو جمعیۃ علماء نے اعزاز سے سرفراز کیا۔  

بنگلورو: کورونا کی خطرناک بیماری کے دوران اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بنگلورو کے مسلم نوجوانوں نے جمعیۃ علماء ہند کی سرپرستی میں انسانیت کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ تقریباً 125 نوجوانوں نے شہر کے مختلف قبرستانوں میں کورونا کی لاشوں کی تدفین کا کام پورے ادب و احترام کے ساتھ انجام دیا ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور عیسائی طبقہ کی کئی لاشوں کو ان کے ان کے مذہب کی آخری رسومات کے مطابق آخری رسوم ادا کرنے کا کام بھی ان نوجوانوں نے انجام دیا ہے۔ بنگلورو میں خدمت خلق کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کورونا کے ایسے بہادروں کو اعزاز پیش کرنے کیلئے بنگلورو کے شیواجی نگر کی لال مسجد میں ایک یادگار تقریب منعقد ہوئی۔

کورونا کے بہادروں کو اعزاز پیش کرنے کیلئے بنگلورو کے شیواجی نگر کی لال مسجد میں ایک یادگار تقریب منعقد ہوئی۔

کورونا کے بہادروں کو اعزاز پیش کرنے کیلئے بنگلورو کے شیواجی نگر کی لال مسجد میں ایک یادگار تقریب منعقد ہوئی۔


جمعیۃ علماء ہند کرناٹک کے تحت منعقدہ اس تقریب میں کورونا لاشوں کی تدفین اور آخری رسومات انجام دینے کیلئے دن اور رات خدمت کرنے والے نوجوانوں کو سند اور اعزاز سے نوازا گیا۔ تقریب میں جمعیۃ علماء ہند کے ریاستی صدر مولانا افتخار احمد قاسمی، مقامی ایم ایل اے رضوان ارشد اور دیگر نے شرکت کی۔ کورونا لاشوں کی تدفین کا کام انجام دینے والی ٹیموں کے نمائندوں نے اپنے اپنے تجربات بیان کئے۔ ٹیانری روڈ قبرستان ٹیم کی قیادت کرنے والے سید رسالت جاہ نے کہا کہ خوف و دہشت کے ماحول میں کورونا کی لاشوں کو دفنانے کا کام کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اسپتال کی جانب سے جیسے ہی لاش حوالے کی جاتی، علماء کرام کے بتائے گئے طریقوں کے مطابق غسل تیمم، نماز جنازہ اور تدفین کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا گیا۔ جب چند اسپتالوں نے  غیر مسلم لاشوں کو حوالے کیا تو ٹیم کے ارکان نے علمائے کرام سے رائے مشورہ کیا اور پھر برادران وطن کی لاشوں کو ان کے مذہب کے آخری رسومات کے مطابق انجام دیا گیا۔


 جمعیۃ علماء ہند کرناٹک کے تحت منعقدہ اس تقریب میں کورونا لاشوں کی تدفین اور آخری رسومات انجام دینے کیلئے دن اور رات خدمت کرنے والے نوجوانوں کو سند اور اعزاز سے نوازا گیا۔


جمعیۃ علماء ہند کرناٹک کے تحت منعقدہ اس تقریب میں کورونا لاشوں کی تدفین اور آخری رسومات انجام دینے کیلئے دن اور رات خدمت کرنے والے نوجوانوں کو سند اور اعزاز سے نوازا گیا۔


سید رسالت جاہ نے کہا کہ اس کام کو جب ہندو اور عیسائی بھائی دیکھتے تو ڈھیر ساری دعائیں دینے لگ جاتے۔ قدوس صاحب قبرستان ٹیم کے نمائندے عبدالمحب نے کہا کہ Helping Hand نامی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے کورونا لاشوں کی تدفین کا کام انجام دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رضاکاروں کی ٹیم میں کوئی نجی کمپنی کا ملازم ہے، تو کوئی تاجر کوئی کالج کا طالب علم، سبھوں نے ملکر اللہ کو راضی کرنے کیلئے یہ خدمت کی ہے۔ عبدالمحب نے کہا کہ کبھی کبھی اسپتال میں لاشوں کی صحیح طرح پیکنگ نہیں کی جاتی تھی، لیکن جب لاش انکے ہاتھوں میں آجاتی تو بڑے ادب کے ساتھ پورے احتیاط کے ساتھ تدفین کا کام انجام دیا گیا۔گوری پالیہ جامع مسجد کے صدر منور خان نے کہا کہ میسور روڈ قبرستان میں ابتداء میں جمعیت علماء ہند کے تحت تدفین کا کام انجام دیا گیا۔ لیکن جیسے جیسے لاشوں کی تعداد بڑھنے لگی مقامی ایم ایل اے ضمیر احمد خان نے رضاکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی اور یہ ٹیم پوری ذمہ داری کے ساتھ میسور روڈ قبرستان میں کورونا کے لاشوں کی تدفین کا کام انجام دے رہی ہے۔ منور خان نے کہا کہ جمعیت علماء ہند کے تحت میسور روڈ، گوری پالیہ میں کووڈ اور غیر کووڈ مریضوں کیلئے آکسیجن کی فراہمی اور دیگر طبی خدمات انجام دی جارہی ہیں۔  جمعیت علماء ہند کے ریاستی صدر مولانا افتخار احمد قاسمی نے کہا کہ سی اے اے، این آر سی کے خلاف جاری احتجاجوں میں جمعیت کے تحت رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم سرگرم تھی۔ جیسے ہی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا یہ پوری ٹیم متاثرین کی مدد کیلئے آگے آئی، لاک ڈاؤن میں  کھانہ، راشن تقسیم کرنے کے کام انجام دیا۔ جب کورونا وبا سے اموات ہونی لگیں تو تقریبا 125 رضاکاروں پر مشتمل الگ الگ ٹیموں نے شہر کے مختلف قبرستانوں میں تدفین کا کام کرنا شروع کیا۔ ساتھ ہی ضرورت مندوں تک طبی امداد پہنچانے کا کام بھی انجام دیا گیا۔


مولانا افتخار احمد قاسمی نے کہا کہ ان رضاکاروں کی بے لوث اور انسانیت نواز خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جمعیت علماء ہند نے انہیں دعاؤں کے ساتھ سند اور اعزاز پیش کیا ہے۔ شیواجی نگر کے ایم ایل اے رضوان ارشد نے کہا کہ کورونا بیماری کے دوران مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خوب کوششیں کی گئیں۔ لیکن شہر کے مسلم نوجوانوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت خدمات انجام دیتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کو بخوبی جواب دیا ہے۔ہوسکوٹے مسلم جماعت کے رکن ڈاکٹر سید مزمل نے کہا کہ گزشتہ پانچ مہینوں میں مسلم نوجوانوں کی خدمت قابل ستائش رہی ہے۔ ان نوجوانوں نے نہ صرف انسانیت بلکہ حکومت کی بھی مدد کی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ مصیبت اور آفت کی گھڑی میں وہ راحت اور بچاؤ کے کاموں کیلئے تیار ہیں۔جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ کے ٹرسٹی عثمان شریف نے کہا کہ فرقہ پرستی اور نفرت کے ماحول کو پیار و محبت، امن و اتحاد میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسلم رضاکاروں کی یہ خدمت ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو مضبوط کرتی ہے۔ آپسی بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ صحت مند اور خوشحال معاشرہ کو پروان چڑھاتی ہے۔

ایم۔کے۔حق ندوی

Thursday 8 October 2020

आज फिर सुप्रीम कोर्ट ने केंद्र सरकार सहित मीडिया चैनलों को तबलीगी जमात के मामले में लगाई फटकार!

 आज फिर सुप्रीम कोर्ट ने केंद्र सरकार सहित मीडिया चैनलों को तबलीगी जमात के मामले में लगाई फटकार!



SC अभिव्यक्ति की आजादी का मतलब यह नहीं है संप्रदायिक दंगा का माहौल बनाया जाए

सुप्रीम कोर्ट ने तबलीगी जमात के मुद्दे पर आज केंद्र सरकार और मीडिया के रुख पर सख्त टिप्पणी की है। सुप्रीमकोर्ट ने आज एक सुनवाई के दौरान कहा कि हाल के दिनों में बोलने और अभिव्यक्ति की स्वतंत्रता के अधिकार का सबसे अधिक दुरुपयोग हुआ है। उच्चतम न्यायालय ने तबलीगी जमात मुद्दे पर मीडिया की फेक न्यूज पर केन्द्र के 'कपटपूर्ण' हलफनामे के लिए उसकी खिंचाई की भी की। इसके साथ ही उच्चतम न्यायालय ने सूचना एवं प्रसारण मंत्रालय के सचिव से इस तरह के मामलों में मीडिया की अभिप्रेरित रिपोर्टिंग को रोकने के लिए पूर्व में उठाए गए कदमों का विस्तृत ब्योरा देने को कहा।

इन याचिकाओं में तबलीगी जमात के खिलाफ फेक न्यूज प्रसारित करने और निजामुद्दीन मरकज घटना का सांप्रदायिक रूप देने का का आरोप लगाकर टीवी चैनलों के खिलाफ कार्रवाई की मांग की गई है।

ब्रेकिंग न्यूज़ केंद्रीय मंत्री राम विलास पासवान का निधन, 74 साल की उम्र में ली अंतिम सांस

 
ब्रेकिंग न्यूज़ केंद्रीय मंत्री राम विलास पासवान का निधन, 74 साल की उम्र में ली अंतिम सांस



Ram Vilas Paswan Death: केंद्रीय मंत्री राम विलास पासवान का गुरुवार को निधन हो गया है। 74 साल की उम्र में उन्होंने अंतिम सांस ली। इस बात की जानकारी उनके बेटे व  लोजपा के अध्यक्ष चिराग पासवान ने दी। उन्होंने ट्वीट कर कहा, 'पापा....अब आप इस दुनिया में नहीं हैं लेकिन मुझे पता है आप जहां भी हैं हमेशा मेरे साथ हैं।'
रामविलास पासवान लंबे समय से बीमार चल रहे थे। उन्होंने राजनीति में एक लंबा समय बिताया है। रामविलास पासवान वीपी सिंह, एचडी देवेगौड़ा, इंद्रकुमार गुजराल, अटल बिहारी वाजपेयी, मनमोहन सिंह और नरेंद्र मोदी इन सभी प्रधानमंत्रियों के 'कैबिनेट' में अपनी जगह बनाने वाले शायद एकमात्र व्यक्ति थे

طرحی غزل

Wednesday 7 October 2020

चुनाव से संबंधित महत्वपूर्ण वीडियो देखें एवं शेयर करें*

 *चुनाव से संबंधित महत्वपूर्ण वीडियो देखें एवं शेयर करें*

🔰🔰🔰🔰

*फोर्म 17C कैसे भरे*

*https://youtu.be/USB5A4Qgl9M*

*PRO डायरी क्या है कैसे भरें*

*https://youtu.be/jHkj7nbYJQ4*

*ASD वोटर मत कैसे दे* 

*https://youtu.be/UV3c86Gb9wg*

*चुनाव में PS 05 प्रपत्र कैसे भरें*

*https://youtu.be/iVilBUMZ3e4*

*Mock Poll प्रमाण पत्र कैसे भरें*

*https://youtu.be/y6JODEb6HfA*

*Test Vote क्या है टेस्ट वोट घोषणा प्रपत्र कैसे भरें*

*https://youtu.be/7Q2qGisEJ_w*

 *चुनाव में फॉर्म 17 क मतदाताओं का रजिस्टर फॉर्म 17 ख निवेदित मतो का ब्यौरा कैसे भरें*

*https://youtu.be/7vo7p5M1bSc*

 *पीठासीन अधिकारी द्वारा मतदान शुरू एवं समाप्ति की घोषणा*

*https://youtu.be/YH5rpxr3BdM*

*Proxy Vote क्या है इसका प्रयोग कब कैसे करें*

*https://youtu.be/b0vm-qNIass*

*अंधे एवं अक्षम मतदाता मतदान कैसे करें*

*https://youtu.be/ty0zBcUUVAk*

*अवयस्क मतदाता मतदान कैसे करें*

*https://youtu.be/Oy4DqNNyN80*

*Tendered Vote क्या है इसका प्रयोग कब एवं कैसे करते हैं*

*https://youtu.be/3L_O3UuqLJE*

*PO1 प्रथम मतदान अधिकारी के कार्य एवं दायित्व*

*https://youtu.be/w8GaRoZ9qYw*

*चुनाव में 16 बिंदु प्रेक्षक रिपोर्ट कैसे तैयार करते हैं*

*https://youtu.be/bC4Sn_l32VQ*

*पीठासीन अधिकारी की मार्गदर्शक पुस्तिका*

*https://youtu.be/Z8T2LD-zyLo*

पूर्व राज्यपाल और पूर्व सीबीआई डायरेक्टर अश्वनी कुमार ने अपनी आवास में आत्महत्या कर ली

 
पूर्व राज्यपाल और पूर्व सीबीआई डायरेक्टर अश्वनी कुमार ने अपनी आवास में आत्महत्या कर ली



शिमलाः मणिपुर और नागालैंड के पूर्व राज्यपाल और पूर्व सीबीआई डायरेक्टर अश्वनी कुमार ने अपनी आवास में खुदकुशी कर ली। कुमार डीजीपी और सीबीआई के प्रमुख भी रह चुके हैं।
शिमला के एसपी मोहित चावला ने कहा कि शिमला स्थित अपने आवास में फंदा लगाकर की खुदकुशी कर ली है। पुलिस सूत्रों के अनुसार शिमला स्थित ब्राक हास्ट में आवास में उनका शव लटका पाया गया। पूर्व आईपीएस अधिकारी ने यह खौफनाक कदम क्यों उठाया, इसकी जानकारी सामने नहीं आई है।
कुमार ने विजय शंकर की जगह सीबीआई के निदेशक का पद संभाला था
कुमार ने विजय शंकर की जगह सीबीआई के निदेशक का पद संभाला था। अधिकारियों ने बताया कि कुमार बाद में नगालैंड के राज्यपाल बने थे। कुमार अभी शिमला में एक निजी विश्वविद्यालय के कुलपति थे। अधिकारियों ने बताया कि 1973 बैच के आईपीएस अधिकारी कुमार का शव बुधवार शाम में शिमला स्थित उनके आवास में फंदे से लटका मिला।
फिलहाल एसपी शिमला मोहित चावला की अगुवाई में पुलिस टीम घटनास्थल पर मौजूद है और मामले में जांच कर रही है। पुलिस को घटनास्थल से सुसाइड नोट भी बरामद हुआ है। जिनमें लिखा गया है कि जिंदगी से तंग आकर अगली यात्रा पर निकल रहा हूं। खुदकुशी की इस घटना से हर कोई स्तब्ध है।

आजम खान सहित पत्नी बेटा को मिली जमानत अभी कई मामलो सुनवाई बाक़ी

 आजम खान सहित पत्नी बेटा को मिली जमानत अभी कई मामलो सुनवाई बाक़ी



रामपुर: सपा सांसद आज़म खान की पत्नी तंजीन फातिमा और उनके बेटे अब्दुल्ला आजम को रामपुर के एमपी-एमएलए स्पेशल कोर्ट से मंगलवार को 3 मामलों में जमानत मिली है. ये जमानत जौहर यूनिवर्सिटी में किसानों की जमीन कब्जे के 3 मामलों में मिली है. सपा सांसद आजम खान, पत्नी तंजीन फातिमा और बेटे अब्दुल्ला आजम इन दिनों सीतापुर जेल में बंद हैं.


मंगलवार को जिन मामलों में तंजीन फातिमा और अब्दुल्ला आजम की जमानत हुई है उसमें तुरंत रिहाई तो नहीं होगी, लेकिन मुश्किलें कम जरूर हुई हैं. दरसअल, हाई कोर्ट में भी 2 जन्म प्रमाण का मामला अभी विचाराधीन है. जेल से बाहर आने के लिए अभी कइ  मामलों में जमानत मिलना जरूरी  है.


Tuesday 6 October 2020

भारत ही एकमात्र ऐसा देश है जहां बच्चों को विदेशी भाषा में पढ़ाया जाता है कक्षा 1 से 8 तक अंग्रेजी नहीं होगी अनिवार्य

 भारत ही एकमात्र ऐसा देश है जहां बच्चों को विदेशी भाषा में पढ़ाया जाता है

नई दिल्ली,आंध्र प्रदेश सरकार के कक्षा एक से छह तक के सभी सरकारी स्कूलों में अंग्रेजी माध्यम अनिवार्य बनाने के आदेश को रद करने संबंधी हाई कोर्ट के आदेश पर सुप्रीम कोर्ट ने रोक लगाने से इन्कार कर दिया है। शीर्ष अदालत ने कहा कि नींव के लिए बच्चों का मातृभाषा में सीखना जरूरी है।
और यही प्रधान शिक्षा के अधिकार अधिनियम 2009 में भी कहा गया है कि 1 से लेकर के आठवीं के कक्षा तक के सभी बच्चों को उसके  मातृभाषा में ही शिक्षा दिया जाए आगे
प्रधान न्यायाधीश एसए बोबडे, जस्टिस एएस बोपन्ना और जस्टिस वी. रामासुब्रमणियन की पीठ के समक्ष आंध्र प्रदेश की ओर से पेश वरिष्ठ अधिवक्ता केवी विश्वनाथन ने कहा कि हाई कोर्ट का आदेश गरीब और वंचित वर्ग को प्रभावित करता है। उन्होंने एक सर्वे के हवाले से कहा कि 96 फीसद माता-पिता अपने बच्चों को अंग्रेजी माध्यम से पढ़ाना चाहते हैं।
इस पर पीठ ने कहा कि भारत ही एकमात्र ऐसा देश है जहां बच्चों को विदेशी भाषा में पढ़ाया जाता है और निर्देशों के माध्यम को लेकर विशेषज्ञों में भी मतभेद है। विश्वनाथन ने जोर देकर कहा कि जीवन में आगे बढ़ने और अवसरों के लिए अंग्रेजी भाषा जरूरी है। अगर व्यक्ति अंग्रेजी भाषा में दक्ष है तो उसके लिए अवसरों की कोई सीमा नहीं है। उन्होंने कहा कि वह तमिलनाडु के ऐसे वकील मित्रों को जानते हैं जिन्होंने मातृभाषा में पढ़ाई की और अब उन्हें शीर्ष अदालत में बहस करने में परेशानी होती है क्योंकि वे मातृभाषा में ही सोचते हैं।
इस दलील पर प्रधान न्यायाधीश ने कहा कि इस मामले में यह उदाहरण उचित नहीं है और बच्चों की नींव के लिए उनका मातृभाषा में सीखना जरूरी है। विश्वनाथन ने कहा, उनका मतलब था कि अंग्रेजी में दक्षता का अभाव तब एक मुद्दा हो सकता है जब अंग्रेजी माध्यम से पढ़ाई करने वालों से तुलना की जाती है। उन्होंने अदालत को सूचित किया कि तेलुगु माध्यम से पढ़ने का विकल्प छीना नहीं गया है। पीठ ने कहा कि वह राज्य सरकार की अपील पर अगले हफ्ते सुनवाई करेगी।

سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان

  سالار اردو جناب غلام سرور کی یوم ولادت بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر س ایسوسی ایشن کیطرف سے تقریب یوم اردو منانا کا اعلان   10جنوری کو منائی جائےگی...